Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا پہلا خطبہ

  علی محمد الصلابی

اس سلسلہ میں روایات مختلف ہیں کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے کون سا خطبہ دیا؟ بعض سیرت نگاروں کا کہنا ہے کہ آپؓ منبر پر تشریف لائے اور کہا:

’’اے اللہ! میں سخت ہوں مجھے نرم کر دے، میں کمزور ہوں مجھے قوت دے دے، میں بخیل ہوں مجھے سخی بنا دے۔‘‘ 

(شرح النووی علی صحیح مسلم: جلد، 12 صفحہ 206)

اور بعض روایتوں کے مطابق آپ کا پہلا خطبہ یہ تھا: ’’اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے تم کو آزمایا ہے اور میرے دونوں رفقاء کے بعد تمہارے ذریعہ سے مجھ کو آزمایا ہے۔ اللہ کی قسم تمہارا جو معاملہ میرے سامنے پیش ہو گا میں خود اس کو حل کروں گا اور جو معاملات مجھ سے دور ہوں گے ان کے لیے قوی و امین حضرات کو مقرر کروں گا۔ اللہ کی قسم! اگر لوگوں نے مجھ سے اچھا برتاؤ کیا تو میں ان سے اچھا برتاؤ کروں گا اور اگر غلط طریقہ سے پیش آئے تو انہیں سخت سزا دوں گا۔‘‘

جو لوگ اس خطبہ میں حاضر تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے اسی منشور پر عمل کیا، یہاں تک کہ اس دنیا سے چل بسے۔ 

(منہاج السنۃ: جلد، 1 صفحہ 142)

اور یہ بھی مروی ہے کہ جب آپؓ نے خلافت سنبھالی تو منبر پر تشریف لائے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جس زینہ پر بیٹھتے تھے اس پر بیٹھنا چاہا، پھر کہا: اللہ کو پسند نہیں ہے کہ میں خود کو حضرت ابوبکرؓ کی مجلس کا اہل سمجھوں اور پھر نیچے زینہ پر اتر گئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا:

’’تم قرآن پڑھو اس سے پہچانے جاؤ گے، اس پر عمل کرو قرآن والے ہو جاؤ گے، اپنے آپ کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور بڑی پیشی (قیامت) کے لیے تیاری کرو، جس دن کہ تم اللہ کے سامنے پیش کیے جاؤ گے اور کوئی چیز پوشیدہ نہ رہے گی۔ کسی حق دار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کی معصیت میں اس کی اطاعت کی جائے۔ سن لو میں نے اللہ کے مال کے بارے میں خود کو یتیموں کے ولی (نگران) کے قائم مقام کر لیا ہے۔ اگر مجھے مال ملا تو میں اسے اپنانے سے بچوں گا اور اگر فقیری لاحق ہوئی تو معروف طریقے سے کھاؤں گا۔‘‘ 

(شرح العقیدۃ الطحاویۃ: صفحہ 539 )

مذکورہ تمام روایات کے درمیان اس طرح جمع و تطبیق ممکن ہے کہ حضرت عمرؓ نے مجمع عام کے سامنے خطبہ دیا تھا، جس نے خطبہ کے جس حصے کو سنا اسے روایت کیا اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اوّل خطبہ میں آپؓ نے سیاسی، اداری اور دینی وعظ و نصیحت کو ایک ساتھ بیان کیا ہو، خلفائے راشدینؓ کا یہی طریقہ رہا ہے، انہوں نے اللہ سے تقویٰ نیز اس کے حکم اور انسانوں کی سیاست کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔

اسی طرح حضرت عمرؓ کے لیے یہ بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ آپؓ اپنے سلف عظیم حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مقام و مرتبہ کی پوری رعایت کرتے ہوئے ان کی جگہ پر نہ بیٹھے ہوں کہ کہیں لوگوں کی نگاہ میں آپؓ ان کے برابر نہ سمجھے جائیں۔ اسی خیال کے پیش نظر سیّدنا عمرؓ نے اپنا محاسبہ کیا اور ابوبکرؓ کی جگہ سے نیچے اتر آئے۔ 

(مناقب أمیر المؤمنین: ابن الجوزی: صفحہ، 170، 171 )

دوسری روایت کے مطابق آپؓ نے خلیفہ بنائے جانے کے دو دن بعد لوگوں سے اپنی تند مزاجی اور سخت گیری کے بارے میں سوچا اور کہا کہ اپنے بارے میں لوگوں کے شکوک و شبہات خود ہی دور کر دینا ضروری ہے۔ چنانچہ آپؓ منبر پر تشریف لائے، لوگوں کو مخاطب کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیز حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ ان کی صحبت اور معاملات کا ذکر کیا اور بتایا کہ کس طرح ان سے راضی و خوشی ہونے کی حالت میں وہ دونوں اس دنیا سے رخصت ہوئے، پھر فرمایا:

’’ اے لوگو! میں تمہارے معاملات کا حاکم بنایا گیا ہوں، جان لو کہ (میری) سختی دوگنی ہو گئی ہے لیکن وہ ظلم و زیادتی کرنے والوں کے لیے ہے، جان لو میں کسی کو کسی پر ظلم کرتے ہوئے یا سرکشی کرتے ہوئے نہیں چھوڑوں گا، میں ظالم کے ایک رخسار کو زمین پر اور دوسرے رخسار پر پاؤں رکھوں گا یہاں تک کہ وہ حق کے تابع ہو جائے اور اس سختی کے بالمقابل شرفاء اور نیکوکاروں کے لیے اپنا رخسار زمین پر رکھنے کو تیار ہوں۔ اے لوگو! مجھ پر تمہارے کچھ حقوق ہیں، جسے میں تمہیں بتا رہا ہوں اسے تم مجھ سے لے لو، تمہارا مجھ پر حق یہ ہے کہ تمہارے خراج میں سے کوئی بھی چیز میں اپنی پسند سے نہ لوں اور نہ اس مال سے لوں جو اللہ نے تم کو بطورِ غنیمت دیا ہے، مگر اس کی رضامندی کے لیے، اور مجھ پر تمہارا یہ حق بھی ہے کہ جب کوئی مال میرے ہاتھ میں آئے تو وہ جائز مقام پر ہی خرچ ہو اور اگر اللہ چاہے تو تمہارے وظائف اور عطیات کو بڑھا دوں، سرحدوں کو بند کر دوں، تمہیں خطرات میں نہ ڈالوں اور لمبی مدت تک اہل و عیال سے تم کو دور کر کے جنگی مورچہ پر باقی نہ رکھوں، اور جب تم جنگ پر چلے جاؤ تو میں اہل و عیال کا محافظ رہوں، یہاں تک کہ تم ان کے پاس لوٹ آؤ۔ پس اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو، اور اپنے نفوس کے بارے میں اسے مجھ سے روک کر میری مدد کرو اور بھلائی کا حکم دے کر، برائی سے روک کر اور اپنے متعلق میری ذمہ داری سے مجھے آگاہ کر کے میری مدد کرو۔ انہی کلمات پر اپنی بات ختم کرتا ہوں اور اللہ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے مغفرت کا طالب ہوں۔‘‘ 

(الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، دیکھئے حمدی شاہین: صفحہ 120 )

اور ایک روایت میں ہے کہ آپؓ نے فرمایا:

’’عرب والوں کی مثال نکیل زدہ اونٹ کی طرح ہے جو اپنے قائد کے تابع ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے قائد کو دیکھنا چاہیے جہاں وہ جاتا ہے اس کے پیچھے جائیں اور میں تو اللہ کی قسم لوگوں کو سیدھے راستہ پر ہی لے کر جاؤں گا۔‘‘ 

منصب خلافت سنبھالنے کے بعد خطبۂ فاروقیؓ کے بارے میں وارد شدہ ان تمام روایات سے آپؓ کے نظام حکومت کا ایسا منشور سامنے آتا ہے جس سے ہٹ کر چلنے کی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہیں ہے۔ آپؓ کے نظامِ حکومت کے نمایاں خدوخال کچھ اس طرح ہیں:

1۔ آپؓ خلافت کو ایک آزمائش سمجھتے تھے کہ جس سے آپؓ آزمائے گئے ہیں اور یہ کہ اس کے حق کی ادائیگی سے متعلق آپؓ کا محاسبہ کیا جائے گا۔ گویا حکومت خلفائے راشدینؓ کی نگاہ میں عظمت، شرافت، اور بلندی کی چیز نہیں بلکہ وہ ایک عظیم ذمہ داری، فریضہ الہٰی اور آزمائشِ ربانی تھی۔

2۔ آپؓ کی نگاہ میں منصب خلافت کا یہ تقاضا ہے کہ ملکی ذمہ داریوں سے متعلق جو معاملات بھی آپؓ کے سامنے آئیں انہیں آپؓ خود حل کریں اور رعایا پر جو آپ سیدنا ابوبکرؓ سے دور ہیں بہترین و باصلاحیت امراء اور گورنر مقرر کریں، تاہم آپؓ کی نگاہ میں اللہ کے سامنے جواب دہی اور اپنی ذمہ داری سے سبکدوشی کے لیے صرف اتنا کرنا کافی نہیں تھا، بلکہ آپؓ کا کہنا تھا کہ ان گورنروں اور حکام کی سخت نگرانی کرنا ایک ایسی ذمہ داری ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی وجہ سے ان میں سے جس نے بہتر کام کیا آپؓ نے اس کے ساتھ احسان کیا اور جس نے آپؓ کی مرضی کے خلاف کیا اس کی آپؓ نے گرفت کی اور سزا دی۔

اس موضوع پر تفصیلی بحث ’’گورنروں کا نظام اور اس کی ترقی میں فقہ فاروقی کا کردار‘‘ کے زیر عنوان آ رہی ہے۔

3۔ حضرت عمرؓ کی سختی جس سے لوگ خوفزدہ ہیں وہ ان کے لیے خالص نرمی اور مہربانی میں بدل دیں گے اور ان کے لیے عدل و انصاف کا میزان قائم کریں گے اور جس نے ظلم و زیادتی کی اسے سخت سزا ملے گی اور رسوائی اس کے ہاتھ آئے گی۔ ’’کسی ظالم کو کسی پر ظلم اور سرکشی کرتے ہوئے نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ اس کا رخسار زمین سے رگڑ دوں گا‘‘ البتہ جس نے میانہ روی، دین داری اور پاک دامنی کو ترجیح دی وہ بے انتہا رحمت و مہربانی سے نوازا جائے گا۔ آپؓ نے سچ کہا کہ ’’میں اپنا چہرہ شرفاء کے لیے زمین پر رکھتا ہوں۔‘‘ 

(الإدارۃ العسکریۃ فی عہد الفاروق: صفحہ 106)

 اپنی رعایا کے ساتھ حضرت عمرؓ کا عدل و انصاف کیسا تھا؟ یہ بات ان شاء اللہ نظامِ عدل سے متعلق آپؓ کے مواقف اور اس پر آپؓ کے خصوصی اہتمام کے تحت ذکر کی جائے گی، جس سے معلوم ہو گا کہ ملک کے تمام صوبوں میں عدل و انصاف کا کس قدر بول بالا تھا۔ 

4۔ خلیفۃ المسلمین نے اس بات کی ذمہ داری قبول کی کہ امتِ مسلمہ کی جان و اموال اور ان کے دین کا مکمل دفاع کرے گا، سرحدوں کی حفاظت کرے گا اور خطرات کو پیچھے دھکیلے گا، لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ مجاہدینِ اسلام پر ظلم نہ ہو، سرحد کی اس حد تک انہیں جانے پر مجبور نہ کرے گا کہ جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے، اور اگر وہ لشکر میں نظر نہ آئیں (یعنی شہید کر دیے جائیں) تو خلیفہ اور اس کے اداری ذمہ داران و ارکان ان کے بچوں اور خاندانوں کی کفالت کریں گے۔

(السیاسیۃ الشرعیۃ: دیکھئے اسماعیل بدوی: صفحہ 160 نقلاً عن الطبری )

حضرت عمرؓ نے عسکری ادارے کو ترقی دی اور اپنے دور میں وہ ایسا زبردست فوجی ادارہ بنا کہ پوری دنیا میں اس کی کوئی مثال نہ تھی۔ 

5۔ خلیفہ نے پوری رعایا کے لیے خراج اور فے وغیرہ سے مالی حقوق کی ادائیگی کا عہد کیا کہ وہ اس میں سے کچھ روک کر نہ رکھے گا، وہ اسے ناجائز مقام پر خرچ نہ کرے گا، بلکہ مسلسل جہاد، غزوات اور محنت کی کمائی پر رغبت دلا کر نیز ملکی آمدنی کی بروقت وصولی کے ذریعہ سے ان کے وظائف اور عطیات میں اضافہ کرے گا۔ 

(الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین: صفحہ 121)

سچ تو یہ ہے کہ سیّدنا عمرؓ نے مالی محکمہ اور ملکی خزانہ کو بہت ترقی دی، بیت المال کی آمدنی کے ذرائع اور ملکی مفاد میں اس کے مصارف کو نہایت منظم کیا۔ 

6۔ خلیفہ کے حقوق جو رعایا سے متعلقہ ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ اپنے خلیفہ کے لیے خیر خواہی اور اس کی سمع و اطاعت کی ذمہ داری بہترین طریقے سے نبھائے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرے جس سے سماج میں اسلامی ذہنیت کی نشوونما ہو۔

7۔ آپؓ نے خطبہ میں اس بات کی طرف آگاہ کیا کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں اللہ سے تقویٰ، نفس کا محاسبہ اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے علاوہ کوئی دوسری چیز معاون نہیں ہو سکتی۔

8۔ شیخ عبدالوہاب النجارؒ نے فرمان حضرت عمرؓ ’’عربوں کی مثال نکیل زدہ اونٹ جیسی ہے‘‘ پر تعلیق چڑھاتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اَلْجَمَلُ الْآنِفُ‘‘ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو مالک کے تابع ہوتا ہے، ڈانٹ اور مار پڑتے ہی اپنی پوری طاقت سے چلنے لگتا ہے۔ آپؓ نے اس مثال کے ذریعہ سے اپنے زمانے کی امتِ مسلمہ کی بہترین تصویر کشی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ امت سامع و مطیع تھی، جو حکم ملتا تو پابندی کرتی اور جب کسی کام سے روکا جاتا تو فوراً رک جاتی۔ ساتھ ہی یہ عظیم ذمہ داری اس کے قائد پر بھی عائد ہوتی ہے کہ امت کی قیادت میں بڑی توجہ اور دانائی سے کام لے تاکہ نہ تو اسے خطرات میں ڈال دے اور نہ ہی ہلاکت میں غرق کر دے۔ اس کے کسی معاملہ کو غرور میں آ کر یونہی نظر انداز نہ کر دے۔ آپؓ نے خطبہ میں ’’راستہ‘‘ سے وہ سیدھا راستہ مراد لیا ہے جس میں کوئی کجی نہیں ہے، اور اس طرح جو قسم کھائی تھی اسے آپؓ نے پورا بھی کیا۔

(الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین: صفحہ 121 محض الصواب: جلد، 1 صفحہ 375 )

9۔ تند مزاجی، سخت گیری اور نرمی کے بارے میں سنت الہٰی، لوگوں کے حالات، ان کی اجتماعی زندگی، کسی شخص کو چاہنے اور اس پر اتفاق کرنے، اس کی بات ماننے اور اس سے محبت کرنے کے بارے میں اللہ کی ہمیشہ یہ سنت رہی ہے کہ تند مزاج اور سخت دل انسان سے لوگ دور بھاگتے رہے ہیں، اگرچہ وہ ناصح اور لوگوں کے لیے خیر خواہ اور فائدہ مند ہی کیوں نہ ہو۔ 

(الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین: صفحہ 121 )

اور اس حقیقت پر قرآن بھی شاہد ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: 

فَبِمَا رَحۡمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنۡتَ لَهُمۡ‌ وَلَوۡ كُنۡتَ فَظًّا غَلِيۡظَ الۡقَلۡبِ لَانْفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِكَ‌ فَاعۡفُ عَنۡهُمۡ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ وَشَاوِرۡهُمۡ فِى الۡاَمۡرِ‌ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ‌ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُتَوَكِّلِيۡنَ ۞ (سورۃ آل عمران: آیت 159)

ترجمہ: ’’پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہو گیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقیناً وہ تیرے گرد سے منتشر ہو جاتے، سو ان سے در گزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر۔‘‘

چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ جب منصب خلافت پر سرفراز ہوئے تو آپؓ نے یہ دعا کی: ’’اے اللہ! میں سخت ہوں مجھے نرم کر دے‘‘ اور اللہ نے آپؓ کی یہ دعا قبول فرمائی، پھر حضرت عمرؓ کا دل شفقت، نرمی اور مہربانی سے معمور ہو گیا اور یہ چیزیں آپؓ کی خاص صفت بن گئیں۔ لوگوں نے حضرت عمرؓ کو اللہ کے رسولﷺ اور ابوبکرؓ کے زمانے میں سخت مزاج انسان کی حیثیت سے پہچانا تھا اور تاریخ نے بھی ہمارے سامنے یہی تصویر کشی کی ہے کہ آپؓ کی ذات وہ منفرد ہستی تھی جس نے اسلام قبول کرنے سے لے کر خلافت کا منصب سنبھالنے تک رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے پہلو بہ پہلو سختی اور قوت کا مظاہرہ کیا، یہاں تک کہ جب معاملہ (خلافت) آپؓ کے سر آ گیا تو وہ سختی، نرمی، آسانی اور رحمت میں تبدیل ہو گئی۔

(الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین: صفحہ 122 )

10۔ خلفائے راشدینؓ کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے حق میں عمومی بیعت مدینہ والوں تک محدود تھی، کبھی کبھار اس بیعت میں ایسے بدوی اور دیگر قبائل کے لوگ شریک ہو جاتے جو مدینہ کے اردگرد ہوتے یا اس وقت مدینہ میں موجود ہوتے۔ لیکن بقیہ شہروں کے لوگ مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں طے پانے والے فیصلوں کے تابع ہوتے۔

یاد رہے کہ یہ طرزِ عمل بیعت میں کسی طعن یا اس کی شرعی حیثیت کو کم کرنے کی کوئی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ ہر شہر اور ہر علاقہ سے سارے مسلمانوں کو اکٹھا کرنا ایک مشکل ترین کام تھا، جب کہ ملک کے لیے کسی حاکم کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ انسانوں کی مصلحتیں اور ان کا نظام معاشرت معطل نہ ہونے پائے۔ مزید برآں دوسرے شہروں کے باشندوں نے سیّدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت خلافت کے بارے میں مدینہ میں جو فیصلہ ہوا اس کی تائید بھی کی، بعض کی تائید صراحتاً اور بعض کی ضمناً رہی۔ بلاشبہ ابتدائے اسلام میں لوگوں نے (ملک اور ملکی سالمیت کے لیے) جو اسلوب اپنایا وہ سب ایسے تجربات تھے جو ملک اور اس کے اداروں کی ترقی کی راہ میں مستحکم لائحہ عمل ہیں۔ 

(الخلفاء الراشدون: صفحہ 123)