فصل :....جن کو اخبار کی معرفت نہ ہو؛ ان کے لیے ممکنہ طریقہ
امام ابنِ تیمیہؒفصل :....جن کو اخبار کی معرفت نہ ہو؛ ان کے لیے ممکنہ طریقہ
جن کو اخبار کی معرفت نہ ہو؛ ان کی معرفت حاصل کرنے کے لیے دیگر بھی کئی ممکنہ طریقے ہیں ۔ کیونکہ بلاشک و شبہ عوام توکجا خواص بھی ایسے ہیں جن پر اسنادی اعتبار سے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس باب میں اخباراور روایات بہت زیادہ ہیں ۔بیشک ان کی معرفت علمائے حدیث کو حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے اہل کلام اور مناظرین ان اخبار کی اسناد اور ان کے راویوں کے احوال کی معرفت سے محروم رہے ہیں ۔ کیونکہ وہ اس علم کے نہ ہونے کی وجہ سے عاجز آگئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے راہ پر چل پڑے۔لیکن یہ طریقہ ان اہل علم کا طریقہ ہے جو حدیث کے ماہرین ہیں ۔ جنہیں ان علوم کا علم ہے جو علوم دیکر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔ لیکن یہاں پر ہم ایک دوسرا طریقہ ذکر کرتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں : کچھ دیر کے لیے فرض کریں کوئی متنازعہ روایات نہیں پائی جاتیں ۔ یا اس بات کا پتہ نہ چلتا ہو کہ ان میں سے کون سی روایت صحیح ہے۔ تو ہم ان دونوں روایتوں سے استدلال ترک کردیتے ہیں ۔ اور اس روایت کی طرف رجوع کرتے ہیں جو کہ اس کے علاوہ تواتر کے ساتھ معلوم ہو۔ اور اس کی صحت کا علم عقل اور عادت اور نصوص صحیحہ کی دلالت کی روشنی میں ہوتا ہو۔
پس ہم کہتے ہیں کہ : خواص و عوام کو یہ بات تواتر کے ساتھ معلوم ہے؛ اور منقولات کا علم رکھنے والے علماء اورسیرت نگاروں کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس اتنا مال نہیں تھا کہ لوگوں کودیکر ان کے دل موہ لیتے؛ نہ ہی آپ کا قبیلہ بہت بڑا تھا اورنہ ہی آپ کے موالین تھے جو آپ کی مدد کرتے۔ اور اس خلافت کو قائم کرنے میں آپ کی مدد کرتے۔اورنہ ہی آپ نے لوگوں کو اپنی بیعت کرنے کو کہا ؛ نہ ہی کسی کو ڈرایا دھمکایا اورنہ ہی کوئی لالچ دی۔جیسا کہ بادشاہوں کی عادت ہوتی ہے کہ ان کے قریبی اور موالی ان کی مدد کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی آپ نے اپنی زبان سے منصب خلافت طلب کیا۔ اور نہ ہی کسی سے کہا کہ میری بیعت کرو۔ بلکہ آپ نے تو یہ کہا تھا کہ : ابو عبیدہ اور عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو ۔ اور جو کوئی آپ کی بیعت سے پیچھے رہا ؛ جیسے حضرت سعد بن عبادہ وغیرہ؛ تو ان کو بھی آپ نے کوئی تکلیف نہیں دی۔ اور نہ ہی آپ کو بیعت کرنے پر مجبور کیا؛ اور نہ ہی آپ سے آپ کا کوئی حق روکا۔ اور نہ ہی کسی ساکن کو حرکت دی۔ یہ لوگوں کو اپنی بیعت پر مجبور نہ کرنے میں آپ کی کشادہ دلی کی انتہا ہے ۔ پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں نے آپ کی بیعت کی او رآپ کی اطاعت گزاری میں داخل ہوگئے۔ اور آپ کی بیعت کرنے والے وہی لوگ تھے جنہوں نے ببول کے درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔یہ حضرات مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین تھے۔ اور پھر جو کوئی ان کے بعد اور انہوں نے احسان کے ساتھ ان کی اتباع کی؛ یہی وہ اہل ایمان تھے جن کے نصیب میں ہجرت او رجہاد جیسی سعادتیں تھیں ۔ آپ کی بیعت سے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایک بھی پیچھے نہیں رہا۔
جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے بنو ہاشم کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں لوگوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ انہوں نے آپ کی بیعت کرلی تھی۔ ان میں سے صرف وہی لوگ پیچھے رہ گئے تھے جو خود خلافت حاصل کرنا چاہتے تھے رضی اللہ عنہم ۔ پھر آپ اپنی مدت خلافت میں ان لوگوں کو ساتھ لیکر مرتدین اورمشرکین سے جہاد کرتے رہے۔ آپ نے مسلمانوں سے کوئی جنگ نہیں لڑی۔ بلکہ آپ نے معاملات کو ویسے ہی درست راہ پر قائم کیاجس پر ارتداد سے پہلے تھے۔ اور اب اسلام کی فتوحات میں اضافہ ہونے لگا۔اور آپ کے عہد مبارک میں ہی اہل فارس اور اہل روم سے جہاد شروع ہوگیا تھا۔ اور کئی مسلمانوں کا محاصرہ دمشق کے دوران انتقال ہوگیا تھا۔ اور آپ اس دنیا سے ایسے تشریف لے گئے کہ آپ ایک زاہد ترین انسان تھے۔ آپ نے جو کچھ بیت المال میں داخل کیا اس سے بالکل بے نیاز و بے پرواہ تھے۔ اور نہ ہی کوئی چیز اپنے لیے خاص کی اور نہ ہی کسی قریبی کو کوئی امارت یا منصب دیا۔
پھر ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ آپ نے شہروں کے شہر فتح کیے۔ کفار کو مغلوب کیا۔ اہل ایمان کو عزت ملی اور اہل نفاق و عدوان ذلت سے دوچار ہوئے۔ اوردین اسلام کی خوب نشرو اشاعت اور تبلیغ ہوئی۔ اور آپ نے اپنی خلافت کے کونے کونے میں عدل و انصاف کو پھیلادیا۔ خراج کے دیوان مقرر کیے۔اہل دین کے لیے عطاء کے دیوان مقرر کیے۔ اور مسلمانوں کے نئے شہر بسائے۔اور آپ اس دنیا سے اس طرح تشریف لے گئے کہ آپ اس دنیا سے بالکل بے رغبت اور زاہد تھے۔ نہ ہی کسی مال میں متلوث ہوئے؛ اور نہ ہی اپنے کسی قریبی کو کسی عہدے پرفائز کیا۔ یہ بات ہر ایک جانتا ہے۔
جہاں تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو آپ نے اپنی خلافت کی بنیاد اسی معاملہ پر رکھی جس پر لوگوں کو اس سے پہلے استقرار حاصل ہوچکا تھا۔ سکون و وقار؛ہدایت و رحمت اور کرم گستری۔ لیکن آپ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسی قوت اور سیاست نہ تھی۔ اور نہ ہی ان جیسا کمال زہد و عدل آپ کو حاصل تھا۔ اسی وجہ سے بعض لالچی لوگ آپ میں طمع کرنے لگے اور انہوں نے دنیا کو وسعت دی۔اور اپنے اقارب کو ولایات اور اموال میں داخل کیا۔ اور آپ کے اقارب کی وجہ سے ولایات اور اموال میں کچھ ایسی باتیں پیش آئیں جن کا انکار کیا جانے لگا۔ پس لوگوں کی دنیا میں رغبت ؛اور اللہ تعالیٰ کے خوف میں کمی؛اور پھر آپ کے خوف کی کمی کی وجہ سے بعض ایسے معاملات احوال بھی پیدا ہوگئے ؛ اور آپ کے اپنے اہل قرابت کو اموال اور ولایات پر فائز کرنے کی وجہ سے ایک فتنہ پیدا ہوا؛ اورآخر کار آپ مظلومیت کی حالت میں شہید ہوگئے۔
اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو یہ فتنہ اپنی جگہ پر موجود تھا۔ اور بہت سارے لوگوں کے نزدیک آپ خون عثمان میں ملوث تھے ؛ مگر اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے آپ کی برأت کو جانتے ہیں جو جھوٹے اور بغض رکھنے والے لوگوں نے آپ کی طرف منسوب کر رکھی ہیں ۔ جیسا کہ ہم ان چیزوں سے بھی آپ کی برأت جانتے ہیں جو آپ کے حق میں غلوکرنے والوں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے والوں نے آپ کی طرف منسوب کر رکھی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے میں کوئی مدد کی اور نہ ہی آپ اس پر راضی تھے۔ جیسا کہ آپ سے بھی ثابت ہے ؛ اور آپ اپنی بات میں بالکل سچے تھے۔ لیکن پھر بھی ان میں سے بہت سارے لوگوں کے دل آپ کے متعلق صاف نہ ہوئے۔ اور نہ ہی آپ کے لیے ان کی مغلوب کرنا ممکن تھا تاکہ وہ آپ کی اطاعت کریں ۔ اور نہ ہی آپ کی رائے کا تقاضا یہ تھا کہ وہ جنگ سے رک کر انتظار کریں اور دیکھیں کہ معاملہ کیا رخ اختیار کرتاہے۔بلکہ آپ کی رائے یہ تھی کہ ان سے جنگ لڑی جائے۔ اور آپ کا خیال یہ تھا کہ اس سے لوگ آپ کی اطاعت گزاری میں داخل ہو جائیں گے اور مسلمانوں کی جماعت قائم رہے گی۔ مگر معاملہ پہلے سے بہت زیادہ سخت بگڑ گیا۔ اور آپ کی طرف سے اس میں کمزوری ہی آتی گئی۔ اور آپ کے مخالفین زور پکڑتے گئے۔ اور امت میں افتراق بڑھتا ہی گیا۔ حتی کہ آخر میں آپ اپنے ساتھ لڑنے والوں سے جنگ بندی کی اپیلیں کرتے تھے۔ جیسا کہ پہلے وہ آپ سے جنگ نہ کرنے کی درخواستیں کیا کرتے تھے۔
خلافت نبوت اتنی کمزور ہوگئی کہ اب بادشاہی قائم ہونا ضروری ہوگئی ۔ یہ بادشاہی حضرت امیر معاویہ نے نرمی کے ساتھ اور عفو و در گزر پر قائم کی ۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:
(( تکون نبوۃ ورحمۃ ثم تکون خِلافۃ نبوۃ ورحمۃ، ثم یکون ملک و رحمۃ ، ثم یکون ملک۔))[مجمع الزوائد ؛ في کتاب الخلافۃ ؛ باب کیف بدأت الإمامۃ و تصیر إلیہ والخلافۃ والملک عدۃ أحادیث مقاربۃ لہٰذا الحدیث....مجمع الزوائد ۵؍ ۱۸۹۔ رواہ الطبرانی و رجالہ ثقات ۔ سلسلہ الأحادیث الصحیحۃ ۱؍۸۔۹ ؛ ح: ۵۔]
’’پہلے نبوت اور رحمت ہوگی۔پھر خلافت نبوت اور رحمت ہوگی۔پھر بادشاہی اور رحمت ہوگی۔ پھر صرف بادشاہی ہوگی۔‘‘
بادشاہوں میں کوئی بادشاہ ایسا نہیں آیا جو کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہتر ہو۔آپ اسلام کے تمام بادشاہوں سے بہتر تھے۔ اور آپ کی سیرت بعد میں آنے والے تمام بادشاہوں کی سیرت سے بہت بہتر اور اعلی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آخری خلیفہ راشد تھے۔ خلفائے راشدین وہ حضرات تھے جن کی ولایت خلافت نبوت اور رحمت تھی۔ اور ان چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے متعلق گواہی دی جاسکتی ہے کہ یہ حضرات اولیاء اللہ المتقتین میں سب سے افضل تھے۔ بلکہ یہ چار حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے افضل ترین ہستیاں ہیں ۔ لیکن جب کوئی قدح کرنے والا آئے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ کہے کہ: ’’یہ دونوں حضرات ظالم اورسرکش تھے؛ ریاست اور حکومت کی ہوس کے مارے ہوئے ؛ لوگوں کے حقوق غصب کرنے والے تھے۔ اورتمام لوگوں سے بڑھ کر حکومت کی لالچ رکھتے تھے۔اور یہ کہ ان دونوں نے نصوص شریعت کی روشنی میں خلافت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے متعین کردہ مستحق خلیفہ پر ظلم کیا۔ اور اہل بیت کو ان کی میراث سے محروم کردیا۔ اوریہ اصحاب تمام لوگوں سے بڑھ کر حکومت اور ریاست کے حریص اور باطل کے لالچی تھے۔حالانکہ جن کو ان حضرات کی سیرت معلوم ہے وہ جانتے ہیں کہ اگر یہ بدگمانی درست ہے تو پھر اس کے حق میں زیادہ درست ہے جس نے خلافت کے لیے جنگ لڑی اور پھر مغلوب ہوگیا۔ اورآپ کے اور فریق منازعہ کے درمیان لڑائی میں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ لیکن اس جنگ و جدل اور قتال سے نہ ہی کوئی دینی مصلحت پوری ہوئی اور نہ ہی دنیاوی مصلحت ۔ اور نہ آپ کے عہد خلافت میں کوئی کافر قتل ہوا۔ پس بیشک اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے مابین فتنہ برپا کرنے پر خوش نہیں ہوئے؛ اور نہ ہی آپ کے شیعہ اس پر خوش ہوئے تھے ۔ اس لیے کہ آپ کو غلبہ نصیب نہیں ہوا تھا۔ اور جن لوگوں سے آپ نے جنگ لڑی تھی ؛ وہ ویسے ہی قوت اور طاقت سے بہرور حفاظت میں رہے۔
جب ہم خوارج کے طعن و تنقید سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دفاع کرتے ہیں ۔حالانکہ یہاں پر شبہ ظاہر اورموجود ہے؛ تو پھر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما پر طعن و تنقید کرنے والوں سے ان کا دفاع کرنا زیادہ اولی اور مناسب ہے۔اور اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا گمان رکھنا جائز ہے کہ آپ جاہ و مرتبہ کے اور حکومت کے طلبگار تھے؛ حالانکہ آپ سے جو کچھ معلوم ہے؛ وہ اس کے خلاف ہے۔ تو پھر جس نے اپنی ولایت اور خلافت کے لیے جنگ لڑی؛ مگر اسے مقصود پھر بھی حاصل نہ ہوا؛ تو پھر وہ اس گمان کا زیادہ ہوں ۔
جب اس کے لیے دو مسجدوں کے ائمہ سے ضرب المثال بیان کی جائے؛ یا کسی جگہ کے دو مشائخ سے مثال بیان ہو؛ یا کسی مدرسہ کے دو اساتذہ سے مثال بیان کریں ۔تو تمام عقول ایک ہی بات کہیں گے کہ:یہ پھلا انسان ریاست اور حکومت کی طلب سے بہت دور تھا۔ اور دین اور خیر کی بھلائی کے ارادہ کے بہت قریب تھا۔
جب ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق یہ یقین و ایمان رکھتے ہیں کہ آپ دین اور حق کے قاصد اور طلبگار تھے۔ اور آپ زمین میں سرکشی اور فساد ہر گز نہیں پھیلانا چاہتے تھے۔ تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق یہ ایمان و یقین رکھنا زیادہ اولی اور مناسب ہے۔
اگر کوئی بدگمانی رکھنے والا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ گمان رکھے کہ آپ زمین میں سرکشی اور فساد پھیلانا چاہتے تھے۔ تو یہی بدگمانی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ بدگمانی زیادہ اولی اور معقول ہے۔
یا تو پھر یہ کہا جائے کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تو زمین میں فساد اور سرکشی چاہتے تھے؛ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ فساد فی الارض اور سرکشی نہیں چاہتے تھے؛ حالانکہ دونوں حضرات کی سیرت صاف ظاہر ہے ؛ تو یہ کھلم کھلا تکبر اور حق بات کاانکار ہوگا۔ دونوں حضرات کی سیرت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس مؤقف پر دلالت کرتی ہو۔ بلکہ تواتر کے ساتھ خبریں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سیرت افضل و اولی و اعلی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں اس قسم کا دعوی کرنے والے ایسی محال چیزیں بیان کرتے ہیں جن کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں ۔ اور پھر کہتے ہیں کہ : آپ کی خلافت پر نصوص موجود تھیں مگر انہیں چھپا دیا گیا۔ مگر اس کے باوجود وہ باطنی دشمنی کہیں پر ظاہر نہ ہوئی جس کی وجہ سے ان سے ان کا حق چھینا گیا۔
اب یہاں پر ہمارا مقصود وہ چیز بیان کرنا ہے جو کہ عوام و خواص میں تواتر کے ساتھ علم یقینی کے طور پر معلوم ہے۔ رہ گئے وہ امور جو بیان تو کیے جاتے ہیں مگر جمہور ان کا انکار کرتے ہیں اور وہ بدگمانیاں جن کی کوئی دلیل نہیں ہے؛ بلکہ ہم ان کے فساد اور بطلان کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔ پس ایسی چیزوں کو بطور دلیل پیش کرنے والاصرف بدگمانی اور خواہشات نفس کا پجاری ہے۔ اس کا تعلق کفار اور اہل باطل کی جنس سے ہے۔ یعنی احادیث کے مقابلہ میں دوسری ادھر ادھر کی چیزیں پیش کرنا۔
ہم نے تو ان اخبار سے بھی احتجاج نہیں کیا جو طرفین نے روایت کی ہیں ؛ تو پھر اس بد گمانی کے متعلق کیا کہا جاسکتا ہے جو حق کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آئے۔
یہ بات عوام و خواص کو تواتر کے ساتھ علم یقینی کے طور پر معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمرو عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کی نسبت فساد فی الارض اور علو و سرکشی کے ارادہ سے بھی بہت دور تھے؛ کجا کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بات کی جائے ۔اور آپ بعد میں آنے والے تینوں خلفاء کی نسبت زیادہ اور بدرجہ اولی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے حصول اور اصلاح فی الارض کے متمنی اور طلبگار تھے؛ کجا کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بات کی جائے ۔اور یہ کہ آپ سیاست اور عقل میں ؛ اور دین داری میں ان تینوں حضرات کی نسبت زیادہ کامل تھے۔اور یہ کہ امت پر آپ کی ولایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کی نسبت بہت زیادہ بہتر تھی۔اور مسلمانوں کو آپ کی وجہ سے حاصل ہونے والی دین و دنیا کی منفعت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حاصل ہونے والی منفعت کی نسبت بہت زیادہ تھی- رضی اللہ عنہم -۔
جب ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ مجتہد تھے؛ اور اپنے فعل میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے طلب گار تھے۔ اور یہ کہ جو مصلحت کے کام آپ نے ترک کردیے تھے؛ حقیقت میں آپ ان کو بروئے کار لانے سے عاجز آگئے تھے۔ اور جو کچھ خرابیاں آپ کے دور میں پیش آئیں ؛ آپ ان کو روکنے سے عاجز اور معذور تھے۔ اور یہ کہ آپ زمین میں فساد اور سرکشی نہیں پھیلانا چاہتے تھے۔ تو یہی عقیدہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق رکھنا زیادہ اولی اور مناسب ہے ۔ کوئی ایک بھی اس توجیہ سے ٹکراؤ کی قدرت نہیں رکھتا ؛ سوائے اس کے جو یہ خیال کرتا ہو کہ یہ نقل صرف نقل خاص میں سے ہے؛ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل منقول ہیں ۔ جن کا تقاضا ہے کہ آپ امامت کے زیادہ حق دار ہیں ۔ اور یہ کہ آپ کی امامت منصوص علیہ تھی۔ تو درایں صورت اس کے مقابلہ میں وہ خاص منقولات پیش کی جائیں گی؛ جو کہ ان سے زیادہ سچی اورکثرت تعداد میں ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل پر دلالت کرتی ہیں اور ان کا تقاضا ہے کہ آپ خلافت کے زیادہ حق دار ہیں ۔ اور نصوص اس چیزپر دلالت کرتی ہیں ۔
کوئی بھی حجت ایسی نہیں ہے جو کوئی شیعہ پیش کرے؛ مگر اس کے مقابلہ میں سنی کے پاس اس جیسی دلیل ہوگی جواسی جنس سے ہوگی اور اس سے زیادہ اولی اور بہتر ہوگی۔ اس لیے کہ اسلام میں سنت ایسے ہی ہے جیسے باقی ملتوں میں اسلام ۔ پس کوئی دلیل اور حجت ایسی نہیں ہے جس پر کوئی کتاب عمل پیرا ہو مگر مسلمان کے پاس اس کے مقابلہ میں ایسی دلیل ہوگی جو اس کی نسبت اتباع کی زیادہ حق دار ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِِلَّا جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا﴾ [الفرقانِ: 33]
’’اور وہ تیرے پاس کوئی مثال نہیں لاتے مگر ہم تیرے پاس حق اور بہترین تفسیر بھیج دیتے ہیں ۔‘‘
لیکن خواہشات کے پجاری کی اس کی جہت میں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ جب اس کا مخالف کوئی ایسی چیز بیان کرتا ہے جو اس کی خواہشات کے خلاف ہو تو اس پر اس کی سماعت اور اتباع بہت گراں گزرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَوْ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَہْوَائَ ہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ﴾ [المؤمِنون 71]
’’اور اگر حق ان کی خواہشوں پرچلے تو یقیناً سب آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے، بگڑ جائیں ‘‘
یہاں پر ایک دوسرا طریقہ بھی ہے۔وہ یہ کہا جائے گا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگوں کی طبیعتیں اتباع حق کی طرف متوجہ تھیں ۔ اور انہیں اس راہ سے ہٹانے والی کوئی چیز نہ تھی۔ اوروہ ایسا کرنے پر قادر بھی تھے۔ جب حق کا داعی موجود ہو؛ اور [صارف یعنی] اس سے ہٹانے والا بھی کوئی نہ ہو ؛ تو فعل کا حصول واجب ہوجاتا ہے ۔‘‘
یہ با ت معلوم شدہ ہے کہ مسلمانوں نے جو کچھ کیا؛ اس میں انہوں نے حق کی اتباع کی ہے۔ اور یہ کہ بلاشبہ وہ تمام امتوں میں سے بہترین لوگ تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ان کا دین مکمل کردیا تھا۔ اوران پر اپنی نعمتیں تمام کردی تھیں ۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تک کوئی ان کی دنیاوی غرض بھی نہیں تھی جس کی وجہ سے انہیں ترجیح دیتے۔ اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی ایسی دنیاوی غرض یا معاملہ تھا جس کی وجہ سے انہیں پیچھے کرتے۔ بلکہ اگر وہ اپنی طبیعت کے حساب سے بھی کوئی فیصلہ کرتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتے۔اور انصار کا بھی یہ عالم تھا کہ اگر وہ اپنی خواہشات نفس کی وجہ سے کسی کو ترجیح دیتے توان کے نزدیک بنی ہاشم کے کسی آدمی کی اتباع کرنا بنی تیم کے آدمی کی اتباع کی نسبت زیادہ محبوب ہوتا۔ یہی حال اکثر قریشی قبائل کا تھا؛ بالخصوص بنو عبد مناف اور بنو مخزوم کا۔ اس لیے کہ بنو مناف کے کسی آدمی کی اطاعت کرنا ان کے نزدیک بنی تیم کے آدمی کی اطاعت سے زیادہ محبوب تھی؛ اگر یہ لوگ خواہشات نفس کے پجاری ہوتے تو۔ اور ابو سفیان بن حرب اور اس کے امثال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تقدیم کو زیادہ چاہتے تھے۔اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ ابو سفیان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا تھا کہ قرابت داری کی وجہ سے انہیں خلیفہ بنایا جائے۔ اورجب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز ہوئے تو ان کے والد ابوقحافہ رضی اللہ عنہ سے جب یہ کہا گیا کہ آپ کا بیٹا خلیفہ بنا ہے ؛ تو اس نے کہا : کیا بنو مخزوم اور بنو عبدمناف رضا مند ہیں ؟‘‘ لوگوں نے کہا، ہاں ! ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے اس پر تعجب کا اظہار کیا [اورکہا:’’یہ خاص عنایت ایزدی ہے۔‘‘] [طبقات ابن سعد (۳؍۱۸۴)]
اس لیے کہ ابو قحافہ کو علم تھا کہ بنو تیم تمام قبائل سے کمزور قبیلہ ہے۔ اور اشراف قریش کا تعلق ان دو قبیلوں سے تھا۔
یہ بات ہوگئی۔ اب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے امثال و ہمنوا؛ اگر کوئی عقل مند اس پر غور و فکر کرے؛ تو اسے یقین ہو جائے گا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صرف اس لیے مقدم کیا اللہ اور اس کے رسول نے آپ کو تقدیم بخشی تھی۔کیونکہ آپ ان تمام لوگوں میں سے بہتر؛ ان کے سردار اور اللہ اور اس کے رسول کے محبوب تھے ۔ اس لیے کہ اسلام کسی کو بھی تقوی کی بنیاد پر ترجیح و تقدیم دیتاہے۔اورابوبکر ان سب سے بڑے متقی تھے۔
یہاں پر تاریخی روایت کی تحقیق اور چھان بین کا ایک دوسرا طریقہ بھی ہے ۔ وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
((خیر القرونِ قرنِی، ثم الذِین یلونہم ثم الذِین یلونہم ؛ ثم الذِین یلونہم))
’’بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے؛ پھر جو اس کے بعد ہے؛ پھر جو اس کے بعد؛ پھر جو اس کے بعد ۔‘‘
یہ امت تمام امتوں سے بہترین امت ہے۔ جیسا کہ کتاب و سنت کے دلائل سے واضح ہوتا ہے۔
مزید برآں جو کوئی بنو امیہ کے دور میں مسلمانوں کے احوال پر غور و فکر کرے گا؛ -خلفائے راشدین کا زمانہ تو بہت بڑی بات ہے-؛ تو اسے یقینی علم حاصل ہوگا کہ وہ لوگ اس زمانہ کے لوگوں سے بہت بہتر تھے۔ اور ان کے زمانہ میں اسلام زیادہ مضبوط اور غالب تھا۔ اگر قرن اول کے لوگوں نے ان پر متعین کردہ منصوص علیہ امام کی امامت سے انکار کردیا تھا؛ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے ان کی وراثت کا حق روک دیا تھا۔ اور ایک فاسق اور ظالم کو خلیفہ مقرر کرکے ایک عادل اور عالم کو اس کے حق سے محروم کردیا؛ حالانکہ انہیں اس حق کا علم بھی تھا؛ تو پھر یہ سب سے بدترین مخلوق ٹھہرے بہترین نہیں ۔اور یہ امت پھر سب سے بدترین امت ہوئی۔ کیونکہ اگر ان کے بہترین لوگوں کے یہ کرتوت ہیں تو ان کے بدترین لوگوں کا کیا عالم ہوگا۔
یہاں پر ایک دوسری چیز بھی ہے ؛ وہ یہ کہ یہ بات تواتر کے ساتھ معلوم ہے؛ اور عوام و خواص میں سے کسی ایک پر بھی مخفی نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت بڑے خاصان ِ خواص میں سے تھے۔ اور لوگوں میں سب سے زیادہ خصوصی مقام انہی حضرات کو حاصل تھا۔صحبت میں بھی؛ قربت میں بھی؛ اور آپ کے ساتھ تعلق میں بھی۔ آپ نے ان تمام سے سسرالی رشتے بھی قائم کیے۔اور کبھی آپ سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آپ نے ان کی مذمت کی ہو؛ یا ان پر لعنت کی ہو۔ بلکہ مشہور و معروف بات یہی ہے کہ آپ ان سے محبت کرتے تھے اور ان کا ذکر خیر کیا کرتے تھے۔
تو درایں صورت یہ حضرات یا تو ظاہری اور باطنی طور پر استقامت پر ہوں گے؛ آپ کی زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی۔ یا پھر ان کا معاملہ اس کے خلاف ہوگا؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی؛۔پس اگر اس قربت کے باوجود بھی وہ استقامت پر نہ تھے تو پھر دو باتوں میں سے ایک لازم آتی ہے:
۱۔ یا تو آپ کو ان کے احوال کا علم نہیں تھا۔
۲۔ یا پھر آپ ان کے ساتھ مداہنت کیے ہوئے تھے۔
ان میں سے جو بھی بات ہو؛ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بہت بڑی قدح اور تنقید ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے:
(( إن کنت لا تدری فتلک مصیبۃ و إن کنت تدری فالمصیبۃ أعظم))
’’اگر آپ نہیں جانتے تو یہ ایک مصیبت ہے اور اگر جانتے ہیں تو پھر مصیبت اس سے بھی بڑی ہے ۔‘‘
اگریہ لوگ استقامت کے بعد منحرف ہوگئے تھے؛ تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کے خواص امت اور اکابر صحابہ میں بہت بڑی ذلت و رسوائی تھی -معاذ اللہ - اور ان لوگوں کے سامنے بھی جن کو آپ نے خبر دی تھی کہ آپ کے بعد کیا ہوگا۔ تو پھر آپ کو ایسی چیزوں کا علم کیون نہ ہوسکا۔ اور پھر وہ احتیاط کہاں گئی کہ اس امت پر کسی ایسے ویسے کو والی نہ بنایا جائے۔ اور وہ لوگ کہاں گئے جن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین باقی تمام ادیان پر غالب آئے گا۔ اور آپ کی امت کے اکابر اور خاص الخواص لوگ کیسے مرتد ہوگئے؟
یہ بات ؛ اور طرح کی دیگر کئی ایسی ہی باتیں جن کے ذریعہ روافض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر قدح کرتے ہیں ۔ جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ اور دوسرے حضرات نے فرمایا ہے کہ :
’’ ان رافضی لوگو ں کا ارادہ یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن زنی کریں ؛ تاکہ لوگ کہہ سکیں کہ یہ کتنا ہی برا آدمی تھا جس کے ساتھے اتنے برے ہیں ۔ اگر وہ کوئی اچھا آدمی ہوتا تو اس کے ساتھی بھی اچھے لوگ ہوتے ۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اہل علم لوگ فرماتے ہیں : ’’ بیشک روافض زندیقوں کی دسیسہ کاریوں کا نتیجہ ہیں ۔ اور ان کی بنیاد ان ہی پر رکھی گئی ہے۔
ایک دوسرے لحاظ سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ : ’’ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے مستحق ہوتے ؛ تو اس کے اسباب قوی تھے؛اور کوئی ایسی رکاوٹ والی چیز بھی نہیں تھی۔اور قدرت بھی حاصل تھی ۔ اور اس کے ساتھ ہی دواعی اور اسباب بھی موجود تھے۔ قدرت اور انتفاء صارف کی صورت میں فعل کا حاصل ہونا واجب ہوجاتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد تھے اور نسب کے اعتبار سے ان سب میں سے افضل لوگوں میں سے تھے۔ اور آپ کی کسی ایک کیساتھ دشمنی بھی نہ تھے۔ نہ ہی نسب کی عداوت اور نہ ہی اسلام کی وجہ سے ۔ کوئی کہنے والا یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ نے جاہلیت میں اپنے اقارب میں سے کسی ایک کو قتل کیا ہو۔ اس طرح کی کوئی بات انصار میں بھی نہیں پائی جاتی تھی۔ کیونکہ آپ نے ان کے اقارب میں سے کسی ایک کو قتل نہیں کیا تھا۔ اور یہاں پر شوکت اور غلبہ حاصل تھا۔ اور نہ ہی بنی تیم یا بنی عدی میں سے کسی ایک کو قتل کیا ۔ اور نہ ہی دوسرے بہت سارے قبائل میں سے کسی ایک کوقتل کیا۔ اور جن قبائل میں سے لوگ قتل ہوئے جیسے بنو عبد مناف؛ تو وہ آپ کے موالین میں سے تھے۔ اور وہ آپ کی ولایت چاہتے تھے۔ اس لیے کہ آپ ان لوگوں کے زیادہ قریب تھے۔ پس اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نص آپ کی خلافت پر کوئی نص ہوتی ؛ یا آپ افضل اور ولایت و خلافت کے مستحق ہوتے ؛ تو پھر یہ معاملہ کوئی ایسا نہیں تھا کہ مخفی رہ جاتاہے۔ اور اس بات کا علم ہونا اس بات کو واجب کرتا تھا کہ یہ لوگ خلافت حاصل کرنے کے ارادہ سے اٹھ کھڑے ہوں ۔ کیونکہ یہاں پر کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا جو کہ رکاوٹ بن جاتا۔ اور اس وقت میں احوال و اسباب بھی اس چیز کے مدد گار ثابت ہوتے اور کوئی ان سے ٹکرانے کی کوشش بھی نہ کرتا۔ اصل میں حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے ساتھ ٹکرانے والا کوئی نہیں تھا ۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت بہت تھوڑے سے کچھ لوگ ایسے تھے جو کہ رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرسکتے تھے؛ تو پھر بھی جمہور مسلمین میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو کہ اس راہ میں رکاوٹ بنتا۔ بلکہ وہ اس بات پر قادر تھے کہ آپ کو خلیفہ بنا دیا جائے۔ اور اگر انصار یہ بات کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر اور حضرت سعد رضی اللہ عنہما کی نسبت خلافت کے زیادہ حق دار ہیں ؛ تو پھر مہاجرین کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ ان کو روک سکیں ۔ اور اکثر لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ۔ خاص طور پر ان لوگوں کی اکثریت جن کے دلوں میں کچھ کمزوری تھی؛ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شدت کی وجہ سے انہیں نا پسند کرتے تھے۔اور کفار اور منافقین کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نفرت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نفرت کی نسبت اتنی سخت اور زیادہ تھی کہ ان کے مابین کوئی مقابلہ ہوہی نہیں سکتا۔ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہیں بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ کفار بطور خاص آپ سے بغض رکھتے ہیں ۔ آپ سے اتنا ہی بغض تھا جتنا دوسرے مسلمانوں سے۔ بخلاف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے؛ اس لیے کہ آپ ان کے خلاف بہت سخت تھے۔ تو اس کا تقاضا تھا کہ وہ اس طرف سے نفرت کریں جس طرف حضرت عمر ہوں ۔
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو خلیفہ متعین کیا تو ایک گروہ نے اس معاملہ پر سخت نا پسندیدگی کااظہار کیا۔حتی کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’ ہم پر آپ نے اتنے تند خو اور سخت مزاج انسان کو خلیفہ مقرر کردیا ہے؛ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ کیا تم اللہ تعالیٰ سے مجھے ڈرا رہے ہو؟ تو میں کہوں گا: تیرے بندوں میں سے سب سے بہتر بندے کو خلیفہ بناآیا ہوں ۔‘‘
جب اہل حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؛ اور اہل باطل بھی آپ کے ہمراہ ۔ تو پھر آپ کو کون مغلوب کرسکتا تھا جب حق آپ کے ساتھ تھا۔ اور تصور کیجیے کہ وہ آپ کے ساتھ کھڑے تو ہوئے تھے ؛ مگر غالب نہ آسکے تو کیا ایسے مواقع کے معروف اسباب اس بات کو واجب نہیں کرتے تھے کہ اس موقع پر قیل و قال ہو؛ اور ایک قسم کا جھگڑا کھڑا ہوجائے۔ تو کیا اس سلسلہ میں کلام کرنا حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی خلافت میں کلام کرنے کی نسبت زیادہ اولی نہ ہوتا؟ اور جب انصار کو ایسا شبہ تھا؛ جس کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں تھی؛ بلکہ ان کی خواہش تھی کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو امیر بنا دیا جائے ؛ تو پھر اس صورت میں حق دار کون ہوا ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نص جلی کی موجودگی میں آپ کے اعوان و انصار اس حق کو پانے کی طمع کیوں نہیں کرسکتے تھے؟
جب ان میں سے کسی ایک بات کرنے والے ایک لفظ تک اس معاملہ میں نہیں بولا۔ اور نہ ہی کسی دعوت دینے والے نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی دعوت دی۔ نہ ہی آپ کی بیعت کی دعوت نہ ہی کسی دوسرے کی بیعت کی دعوت۔ اور یہ معاملہ یونہی چلتا رہا حتی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ کی بیعت کی گئی ۔ اس وقت آپ اور آپ کے اعوان و انصار اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بیعت کا مطالبہ کیا؛ اور اس پر جنگ و قتال بھی کیا؛ خاموش نہیں رہے۔ حتی کہ قریب تھا کہ غالب آجاتے۔ تو اس سے یہ بات اضطراری طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ شروع میں ان حضرات کی خاموشی کی وجہ مقتضی کا عدم وجود تھا؛ نہ کہ کوئی مانع۔ اور ان لوگوں کے ہاں اس علم نام کی کوئی چیز نہیں تھی کہ نص جلی کی روشنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت کے زیادہ حق دار ہیں ۔اور جب آپ کے استحقاق کا مرحلہ آیا تویہی حضرات آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے ؛ حالانکہ اس وقت مانع اور رکاوٹ موجود تھی۔
یقیناً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایسے انکارکرنے یا رکاوٹ بننے سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نسبت بہت زیادہ دور تھے۔ اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کوئی حق ہوتا تو آپ کبھی اپنی بیعت کی طرف نہ بلاتے۔ نہ ہی کسی ترغیب کے ساتھ اور نہ ہی کسی ترہیب کے ساتھ ۔اور نہ ہی آپ کسی بھی اعتبار سے حکومت اور منصب کے طلبگار تھے۔اور نہ ہی شروع میں کسی ایک کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں طعن و تنقید کرے۔ جیسا کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد ممکن ہوا۔ کیونکہ اس وقت بہت سارے حامیان عثمان رضی اللہ عنہ آپ پر یہ الزام دھرنے لگے کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں ملوث تھے۔اور بعض نے یہاں تک کہا ہے کہ آپ کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ذلیل کرنے میں کردار ہے۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل آپ کے لشکر میں تھے۔یہ ایسے امور تھے جن کی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے آپ کی بیعت نہ کی تھی۔
یہ رکاوٹیں شروع شروع میں موجود نہیں تھیں ۔ اس وقت آپ کا لشکر بہت بڑا تھا۔ اور اگر آپ خلافت کے حق دار ہوتے تو یہ حق زیادہ ظاہر ہوتا۔ اور اس وقت میں آپ کے مخالفین کا دعوی بھی کمزور ہوتا اور طاقت کے لحاظ سے بھی کمزور ہوتے۔ اور کوئی ایسا مضبوط دعوی نہیں تھا جس کی بنیاد پر آپ کی خلافت کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے۔ جیسا کہ یہ رکاوٹیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل ہونے کے بعد پیدا ہوگئی تھیں ۔ اور نہ ہی آپ سے لڑنے کے لیے لشکر ایسے جمع ہوسکتا جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد جمع ہوگئے تھے۔
یہ امور ان کے امثال ؛ پر جو کوئی غور و فکر کرے گاتو اس کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے استحقاق کی نفی واضح ہوجائے گی کیونکہ یہ ایک ایسا واضح بیان ہے جس کا اپنی طرف سے انکار کرنا ممکن نہیں ۔ اور اگر یہ واضح ہوجائے کہ حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا؛ اور حضرت ابوبکر نے اس کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ تو پھر حضرت ابوبکر یہ حق یا تو آپ کو تفویض کردیتے یا پھر اس معاملہ میں مجاملت سے کام لیتے ؛ یا پھر آپ کے سامنے کوئی عذر پیش کرتے۔ اور اگر حضرت ابوبکر اس پر بضد قائم رہتے تو پھر آپ ظالم ہوتے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سے اپنا دفاع کرتے اور آپ حق پر ہوتے۔اور شریعت اور عقل اور عادت اس چیز کو واجب کرتی تھی کہ لوگ حضرت ابوبکر کی سرکشی اور بغاوت کے خلاف حضرت علی امام معصوم اور امام برحق کے ساتھ ہوتے۔اور اگر ایسا ہوا ہوتا تو ۔خصوصا جب کہ نفوس بڑی ولایت کی بیعت کے لیے قابل اطاعت لوگوں کی نسبت ایسے لوگوں کی بیعت سے متنفر تھے جو کہ اس کا اہل نہ ہو۔پس اسباب ہر لحاظ سے حضرت علی کے حق میں زیادہ اور بڑے تھے۔ اگر آپ ہی حق دار ہوتے ۔ اور یہ اسباب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہر لحاظ سے کمزور اور دور کے تھے اگر آپ باطل پر ہوتے۔
لیکن جب ہر طرح کے تقاضے حضرت ابوبکر کے حق میں تھے۔ اوریہ اللہ کا مضبوط دین ہے۔ اسلام کی حلاوت و طراوت اور اس کا اقبال اور سنجیدگی ہے؛ آپ ان سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تھے۔ تو پھر واجب ہوگیا تھا کہ حق دار کو اس کے حق سے محروم نہ کیا جائے اور کسی دوسرے کو اس حق پر مسلط نہ کیا ہے۔ اگرچہ بعض کی خواہشات دوسروں کے ساتھ ہوں ۔ جب کہ حضرت ابوبکر تک کسی کی کوئی خواہش نہیں تھی سوائے اس دین کی خواہش کے جس پر اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں اور اسے پسند کرتے ہیں ۔
جو کوئی ان باتوں پر اور ان جیسی دوسری باتوں اور اسباب پر غور وفکر کرتا ہے تو اسے اضطراری طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ خلافت نبوت کے سب سے بڑے حق دار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔اور آپ کی ولایت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ راضی کرنے والی ہے؛ تو انہوں نے آپ کی بیعت کرلی۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر لازم آتا تھا کہ وہ اس کی پہچان کروائیں یااس میں تحریف کریں ۔ یہ دونوں باتیں عادت اوردین کے اعتبار سے ممتنع تھیں ۔ اور اسباب متعدد تھے۔ پس یہ یقین طور پر معلوم شدہ امور ہیں جنہیں ایسی روایات کے مقابلہ میں رد نہیں کیا جاسکتا جن کے درست ہونے کا کوئی علم ہی نہیں ۔ اور پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب ان روایات و حکایات کا جھوٹ ہونا معلوم بھی ہوجائے۔ یا ایسے الفاظ کے مقابلہ میں کیسے رد کیا جاسکتا ہے جن کی دلالت کا ہی معلوم نہ ہو؛ اور پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب ان الفاظ کی دلالت کی نفی معلوم ہوجائے۔اور پھر ایسے قیاسات جن کا کوئی نظام ہی نہیں ۔ اور جن سے معقولات اور ثابت شدہ منقولات اور معلوم شدہ مدلولات بھی ٹکراتے ہوں تو پھرکون سی چیز حق کے زیادہ قریب اور اتباع کے لائق ہے۔
[ردِ حق میں روافض کا طریقہ:]
یہ روافض یقین طور پر معلوم شدہ حق کا انکارایسے شبہات کی بنیاد پر کرتے ہیں جو کسی انتہائی کمزورشبہ کو بھی قبول نہیں کرسکتے۔ تمام گروہوں سے بڑھ کر گمراہی اور کجی ان کے دلوں میں پائی جاتی ہے جو متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور محکم کو چھوڑ دیتے ہیں ۔جیسے نصاری؛ جہمیہ ؛اور ان کے امثال و ہمنوا اہل بدعت اور ہوا پرست جو ایسی صحیح نصوص کو چھوڑ دیتے ہیں جو علم کو واجب کرتی ہیں اور ان کے مقابلہ میں ایسے شبہات پیش کرتے ہیں جن سے صرف شک ہی پیدا ہوتا ہے اور کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اور ان کی بھی اگر چھان بین ہو تو کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ یہ منقولات بھی ایسے ہی دھوکہ ہیں جیسے عقلیات میں دھوکہ ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ ان چیزوں میں شبہ کی وجہ سے قدح اور تنقید ہے جو کہ حس اور عقل کی روشن میں معلوم ہوں ۔ پس جوکوئی چاہتا ہو کہ دلوں میں متسقر علم یقین کو شبہات کی بنیاد پر رد کرے تو یقیناً وہ دھوکہ باز فلاسفہ کی راہ پر چلتا ہے۔ اس سفسطہ کی کئی اقسام ہیں :
اول:....حقائق اور ان سے متعلق علم کی نفی انکار اور تکذیب۔
دوم:....شک اور شبہ : یہ فرقہ لا ادریہ کا طریقہ ہے۔ جو ہر بات میں کہتے ہیں : لا أدری۔ یعنی ہم نہیں جانتے۔ وہ نہ ہی کوئی چیز ثابت کرتے ہیں اور نہ ہی کس چیز کی نفی کرتے ہیں ۔لیکن حقیقت میں وہ علم کی نفی کرتے ہیں ۔ اور یہ بھی نفی کی ہی ایک قسم ہے۔ پس یہ وہ مغالطہ بازی کی عادت ہے؛ جس میں معلوم شدہ حق یا اس کے متعلق علم کا انکار کیا جاتا ہے۔
سوم:....ان لوگوں کا عقیدہ جو حقائق کو عقائد کا تابع بناتے ہیں ۔ پس کوئی انسان کہتا ہے:جو کوئی یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ عالم قدیم ہے؛ تو پھر وہ قدیم ہی ہے؛ اور جو کوئی اعتقاد رکھتا ہو کہ عالم محدث ہے؛ تو وہ محدث ہی ہے۔اور اگر اس سے مراد یہ لی جائے کہ اس کے نزدیک قدیم ہے اور دوسرے کے نزدیک محدث ہے؛ تو پھر یہ بات درست ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اس انسان کا عقیدہ ہے۔ لیکن یہاں پر مغالطہ بازی یہ ہے کہ وہ خارج میں بھی ایسے ہی مراد لیتے ہیں ۔
اگر معاملہ ایسے ہی ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ خلفائے ثلاثہ کے جو احوال معلوم ہیں ؛ اورجو کچھ ان کی سیرت بعد میں ان روایات کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے جنہیں رافضی روایت کرتے ہیں ؛ جن میں وہ جمہور امت کی تکذیب کرتے ہیں ؛ تو یہ بہت بڑی دھوکہ بازی ہے۔ اور جن لوگوں نے حضرت امیر معاویہ کے وہ فضائل بیان کیے ہیں جن کی روشنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے اصحاب پر ان کی تقدیم واجب ہوتی ہے ؛ تو وہ بھی بہت بڑا جھوٹا؛ باطل پرست اور مغالطہ بازی ہے۔
مگر اس کے باوجود رافضیوں کی نقل کردہ وہ روایات جن کی بنا پر وہ خلفائے ثلاثہ کے ایمان پر جرح و تنقید کرتے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عصمت کو واجب کرتے ہیں وہ ان روایات سے بڑا جھوٹ ہیں جن میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تقدیم واجب ہوتی ہے۔ اور ان کی مغالطہ بازی ان سے بڑھ کر ہے ۔ اس لیے کہ کئی وجوہات کی بنا پر خلفائے ثلاثہ کے ایمان کا ظہور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر فضیلت کے ظہور سے زیادہ بڑھ کر اور واضح ہے۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عصمت کا اثبات حضرت امیر معاویہ کی فضیلت کے اثبات کی نسبت حق سے بہت زیادہ دور ہے۔
پھر یہ کہ بیشک حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے کمالات میں سے ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ رسول برحق تھے۔ اور دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی بادشاہ نہیں تھے۔ کیونکہ بادشاہوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے قریب رشتہ داروں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اور انہیں ولایات سونپتے ہیں ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں :
اول:....انہیں دوسرے لوگوں کی نسبت اپنے اقارب سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ جیسا کہ انسان کی طبیعت میں اپنے قرابت داروں کی طرف میلان ہوتا ہے۔
دوم:....اس لیے کہ بادشاہوں کے قرابت دار اپنی بادشاہت کو جس طرح قائم رکھنا چاہتے ہیں ؛ دوسرے لوگوں کو اس چیز سے کوئی ایسی غرض نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ انسان کے قرابت دار کی عزت و شان شوکت میں اس کی اپنی عزت اور شان و شوکت ہوتی ہے۔ اور بادشاہوں میں سے جس کے قرابت دار نہ ہوں وہ اپنے غلاموں اور موالیں سے مدد لیتا ہے۔ وہ انہیں اپنے قریب کرتا ہے؛ اور ان سے مدد حاصل کرتا ہے۔ اور یہ چیز بادشاہوں میں پائی جاتی ہے خواہ وہ مسلمان ہوں یا کفار۔
پس یہ وجہ ہے کہ جب بنو امیہ اور بنو عباس کے بادشاہ ؛ بادشاہ تھے تو وہ اپنے اقارب اور موالین کو زیادہ چاہتے تھے؛ اور انہیں دوسروں سے زیادہ ولایات اور مناصب سونپتے تھے۔ اور اس طرح انہوں نے اپن بادشاہ قائم رکھی ہوئی تھی۔ یہ حال دوسرے گروہوں کے بادشاہوں کا بھی تھا؛ جیسے بنو بویہ ؛ بنو سلجق؛ اور مشرق و مغرب اور شام اور یمن کے دیگر تمام بادشاہ۔
یہ حال کافر بادشاہوں کا بھی ہوتا ہے خواہ وہ مشرک ہوں یا اہل کتاب۔ جیسا کہ افرنگی بادشاہوں اور ان کے علاوہ دوسروں میں بھی پایا جاتا ہے۔اور جیسا کہ آل چنگیز خان میں بھی ہے۔ اس لیے کہ بادشاہی بادشاہ کے قریب رشتہ داروں میں باقی رہتی ہے۔ اور کہتے ہیں : یہ عظیم ہے اور یہ عظیم نہیں ؛ یعنی یہ بادشاہ کا قرابت دار ہے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو ولایت سونپی گئی ؛ آپ کے چچاحضرت عباس؛آپ کے چچا زاد حضرت عل؛ حضرت عقیل؛اور ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب اور ابو سفیان بن الحارث بن عبد المطلب اور دوسرے تمام لوگوں کو چھوڑ دینا؛ اور سارے بنی عبد مناب کو چھوڑ دینا جیسے حضرت عثمان بن عفان خالد بن سعید بن ابن العاص اور ابان بن سعید بن العاص اور دوسرے لوگ جن کا تعلق بنو عبدمناف سے تھا؛ اور قریش میں انہیں بہت بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اور نسب کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب تھے۔ یہ اس بات کی بہت بڑ دلیل ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول تھے۔ اور بلاشبہ آپ کوئی بادشاہ نہیں تھے۔ کیونکہ آپ نے خلافت میں اپنے کسی قریب رشتہ دار کو خلافت یا منصب کے لیے آگے نہیں بڑھایا ۔ نہ قرابت نسبی کی وجہ سے نہ ہی گھرانے کے شرف و منزلت کی وجہ سے ۔ بلکہ آپ نے صرف اور صرف ایمان اور تقوی کو ہی تقدیم بخشی تھی۔
یہ اس بات کی بھی دلیل تھی کہ محمد رضی اللہ عنہم اور آپ کے بعد آپ کی امت صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کریں گے اور اس کی اطاعت بجا لائیں گے۔اوروہ ایسے کچھ بھی نہیں کریں گے جیسے دوسرے لوگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ۔ اور نہ ہ وہ ایسے بادشاہی چاہیں گے جیسے بعض انبیائے کرام علیہم السلام کے لیے مباح تھا۔ پس بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا تھا کہ آپ بندے اوررسول بنیں یا پھر نبی اور بادشاہ بنیں ۔ تو آپ نے بندے اور رسول بننے کو پسند فرمایا۔
حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کا آپ کے بعد منصب خلافت سنبھالنا در حقیقت اس نعمت کا اتمام تھا۔ بے شک اگر آپ اپنے اہل بیت میں سے کسی ایک کو خلافت کے لیے مقدم کرتے تو بد گمان لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ آپ بادشاہ ہیں ۔جیساکہ اگر آپ اپنا مال اپنے بعد وارثوں کے لیے چھوڑتے تو یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ آپ اپنے وارثوں کے لیے مال جمع کرتے تھے۔جب آپ نے اپنے بعد اپنے اہل بیت میں سے کسی ایک کو خلیفہ نہ بنایا؛ اور نہ ہی ان کے لیے کوئی مال چھوڑا تو اس سے واضح ہوگیا کہ آپ جاہ و مرتبہ اور حکومت و منصب کی طلب سے سب لوگوں سے بڑھ کر دور تھے۔ اگرچہ ایسا کرنا مباح بھی تھا۔ اوریہ کہ آپ بادشاہ نبی نہیں تھے بلکہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إنِی واللہِ لا أعطِی أحدا ولا أمنع أحدا، وِإنما أنا قاسِم أضع حیث أمِرت۔)) [سبق تخریجہ فی المجلد الأول]
’’اللہ قسم ! بیشک میں کسی کو کچھ نہیں دیتا۔ اور نہ ہی کسی سے کچھ روکتا ہوں ۔ بیشک میں صرف تقسیم کرنے والا ہوں ۔وہیں پر چیز رکھتا ہوں جہاں کا مجھے حکم دیا گیا ہے۔‘‘
اور ارشاد فرمایا:
(( إِن ربِی خیرنِی بین أن أکون عبدا رسولا و نبِیا ملِکاً، فقلت: بل عبدا رسولا)) [المسندِ ط۔المعارِف ِ12؍142 1 رقم 7160؛ صحیح الاسناد۔]
‘‘بیشک میرے رب نے مجھے اختیار دیا کہ میں بندہ رسول بنوں یا پھر بادشاہ اور نبی بنوں ۔ تو میں نے کہا: نہیں بلکہ میں بندہ اور رسول بننا چاہتا ہوں ۔‘‘
اور جب بات ایسے ہی تھی تو یہ آپ کے بادشاہ انبیائے کرام میں سے ہونے سے نزاہت پر دلالت کرتی ہے ۔ پس اس سے آپ کی نبوت اور جھوٹ اور ظلم سے نزاہت پر بہت بڑی اور عظیم ترین دلیل ہے۔ بھلے آپ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنیں یا پھر اہل بیت میں سے کوئی ایک اس منصب پر فائز ہو جائے؛ پھر بھی وہ عظیم تر مہربانیاں اور مصلحتیں حاصل نہ ہو پاتیں ۔
یہ بات بھی معلوم شدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے دور خلافت کی نسبت اسلام زیادہ پھیل چکا تھا اور اسے غلبہ حاصل تھا۔ اور جن لوگوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگیں لڑیں وہ کفر سے بہت دور تھے بہ نسبت ان لوگوں کے جن سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے جنگیں لڑیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اہل کتاب اورمرتدین سے جنگیں لڑیں ۔ حالانکہ اس وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی وجہ سے مسلمان بہت زیادہ کمزور پڑ گئے تھے۔ اور اکثر بستیوں والے مرتد ہوگئے تھے۔ اور شہر لوگوں کے دلوں میں بہت کمزور آگئی تھی۔ اور بہت سارے لوگ مانعین زکواۃ سے جنگ کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے۔
پھر آپ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے ۔ انہوں نے وقت کی دو بڑ طاقتوں [سپر پاورز] سے جنگیں لڑیں ۔ اور ایسا کبھی بھی نہیں ہوا تھا کہ اہل حجاز اور اہل یمن ان لوگوں سے جنگیں لڑیں اور انہیں مغلوب کردیں ۔ یہ طاقتیں روم اورفارس کے ملک تھے۔ آپ نے ان کو مغلوب کیا اور ان کے شہر فتح کیے۔اور پھر جو کچھ فتوحات باقی رہ گئی تھیں مشرق و مغرب میں وہ فتوحات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مکمل کردیں ۔ پھر اس کے بعد بنو امیہ کی خلافت میں مشرق و مغرب میں مزید فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا۔ جیسا کہ ما ورا النہر اور اندلس وغیرہ کے علاقے فتح ہوئے۔ یہ فتوحات عبد الملک کے دور میں ہوئیں ۔
یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اگر نبی کریم رضی اللہ عنہم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے علاوہ کس اور کو خلیفہ بنایا جاتا؛ مثلا حضرت عثمان یا حضرت علی رضی اللہ عنہما ؛ تو ان حضرات کے لیے وہ کچھ کرنا ممکن نہ تھا جو قبل الذکر حضرات نے کارنامے دکھائے۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے دور میں قوت اور کثرت کے باوجو وہ کچھ نہ کرسکے جو حضرات شیخین نے کر دکھایاتھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ عاجز آگئے تھے۔آپ کے مددگار و اعوان حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے اعوان و مددگاران کی نسبت زیادہ کثرت کے ساتھ تھے۔ اور دشمن کم تھے۔ اورحضرات شیخین کے دشمنوں کی نسبت اسلام کے زیادہ قریب تھے ۔ مگر اس کے باوجود آپ اپنے دشمن کو مغلوب نہ کرسکے۔ تو پھر آپ کے لیے مرتدین کو مغلوب کرنا کیسے ممکن ہوتا۔ اور پھر انہوں نے اپنی کم تعداد اور دشمن کی شوکت و سطوت کے باوجود روم اور فارس کو مغلوب کیا۔
اس سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پراور آپ کے بعد تمام لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتمام نعمت واضح ہوتے ہیں ۔اور اس میں کوئی شک شبہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی خلافت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑ نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی۔ اس لیے کہ ان کے بجائے اگر کوئی دوسرا خلیفہ بنتا تو وہ وہ کام نہ کرسکتا جو ان دو حضرات نے کیا۔ انہیں یا تو ان چیزوں پر قدرت ہی نہ ہوتی یا پھر ان کے ذہن و ارادہ میں ہی یہ بات نہ آتی۔
جب یہ کہا جائے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پرغلبہ کیوں نہ حاصل ہوا؟لازمی طور پر اس کا کوئی سبب ہونا چاہیے۔ یا تو اس پر کمال قدرت نہ ہو؛ یا پھر کمال ارادہ نہ ہو۔ کیونکہ جب کمال قدرت کے ساتھ کمال ارادہ پائے جائیں تو فعل کا وجود واجب ہو جاتاہے۔ اور تمام قدرت میں متبعین [پیروکاروں ]کی اطاعت بھی شامل ہے۔ اور تمام ارادہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ چیز زیادہ مناسب؛ فائدہ مند اور اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنے والی ہو۔
حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی قدرت و امکان کمال درجہ کے تھے اور ان کا ارادہ بھی بہت ہ افضل و عمدہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے اسلام کی ومدد و نصرت فرمائی اور کفر و نفاق کو ذلیل کیا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نصیب میں وہ کمال قدرت و امکان اور ارادہ نہیں آئے تھے جو ان دو حضرات کے نصیب میں تھے۔
اللہ تعالیٰ نے تو بعض انبیائے کرام علیہم السلام کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اور بعض خلفا کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ کچھ نہیں دیا تھا جو حضرات شیخین پر انعام فرمایا تھا تو پھر ان کے لیے اپنی خلافت میں وہ کچھ کرنا ممکن نہ تھا جو حضرات شیخین رضی اللہ عنہما نے اپنے اپنے دور خلافت میں کردیا۔ پس درایں صورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے وقت وہ بہت ہ زیادہ عاجز اور کمزور تھے۔خواہ اس بات کو جس طرح سے بھی تسلیم کر لیا جائے۔ بس اس میں آخری درجہ کی بات یہ ہوسکتی ہے کہ کوئی شیعہ زیادہ سے زیادہ یہ کہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیروکار آپ کی بات نہیں مانتے تھے۔
پس اس سے کہا جائے گا:جب وہ لوگ بھی آپ کی اطاعت نہیں کرتے تھے جنہوں نے آپ کی بیعت کی تھی تو پھر وہ لوگ کیسے آپ کی بات مان سکتے تھے جنہوں نے آپ کی بیعت ہی نہیں کی تھی۔ اور جب یہ کہا جائے کہ :اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد لوگ آپ کی بیعت کرلیتے تو آپ اس سے زیادہ کام کرسکتے تھے جو کچھ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے کیے۔
تو ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ:آپ کی بیعت کرنے والے لوگوں کی تعداد ان لوگوں کی نسبت دوگنا سے بھی زیادہ تھی جنہوں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی بیعت کی تھ۔ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے دور کی نسب آپ کے دور میں دشمن بہت کمزور ہوگئے اوراسلام کے زیادہ قریب تھے۔ تو پھر بھی آپ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے ان دونوں حضرات کے کام کی کوئی بو تک آتی ہو[یا ان کی مشابہت ہی ہوتی ہو]کجا کہ وہ ان حضرات کے اعمال سے افضل و اکثر عمل کرتے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے اتباع کار ایمان و تقوی میں بڑھ کر تھے؛ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی نصرت فرمائی ۔
تو ان سے کہا جائے گا کہ :یہ بات رافضی عقیدہ کے فساد پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما مرتد ہوگئے تھے۔ یا یہ دونوں حضرات فاسق و فاجر تھے۔ جب ان کی تائید و نصرت ان کے ایمان اور تقوی کی وجہ سے تھی؛ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جن صحابہ کرام نے ان دوحضرات کی بیعت کی تھی وہ ان لوگوں سے افضل تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی امامت کا اقرار کرنے والے ان لوگوں کی نسبت افضل تھے جو حضرت علی کی امامت کا اقرار کرتے تھے۔ تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما حضرت علی سے افضل تھے۔ اگر وہ کہیں کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نصرت اس لیے نہیں ہوئی کہ آپ کے پیروکاران آپ سے بغض رکھتے تھے اور آپ کے ساتھ اختلاف کرتے رہتے تھے۔
تو ان سے کہا جائے گا کہ :یہ بات بھی شیعہ کے اس عقیدہ کی خراب کی دلیل ہے کہ جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور آپ کی امامت کا اقرار کیا وہ ان لوگوں کی نسبت افضل تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی بیعت کی؛ اور ان کی امامت کا اعتراف و اقرار کرتے تھے۔ جب وہ شیعہ جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ امام معصوم کی بیعت کی تھی وہ سب لوگوں سے برے تھے۔ تو پتہ چلا کہ اس گروہ میں کوئی قابل تعریف بات سرے سے پائی ہی نہیں جاتی اور نہ ہی یہ ایسا گروہ ہیں جنہیں دشمن پر فتح و نصرت حاصل ہو۔ تو یہ بات ممتنع ہوجاتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ شیعہ کے ساتھ کفار کو مغلوب کرنے پر قادر ہوں ۔ پس جملہ طور پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما اور ان کے پیروکاران کے کمال کا اعتراف بہت ضرور ہے۔ اور اس کم کا جاننا بھی ضرور ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں پیش آئی ؛ خواہ اس کو حضرت علی کی طرف منسوب کیا جائے یا آپ کے پیروکاروں کی طرف یا پھر ان سب کی طرف۔
پس ہر اعتبار سے لازم آتا ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما اور ان کے اتباع کار حضرت علی اور ان کے اتباع کاروں سے افضل ہوں ۔ پس اس میں اگرکمال یا کم کا سبب امام کی طرف سے ہو تو وہ پھر بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ اور اگر اس کا سبب ان کے اتباع کار ہوں جو کہ ان کی امامت کے معترف اور اقرار کرنے والے تھے تو پھر بھی یہ لوگ حضرت علی کے شیعان سے افضل اور بہتر ٹھہرے۔ پس ہر اعتبار سے اہل سنت و الجماعت شیعہ سے افضل ٹھہرتے ہیں ۔اس سے حضرات شیخین کی افضلیت لازم آتی ہے۔ اس لیے کہ جس چیز کی وجہ سے افضل ممتاز و جداگانہ ٹھہرتا ہووہ اس چیز سے افضل ہوتی ہے جس کی وجہ سے مفضول کو افضلیت ملی ہو۔
یہ بات غور و فکر کرنے والوں کے لیے انتہائی واضح ہے۔ پس بیشک جن لوگوں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت کی؛ اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کیا؛ وہ ان لوگوں کی نسبت افضل تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور آپ کے ساتھ مل کر جنگیں لڑیں ۔ بلاشک وشبہ ان میں وہ لوگ تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حیات رہے۔اور ان کا تعلق مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین سے تھا۔ اور پھر وہ لوگ تھے جنہوں نے احسان کے ساتھ ان کی پیرو کی۔ رضی اللہ عنہم ۔
اکثر سابقین اولین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حیات رہے؛ ان میں سے جن لوگوں نے آپ کی زندگی میں وفات پائی یا شہید ہوئے ان کی تعداد بہت کم تھی۔ اور جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی ؛ ان میں ان سابقین اور تابعین کا ایک جزء تھا جنہوں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت کی تھی۔جب کہ باقی تمام میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے آپ کی بیعت ہی نہیں کی تھی۔ اور نہ ہی آپ کے ساتھ مل کر جنگیں لڑی تھیں ۔ جیسے حضرت سعد بن ابی وقاص ؛ اسامہ بن زید اور ابن عمر؛ اور محمد بن مسلمہ ؛ زید بن ثابت اورابو ہریرہ اور ان کے امثال سابقین اور جنہوں نے ان احسان کے ساتھ ان کی اتباع کی۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جن لوگوں نے آپ سے جنگ کی ؛ مثلا وہ لوگ جو سابقین اورتابعین میں سے حضرت طلحہ وہ زبیر اور حضرت عائشہ اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہم کے ساتھی تھے۔
جب وہ لوگ جنہوں نے خلفا ثلاثہ کی بیعت کی؛ وہ ان کے ساتھ مل کر جنگیں لڑیں وہ ان لوگوں کی نسبت افضل تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور آپ کے ساتھ مل کر جنگیں لڑیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ تینوں خلفا افضل ہوں ۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان خلفا ثلاثہ کے عہد میں موجود تھے۔ اور اگر دوسروں کو چھوڑ کر آپ امامت کے مستحق ہوتے جیسا کہ رافضی کہتے ہیں ؛ یا پھر آپ ان سے افضل اور خلافت کے زیادہ حق دار ہوتے؛ جیسا کہ شیعہ میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں ۔ اور اس سے لازم آتا کہ افضل ترین مخلوق نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے روگردانی کر لی۔اوروہ کام کیا جس کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا؛ بلکہ اس سے منع کیا گیا تھا۔ اور پھر جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور آپ کے ساتھ مل کر قتال کیا؛ انہوں نے ہ اس حکم کی تعمیل کی جو ان کے لیے جاری ہوا تھا۔
یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل کرنے والا اس انسان سے افضل ہوتا ہے جو ان کے احکام کی تعمیل نہ کرے۔ اورایسے کام کرے جن سے اللہ اور رسول نے منع کیا ہو۔ پس اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ : اگر شیعہ کا عقیدہ برحق ہوتا توحضرت علی کے پیروکاران افضل ہوتے۔ اور جب یہ لوگ افضل ٹھہرے اور ان کاامام خلفائے ثلاثہ کی نسبت افضل ٹھہرا؛ تو اس سے لازم آتا ہے کہ جو کچھ آپ نے کیا ہو وہ خلفائے ثلاثہ کے افعال سے افضل ہو۔حالانکہ یہ بات تواتر کے ساتھ معلوم شدہ اخبار و احوال کے خلاف ہے؛ اور یہ سارے بادیہ نشین اور شہروں کے مقیم جانتے ہیں ۔کیونکہ جو کچھ حضرات خلفائے ثلاثہ کے عہد میں ہوا؛ اسلام کو غلبہ اورشوکت نصیب ہوء؛ اس کے مدد گاروں میں اضافہ ہوا۔ اسلام خوب پھلا پھولا؛ پھیلا؛ اسے عزت نصیب ہوئی۔ مرتدین کا قلعہ قمع ہوا۔ اوراہل کتاب اور مجوس اور دوسرے کفار کو مغلوب کیا گیا۔ ایسا کچھ ان حضرات کے بعد نہیں ہوا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے کئی سوابق حمیدہ اورمتعدد فضائل کی بنا پر فضل و شرف سے سرفراز کیا تھا۔
آپ کے شرف و فضل کی وجہ وہ واقعات اور حوادث نہیں تھے جو آپ کے عہد خلافت میں پیش آئے۔ بخلاف حضرت ابوبکر اور حضرت عمراور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ان کی فضیلت سابقہ خصائل حمیدہ اور فضائل عدیدہ کے ساتھ ساتھ وہ اعمال بھی تھے جو ان حضرات کے عہد میں پیش آئے جیسے جہاد فی سبیل اللہ؛ اور قیصر و کسری کے خزانوں کا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ اور ان کے علاوہ دیگر لائق صد شکر و تحسین واقعات اور نیکیوں کے کام ۔اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سیرت و کردار اور اپنے باطن کے لحاظ سے حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی نسب بہت زیادہ افضل و اشرف تھے۔ یہ وجہ ہے کہ یہ حضرات ملامت سے بہت زیادہ دور تھے۔ اورعموم ثنا کے زیادہ مستحق تھے۔ حتی کہ ان کے دور میں کوئی فتنہ پیش نہیں آیا۔ ان حضرات کے زمانہ میں خوارج کی نہ ہی کوئی بات تھی۔ اور نہ ہی انہیں طاقت یا غلبہ حاصل تھا۔ بلکہ تمام مسلمانوں کی تلواریں کفار کے خلاف آویزاں تھیں ۔ اور اہل ایمان آگے بڑھ رہے تھے جب کہ اہل کفر پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے تھے۔
پھر یہ کہ روافض میں سے اکثر لوگ جہالت اور گمراہ کا شکار ہیں ۔ وہ [ان خلفا کے متعلق]کہتے ہیں : بیشک یہ خلفا اور ان کے ماننے والے کفار اور مرتدین تھے۔ اور یہ کہ یہود و نصاری ان سے زیادہ بہتر تھے۔ اس لیے کہ اصل کافر مرتد کی نسبت زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اور میں نے یہ بات ان کی کئی ایک کتابوں میں دیکھ ہے ۔ اوریہ قول اللہ کے نیک بندوں اور اللہ تعالیٰ کی کامیاب جماعت اور اس کے غالب لشکر پر بہت بڑا بہتان ہے۔
اس کے فساد کے دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس سے کہا جائے گا کہ : یہ بات اضطراری طور پراور متواتر اخبار کی روشنی میں معلوم ہے کہ بلاشک وشبہ مہاجرین نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی۔ اور جس گروہ نے ہجرت کی ان میں سے حضرت عثمان ؛ جعفر بن ابی طالب نے دو ہجرتیں کیں ایک حبشہ کی طرف اور دوسری مدینہ کی طرف۔ اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے اور کفار کا رئے زمین پر غلبہ تھا۔ وہ ان مسلمانوں کو مکہ میں اذیت سے دوچار کرتے تھے۔ اور مسلمان اپنے قریبی مشرک رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں سے اتنی تکالیف اٹھاتے جس کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ وہ ان تمام تر مصائب اور اذیتوں پر صبر کے پیکر رہے۔ اور تکالیف کا یہ کڑوا گھونٹ پیتے رہے۔حتی کہ اس راستے میں انہوں نے اپنے گھر بار دوست و احباب ہر چیز کو اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں جہاد فی سبیل اللہ میں چھوڑ دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا وصف بیان کیا ہے کہ:
﴿لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ ﴾ (الحشر:۸)
’’(یہ مال) ان محتاج گھر بار چھوڑنے والوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال باہر کیے گئے۔ وہ اللہ کی طرف سے کچھ فضل اور رضا تلاش کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں ۔‘‘
یہ سب کچھ ان کے اپنے اختیار اور رضامندی سے تھا۔اس پر انہیں کسی نے مجبورا نہیں کیا۔ اور نہ ہی کسی نے اس مقصد کے لیے ان پر کوئی سختی کی۔ بس اس وقت اسلام کمزور تھا ان کے پاس کوئی قوت نہیں تھی کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرتے۔اس وقت میں نبی کریم اور آپ کے اتباع کار اللہ کے حکم سے قتال سے روک دیے گئے تھے۔ اور انہیں حکم تھا کہ عفو و درگزر اور صبر سے کام لیں ۔ اس دور میں جن لوگوں نے اسلام قبول کیا انہوں نے اپنے اختیار سے قبول کیا اور جنہوں نے ہجرت کی انہوں نے اپنے اختیار سے ہجرت کی۔
یہی وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دوسرے علمائے کرام فرماتے ہیں : مہاجرین میں کوئی ایک بھی منافق نہیں تھا۔ نفاق انصار کے بعض قبائل میں تھا۔ ایسا اس وقت ہوا جب مدینہ طیبہ میں اسلام کو غلبہ نصیب ہوا۔ تو مدینہ کے گردونواح کے کچھ لوگ تقیہ کرتے ہوئے خوف کے مارے اسلام کا اظہار کرنے لگے یہ لوگ منافق تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ سَنُعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ﴾[توبِۃ: 101]
’’ اور ان لوگوں میں سے جو تمھارے ارد گرد بدویوں میں سے ہیں ، کچھ منافق ہیں اور کچھ اہل مدینہ میں سے بھی جو نفاق پر اڑ گئے ہیں ، تو انھیں نہیں جانتا، ہم ہی انھیں جانتے ہیں ۔ عنقریب ہم انھیں دوبار عذاب دیں گے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ نفاق کا ذکر صرف مدنی سورتوں میں آیا ہے۔ جب کہ مکی سورتوں میں منافقین کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ مکرمہ میں جو لوگ ہجرت سے پہلے مسلمان ہوئے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی منافق نہیں تھا۔ اور نہ ہی مہاجرین میں کوئی ایک منافق تھا۔ بلکہ سارے کے سارے اللہ اور اس کے رسول پر سچا اور خالص ایمان رکھنے والے اور اللہ اور اس کے رسول سے سچی محبت کرنے والے تھے۔ اور اللہ اور اس کا رسول ان کے نزدیک اپنی جان و مال اور اپنے اہل و عیال ہر چیز سے بڑھ کر محبوب تھے۔
اگر ایسا ہوتا تو ان میں سے اکثر پر یا کسی ایک پر یا بعض لوگوں پر یہ تہمت ضرور لگتی اوراس کے بارے میں علم بھی ہوجاتا۔ جیسا کہ رافضہ میں سے ایسی باتیں کہنے والے کہتے ہیں ۔ حالانکہ یہ اتنا بڑا بہتان ہے جو کہ در حقیقت خود رافضہ اور ان کے بھائیوں یہود کی صفت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رافضہ اور ان کے بھائیوں یہود میں نفاق بہت زیادہ اور ظاہر و غالب ہے۔اور کوئی دوسرا فرقہ ایسا نہیں جس میں اتنا زیادہ اور کھلم کھلا غالب نفاق پایا جاتا ہو۔ حتی کہ ان میں نصیریہ اسماعیلیہ اور ان کے امثال و ہمنوا وہ فرقے پائے جاتے ہیں جو تمام گروہوں سے بڑے منافق و زندیق اور اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھنے والے ہیں ۔ یہی حال ان کے صحابہ کرام کے متعلق مرتد ہونے کے دعوی کا ہے۔ یہ سب سے بڑا جھوٹ اور بہتان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرتد یا تو شبہ کی وجہ سے مرتد ہوتا ہے یا پھر شہوت کی وجہ سے ۔ اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ شبہات اور شہوات شروع اسلام میں زیادہ اور طاقتور تھے۔ پس جن لوگوں کا ایمان اسلام کی کمزوری کے وقت پہاڑ جیسا ہو تو پھر ان کے ایمان کے بارے میں اسلام کے غالب ہونے اور پھیل جانے کے بعد کیا تصور کیا جا سکتا ہے؟
جہاں تک شہوت کا تعلق ہے تو یہ شہوت خواہ حکومت کی ہو یا مال کی یا نکاح کی یا اس طرح کی دوسری چیز۔ تو اسلام کے شروع میں یہ امور اتباع کے زیادہ لائق تھے جب یہ لوگ اپنے گھر بار اور اموال چھوڑ کر اور اپنے جاہ و مرتبہ کو ٹھوکر مار اپنی رضامندی سے بغیر کسی جبرو اکراہ کے اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں نکل کھڑے ہوئے تو پھر ان کے بارے میں یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ مال وہ جاہ کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے تھے۔پھر یہ لوگ دشمن رکھنے پر قدرت رکھنے کی صورت میں ؛ اس کے باوجود دشمن کے مقتضیات اور اسباب موجود تھے؛ مگر انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی نہیں کی۔ بلکہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول سے دوست رکھتے تھے۔ اور اللہ اور اس کے رسول سے دشمن رکھنے والوں سے دشمن رکھتے تھے۔ پس جب اللہ تعالیٰ سے دوستی کے اسباب و مقتضیات مضبوط ہوگئے اور دشمنی رکھنے پر قدرت کے اسباب و امکانیات کمزور پڑگئے تو اب اس کا الٹ کریں گے۔ کیا ایسا گمان بھی کوئی انسان کرسکتا ہے سوائے اس کے جو پرلے درجے کا گمراہ ہو۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب فعل کے ساتھ کمال قدرت اور کمال ارادہ بھی موجود ہو تو اس فعل کا حاصل ہونا واجب ہوجاتا ہے۔ شروع اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کے ارادہ کے اسباب و تقاضے زیادہ قوی تھے۔ اس لیے کہ اس وقت میں آپ کے دشمن بہت زیادہ تھے اور آپ کے دوست و مدد گار بہت کم تھے۔ اور آپ کے دین کو غلبہ بھی حاصل نہیں تھااور اس وقت آپ کے ساتھ دشمنی کے امکانیات بہت قوی تھے۔ حتی کہ کوئی بھی انسان اپنی زبان سے یا ہاتھ سے تکلیف دینا چاہتا تو وہ براہ راست ایسا کرسکتا تھا۔ لیکن جب اسلام کی نشرو اشاعت ہوئی ۔ دشمنی کے تقاضے کمزور ہوگئے۔ اور دشمنی پر قدرت اور امکان بھی کمزور پڑ گیا۔اور یہ بات تو معلوم شدہ ہے کہ جس نے شروع میں دشمن ترک کی ہو؛ اور پھر بعد میں دشمنی کرنے لگ جائے تو ایسا صرف اس کے ارادہ اور امکان و قدرت میں تبدیلی کی وجہ سے ہوا ہوگا۔ اوریہ بات معلوم شدہ ہے کہ شروع شروع میں دشمنی پر قدرت زیادہ قوی ہوسکتی تھی۔ اوراس وقت دشمن کے ارادہ کے موجبات بھی زیادہ اور اولی تھے۔ اور ان کے پاس کوئی ایسی نئی چیز بھی نہیں آئی جو ان کے ارادہ اور قدرت کی تبدیلی کو واجب کردے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کے ارادہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جو ان کے لیے دین سے ارتداد کو واجب کرتی ہو۔ اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد مرتد ہوئے وہ وہ لوگ تھے جو تلوا رکے خوف سے مسلمان ہوگئے تھے جیسے مسیلمہ کذاب کے ساتھی اوراہل نجد وغیرہ۔ جب کہ مہاجرین جو کہ اپنی خوشی اوررضامندی سے مسلمان ہوئے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی مرتد نہیں ہوا۔ وللّٰہ الحمد۔
اہل مکہ جو کہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے؛ ان میں سے ایک گروہ نے مرتد ہونے کاارادہ کر لیا تھا؛ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت سہیل بن عمرو کی وجہ سے انہیں ثابت قدم رکھا۔اہل طائف جن کا محاصرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد کیا تھا۔ جب انہوں نے اسلام کو غالب ہوتے دیکھا تو وہ بھی مغلوبیت میں مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے بھی مرتد ہونے کا ارادہ کیا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ ینے حضرت عثمان بن ابی العاص کے ذریعہ سے انہیں بھی اسلام پر ثابت قدم رکھا۔
جب کہ اہل مدینہ نبویہ کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انہوں نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا۔ اور ان میں مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی۔ اور یہ تو وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کی خاطر لوگوں سے جنگیں لڑیں ۔ یہ وجہ ہے کہ اہل مدینہ میں سے کوئی ایک بھی مرتد نہیں ہوا۔ بلکہ ان میں سے غالب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کمزور پڑ گئے تھے اور ان کے دلوں میں جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں کچھ کمزوری آگئی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی دی۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ان کو قوت بخشی۔ اور لوگ اسی ایمان و یقین اور جہاد مع الکفار پر لوٹ آئے۔ پس تمام تر تعریفات اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ہیں جس نے اسلام اور اہل اسلام پر صدیق امت کے ذریعہ احسان فرمایا۔ وہ صدیق جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زندگی میں بھی اس دین کی تائید فرمائی اور آپ کی وفات کے بعد بھی اس دین کی حفاظت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے بہترین بدلہ دیں ۔ آمین۔