Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ساتویں دلیل:

  امام ابن تیمیہ

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ساتویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ساتویں دلیل یہ آیت ہے:

﴿لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی﴾ [الشوری۲۳]

’’ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی ۔‘‘

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی مسند میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی :

﴿لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی﴾ [الشوری۲۳]

’’ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی ۔‘‘

تو صحابہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! آپ کے کون سے قریبی رشتہ دار ہیں جن سے محبت رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما اور ان کے دونوں بیٹے۔‘‘

تفسیر ثعلبی اور بخاری و مسلم میں بھی اسی طرح مروی ہے۔ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا دیگرتینوں خلفاء و صحابہ سے محبت رکھنا واجب نہیں ۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سے افضل ٹھہرے اور وہی امام ہوں گے۔ بنا بریں ان کی مخالفت محبت کے منافی ہے اور محبت کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے، لہٰذا آپ واجب الاطاعت ہوئے۔امامت سے یہی مراد ہوتی ہے ۔‘‘[شیعہ کا کلام ختم ہوا]۔

[جواب]:اس کاجواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے:

پہلی وجہ:....ہم اس حدیث کی صحت ثابت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ شیعہ کا یہ کہنا کہ : امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے ‘‘ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ماشاء اللہ کہ مسند احمد کے کئی نسخے موجود ہیں ۔ان میں سے کسی ایک میں بھی یہ روایت موجود نہیں ہے۔ اس سے بھی بڑا جھوٹ یہ ہے کہ شیعہ کہتا ہے: یہ حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے۔حالانکہ ان دونوں کتابوں میں کوئی ایسی روایت موجود نہیں ۔ بلکہ مسند اور صحیحین میں ایسی احادیث موجود ہیں ، جو اس کی نقیض ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ رافضی مصنف اور اس جیسے دوسرے ان کے علماء اہل علم کی کتابوں سے جاہل ہیں ۔ نہ ہی ان کا مطالعہ کرتے ہیں او رنہ ہی ان کو یہ علم ہوتا ہے کہ ان کتابوں میں کیا ہے ۔ میں نے ان میں سے بعض کودیکھا؛ اس نے احادیث کی متعدد کتابوں سے ایک کتاب جمع کی تھی۔ اس کی روایات کو کبھی بخاری کی طرف منسوب کرتا اورکبھی مسلم کی طرف ؛ کبھی مسند احمد کی طرف اور کبھی مغازلی اور موفق کی طرف ؛ اور کبھی خطیب خوارزمی اور ثعلبی اور ان جیسے لوگوں کی طرف۔ اس نے اپنی اس کتاب کا نام رکھا تھا: ’’ الطرایف في الرد علی الطوائف ۔‘‘ اور ایک دوسرے ابن بطریق نامی شیعہ مصنف نے ایک ایسی ہی کتاب تصنیف کی اور اس کا نام رکھا:’’ العمدۃ۔‘‘

اپنی روایات میں کثرت کے ساتھ جھوٹ بولنے کے باوجود یہ لوگ پھر بھی ابو جعفر محمد بن علی اور اس کے امثال سے کسی قدر بہتر ہیں ۔ابو جعفر نے بھی ان لوگوں کے لیے تصانیف لکھی ہیں ؛ او ران میں جھوٹ کی اس قدر بھر مار ہے کہ یہ جھوٹ صرف انتہائی جاہل ترین انسان پر ہی مخفی رہ سکتا ہے۔اور میں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ بہت ساری روایات کو بخاری و مسلم اور مسند احمد کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛ حالانکہ ان کتابوں میں کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہوتی۔ مسند احمد کی طرف ایسی روایات منسوب کرتے ہیں جن کی اصل میں کوئی حقیقت ہی نہیں ۔ مسند احمد کی طرف ایسی روایات منسوب کرتے ہیں جن کی اس کتاب میں کوئی اصل موجود ہی نہیں ۔

لیکن حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے حضرت ابوبکر و عمر اور حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے فضائل میں ایک کتاب تصنیف کی تھی ؛ اس میں آپ ایسی روایات لائے ہیں جو کہ مسند میں نہیں ہیں ۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ امام احمد جو کچھ مسند یا کسی دوسری کتاب میں روایت کرتے ہیں وہ حجت ہوجاتا ہے۔ بلکہ آپ بھی ایسے ہی روایت کرتے ہیں جیسے دوسرے اہل علم روایات نقل کرتے ہیں ۔ امام احمد نے مسند میں یہ شرط لگائی ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے روایت نہیں کرتے جو آپ کے نزدیک جھوٹ بولنے میں مشہور ہوں ۔ اگرچہ اس میں ضعیف روایات آجاتی ہیں ۔ مسند میں آپ کی شرط ایسے ہی ہے جیسے ابو داؤد نے سنن میں شرط لگائی ہے۔

جبکہ فضائل کی کتابوں میں آپ وہی کچھ روایت کرتے ہیں جو اپنے مشائخ سے سنتے ہیں ؛ خواہ وہ صحیح ہو یا ضعیف۔ اس لیے کہ ان میں مقصود یہ نہیں ہوتا کہ آپ وہی روایت نقل کریں جو آپ کے ہاں ثابت ہو۔ پھر اس کے بعد امام احمد کے بیٹے نے اس میں کچھ روایات زیادہ کی ہیں ۔ اور پھر ابو بکر القطیعی نے بھی اس میں روایات زیادہ کی ہیں ۔ جو روایات قطیعی نے زیادہ کی ہیں ان میں جھوٹ اور موضوع روایات بھی ہیں ۔ پھر ان لوگوں کی جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ انہوں نے امام احمد رحمہ اللہ کی مسند کا نام سن لیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ مسند أحمد میں جو کچھ ہے وہ سب امام احمد کا روایت کردہ ہے۔یہ بہت بڑی غلطی ہے۔اس لیے کہ جن مشائخ کا اس میں ذکر کیا گیا ہے وہ قطیعی کے مشائخ ہیں جو کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے متأخر لوگ ہیں ۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو کہ امام احمد سے روایت کرتے ہیں ۔امام احمد ان سے روایت نہیں کرتے۔یہ امام احمد کی کتاب مسند؛ کتاب الزہد؛ ناسخ اور منسوخ؛کتاب التفسیر؛اور دوسری کتابیں ہیں ۔آپ یوں روایت کرتے ہیں :

((حدثنا وِکیع، حدثنا عبد الرحمنِ بن مہدِی، حدثنا سفیان، حدثنا عبد الرزاقِ۔))

یہ امام احمد رحمہ اللہ کی سند ہے۔ اس کے برعکس عبداللہ رحمہ اللہ کی سند یوں آتی ہے:

((حدثنا أبو معمر القطِیعِی، حدثنا علِی بن الجعدِ، حدثنا أبو نصر التمار۔ ))

آپ کی کتاب فضائل صحابہ میں دونوں قسم کی اسناد پائی جاتی ہیں ۔ اور اس میں کچھ زیادات قطیعی سے بھی منقول ہیں ۔ وہ احمد بن عبد الجبار الصوفی اور اس کے امثال جیسے عبداللہ بن احمد کے طبقہ کے لوگوں سے روایت کرتا ہے۔ اس کی آخری حدیہ ہے کہ اس نے امام احمد رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہو۔ اس لیے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے آخری عمر میں حدیث کی روایت ترک کردی تھی۔ اس لیے کہ خلیفہ نے آپ سے مطالبہ کیا تھا کہ خلیفہ اور اس کے بیٹے کو تعلیم دیں اور ان کے پاس ہی قیام کریں ۔ آپ کو اپنے آپ پر دنیاکا فتنہ محسوس ہوا تو آپ نے مطلق طور پر حدیث روایت کرنا ترک کردیاتاکہ اس فتنہ سے محفوظ رہ سکیں ۔ اس لیے کہ اس سے پہلے خلفاء کے ساتھ جو احوال پیش آچکے تھے وہ مخفی نہیں تھے۔

قطیعی اپنی روایات کو اپنے مشائخ کے اساتذہ سے روایت کرتا تھا۔ اس سے روایت سننے والے خوش ہو جاتے تھے۔ قطیعی نے آپ کے شیوخ کے نام پر جو روایات نقل کی ہیں ان میں سے اکثر جھوٹ ہی جھوٹ ہیں ۔ پس جب ان لوگوں کے ہاتھ یہ کتاب لگی تو انہوں نے باقی تمام صحابہ کرام کے فضائل نہیں دیکھے؛ بس صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل دیکھ لینے پر اکتفا کر لیا۔اور جیسے جیسے مزید احادیث دیکھتے پڑھتے جاتے تو یہ خیال کرتے کہ ان کو روایت کرنے والے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں ۔ اس لیے کہ ان لوگوں کو رجال اور ان کے طبقات کا علم ہی نہیں ۔ اور یہ بات ممتنع ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ قطیعی کے مشائخ سے کوئی روایت نقل کریں ۔

ان لوگوں کی جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ انہوں نے امام احمد رحمہ اللہ کی مسند کا نام سن لیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ مسند أحمد میں جو کچھ ہے وہ سب امام احمد کا روایت کردہ ہے ۔چنانچہ امام احمد کی مسند میں جو قطیعی کی زیادہ کردہ روایات ہیں ؛ وہ ان کو بھی امام احمد کی روایات شمار کرنے لگ گئے۔ اور بسا اوقات قطیعی کی روایات پر بھی زیادہ کردیتے ہیں ؛ اس لیے کہ یہ لوگ جھوٹ سے ہر گز نہیں بچ سکتے۔یہی وجہ ہے کہ ’’ الطرائف ‘‘اور ’’العمدۃ ‘‘ کے مصنفین کبھی امام احمد رحمہ اللہ کی طرف ایسی روایات منسوب کرتے ہیں ؛ جو تو امام احمد نے نہ ہی کسی کتاب میں روایت کی ہوتی ہیں ؛ اور نہ ہی آپ نے کبھی وہ روایات سنی ہوں گی۔اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ : وہ روایات قطیعی نے زیادہ کی ہوں ۔ اور قطیعی نے جو من گھڑت اور جھوٹی روایات اس میں داخل کی ہیں ؛ وہ کسی بھی عالم پر مخفی نہیں ہیں ۔[امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے خلفاء اربعہ کے فضائل و مناقب میں ایک کتاب تصنیف کی تھی جس میں صحیح و سقیم ہر قسم کی روایات موجود ہیں ۔ بعد ازاں امام احمد کے بیٹے عبد اﷲ اور القطیعی نامی عالم نے بھی اس میں بہت کچھ اضافہ کیا تھا جس میں جھوٹی اور ضعیف روایات شامل کرلیں ۔ جہلاء نے سمجھا کہ یہ سب امام احمد کی مرویات ہیں حالانکہ یہ بدترین غلطی ہے۔ عبد اﷲ کی زیادات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انھوں نے اپنے والد حضرت امام احمد رحمہ اللہ سے روایت نہیں کیں ۔ القطیعی کی زیادات بھی عبد اﷲ بن احمد کی بجائے دیگر راویوں سے منقول ہیں ۔[الدراوی ؛کشمیری]]

اس رافضی کذاب کی نقول بھی ’’ العمدۃ ‘‘ اور ’’ الطرائف ‘‘ کے مصنفین کی جنس سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یہ معلوم نہیں کہ اس مصنف نے انہی کتابوں سے یہ سب کچھ نقل کیا ہے ؛ یا پھر ان کے ناقلین سے نقل کیا ہے ۔وگرنہ جس انسان کو علم کی ادنی سی بھی معرفت ہو ؛ اسے ایسی روایات صحیحین یا مسند احمد کی طرف منسوب کرنے سے حیاء آتی ہے۔ صحیحین اور مسند کے نسخوں سے زمین بھری ہوئی ہے ؛ ان میں کہیں بھی اس قسم کی کوئی روایت نہیں پائی جاتی۔ بلکہ حقیقت میں کسی بھی قابل اعتماد اہل علم نے اسے روایت نہیں کیا۔ اس قسم کی روایات وہی نقل کرتے ہیں جو رات کے اندھیرے میں لکڑیاں چن رہے ہوتے ہیں ۔جیسے ثعلبی اور اس جیسے دوسرے مصنفین ؛ جو کہ ہر موٹی اور چھوٹی چیزکو جمع کر لیتے ہیں مگر صحیح اور خراب کی تمیز سے عاری ہوتے ہیں ۔ 

دوسری وجہ :....یہ حدیث باتفاق محدثین و اہل علم جھوٹ ہے۔حدیث کی کسی بھی مستند کتاب میں اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔ اس حدیث کی حقیقت جاننے کے لیے ان ہی سے پوچھنا چاہیے کہ یہ کہاں سے گھڑ لائے ہیں ؟

تیسری وجہ:....اس پرمزید یہ کہ مذکورہ صدر آیت سورۂ شوریٰ میں شامل ہے، جو بالاتفاق مکی سورۃ ہے۔بلکہ تمام وہ سورتیں جو ’’ حَ،م سے شروع ہوتی ہیں ؛وہ مکہ میں نازل ہوئی ہیں ۔اس پر اہل سنت کا اتفاق ہے۔ یہ بھی معلوم شدہ بات ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نکاح سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ مدینہ میں ہوا تھا۔ حضرت حسن ۳ھ میں اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما ۴ھ میں پیدا ہوئے تھے۔ اس طرح یہ سورت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے وجود سے بھی کئی سال پہلے نازل ہوئی تھی۔ تو پھراب سوال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکی آیت کی تفسیر میں ان لوگوں کی محبت کو کیوں کر واجب قرار دے سکتے تھے ؛ جو کہ ابھی تک نہ ہی پیدا ہوئے ‘ اور نہ ہی ان کو کوئی پہچانتا تھا۔

چوتھی وجہ :....صحیح بخاری میں حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ قُلْ لَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی﴾ [الشوری ۲۳]

’’ کہہ دیجئے!کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی ۔‘‘

تو میں نے کہا : ’’اس سے مراد یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوان سے قرابت کا تعلق رکھنے والوں کی بابت اذیت نہ دو ۔‘‘

یہ سن کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ آپ نے جلد بازی سے کام لیا، قریش کا کوئی چھوٹا بڑا قبیلہ بھی ایسا نہ تھا جس کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دارانہ روابط نہ ہوں ۔ اس لیے فرمایا ﴿لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا﴾ یعنی اس قرابت داری کی بنا پر جو میں آپ سے رکھتا ہوں میں چاہتا ہوں تم مجھ سے محبت کا سلوک روا رکھو۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب التفسیر ، سورۃ الشوری(حدیث:۴۸۱۸،۳۴۹۷)۔]

آپ نے مفسر قرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ملاحظہ کیا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد اہل بیت میں سب سے بڑے عالم تھے۔ آپ فرماتے ہیں : اس سے مراد یہ نہیں کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کی محبت کاسوال کرتا ہوں ۔بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ : اے اہل عرب ! اے قریش کی جماعت ! میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ جو میرے اور آپ کے درمیان تعلق ہے : اس صلہ رحمی کا خیال کیجیے۔ اس پر کسی قسم کی سرکشی اور ظلم نہ کرو ؛ اور مجھے اللہ کے دین کی دعوت دینے دو۔

پانچویں وجہ:....اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں :

﴿ قُلْ لَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی﴾ [الشوری ۲۳]

’’ کہہ دیجئے!کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی ۔‘‘

یہ امر قابل غور ہے کہ آیت کے الفاظ ہیں ﴿ اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی﴾ یوں نہیں فرمایا:﴿اِلَّا الْمَوَدَّۃَ لِلْقُرْبٰی﴾ اور یوں بھی نہیں فرمایا:﴿اِلَّا الْمَوَدَّۃَ لِذَوِی الْقُرْبٰی﴾ اور اگر وہ مطلب مراد ہوتا جو شیعہ کہتے ہیں تو آیت کے الفاظ اس طرح ہوتے ﴿اِلَّا الْمَوَدَّۃَ لِذَوِی الْقُرْبٰی﴾ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیے:

۱....﴿وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی ﴾ (الأنفال۴۱)

’’جان لو کہ تم جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں پانچواں حصہ اللہ کا ہے اور رسول کا اوراہل قرابت کا ۔‘‘

۲....﴿مَا اَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرَی فَلِلَّہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِیْ الْقُرْبَی ﴾ (الحشر:۷)

’’ بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا ۔‘‘

۳....﴿فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَ الْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ﴾ (الروم:۳۸)

’’ قرابت داروں کو ان کا حق ادا کیجیے؛ اور مساکین کو اور مسافروں کوبھی ۔‘‘

۴....﴿ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی﴾ (البقرۃ:۱۷۷)

’’ اور اللہ کی محبت میں مال دیا اپنے قرابت داروں کو ۔‘‘

اس طرح کی آیات دیگر بھی کئی مقامات پر آئی ہیں ۔

قرآن کریم میں جہاں جہاں اقارب کے حق میں وصیت کی گئی ہے اسی قسم کے الفاظ آئے ہیں ۔[جہاں پران کے حق میں وصیت ہے تو] اس کے لیے ﴿ذوالقربیٰ﴾ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔[یہاں پر بھی ]اگر اقارب مراد ہوتے تو الفاظ یوں ہوتے :﴿اَلْمَوَدَّۃَ لِذَوِی الْقُرْبٰی﴾ یہاں پر ﴿في القربیٰ﴾ کا لفظ استعمال کیا گیاہے۔ تو معلوم ہوا کہ یہاں اہل قرابت کی محبت کا سوال نہیں ‘ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرابت کی محبت کی رعایت کا کہا گیا ہے۔

چھٹی وجہ :....اگر یہاں پر اقارب مراد ہوتے تو الفاظ یوں ہوتے:﴿اَلْمَوَدَّۃَ لِذَوِی الْقُرْبٰی﴾ ﴿في القربیٰ﴾کے الفاظ نہ ہوتے۔ اس لیے کہ عربی محاورہ میں یوں نہیں کہتے:﴿اَسْئَلُکَ الْمَوَدَّۃَ فِی فُلَانٍ﴾ بلکہ ’’ لفلان‘‘ بولتے ہیں ۔ 

ساتویں وجہ :....ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ رسول تبلیغ شریعت کی اجرت ہر گز طلب نہیں کرتا، بلکہ وہ صرف اللہسے اجرت کا طلب گار ہوتا ہے۔ اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿قُلْ مَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِینَ﴾ (الفرقان:۵۷)

’’فرما دیجئے: میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔‘‘

نیز فرمایا:﴿اَمْ تَسْئَلُہُمْ اَجْرًا فَہُمْ مِنْ مَّغْرَمٍ مُثْقَلُوْنَ﴾ (الطور:۴۰)

’’ کیا آپ اجرت طلب کرتے ہیں کہ وہ تاوان کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں ۔‘‘

ارشاد ہوتا ہے:﴿قُلْ مَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَہُوَلَکُمْ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ ﴾ (سباء ۴۷)

’’ فرما دیجئے: جو بدلہ تم سے مانگوں وہ تمہارے لیے ہے میرا بدلہ تو اللہ ہی کے ذمے ہے۔‘‘

لیکن یہاں پر استثناء منقطع ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿قُلْ مَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِِلَّا مَنْ شَآئَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا ﴾ [الفرقان ۵۷]

’’کہہ دیجئے :میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر جو شخص اپنے رب کی طرف راہ پکڑنا چاہے ۔‘‘

اس میں شبہ نہیں کہ اہل بیت کی محبت واجب ہے، مگر اس کا وجوب اس آیت سے ثابت نہیں ہوتا۔ ان کی محبت کو رسول کی اجرت بھی نہیں کہہ سکتے، بلکہ یہ ان امور میں سے ہے جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ وہ دیگر شرعی مامورا ت کی طرح عبادات کی حیثیت رکھتی ہے۔

حدیث صحیح میں آیا ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خُمّ پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

’’ میں تمھیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہکو یاد دلاتا ہوں ۔ میں تمھیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہکو یاد دلاتا ہوں ۔‘‘[صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ (حدیث:۲۴۰۸)۔ ]

ابوداؤد و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! لوگ اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکیں گے جب تک اللہتعالیٰ اور میری قرابت کی وجہ سے اہل بیت کو چاہنے نہ لگیں ۔‘‘[سنن ابن ماجۃ، المقدمۃ، باب فضل العباس بن عبد المطلب ر ضی اللّٰہ عنہ، (حدیث: ۱۴۰)، مستدرک حاکم(۴؍۷۵) و سندہ ضعیف لانقطاعہ اس کی سند منقطع ہے۔]

لیکن جس کسی نے اہل بیت کی محبت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجرت قرار دیا ہے؛ یقیناً اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔

اگر اہل بیت سے ہماری محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجرت رسالت میں داخل ہوتی تو ہمیں اس کا اجر وثواب نہ دیا جاتا۔اس لیے کہ ہم نے آپ کی وہ اجرت ادا کی تھی جس کا آپ رسالت کی بنا پر استحقاق رکھتے تھے۔ کیا کوئی مسلمان یہ بات کہنے کے لیے تیار ہے؟یہ بات ہمیں تسلیم ہے کہ دیگر دلائل کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ہمارے لیے ضروری ہے، مگر اس سے ان کی افضلیت اور امامت و خلافت کیوں کر ثابت ہوئی؟

[اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی] سے استدلال :

آٹھویں وجہ :....یہاں پر ﴿القربیٰ﴾ کا لفظ ’’ال ‘‘ لگاکر معرفہ بنا کر لایا گیا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ قرابت دار مخاطبین کے ہاں معروف ہوں ؛ جن کے متعلق یہ حکم دیاگیا ہے کہ: ﴿ قُلْ لَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا﴾ [الشوری ۲۳] ’’فرما دیجئے!کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا ۔‘‘

ہم پہلے یہ بیان کر چکے ہیں کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں اس وقت تک ابھی حسن و حسین رضی اللہ عنہما پیدا ہی نہیں ہوئے تھے ؛ اور نہ ہی حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کی شادی ہوئی تھی۔ پس آیت میں جن اہل قرابت کے لیے خطاب کیا گیا ہے ؛ بہت ناممکن ہے کہ یہ لوگ ہوں ۔بخلاف اس قرابت داری کے جو آپ کے اور قریش کے مابین تھی۔ یہ تعلق و قرابت اس وقت کے لوگوں میں معروف تھا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ فرما رہے ہوں : میں تم سے اس خونی رشتہ داری کی رعایت کا سوال کرتا ہوں جو میرے اورآپ کے مابین ہے۔جیسا کہ کوئی کہتا ہے : میں آپ سے اپنے اور آپ کے مابین عدل کا سوال کرتا ہوں ۔ او رکوئی دوسرا کہتا ہے کہ : میں صرف آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔

نویں وجہ:....ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اس آیت سے استدلال کیے بغیر بھی واجب ہے ۔لیکن آپ کی محبت اور دوستی کے واجب ہونے سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امامت صرف آپ کے لیے ہی خاص ہے ؛ اور نہ ہی آپ کی کوئی خاص فضیلت ثابت ہوتی ہے۔

[ اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’خلفاء ثلاثہ سے محبت رکھنا ضروری نہیں ہے۔‘‘ 

[جواب]:یہ بات ہمارے لیے ناقابل قبول ہے، بلکہ اہل بیت کی الفت و محبت کے دوش بدوش اصحاب ثلاثہ کی محبت بھی ناگزیر ہے ۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اللہتعالیٰ خلفائے ثلاثہ سے محبت رکھتے ہیں اور جس سے اللہتعالیٰ محبت رکھتے ہوں اس سے الفت و محبت کا سلوک روا رکھنا ہم پر واجب ہے ’’اَلْحُبُّ فِی اللّٰہِ وَالْبُغْضُ فِی اللّٰہ‘‘[سنن ابی داؤد۔ کتاب السنۃ۔ باب مجانبۃ أھل الاہواء (حدیث:۴۵۹۹)۔]اسلام کاطرہ امتیاز اور ایمان کی مضبوط ترین کڑی ہے۔ 

خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کبار اہل تقوی اولیاء اللہ میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے دوستی رکھنے کو واجب قرار دیا ہے۔بلکہ کتاب وسنت کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے۔ اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ہیں ۔اس پر قرآنی نصوص موجود ہیں ۔ہر وہ شخص جس سے اللہ راضی ہوجائے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ اہل تقوی سے؛ احسان کرنے والوں سے؛عدل و انصاف کرنے والوں سے اور صبر کرنے والوں سےمحبت کرتے ہیں ۔یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان لوگوں میں سے افضل ترین لوگ ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان نصوص میں داخل ہیں ۔

[تمام صحابہ رضی اللہ عنہم واجب الاحترام ہیں ]:

بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مسلمانوں کے باہمی رحم و کرم اور الفت و محبت کی مثال ایک جسم جیسی ہے کہ جب اس کا کوئی عضو بیمار پڑتا ہے تو پورا جسم بخار و بیداری سے بے قرار ہو جاتا ہے۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب رحمۃ الناس والبہائم(حدیث:۶۰۱۱)، صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ۔ باب تراحم المؤمنین (حدیث :۲۵۸۶)۔]

اس حدیث میں ہمیں خبر دی گئی ہے کہ اہل ایمان آپس میں محبت کرتے ہیں ‘ ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں اور رحم کی دعا کرتے ہیں ۔ اور اس باب میں وہ ایک جسم کی مانند ہیں ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمان نصوص کتاب و سنت اوراجماع امت کی روشنی میں ثابت ہے ؛ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایمان ثابت ہے۔ اور جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں قدح کرنا چاہیے تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایمان کبھی بھی ثابت نہیں کرسکتا۔ بلکہ ہر وہ دلیل جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان پر دلالت کرتی ہے ؛ وہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان پر بہت زیادہ قوت کے ساتھ دلالت کرتی ہے۔ اور جو بات بھی باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں قدح کے طور پر بیان کی جاتی ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں بدرجہ اولی قدح کا موجب بنتی ہے۔ اس لیے کہ جو رافضی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے تعصب کرتاہے ‘ اور باقی صحابہ پر قدح کرتا ہے ؛ یہود و نصاری کی طرح اس کی حجت بالکل ناکارہ اور بودی ہے؛ جو حضرت عیسی اور موسی علیہماالسلام کی نبوت تو ثابت کرنا چاہتے ہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر قدح واعتراض کرنا چاہتے ہیں ۔

ایک رافضی قوت دلیل سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والے اور آپ کے ایمان پر قدح کرنے والے خوارج و نواصب کو قائل نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ اس مکالمہ سے ظاہر ہے۔ اگر خارجی و ناصبی ایک شیعہ سے کہیں تمھیں کیوں کر معلوم ہوا کہ علی اللہکے ولی اور متقی مؤمن ہیں ؟‘‘

اگر شیعہ اس کے جواب میں کہے کہ ’’ مجھے تواتر سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ولی اللہ ہونا معلوم ہوا کیوں کہ آپ مسلمان تھے اور اعمال صالحہ انجام دیتے تھے۔‘‘

تو خارجی و ناصبی اس کے جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ ’’نقل متواتر توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کے بارے میں بھی موجود ہے۔بلکہ ان لوگوں کی نیکیوں کے بارے میں موجود تواتر کسی بھی معارض سے محفوظ ہے۔

اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں نقل کردہ تواتر سے بڑھ کر ہے۔ ‘‘

اگر شیعہ کہے کہ قرآن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ولی اللہ ہونا ثابت ہے۔ توخوارج و نواصب کہہ سکتے ہیں کہ ’’ قرآنی عمومات میں تو دیگر صحابہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہیں ؛ جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ [الفتح۱۸]

’’یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا ۔‘‘اور اس طرح کی دوسری آیات بھی ہیں ۔

مگرتم شیعہ اکابر صحابہ کو ان عمومات سے خارج کرتے ہو؛تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتنی بڑی جماعت کی بجائے آسان تر ہے کہ صرف ایک حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان سے خارج کردیا جائے۔

اگر شیعہ کہے کہ ’’ احادیث نبویہ سے اور ان کی شان میں قرآن کے نزول سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ولی ہونا ثابت ہے ۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب رحمۃ الناس والبہائم(حدیث:۶۰۱۱)، صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ۔ باب تراحم المؤمنین (حدیث :۲۵۸۶)۔ ]

تو اس کا جواب یہ ہے کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب کی احادیث کثرت کے ساتھ اور واضح ہیں مگر شیعہ ان پرتنقید اوراعتراض کرتے ہیں ۔ دوسری جانب فضیلت علی رضی اللہ عنہ میں شیعہ جو روایات بیان کرتے ہیں ان کے ناقل وہی صحابہ ہیں جو شیعہ کے نزدیک مطعون ہیں ۔ اب دو ہی صورتیں ہیں :

۱۔ اگر صحابہ پر شیعہ کی جرح و قدح درست ہے تو فضیلت علی رضی اللہ عنہ میں ان کی روایات بھی معتبر نہیں ہیں ۔

۲۔ اگر فضیلت علی رضی اللہ عنہ کی روایات قابل اعتماد ہیں تو صحابہ رضی اللہ عنہم پر شیعہ کے مطاعن لغو ہیں ۔

اگر روافض کہیں کہ فضیلت علی رضی اللہ عنہ کی روایات شیعہ کی نقل اور تواتر کے مطابق معتبر ہیں ۔

تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کوئی بھی رافضی نہیں تھا۔اور معدودے چند کے سوا شیعہ کے نزدیک سب صحابہ رضی اللہ عنہم مطعون ہیں ۔[کافی میں ہے : ابو جعفر - علیہ السلام - سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگ مرتد ہوگئے تھے ‘ سوائے تین کے۔ میں نے کہا : وہ تین کون تھے۔ فرمایا : اور تین ہیں :حضرت مقداد بن اسود ؛ اورحضرت ابو ذر غفاری ؛ اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہم ۔ پھر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد لوگوں نے پہچان لیا۔ اور فرمایا یہی لوگ تھے جن پر-ظلم کی - چکی چلی ۔ اور انہوں نے بیعت کرنے سے انکار کیا ۔ یہاں تک کہ امیر المؤمین کو زبردستی پکڑ کر لائے ‘ اور انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی بیعت کی ۔‘‘ روضۃ الکافی ۸؍ ۲۴۵۔ ۲۴۶‘ روایت نمبر ۳۴۱۔ شیعہ شیوخ کا عقیدہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام مسلمان مرتد ہوگئے تھے۔ لہٰذا شیعہ عالم محمد رضا مظفرکہتا ہے:’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اورہر مسلمان نے بھی یقینافوت ہونا ہے، مجھے اب معلوم نہیں ، وہ سب مرتد ہوگئے تھے ۔ [السقیفۃ: ۱۹] بلکہ شیعہ یہاں تک کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام انسانوں میں سے صرف ایک شخص ایمان لایا تھا اور وہ شخص تھا جو اپنے ملک سے حقیقی مذہب کی تلاش میں نکلا تھا، اور وہ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ ہیں ۔‘‘ [کتاب الشیعۃ و السنۃ فی المیزان:۲۰۔ ۲۱۔] شیعہ کے علامہ الجزائری بیان کرتے ہیں کہ ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چار افراد کے سوا تمام لوگ مرتد ہوگئے(]

کہا جاتا ہے کہ دس سے زائد صحابہ ایسی روایات کے نقل کرنے میں یک زبان ہیں ، جب روافض جمہور صحابہ کی مرویات کو صحیح تسلیم نہیں کرتے تو معدودے چند صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایت کردہ احادیث کیوں کر ان کے نزدیک حجت ہوں گی؟ اس مسئلہ پر اپنی جگہ پر تفصیل سے بحث کی جاچکی ہے۔

یہاں پر مقصود یہ ہے کہ شیعہ کا قول کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ تینوں خلفاء کرام رضی اللہ عنہم کی محبت واجب نہیں ۔‘‘ جمہور کے ہاں یہ کلام باطل ہے۔ بلکہ اہل سنت و الجماعت کے ہاں ان تینوں حضرات کی محبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت سے بڑھ کر واجب ہے ۔اس لیے کہ محبت فضلیت کی مقدار کے لحاظ سے واجب ہوتی ہے۔ پس جس کی جتنی زیادہ فضیلت ہوگی؛ اس کی محبت بھی اتنی زیادہ واجب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا﴾ [مریم۹۶]۔

’’بیشک جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے؛ ان کے لیے اللہ رحمن محبت پیدا کر دے گا ۔‘‘

اس کی تفسیر میں علمائے کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ خود بھی ان سے محبت کرتا ہے ‘ اور لوگوں کے دلوں میں بھی ان کے لیے محبت ڈال دیتا ہے۔ یہ جماعت اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سے افضل ترین لوگ تھے جوایمان لائے اور نیک اعمال کیے۔[تھے ۔ وہ چار یہ ہیں : سلمان فارسی، ابوذر غفاری ، مقداد بن اسود اور عمار۔اس بات میں ذرہ برابر اشکال نہیں ہے۔[ الأنوار النعمانیۃ: ۱؍ ۸۱۔] فضیل بن یسار، ابو جعفر سے بیان کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا:’’بیشک جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو چار افراد کے سوا تمام لوگ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے تھے؛ وہ چار یہ ہیں : علی، مقداد، سلمان اور ابوذر۔ ‘‘ میں نے پوچھاحضرت عمار کو شمار نہیں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو بالکل تبدیل نہ ہوئے تو وہ یہی تین ہیں ۔حالانکہ پہلے چار افراد ذکر کیے تھے ؟!‘‘ تفسیر العیاشی: ۱؍ ۲۲۳۔ حدیث نمبر: ۱۴۹ سورۃ آل عمران۔ تفسیر الصافی: ۱؍ ۳۸۹ تفسیر البرہان: ۱؍ ۳۱۹۔ بحار الأنوار: ۲۲؍ ۳۳۳۔ حدیث نمبر:۴۶۔ باب فضائل سلمان وأبی ذر ۔‘‘ شیعہ عالم الکاشانی لکھتا ہے: ’’صحابہ سے علم حاصل کرنے والے -تابعین - میں سے اکثر لوگ صحابہ کرام کی حقیقت سے لاعلم تھے؛ اس لیے وہ انہیں عادل قرار دیتے تھے۔اور ان کے ہاں یہ طے شدہ تھا کہ تمام صحابہ عدول ہیں ۔ اوران میں سے کسی ایک نے بھی راہ حق سے روگردانی نہیں کی۔انہیں یہ پتہ چل نہیں سکا کہ ان میں سے اکثر کے دلوں میں نفاق تھا۔وہ اﷲ پر بڑی جرأت سے باتیں بناتے اور رسول اﷲکی دشمنی میں ان پر الزام تراشیاں کرتے ہیں ‘ اور خود نافرمانی پر سر بستہ ہیں ۔‘‘ [تفسیر الصافی: ۱؍ ۹( کتاب کا دیباچہ )۔] [ شیعہ کے امام خمینی کا کہنا ہے کہ:’’ صحابہ رضی اللہ عنہم کو منافقین کا نام دیا جاتا تھا ۔ [الحکومۃ الا سلامیہ: ۶۹۔ دیکھیے: علی و منا وؤہ: ۱۲]  یعنی دنیا میں لوگوں کے دلوں میں اس کی نیکی اور پارسائی کی وجہ سے محبت پیدا کر دے گا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے؛جب اللہ تعالیٰ کسی (نیک ) بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اللہ جبرائیل علیہ السلام کو کہتا ہے، میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ پس جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنی شروع کر دیتے ہیں پھر جبرائیل علیہ السلام آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے محبت کرتا ہے، پس تمام آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر زمین میں اس کے لیے قبولیت اور پذیرائی رکھ دی جاتی ہے۔(صحیح بخاری)] جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : 

﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُودِ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِِنْجِیلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَوَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا﴾ [الفتح۲۹]

’’محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں ، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے۔ ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے۔مثل اس کھیتی کے جس نے انکھوا نکالاپھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگاتاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، ان ایمان والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ ‘‘[یعنی مسلمان پہلے صرف ایک تھا اور وہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس جو اپنی نبوت پر سب سے پہلے خود ایمان لائے۔ پھر ایک سے دو ہوئے، دو سے تین، تین سے سات۔ اسی طرح رفتہ رفتہ اسلام کا پودا زمین سے باہر نکل آیا۔فتح مکہ کے دن یہ پودا ایک مضبوط اور تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ جب یہ مضبوط درخت بن کر اپنی جڑوں پر استوار ہوگیا۔ اس درخت کی آبیاری اور نگہداشت کرنے والی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وہ مقدس جماعت تھی جو نبی اخر الزمان پر ایمان لائے تھے پھر عمر بھر دل و جان سے آپکی اطاعت کرتے اور آپکے اشاروں پر چلتے رہے۔ ایسے لوگوں کا اللہ کے ہاں اجر بھی بہت زیادہ ہے جو ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں کو معاف کرکے انہیں جنت کے بلند درجات عطا فرمائے گا۔ اس آیت سے بعض علما نے یہ استنباط کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جلنے والا اور ان کے متعلق بغض اور کینہ رکھنے والا شخص کبھی مسلمان نہیں ہوسکتا۔[الدراوی ]]

[یہ درست ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ہونے کے اعتبار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ہم پر واجب ہے۔ تاہم دیگر صحابہ کی محبت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا]۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا تھا کہ:

’’سب لوگوں میں سے آپ کو عزیز تر کون ہے؟ فرمایا: ’’ عائشہ۔‘‘

’’ عرض کیا گیا مردوں میں سے کون عزیز ہیں ؟ فرمایا: ’’ ان کے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم ۔ باب قول النبی رضی اللّٰہ عنہم ’’لوکنت متخذًا خلیلاً‘‘ (ح:۳۶۶۲) صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۴) ۔ ]

صحیح حدیث میں ہے سقیفہ بنی ساعدہ کے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا تھا:

’’ آپ ہمارے سردار اور ہم سب سے بہتر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سب سے عزیز ہیں ۔‘‘ [صحیح بخاری حوالہ سابق(حدیث:۳۶۶۸)، مطولاً۔]

اس کی تصدیق ان احادیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے جو صحاح ستہ کی دوسری کتابوں میں مشہور ہیں ۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

’’ اگر میں اس امت میں سے کسی کو گہرا دوست بنانا چاہتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا؛ لیکن اسلام کی محبت [سب کے لیے ہے ]‘‘ [صحیح بخاری حوالہ سابق (حدیث:۳۶۵۸)، عن عبد اللّٰہ بن الزبیر رضی اللّٰہ عنہ ۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (حدیث:۴؍۲۳۸۳) عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ۔]

اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ روئے زمین بسنے والوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سب بڑے حق دار ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہو ؛ وہ اللہ تعالیٰ کو بھی محبوب ہوتا ہے ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کا محبوب ہو؛ وہ اس بات کا بہت زیادہ حق دار ہے کہ اہل ایمان ان سے محبت کرتے رہیں ۔اس لیے کہ اہل ایمان اسی سے محبت کرتے ہیں جس سے اللہ اور اس کے رسول محبت کرتے ہوں ۔ او راس طرح محبت کرتے ہیں جس طرح اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہوں ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس محبت کے سب بڑے حق دار ہونے کے دلائل بہت سارے ہیں ۔تو پھر یہ بات کہنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ مفضول سے محبت کرنا تو واجب ہے ؛ مگر افضل سے محبت کرنا واجب نہیں ہے۔

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت ان کی محبت کے منافی ہے۔آپ کے احکامات کی تعمیل کرنا آپ کی محبت ہے ؛ تو آپ واجب الاطاعت ٹھہرے ؛ یہی امامت کا معنی ہے ۔‘‘

[جواب]:اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتاہے:

پہلا جواب:....یہ ہے کہ اگر کسی سے محبت رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی اطاعت واجب ٹھہرتی ہے تو اقارب کی اطاعت بھی ضروری ہوگی، اس لیے کہ ان کی محبت واجب ہے۔ جس سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا امام ہونا لازم آتا ہے۔ اور اگر یہ باطل ہے تو پھر باقی امور بھی اسی کی طرح باطل ہیں ۔

دوسرا جواب:....محبت کے واجب ہونے کی صورت میں محبت و مودت کسی طرح بھی امامت کو مستلزم نہیں ۔اور نہ ہی جس کسی کی محبت واجب ہو تو وہ امام بن جائے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی محبت ان کے امام بننے سے پہلے بھی واجب تھی۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں امام نہیں تھے ؛ پھر بھی آپ کی محبت واجب تھی۔ بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل ہونے تک بھی آپ کی محبت واجب تھی۔

تیسرا جواب:....اگر محبت کو امامت کا ملزوم قرار دیا جائے تو ملزوم کا انتفاء لازم کی نفی کا تقاضا کرتا ہے۔ بنا بریں صرف اسی شخص کی محبت لازم ہوگی جو امام معصوم ہو۔تو اس صورت میں کسی بھی مؤمن سے محبت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی اہل ایمان سے محبت و مودت رکھنا واجب ہوگی؛ اس لیے کہ وہ امام نہیں ۔ نہ ہی شیعان علی اور نہ ہی کوئی دوسرا ۔یہ بات اجماع کے بھی خلاف ہے اور اسلام میں ضرورت کے تحت معلوم شدہ امور کے بھی خلاف ہے ۔

چوتھا جواب: شیعہ کا یہ قول ہے کہ ’’ مخالفت محبت کے منافی ہے۔‘‘

ہم پوچھتے ہیں :ایسا کب ہوگا؟ جب محبت واجب ہوگی یا پھر مطلق طور پر ؟ مطلق کہنے کی صورت میں یہ ممنوع ہے۔

وگرنہ جو کوئی کسی دوسرے پر کوئی ایسی چیز واجب کرتاہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب نہیں کی؛تو پھر اگر وہ اس کا حکم ماننے میں اس کی مخالفت کرے گا تو اس سے محبت کرنے والا نہیں ہوگا۔اور کوئی مؤمن کسی مؤمن سے اس وقت تک محبت کرنے والا نہیں ہوسکتا جب تک اسکی اطاعت کے واجب ہونے کا یقین نہ کرلے؛ اس نظریہ کی خرابی صاف ظاہر ہے ۔

پہلی صورت میں :جب مخالفت صرف اسی صورت میں محبت میں قادح ہوتی ہے جب وہ شخص واجب الاطاعت ہو۔اس صورت میں پہلے وجوب اطاعت کا علم ضروری ہے۔تاکہ اس کی مخالفت کی صورت میں اس کی محبت پر قدح کرسکیں ۔ جب اطاعت کو اس لیے واجب قرار دیا جائے گا کہ محبت واجب ہے تو دور لازم آئے گا؛ جو کہ ممتنع ہے۔اس لیے کہ کسی مخالفت سے اس وقت تک محبت پر قدح نہیں کی جاسکتی جب تک اس کی اطاعت کا واجب ہونا معلوم نہ ہو۔ اور اطاعت کا واجب ہونا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ وہ امام ہے ۔ اور امام ہونے کا اس وقت تک علم نہیں ہوسکتا جب تک اس کی محبت واجب ہونے کا علم نہ ہو‘ اور یہ علم ہو کہ اس کی مخالفت محبت میں قدح کا سبب ہوگی۔

پانچواں جواب:....[ہم پوچھتے ہیں ]کیا مخالفت محبت میں اسی صورت میں قادح ہوسکتی ہے [جب وہ شخص امام ہو]اور اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو؟

دوسرے جواب کی ضرورت کے تحت نفی کی گئی ہے۔ جب کہ پہلے جواب کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلفائے ثلاثہ کے زمانہ میں ایسا نہیں کیا تھا۔

چھٹا جواب:....یہی بات حضرات خلفاء ثلاثہ کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے۔ حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی محبت و اطاعت بھی واجب ہے۔او ران کی مخالفت ان کی محبت میں قادح ہے۔

ساتواں جواب:....اس حدیث میں سے ترجیح کے امور : اس لیے کہ شیعہ نے اپنی ولایت و محبت اور اطاعت کے دعوی کے ساتھ ساتھ امامت کا بھی دعوی کیا ہے۔ اور [ان کا دعوی ہے کہ] اللہ تعالیٰ نے ان کی اطاعت واجب کی ہے ۔ اور ان کی مخالفت ان کے ساتھ محبت میں قادح ہے۔ بلکہ اللہ اوراس کے رسول کی محبت میں بھی قدح کا سبب ہے ۔ او راس میں کوئی شک نہیں کہ جس نے رافضیت کی بدعت کو ایجاد کیا ؛ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والا نہیں تھا۔ بلکہ حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کا پکا دشمن تھا۔

ان لوگوں کا اہل سنت کے ساتھ ایسے ہی معاملہ ہے جیسا عیسائیوں کا مسلمانوں کے ساتھ۔ اس لیے کہ عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو تو رب قرار دیتے ہیں ‘ اور حضرت ابراہیم ؛ موسیٰ ؛ اور محمد علیہم السلام کوان حواریوں سے بھی کم درجہ کا سمجھتے ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ تھے۔

یہی حال شیعہ کا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امام معصوم ؛ یا نبی یا پھر خدا تک قرار دیتے ہیں ‘ اور باقی خلفاء رضی اللہ عنہم کو اشتر نخعی؛ اوراس جیسے ان لوگوں سے بھی کم تر قرار دیتے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر برسر پیکار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جہالت او ردروغ گوئی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ اسے احاطہ ء تحریر میں نہیں لایاجاسکتا۔ ان کا بڑا سہارا جھوٹی منقولات؛ متشابہ الفاظ ؛ فاسد قیاس ؛اور اس طرح کی چیزیں ہیں مگر اس پر مستزاد یہ کہ سچی منقولات اور تواتر؛ واضح دلائل و نصوص اور صریح معقولات کا دعوی کرتے ہیں ۔