Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کتابت قرآن کا دوسرا مرحلہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں

  علی محمد الصلابی

کتابت قرآن کا دوسرا مرحلہ ابوبکر صدیقؓ کے عہد میں 
دوسرا مرحلہ…سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے عہد میں

معرکہ یمامہ میں حفاظ قرآن کی ایک کثیر تعداد نے جام شہادت نوش کیا جس کے نتیجہ میں سیدنا عمر بن خطابؓ  کے مشورہ سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے قرآن کو جمع کرایا۔[حروب الردۃ و بناء الدولۃ الاسلامیۃ؍ احمد سعید صحفہ 145]

اور یہ عظیم ذمہ داری آپ نے صحابی جلیل زید بن ثابت انصاریؓ کو سونپی، چنانچہ زید بن ثابتؓ روایت کرتے ہیں: معرکہ یمامہ کے بعد ابوبکرؓ نے مجھے بلا بھیجا، میں پہنچا تو وہاں سیدنا عمر بن خطابؓ موجود تھے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا: عمرؓ میرے پاس آئے اور کہا: معرکہ یمامہ میں بہت سے قراء شہید ہو گئے ہیں، اور مجھے خوف ہے کہ اگر دوسرے معرکوں میں اسی طرح قراء ِ قرآن شہید ہوتے رہے تو قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو جائے گا۔ میری رائے ہے کہ آپ جمع قرآن کا حکم جاری فرمائیں۔ اس پر میں (ابوبکرؓ) نے عمرؓ سے کہا کہ میں ایسا کام کیسے کروں جو رسول اللہﷺ نے نہیں کیا؟

[یعنی ایک جلد میں کیسے جمع کروں جب کہ یہ کام رسول اللہﷺ نے نہیں کیا ہے۔]  

سیدنا عمرؓ نے کہا: واللہ یہ کار خیر ہے، پھر برابر سیدنا عمرؓ مجھ سے اس کے لیے اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے میرا سینہ کھول دیا، جس کے لیے سیدنا عمرؓ کا سینہ کھولا تھا، اور اب میری بھی وہی رائے ہے جو عمرؓ کی ہے۔ زید بن ثابتؓ  کا بیان ہے، سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا: تم عقل مند نوجوان آدمی ہو، تم پر کوئی اتہام نہیں اور تم رسول اللہﷺ کے لیے وحی لکھا کرتے تھے لہٰذا تم قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو۔

[یعنی تمہارے پاس اور دوسروں کے پاس جو نوشتے موجود ہیں اور لوگوں نے جو یاد کر رکھا ہے اس کی مدد سے قرآن کو ایک مصحف میں مدون کر دو۔] 
زیدؓ کہتے ہیں: اللہ کی قسم اگر وہ مجھے کسی پہاڑ کو منتقل کرنے کا حکم فرماتے تو وہ میرے لیے جمع قرآن سے زیادہ مشکل نہ ہوتا، چنانچہ میں نے قرآن کو کھجور کی ٹہنیوں، پتھر کی سلوں، لوگوں کے سینوں، چمڑوں اور شانہ کی ہڈیوں سے جمع کیا، یہاں تک کہ سورۂ توبہ کی آخری آیات:لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (128)

سے آخری سورت تک صرف ابو خزیمہ انصاریؓ کے پاس ملیں۔

[چوں کہ جمع قرآن کے لیے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ زبانی بھی ہو اور ضبط تحریر میں بھی ہو، اور یہ آیات ان دونوں شرائط کے ساتھ صرف ابو خزیمہؓ کے پاس تھیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ آیات کسی اور صحابی کو یاد نہ تھیں یا کسی اور کے پاس ضبط تحریر میں نہ تھیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں شرائط کے ساتھ صرف ابو خزیمہؓ کے پاس تھیں جن کی گواہی کو رسول اللہﷺ  نے دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دے رکھا تھا۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ جمع قرآن کے لیے اصل وہ نوشتے تھے جو رسول اللہﷺ کے پاس محفوظ تھے، اور اس سے مزید دیگر صحابہؓ کے پاس جو نوشتے تھے اور سینوں میں محفوظ تھا اس سے مدد لی گئی اور اس طرح پورے کا پورا قرآن تو اتر کے ساتھ ضبط تحریر میں لایا گیا۔ (مترجم) ] 
یہ مصحف تیار کر کے سیدنا ابوبکرؓ  کے پاس محفوظ کر دیا گیا ، وہ آپ کی زندگی میں آپ کے پاس رہا، پھر آپ کے بعد سیدنا عمر بن خطابؓ کی تحویل میں آ گیا اور آپ کی وفات کے بعد ام المؤمنین حفصہ بنت عمرؓ کے پاس رہا۔

البخاری (4986) ۔

جمع قرآن کے دوسرے مرحلہ کے بعض نتائج

حروب ردہ میں بہت سے صحابہؓ کی شہادت کی وجہ سے قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ لاحق ہوا جس کے نتیجہ میں قرآن کی جمع و تدوین کا کام عمل میں آیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت حفاظ و علماء اپنے افکار و سلوک اور تلواروں کے ذریعہ سے اسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت کو بلند کرنے کے لیے جہاد و عمل میں سب سے پیش پیش رہتے تھے، چنانچہ یہ خیر امت تھے جنھیں لوگوں کے لیے وجود بخشا گیا تھا، لہٰذا بعد میں آنے والوں کو ان کی اقتدا اور پیروی کرنی چاہیے۔

مصالح مرسلہ کے پیش نظر قرآن کو جمع و مدون کیا گیا اور اس کی سب سے بڑی دلیل ابوبکرؓ  کا یہ سوال ہے کہ ہم کیسے وہ کام کریں جو رسول اللہﷺ  نے نہیں کیا ہے؟ عمرؓ  کا یہ قول ہے: ’’ایسا کرنا بہتر ہے۔‘‘ اور بعض روایات میں یوں آیا ہے کہ ’’اللہ کی قسم یہ بہتر ہے اور اسی میں مسلمانوں کی مصلحت ہے۔‘‘ اور یہ بالکل وہی جواب ہے جو زید بن ثابتؓ کے سوال پر سیدنا ابوبکرؓ  نے دیا تھا۔ خواہ وہ روایت جس میں مصلحت کا لفظ وارد ہے صحیح ہو یا نہ ہو لیکن ’’ایسا کرنا بہتر ہے‘‘ کا ماحصل یہی ہے۔ قرآن کی جمع و تدوین میں مسلمانوں کی مصلحت شروع میں مصالح مرسلہ کے اصول پر مبنی تھی اس کے بعد جب تمام حضرات نے صریح یا ضمنی اقرار کے ذریعہ سے موافقت کر دی تو اس کام کے لیے اجماع صحابہؓ منعقد ہو گیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مصالح مرسلہ ان حضرات کے نزدیک جو اس کی حجیت کے قائل ہیں اجماع کی سند بن سکتی ہے۔ اصول فقہ کی کتابوں میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کرامؓ کس طرح محبت و احترام کے پرسکون ماحول میں اجتہاد کرتے تھے، اور ان کا ہدف و مقصود ان نتائج تک پہنچنا تھا جو مسلمانوں کے مصالح عامہ کے حق میں ہوں۔یہ حضرات صحیح رائے کو قبول کرتے، افہام و تفہیم کے بعد جب شرح صدر ہو جاتا اور وہ کسی رائے سے مطمئن ہو جاتے تو پھر اس کی طرف سے دفاع کرتے، جیسا کہ شروع سے ہی ان کی یہی رائے تھی۔ اس جذبہ و حوصلہ کی وجہ سے بہت سے اجتہادی مسائل میں ان کے اجماع کا انعقاد ممکن ہوا۔

[الاجتہاد فی الفقہ الاسلامی؍ عبدالسلام السلیمانی صفحہ127] 

عہدِ نبویﷺ اور عہدِ صدیقیؓ کی کتابت قرآنی میں فرق

عہدِ نبویﷺ اور عہدِ صدیقیؓ کی کتابت میں یہ فرق تھا کہ عہدِ نبویﷺ میں قرآن مختلف صحائف، تختیوں، کھجور کی ٹہنیوں، تنوں اور بانس اور دیگر اشیاء پر تحریر کیا گیا تھا، اس کی سورتیں ترتیب سے ایک لڑی میں نہیں جمع کی گئی تھیں لیکن سیدنا ابوبکرؓ کے دور میں کتابت قرآن کے سلسلہ میں یہ اہتمام کیا گیا کہ قرآن کو صحائف میں لکھا گیا، ہر سورت کو صحیفہ میں آیات کی اس ترتیب کے ساتھ مدون کیا گیا جو نبی کریمﷺ  سے صحابہؓ نے یاد کی تھی۔ زید بن ثابتؓ کی ذمہ داری تھی کہ وہ نبی کریمﷺ  کے دور میں کتابت شدہ قرآن کو صحائف میں تحریر میں لائیں اور ہر سورت کی آیات کو صحیفہ میں توقیفی ترتیب کے ساتھ مدون کریں۔

[المدینۃ النبویۃ فجر الاسلام و العصر الراشدی (2؍241)] 

اسم الكتاب: 
سیدنا عثمان بن عفانؓ شخصیت و کارنامے