Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی غزوات میں شرکت

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

سیدنا عثمان غنیؓ کی غزوات میں شرکت

سیدنا عثمان غنیؓ نے ان تمام غزوات میں (سوائے بدر) کے بنفس نفیس حصہ لیا جو اسلام کی خاطر پیش آئے تھے آپؓ غزوہ بدر میں شرکت کے بہت متمنی تھے مگر چونکہ حضورﷺ کی صاحبزادی سیدہ رقیہؓ بیمار تھیں اور انہیں سہارے کی ضرورت تھی اس لیے حضورﷺ نے سیدنا عثمانؓ کو حکم فرمایا کہ وہ اس غزوہ میں نہ جائیں بلکہ سیدہ رقیہؓ کی تیمارداری کریں اور ان کی بیماری میں ان کا سہارا بنیں یہ ایسے ہی ہے جیسے حضورﷺ نے سیدنا علیؓ کو غزوہ تبوک کے وقت روک دیا تھا اور انہیں گھر میں رہنے کی ہدایت فرمائی تھی۔

خلف رسول اللّٰہﷺ علیاؓ فی غزوہ تبوک فقال تخلفنی علی النساء والصیان

(مسند امام طحاوی جلد 3 صفحہ 156صحیح بخاری جلد2 صفحہ633)

چنانچہ سیدنا عثمانؓ مدینہ منورہ میں ٹھہرے رہے سیدہ رقیہؓ کی بیماری میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا اور عین اس وقت جب سیدنا زید بن حارثہؓ اور سیدنا عبداللّٰہ بن رواحہؓ بدر سے فتح اور کامیابی کی خوشخبری لے کر مدینہ منورہ میں داخل ہورہے تھے سیدنا عثمانؓ اپنی رفیقہ حیات اور محبوب بیوی سیدہ رقیہؓ کو جنت البقیع میں سپرد خاک کر رہے تھے اور غم و رنج سے نڈھال تھے۔

جاءت البشارۃ الی المؤمنین من اھل المدینہ مع زید بن حارثة و عبداللّٰه بن رواحة بما احل اللّٰه باالمشرکین وبما فتح علی المؤمنین وجدوا رقیۃ بنت رسول اللّٰہﷺ قد توفیت وساووا علیھا التراب

(البدایہ جلد3 صفحہ347)

سیدنا عثمان غنیؓ کسی ذاتی غرض اور کمزوری کی وجہ سے غزوہ بدر میں جانے سے نہیں رکے تھے آپؓ تو چاہتے تھے کہ اللّٰه کی راہ میں جہاد کریں اور اسلام کی سربلندی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیں یہ حضورﷺ کا حکم تھا کہ آپؓ بدر نہ جائیں بلکہ سیدہ رقیہؓ کی تیمارداری کریں اگر آپ کی نیت میں ذرا سا بھی فتور ہوتا اور کسی ذاتی غرض اور مصلحت سے آپؓ رکے ہوتے تو اللّٰه اور اس کے رسولﷺ کبھی آپؓ کو غزوہ بدر والوں کا سا اجر و ثواب ملنے کی بشارت نہ دیتے حضورﷺ نے آپؓ کو دوسرے مجاہدین بدر کی طرح مال غنیمت میں بھی حقدار بنایا اور آپؓ کو ان تمام دینی اور روحانی فضیلتوں اور برکتوں کا حامل بتایا جو غزوہ بدر میں شامل ہونے والے دوسرے مجاہدین کو حاصل ہوا تھا حضورﷺ نے فرمایا

تمہارے لئے مجاہدین بدر کی طرح ثواب بھی ہے اور مال غنیمت میں حصہ بھی۔

ان لک أجر رجل ممن شھد بدر وسھمه

(روح المعانی جلد2 صفحہ303)

ایک مرتبہ سیدنا عثمانؓ نے خود بھی فرمایا جس کے لئے حضورﷺ نے حصہ رکھا گویا شریک بدر ہی ہے۔

قد ضرب لی رسول اللّٰہﷺ بسھم ومن ضرب له رسول اللّٰہ ﷺ بسھم فقد شھد

(تفسیر کثیر جلد1 صفحہ419)

وضرب رسول اللّٰہﷺ لعثمانؓ بسھمه وأجرہ فی بدر فکان کمن شھدھا

(طبقات جلد3 صفحہ41)

حافظ ابن کثیرؒ (774ھ) لکھتے ہیں

ضرب له بسمھه فی مغانم بدر وأجره عند اللّٰہ یوم القیامه (البدایہ جلد3 صفحہ347)

شیعہ مؤرخ مسعودی نے لکھا ہے کہ غزوہ بدر کے وقت آٹھ افراد ایسے تھے جو غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے مگر انہیں اس کا پورا اجر اور حصہ ملا ان میں سیدنا عثمانؓ بھی ہیں

(دیکھئے التنبیہ والاشراف صفحہ205)

یہ اجر و ثواب کیا تھا جس کی سیدنا عثمانؓ کو خواہش تھی یہ اللّٰه جانے اور اس کا بندہ تاہم حضورﷺ نے غزوہ بدر میں شریک ہونے والے لوگوں کو جس اجر و ثواب ملنے کی بشارت سنائی ہے اسے دیکھیں

سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا

انی لأرجوا أن لایدخل النار من شھد بدرا ان شاءاللّٰہ

(مسندہ البدایہ جلد3 صفحہ329)

مجھے امید ہے کہ جس مسلمان نے غزوہ بدر میں شرکت کی وہ ان شاءاللّٰہ دوزخ میں نہیں جائے گا۔

سیدنا جابر بن عبداللّٰہؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا

لن یدخل النار رجل شھد بدرا أو الحدیبیه

(رواہ احمد البدایہ جلد3 صفحہ329)

جو شخص بدر اور صلح حدیبیہ میں شریک ہوا وہ ہرگز دوزخ میں نہیں جائے گا۔ حضورﷺ نے اہل بدر کی شان میں فرمایا ۔۔۔

لعل اللّٰہ اطلع الی اھل بدر فقال اِعملوا ماشئتم فقد وجبت لکم الجنۃ أو فقد غفرت لکم

( صحیح بخاری جلد2 صفحہ567، سنن ابوداؤد جلد2 صفحہ292)

یقینا اللّٰه تعالیٰ اہل بدر کے انجام حال سے باخبر ہے اس لئے فرمایا جو چاہو کرو میں نے تم سب کو بخش دیا ہے یا (یہ فرمایا) کہ یقیناً تمہارے واسطے جنت واجب ہو گئی۔

(ازالۃ جلد1 صفحہ47)

شیعہ عالم مرزا محمد تقی نے ناسخ التواریخ میں جنگ بدر میں شامل ہونے والے حضرات کے متعلق حضورﷺ کی دی ہوئی بشارت کو نقل کیا ہے اور انہوں نے اس پر کوئی جرح نہیں کی۔

(ناسخ التواریخ جلد1 صفحہ275)

سیدنا عثمان غنیؓ کو بدر کے غنائم (مال و سامان) کی حاجت نہ تھی اللّٰه تعالیٰ نے آپ کو بہت مال دیا تھا آپ کے پاس ساز وسامان کی کوئی کمی نہ تھی آپ کو مجاہدین بدر کا سا مقام دے کر یہ بتانا مقصود تھا کوئی شخص آپ کے بارے میں آئندہ یہ نہ کہے کہ سیدنا عثمانؓ بدر کے غزوہ میں شریک نہ تھے تاریخ گواہ کہ حضورﷺ کے اس ارشاد کے بعد کسی نے بھی سیدنا عثمانؓ کو مجاہدین بدر سے علیحدہ نہ سمجھا

علامہ حافظ ابن عبدالبر مالکی (463ھ) لکھتے ہیں:

فھو معدود فی البدریین

(استیعاب جلد2 صفحہ11)

امام شمس الدین ذہبیؒ (748ھ) لکھتے ہیں:

وعدده في البدريين لان النبيﷺ امره ان يتخلف على زوجته رقيةؓ ابنة رسول اللّٰہﷺ وضرب له بسهمه و اجره

( تذکره جلد1 صفحہ9)

جنگ بدر میں نہ جانے کے باوجود آپؓ کا شمار جنگ بدر میں شریک ہونے والے صحابہؓ میں ہوتا ہے کیونکہ حضورﷺ کی صاحبزادی اور ان کی اہلیہ بیمار تھیں آپﷺ انہیں ان کی تیمارداری کے لئے چھوڑ گئے تھے اور ان سے آپﷺ نے شرکت جہاد میں اجر کا وعدہ فرمایا تھا نیز مال غنیمت سے دوسرے صحابہؓ کے برابر حصہ بھی دیا تھا۔

(تذکرہ صفحہ 32- السيرة النبويه صفحہ 468)

مؤرخ شهیر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774ھ) لکھتے ہیں: فهو معدود فيمن شهدها

(البدايہ جلد 7صفحہ 200)

امام سیوطیؒ (911ھ) لکھتے ہیں۔

رسول اللّٰہﷺ جنگ بدر کی فتح کے بعد سیدنا عثمانؓ کو مال غنیمت سے مقررہ حصہ عطا فرمایا اور شرکاء بدر کی طرح انہیں اجر و ثواب کا مستحق بھی بتایا اس لیے آپ کا شمار اہل بدر میں ہوتا ہے۔

فھو معدود فی البدرین بذلک

(تاریخ الخلفاء صفحہ 116)

شیخ التفسیر مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ(1394ھ) لکھتے ہیں:

چونکہ یہ تخلف حضورﷺ کے حکم سے تھا اس لیے سیدنا عثمانؓ حکما بدر میں شمار کیے گئے ہیں۔

(سیرۃالمصطفیﷺ جلد 2 صفحہ 105)

(نوٹ)

سیدہ رقیہؓ کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد حضورﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی سیدہ ام کلثومؓ کو وحی الٰہی کی روشنی میں آپ کے نکاح میں دیا۔

مازوجت عثمانؓ ام کلثومؓ الا بوحی من السماء

✍️(مختصر تاریخ دمشق جلد 16 صفحہ 121)