ذخائر عقبی و ریاض النضرہ مصنفہ محب الدین طبری
محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحبذخائر عقبی و ریاض النضرہ مصنفہ محب الدین طبری
ذخائر عقبیٰ "ریاض النظرہ" محب الدین ابو العباس احمد بن عبداللہ بن محمد الطبری شیخ الحرم المکی کی تصنیف ہے 615 ھ مکہ شریف میں پیدا ہوئے اور 694 ھ میں وفات پائی اہلِ سنت کے جید عالم اور محدث تھے مذکورہ تصنیف میں انہوں نے عشرہ مبشرہ کے فضائل و مناقب میں بیش قدر احادیث کا ذخیرہ جمع فرما دیا ہے کسی موضوع کے تحت احادیث و روایات و حکایات کا نقل کر دینا اس بارے میں ہمیں دو اقسام کے مصنفین ملیں گے ایک وہ جو صرف ایسی احادیث و روایات کو ذکر کرتے ہیں جن کی صحت اور شہرت اور غیر مجروح ہونا مسلم ہوتا ہے لیکن ایسا کرنے والے معدودے چند حضرات ہیں دوسری قسم ان حضرات کی ہے جو موضوع کے مناسب جو ملا اسے درج کر دیا اس کی صحت اور عدم صحت انہوں نے ناقدین حضرات پر چھوڑ دی علامہ طبری موصوف بھی اسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ السیوطی نے جب فن حدیث پر کتاب لکھی جس کا نام "الوالی المصنوعہ" اس میں انہوں نے تحریر کردہ بعض احادیث کو بھی "موضوعات" میں شمار فرمایا بہرحال ان حضرات کے جمع شدہ ذخیرہ احادیث سے فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن ہر روایت کی صحت کو یقینی ماننا یا اس کی صحت کا اعتقاد رکھنا ضروری نہیں ذخائر عقبیٰ اور ریاض النظرہ میں بھی علامہ طبرئ نے ان احادیث کو جمع فرما دیا جو موضوع کے متعلق انہیں ملیں لیکن ان روایات میں ایسی بھی ہیں جو موضوع ہیں اگرچہ یہ کتب ایک محدث اور عالم یکتا کی تصنیف ہیں لیکن ان میں درج روایات کے سقم و صحت کو آنکھ بند کیے تسلیم نہیں کیا جا سکتا اس لیے ان کتب کا شمار "کتب معتبرہ اہلِ سنت" میں نہیں ہوتا اگر ان کی کسی روایت کو کوئی شیعہ اپنے مسلک کی تائید و توثیق میں پیش کرتا ہے تو اسے یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ اس کی پیش کردہ روایت فن اسماء الرجال کے اعتبار سے صحیح ہے مطالعے سے عیاں ہے کہ ان دونوں کتب کی روایات کی اکثریت موضوع ضعیف اور منکرات پر مشتمل ہے۔
موضوع احادیث کی امثال:
ریاض النظرہ:
عَنْ سلیمانؓ قال سَمِعْتُ رسول اللهﷺ یَقُولُ کُنْتُ اَنَا و عَلیٌّ نوراً بَیْنَ یدی الله تعالیٰ قَبْلَ اَنْ یُخلَقَ اٰدَمَؑ بِارْبَعَۃَ عَشَرَ الف عَامٍ فَلَمَّا خَلَقَ اللّٰهُ اٰدَمَؑ قَسَّمَ ذَالِکَ النُّورَ جُزْئَیْنِ فَجُزْءٌ اَنَا وَ جُزْءٌ عَلِیٌّؓ۔
(ریاض النضرہ جلد سوم صفحہ 120 ذکر اختصاص علیؓ الخ طبوعہ بیروت)
سیدنا سلیمانؓ سے روایت ہے کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا میں اور
سیدنا علی المرتضیٰؓ اللہ تعالیٰ کے حضور آدمؑ کے پیدا کیے جانے سے 14 ہزار سال پہلے ایک نور تھے پھر جب اللہ نے آدمؑ کو پیدا کیا تو اس نور کے دو حصے کیے ایک جز میں اور دوسرا سیدنا علیؓ ہوئے۔
نوٹ
یہ حدیث ملتے جلتے الفاظ سے مختلف کتب میں ذکر ہے لیکن ان کا بنیادی مقصد تقریبا ایک جیسا ہے اس روایت کے بارے میں علامہ جلال الدین السیوطی کی تحریر ملاحظہ فرمائیے۔
لألی المصنوعہ فی احادیث الموضوعہ:
عن ابی ذرؓ مرفوعاً خُلِقْتُ اَنَا وَ عَلِیٌّؓ مِنْ نُورٍ وَ کُنَّا مِنْ یَمِیْنِ العَرْشِ قَبْلَ اَنْ یَخلُقَ اللّٰهُ اٰدَمَؑ فَانْقَلَبْنَا فِیْ اَصْلابِ الرِّجَالِ ثُمَّ جُعِلْنَا فِی صُلْبِ عَبْدِ المُطلب ثُمَّ شُقَّ اَسْمَائُنَا مِنْ اِسْمِهِ فَاللّٰهُ مَحْمُودٌ وَ اَنَا مُحَمَّدٌ واللّٰهُ الْاعلیٰ وَ عَلِیؓ وَ عَلِیؓ۔ وَضَعَهُ جَعْفَرٌ کَانَ رَافِضِیّاً وَضًاعًا۔
(للوألی المصنوعہ جلد اول صفحہ 166 مناقب خلفاء اربعہ)
ترجمہ:
سیدنا ابوذرؓ سے مرفوعا مروی ہے کہ میں اور سیدنا علیؓ ایک نور سے بنائے گئے ہم عرش کی دائیں طرف تھے جبکہ ابھی آدمؑ کی پیدائش کو ہزار سال پڑے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے آؑدم کو پیدا کیا پھر ہمیں اللہ تعالیٰ نے مردوں کی پشتوں میں منتقل کیا پھر ہمیں عبدالمطلب کی پشت میں منتقل کیا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں میں سے ہمارے نام مشتق فرمائے بس اللہ تعالیٰ محمود اور میں محمد ہوں۔اور اللہ تعالیٰ اعلیٰ ہے اور علیؓ، علیؓ ہے۔
اس حدیث کو ایک رافضی جعفر نامی نے گھڑا وہ احادیث باکثرت گھڑتا تھا۔
ریاض النضرہ:
ترجمہ
سیدنا ابوذر غفاریؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہﷺ کو معراج کرایا گیا آپﷺ نے فرمایا میں ایک فرشتے کے پاس سے گزرا جو نوری تخت پر بیٹھا ہوا تھا اس کا ایک قدم مشرق اور دوسرا مغرب میں تھا اس کے پاس ایک تختی تھی جسے وہ دیکھتا تھا تمام دنیا اس کے سامنے اور تمام مخلوق اس کے گھٹنوں کے درمیان تھی۔اس کا ہاتھ مشرق اور مغرب تک پھیلا ہوا تھا میں نے جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون ہے؟عرض کیا یہ عزرائیلؑ ہے میں نے اگے بڑھ کر اسے سلام کیا اس نے جواب دیا۔وَعَلَیْکَ السَّلامُ یَا اَحْمَدُ مَا فَعَلَ ابْنُ عَمِّکَ وَ عَلِیٌّ؟اے احمد تم پر بھی سلام ہو تمہارے چچا زاد بھائی سیدنا علیؓ نے کیا کیا آپﷺ نے پوچھا کیا تو میرے چچا زاد بھائی کو جانتا ہے اس نے کہا کیف لا اعرفہ وَقَد وکّلنِی اللّٰہُ بِقَبضِ اَروَاحِ الخَلائِقِ مَا خَلا رُوحَدَ وَرُوحَ اِبنِ عَمّکَ عَلیٍّؓ ابن ابی طالب فَاِنَّ اللّٰہَ یَتَوفّٰی کُمَا بِمَشیتَہٖ میں اسے کیوں کرنا جانو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام ارواح قبض کرنے پر مقرر کیا ہے صرف آپﷺ اور آپ کے چچا زاد بھائی سیدنا علیؓ کی روح قبض نہیں کروں گا بے شک اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے تم دونوں کی روحیں قبض کر لے گا۔
(ریاض النظرہ جلد سوم صفحہ121 مطبوعہ بیروت)
قارئین کرام !
یہ روایت قرآن کریم اور احادیث مشہورہ کے خلاف ہے قرآن کریم میں قُلْ یَتَوَفَّاکُمُ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِی وَکُّلِ بِکُمْ۔
کے الفاظ اپنے عموم پر ہیں فرما دیجئے کہ تمہاری جانیں ملک الموت قبض کرتا ہے جو تم پر مقرر کیا گیا ہے
اور احادیث مشہورہ میں صاف صاف مذکور ہے کہ عزرائیلؑ جب حضورﷺ کی روح اقدس کو قبض کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو انہوں نے اس کی اجازت طلب کی تھی لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ روایت بے اصل اور بے سند ہے اور قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔
ذخائر عقبیٰ:
سیدنا عمرؓ سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابوعبیدہؓ اور سیدنا ابوبکرؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت بیٹھے ہوئے تھےکہ حضورﷺ نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے فرمایا اے سیدنا علیؓ تو اول المومنین ہے ایمان کی رو سے اور اسلام کی رو سے اول المسلمین ہے اور تو میرے ساتھ یوں ہے جیسے موسیؑ کے ساتھ ہارونؑ تھے سیدنا ابوذر غفاریؓ نے روایت کیا کہ میں نے حضورﷺ سے سنا اپ نے سیدنا علیؓ کے بارے میں فرمایا تو سب سے پہلا شخص ہے جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی اور معاذہ العدویہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا علی المرتضیؓ کو ممبر پر بیٹھے ہوئے کہتے ہوئے سنا میں سیدنا صدیق اکبرؓ ہوں ۔
(ذخائر عقبیٰ صفحہ 58 زکر انہ علیہ السلام اول من اسلم مطبو بیروت)
قارئین کرام!
"انت منی بمنزلت ہارونؑ من موسیؑ" اور "انا صدیق اکبرؓ" ان دونوں روایات کو علامہ سیوطیؒ نے اللوألی المصنوعہ میں با ترتیب جلد اول صفحہ 177 جلد اول صفحہ 166 مطبوعہ حیدر آباد دکن میں موضوع فرمایا ہے مختصر یہ کہ ان دونوں کتابوں کے مصنف علامہ طبری کے پیش نظر یہ مقصد تھا کہ ہر موضوع کے متعلق جو روایات مل سکیں انہیں درج کر دیا جائے علامہ طبری کے بارے میں یہ بات یقینی ہے کہ وہ اہلِ سنت کے ممتاز عالم اور حدیث دان تھے لیکن ان کی مذکورہ تصانیف کا اصل مقصود جو تھا وہ ہم نے بیان کر دیا لہٰذا انہیں اہلِ سنت کی معتبر کتابوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان میں درج روایات اور احادیث آنکھیں بند کر کے قبول کی جا سکتی ہیں اس لیے ان کے حوالہ جات سے شیعہ مصنفین کا اپنے مسلک باطل کی صحت پر استدلال درست نہیں ہے
فاعتبروا یا اولی الابصار