کیا ثقہ اور مستند مورخین کی کتابوں میں موجود روایات قابل استناد ہیں ؟
ابومعاویہ تقی الدین احمد** کیا ثقہ اور مستند مورخین کی کتابوں میں موجود روایات قابل استناد ہیں ؟
تاریخ کی کتابوں سے استفادے کے آداب**
تاریخ اسلام پر موجود کتابوں کی اپنی جگہ اہمیت ہے اس سے کسی کو انکار نہیں۔ اور ان کے مولفین کی امامت وثقاہت پر بھی اتفاق ہے۔ لیکن مورخ کے ثقہ ہونے سے اس کی کتاب میں موجود تاریخی روایات کی توثیق نہیں ہوجاتی۔ بلکہ ان سے استدلال سے پہلے ان کی تحقیق اسی منہج اور قواعد پر کی جائے گی جن کا اعتبار حدیث اور رجال حدیث کی تحقیق میں محدثین نے کیا ہے۔
تاریخ اور سیرت کے طلبہ پر یہ حقیقت مخفی نہیں ہے کہ صحت وضعف سے قطع نظر مورخ تاریخی موضوعات پر متوفر مواد کو اکٹھا کر دیتا ہے۔ لیکن اس سے اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ یہ سب صحیح روایات اور قصے ہیں۔
اب محقق کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان فنون کے قواعد وضوابط کی روشنی میں ان پر صحت وضعف کا حکم لگائے اور ان سے فائدہ اٹھائے۔
اس لئے ثقہ مولف کی ذکر کردہ روایات کی توثیق کی دلیل کسی بھی صورت میں مولف کتاب کا ثقہ اور معتبر ہونا نہیں بن سکتا۔
مورخین خود جگہ جگہ مناسبات سے روایتوں پر تنقید کرتے ہیں۔ کبھی وہ یہ تصریح بھی کر دیتے ہیں کہ پیش رو مولف کے ذکر کرنے کی وجہ سے ہم نے بھی یہ واقعہ ذکر کیا ہے۔
اس سلسلے میں ان کے اقوال بہت مشہور ہیں:
"من أسند فقد أحالک"
"من أسند فقد برئت ذمته"
اور
"العھدة علی الناقل"
ابن جریر اور ابن کثیر وغیرہ ائمہ حدیث وتفسیر وتاریخ اپنی کتابوں میں اس طرح کے جملے دہراتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انھوں نے ایک موضوع پر موجود صحیح،ضعیف،موضوع ہر طرح کی روایات،بلکہ اسرائیلیات تک کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔ ان روایات کی تحقیق کی ذمے داری اہل علم کی ہے۔
ناقدین حدیث نے یہ ذمہ داری ادا کی۔ عام آدمی اگر بغیر تحقیق کے ان روایات سے استدلال شروع کر دے گا تو علم وفن پر ظلم ڈھانے کے علاوہ اور کیا ہوگا۔
ہر صاحب عقل وانصاف ان باتوں کو سمجھتا ہے۔ تاریخ کا ادنی طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ تاریخ میں ہر طرح کی رطب ویابس باتیں مذکور ہوتی ہیں۔ عام طور پر ان اقوال اور وقائع کی سندیں ہوتی ہیں،اسی لئے محققین کا فریضہ ہے کہ وہ ان روایات پر اعتماد سے پہلے ان کی صحت وضعف پر نظر ڈالیں۔
تحریر: ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی۔
(حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ حیات وخدمات۔ص:237،238)
انتخاب اقتباس: ابومعاویہ تقی الدین احمد