Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سپہ سالاروں کے نام سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا خط

  علی محمد الصلابی

سپہ سالاروں کے نام سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا خط

مختلف خطوط میں سپہ سالاروں کے نام پہلا خط جاری کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا:

’’حمد و صلوٰۃ کے بعد! یقیناً تم مسلمانوں کے پاسبان اور دفاع کرنے والے ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تمہارے لیے جو اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں وہ ہم میں سے کسی پر مخفی نہیں بلکہ وہ ہمارے سامنے طے ہوئے تھے۔ خبردار میں یہ نہ سننے پاؤں کہ کسی نے اس میں کوئی تغیر و تبدل کیا ہے، ورنہ اللہ تمہیں بدل دے گا اور تمہاری جگہ دوسروں کو لا کھڑا کرے گا۔ تم دیکھو تمہیں کیا کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جس چیز میں غور و فکر کرنے اور اس کو قائم رکھنے کی ذمہ داری میرے سر ڈالی ہے میں اس کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘

(تاریخ الطبری: جلد، 5 صفحہ، 244)

اس خط کے اندر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو واشگاف کیا کہ خلیفہ کے بدلنے سے امورِ سلطنت میں کوئی تغیر نہیں پیدا ہو گا، کیوں کہ خلفاء و امراء سب کا منہجِ عمل ایک ہی ہے وہ یہ کہ لوگوں کی زندگی میں اسلام کا نفاذ ہو۔

اور اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تمہارے لیے جو اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں وہ ہم میں سے کسی پر مخفی نہیں بلکہ وہ ہمارے سامنے طے ہوئے تھے۔‘‘ اس بات کی طرف کھلا اشارہ ہے کہ ان خلفاء کی حکومت شورائیت پر قائم تھی، جس کا یہ نتیجہ ہے کہ تمام اہم امور و مسائل اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ اہلِ حل و عقد کے سامنے ہوتے ہیں، اس لیے ایک حاکم کے جانے کے بعد جب دوسرا حاکم آتا ہے تو وہ بھی اسی منہج پر کاربند ہوتا ہے کیوں کہ ہدف سب کے سامنے واضح ہوتا ہے۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ ’’کوئی تغیر و تبدل نہ کرنا ورنہ اللہ تمہیں بدل دے گا۔‘‘ اس کے اندر اس کائنات میں سنتِ الہٰی کا صحیح فہم پنہاں ہے۔ اولیاء اللہ کے ساتھ اللہ کی توفیق اور حمایت و نصرت اور اس کی معیت، شریعت کے التزام اور امرِ الہٰی کی اتباع کے ساتھ مشروط ہے، جب لوگ اس میں تغیر و تبدل کا شکار ہوں گے تو اللہ تعالیٰ غلبہ و اقتدار کی حالت کو بدل دے گا اور ان کی جگہ دوسروں کو لا کھڑا کرے گا۔

(التاریخ الاسلامی: جلد، 12 صفحہ، 370) 

ارشادِ الہٰی ہے:

لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِا للّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ (سورة الرعد: آیت، 11)

ترجمہ: ’’اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں، کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں، جو ان کے دلوں میں ہے، اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو سزا دینے کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہ بدلا نہیں کرتا، اور سوائے اس کے کوئی بھی ان کا کارساز نہیں۔‘‘

اس خط کے اندر آپؓ نے انہیں اس بات سے آگاہ فرمایا کہ وہ اپنے واجبات سے واقف رہیں اور اس کو ادا کرنے میں لگے رہیں تاکہ واجبات کے شعور و احساس اور اس پر عمل پیرا ہونے میں راعی و رعیت کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رہے اور ہر فرد کے اندر یہ شعور بیدار ہو کہ اپنی قوم کے لیے اسی طرح کام کرے جس طرح اپنی ذات کے لیے کرتا ہے۔

(عثمان بن عفان، صادق عرجون: صفحہ، 199)