Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اسلام

  علی محمد الصلابی

اسلام:

ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اسلام تلاش حق کے طویل ایمانی سفر کا نتیجہ تھا۔ آپ کو شروع سے دین حق کی تلاش تھی، جو آپ کی فطرت سلیمہ، دور رس بصیرت اور عقل راجح سے بالکل موافقت رکھتا ہو۔ آپ تجارتی مشغلہ کی وجہ سے زیادہ سفر کرتے تھے، جزیرۃ العرب کے اکثر شہروں، بستیوں اور صحراؤں سے آپ کا گذر ہوتا تھا، شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک کا چکر لگاتے تھے۔ مختلف ادیان کے ماننے والوں، خاص کر نصاریٰ سے گہرا تعلق تھا اور ان لوگوں کی باتیں غور سے سنتے تھے، جو توحید کا پرچم اٹھائے دین حق کی تلاش میں لگے تھے۔
(مواقف الصدیق مع النبی بمکۃ، د: عاطف لماضۃ: 6)
آپ اپنے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں کعبہ کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا، وہاں زید بن عمرو بن نفیل بھی تشریف فرما تھے، اتنے میں امیہ بن ابی الصلت کا گذر ہوا، اس نے کہا: اے خیر کے طالب کیسے صبح کی؟ زید نے کہا: خیر وعافیت کے ساتھ، اس نے کہا: کیا خیر کو پا لیا؟ زید نے جواب دیا: نہیں، اس پر اس نے کہا:
کل دین یوم القیامۃ الا ما مضٰی فی الحنیفیۃ بُورُ
(تاریخ الخلفاء للسیوطی: 52)
’’قیامت کے دن ابراہیمی (دین) کے علاوہ تمام ادیان ہلاکت کا سبب ہوں گے۔‘‘
اور رہی یہ بات کہ یہ نبی منتظر تو ہم میں سے یا تم میں سے ہو گا۔
تو ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس سے قبل میں نے کسی نبی کی بعثت اور اس کے انتظار سے متعلق نہیں سنا تھا۔ یہ سن کر میں ورقہ بن نوفل کے پاس گیا جو آسمان میں اکثر غور و فکر کیا کرتے تھے اور اکثر آہستہ سینے سے آواز نکالنے والے تھے۔ میں ان سے ملا اور یہ واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے کہا: ہاں بیٹے! ہم کتاب وعلم والے ہیں، ہوشیار ہو جاؤ یہ نبی جن کا انتظار ہو رہا ہے، وہ عرب کے بہترین نسب میں سے ہوگا اور میں علم انساب کا ماہر ہوں۔ تمہاری قوم قریش عربوں میں سب سے اعلیٰ نسب کی حامل ہے۔ میں نے عرض کیا: چچا! وہ نبی کیا کہیں گے؟ انہوں نے کہا: وہ وہی کہیں گے جس کے کہنے کا اللہ حکم دے گا، نہ وہ ظلم کریں گے نہ ان پر ظلم ہوگا اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کی دعوت دیں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی میں فوراً ایمان لایا اور آپ کی تصدیق کی۔(تاریخ الخلفاء للسیوطی: 52)
آپ امیہ بن ابی الصلت کے کلام کو شوق سے سنتے تھے، جیسے اس کا یہ قول:
ألا نبی لنا منا فیخبرنا
ما بعد غایتنا من راس مجرانا
’’خبردار ہو جاؤ ہم میں سے ہمارے لیے ایک نبی مبعوث ہونے والے ہیں جو ہماری زندگی کے مقصد کی ہمیں خبر دیں گے۔‘‘
انی اعوذ بمن حج الحجیجُ لہ
والرافعون لدین اللہ ارکانا
’’یقینا اس ذات کی پناہ چاہتا ہوں جس کے لیے حجاج حج کرتے ہیں، اور اللہ کے دین کے ارکان کو بلند کرتے ہیں۔‘‘
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اثر انگیز بصیرت، عقل تاباں، فکر مؤثر، ذہن نیر، تیز ذکاوت اور سنجیدہ و باوقار غور وفکر کے ساتھ اس دور میں زندگی گذاری جس کی وجہ سے انہوں نے بہت سے اشعار و واقعات کو محفوظ کر لیا، چنانچہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے سوال کیا ان میں ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے: تم میں سے کون قس بن ساعدہ کا وہ کلام یاد رکھتا ہے جو اس نے عکاظ کے بازار میں کہا تھا؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہاں، یارسول اللہ! مجھے یاد ہے، میں اس دن عکاظ میں موجود تھا، قس اپنے خاکستری اونٹ پر سوار کہہ رہا تھا، لوگو سنو اور یاد کر لو اور جب یاد کر لو تو اس سے استفادہ کرو، یقینا جو دنیا میں زندہ رہا اس کو موت آئی ہے اور جو مر گیا وہ فوت ہو گیا، ہر آنے والی چیز آ کر رہے گی، یقینا آسمان میں خبریں ہیں اور زمین میں دروس و عبر ہیں، زمین کا بچھونا بچھا ہوا ہے، آسمان کی چھت بلند ہے، ستارے چکر لگا رہے ہیں، سمندر اترنے والے نہیں، رات تاریک ہے، آسمان برجوں والا ہے۔
قس قسم کھاتا ہے: یقینا اللہ کا ایک دین ہے جو تمہارے اس دین سے جس پر تم ہو اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔ مجھے کیا ہو گیا کہ دیکھتا ہوں لوگ چلے جا رہے ہیں، کوئی لوٹ کر آتا نہیں، کیا نیا مقام ان کو پسند آگیا ہے کہ اقامت پذیر ہو گئے یا انہیں چھوڑ دیا گیا ہے، پس سو گئے ہیں۔
پھر اس نے یہ شعر پڑھا:
فی الذاہبین الاوّلی
القرون لنا بصائر
’’گذشتہ زمانے میں گذرے ہوئے لوگوں میں ہمارے لیے درس اور عبرتیں ہیں۔‘‘
لما رأیتُ مواردًا للموت لیس لہا مصادر
’’جب میں نے موت کے ایسے گھاٹ دیکھے کہ جہاں سے واپسی کے امکانات نہیں۔‘‘
ورأیت قومی نحوھا یسعی الاکابر والاصاغر
’’اور دیکھا کہ میری قوم کے چھوٹے بڑے سب اس کی طرف بھاگے جا رہے ہیں۔‘‘
أیقنت انی لا محا لۃَ حیث صار القوم صائر
(موقف الصدیق مع النبی بمکۃ: 8)
’’تو مجھے یقین ہو گیا کہ جہاں لوگ جا رہے ہیں وہیں مجھے بھی ضرور جانا ہے۔‘‘
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے سامنے جو کچھ قس نے کہا تھا انتہائی ممتاز ترتیب اور قوی یادداشت کے ساتھ بیان کر رہے ہیں جس سے واضح ہے کہ آپ کے حافظے نے ان معانی کو پوری طرح محفوظ کر لیا تھا۔
(موقف الصدیق مع النبی بمکۃ: 9)
جس وقت آپ شام میں تھے ایک خواب دیکھا، اس کو بحیرا راہب سے بیان کیا، اس نے دریافت کیا: آپ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں؟
ابوبکر: مکہ سے۔
بحیرا: مکہ میں کس خاندان سے؟
ابوبکر: قریش۔
بحیرا: آپ کا مشغلہ کیا ہے؟
ابوبکر: تجارت۔
بحیرا: اگر آپ کا خواب سچ ہے تو آپ کی قوم میں ایک نبی مبعوث ہوگا، آپ اس کی زندگی میں اس کے وزیر ہوں گے اور اس کی وفات کے بعد اس کے خلیفہ ہوں گے۔ آپ نے یہ بات اپنے جی میں چھپائے رکھی۔
(الخلفاء الراشدون، محمود شاکر: 34)
آپ کا اسلام لانا تلاش وجستجو اور انتظار کے بعد تھا، دور جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گہرے تعلق اور عمیق معرفت سے اسلام قبول کرنے میں آپ کو مدد ملی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے نزول کا آغاز ہوا، آپ لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دینے لگے، آپ نے سب سے پہلے انتخاب صدیق کا کیا، کیونکہ آپ کے اخلاق کریمانہ اور عادات طیبہ سے بخوبی واقف تھے، اسی طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی صداقت اور امانت داری اور ایسے اخلاق سے واقف تھے، جو لوگوں کے ساتھ جھوٹ سے مانع تھے، پھر بھلا اللہ رب العالمین پر کیسے جھوٹ بول سکتے تھے۔
(تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء الراشدین: 44)
چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی طرف دعوت کا آغاز کرتے ہوئے ان سے کہا: میں اللہ کا رسول و نبی ہوں، مجھے اللہ نے یہ دعوت دے کر بھیجا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، اس کی اطاعت پر دوستی کرو۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: جلد، 1 صفحہ، 286، السیرۃ الحلبیۃ: جلد، 1 صفحہ، 440 البدایۃ والنہایۃ: جلد، 3 صفحہ، 31 ، ط دار المعرفۃ بیروت) یہ بات سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ بغیر کسی لیت ولعل اور بلا کسی تاخیر کے فوراً مشرف بہ اسلام ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی تائید ونصرت کا معاہدہ کیا اور اپنے اس عہد کو کماحقہ ادا کیا، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے سلسلہ میں فرمایا:
((ان اللّٰہ بعثنی الیکم فقلتم کذبت وقال ابوبکر: صدق و واسانی بنفسہ ومالہ ، فہل انتم تارکون لی صاحبی؟ مرتین۔))
(البخاری: فضائل اصحاب النبی صلي الله عليه وسلم ، 3661)
’’اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تو تم لوگوں نے اوّلاً مجھے جھٹلایا اور ابوبکر نے تصدیق کی اور اپنی جان ومال کے ساتھ میرا ساتھ دیا، تم میری خاطر میرے ساتھی کو چھوڑے رکھو، تم میری خاطر میرے ساتھی کو چھوڑے رکھو۔‘‘
اس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ آزاد مردوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ ، حسان بن ثابت، عبداللہ بن عباس، اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم نے کہا: سب سے پہلے اسلام لانے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ یوسف بن یعقوب الماجشون کا کہنا ہے کہ میرے والد اور میرے اساتذہ، محمد بن منکدر، ربیعہ بن عبدالرحمن، صالح بن کیسان، سعد بن ابراہیم، عثمان بن محمد الاخنس کو اس بات میں ادنیٰ شک بھی نہیں تھا کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔
(صفۃ الصّفوۃ: جلد، 1 صفحہ، 237، فضائل الصحابۃ للامام احمد: جلد، 3 صفحہ، 206)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر انہوں نے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار سے استدلال کیا:
اذا تذکَّرتَ شجوًا من اخی ثقۃٍ فاذکر اخاک ابابکر بما فعلا 
’’جب تمہیں اپنے کسی قابل اعتماد بھائی سے ضرورت یاد آئے تو اپنے بھائی ابوبکر اور ان کے کارناموں کو یاد کرو۔‘‘
خیر البریۃ اتقاہا واعدلہا
إلَّا النبی و اوفاہا بما حَمَلا
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مخلوق میں سب سے بہتر، سب سے زیادہ متقی، سب سے زیادہ عدل پسند اور سب سے زیادہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے والے ہیں۔‘‘
الثانی التَّالی المحمود مشہدُہٗ
و اوّل الناس ممن صدق الرسلا
’’آپ کا دوسرا نمبر ہے، آپ کے واقعات قابل تعریف ہے اور سب سے پہلے آپ ہی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی۔‘‘
وثانی اثنین فی الغار المنیف وقد
طاف العدو بہ اذ صعد الجبلا
’’اور بلند غار میں آپ دو میں سے دوسرے تھے، جب کہ دشمن پہاڑ پر چڑھ کر غار کا چکر لگا رہا تھا۔‘‘
وعاش حمدا لامر اللّٰہ متبعا
بہدی صاحبہ الماضی وما انتقلا
’’اللہ کے حکم کی ستائش کرتے ہوئے اور ماضی وحال میں اپنے دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے زندگی گزاری۔‘‘
وکان حب رسول اللّٰہ قد علموا
من البریۃ لم یعدل بہ رجلا
(دیوان حسان بن ثابت: تحقیق ولید عرفات، جلد، 1 صفحہ، 17)
’’آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے، لوگوں کو معلوم تھا کہ مخلوق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آپ کے ہم پلہ کوئی نہ تھا۔‘‘
علماء نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کو موضوع بحث بنایا ہے، کیا آپ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے؟ علماء کی ایک جماعت نے اسی کو اختیار کیا ہے اور کچھ لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کو سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والا قرار دیا ہے اور کچھ لوگوں نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو پہلا مسلمان قرار دیا ہے۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان مختلف اقوال کے درمیان بڑی اچھی تطبیق دی ہے۔ فرماتے ہیں: ان تمام اقوال میں اس طرح تطبیق ہو جاتی ہے کہ خواتین میں سب سے پہلے اسلام لانے والی ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا مردوں سے بھی پہلے۔ غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ مشہور قول کے مطابق اس وقت وہ چھوٹے تھے، بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچے تھے اور آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام سے مشرف ہونے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ مذکورہ بالا لوگوں میں سب سے زیادہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا نفع بخش رہا، کیونکہ آپ کو قیادی حیثیت حاصل تھی، قریش کے قابل احترام رئیس تھے، مالی پوزیشن بھی آپ کی اچھی تھی، اوّل دن سے اسلام کے داعی تھے، آپ سے سب ہی محبت کرتے اور آپ کو چاہتے تھے، اللہ ورسول کی اطاعت میں بے دریغ مال خرچ کرتے تھے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ان اقوال میں جمع و تطبیق پیدا کرتے ہوئے فرمایا: آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور خواتین میں اس شرف کو پانے والی خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں اور غلاموں میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور بچوں میں علی رضی اللہ عنہ ہیں۔
(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 3 صفحہ، 27 اور 28)
ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی خوشی ہوئی۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو سے فارغ ہوئے تو فوراً ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ جب ان کے پاس سے چلے تو مکہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے آپؐ سے زیادہ کسی کو خوشی نہ تھی۔
(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 3 صفحہ، 27 اور 28) ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک گراں مایہ خزانہ تھے، جسے اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محفوظ کر رکھا تھا۔ قریشیوں میں آپ سب سے زیادہ محبوب تھے۔ وہ پاکیزہ بلند اخلاق جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیے تھے اس کی وجہ سے لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور آپ کے گرویدہ ہو رہے تھے۔ بلند کردار اور اچھا اخلاق وہ عنصر ہے جو لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کے لیے کافی ہے۔
آپ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ارحم امتی بامتی ابوبکر (صحیح الجامع الصغیر للالبانی رحمہ اللہ 2/8)
’’میری امت میں، میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابوبکر ہیں۔‘‘
عربوں کے یہاں علم انساب وعلم تاریخ اہم ترین علوم سمجھے جاتے ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ان دونوں علوم کے ماہر تھے اور قریش کو اس کا اعتراف تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ان میں علم انساب اور علم تاریخ کے سب سے بڑے عالم ہیں، اس لیے قوم کا مہذب اور بصیرت مند آپ کی محفلوں میں شرکت کا اہتمام کرتا تھا کہ آپ کے وسیع علم سے مستفید ہو جو دوسروں کے پاس نہیں مل سکتا تھا۔ سمجھدار اور ذہین نوجوان ہمیشہ آپ کی محفلوں میں شریک ہوتے اور آپ کی فکر وثقافت سے مستفید ہوتے۔ یہ بھی آپ کی عظمت کا ایک پہلو ہے، اسی طرح تاجر اور مالدار لوگ بھی آپ کی محفل میں شرکت کا اہتمام کرتے، کیونکہ آپ مکہ کے مشہور ترین تاجر تھے اگرچہ پہلے نمبر کے نہ سہی۔ دیگر لوگ بھی اپنی ضروریات اور مصالح کے پیش نظر آپ کے پاس حاضری دیتے تھے۔ آپ کے بلند اور پاکیزہ اخلاق کے پیش نظر عام لوگ بھی آپ کی خدمت میں حاضری دیتے۔ آپ بڑے مہمان نواز تھے۔ مہمان کی آمد پر بے حد خوش ہوتے، ان کی تکریم کرتے، چنانچہ ہر طبقے کے لوگ آپ کی جامع شخصیت سے اپنا مقصود پاتے تھے، کوئی محروم نہ رہتا تھا۔
(التربیۃ القیادیّۃ للغضبان: جلد، 1 صفحہ، 115)
آپ کے پاس معاشرہ میں علمی، ادبی اور معاشرتی سرمایہ بھرپور مقدار میں تھا، اس لیے جب آپ اسلام کی دعوت کے لیے اٹھے تو آپ کی دعوت پر لبیک کہنے والے افضل ترین اور چنندہ لوگ تھے۔
(التربیۃ القیادیۃ للغضبان : جلد، 1 صفحہ، 116)