میدان احد اور حمراء الاسد میں
علی محمد الصلابیمیدان احد اور حمراء الاسد میں
جنگ احد میں مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بچھڑ گئے اور میدان جنگ کے مختلف گوشوں میں بکھر گئے اور یہ خبر مشہور ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دیے گئے۔ اس کا ردّعمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مختلف پڑا۔ میدان وسیع تھا۔ ہر ایک اپنے میں مشغول تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے پہلے صفوں کو چیرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابوبکر، ابوعبیدہ بن الجراح، علی، طلحہ، زبیر، عمر بن خطاب، حارث بن صمہ، ابودجانہ، سعد بن ابی وقاص وغیرہم رضی اللہ عنہم جمع ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احد کی گھاٹی میں چلے گئے تاکہ اپنی مادی ومعنوی قوت کو دوبارہ بحال کر سکیں۔(مواقف الصدیق مع النبی صلي الله عليه وسلم فی المدینۃ، د: عاطف لماضہ: 27)
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جب احد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے: یہ جنگ کل کی کل طلحہ رضی اللہ عنہ کے لیے تھی۔ (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کا اصل کارنامہ انھی نے انجام دیا تھا)
پھر بیان کرتے: احد کے دن میں پہلا شخص تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پلٹ کر آیا، میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دفاع کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں قتال کر رہا ہے۔
میں نے کہا: تم طلحہ ہی ہو گے، مجھ سے تو یہ زریں موقع فوت ہو گیا۔ میرے اور مشرکین کے مابین ایک شخص تھا جس کو پہچان نہ سکا اور میں اس شخص کی بہ نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب تھا، وہ اچھلتے ہوئے چل رہا تھا۔ دیکھتا ہوں تو وہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے، پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے آپ کا رباعی دانت ٹوٹ گیا تھا۔ چہرہ انور زخمی ہو چکا تھا۔ خود کی دو کڑیاں دونوں رخسار میں آنکھ کے نیچے دھنس گئی تھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: اپنے ساتھی یعنی طلحہ کی خبر لو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم سے خون بہ رہا تھا۔ ہم آپ کی بات کی طرف توجہ نہ دے سکے اور میں نے آپ کے چہرۂ انور سے خود کی کڑیاں نکالنا چاہیں تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں مجھے نکالنے دیجیے۔ میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ ایک طرف یہ فکر دامن گیر تھی کہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچے گی، لہٰذا انہوں نے اپنے منہ سے آہستہ آہستہ نکالنا شروع کیں، بالآخر ایک کڑی اپنے منہ سے کھینچ کر نکال دی، لیکن اس کوشش میں ان کا سامنے کا ایک نچلا دانت گر گیا۔ اب دوسری میں نے کھینچنی چاہی تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: ابوبکر! اللہ کا و اسطہ دیتا ہوں، مجھے کھینچنے دیجیے۔ اس کے بعد دوسری آہستہ آہستہ کھینچی لیکن ان کا سامنے کا دوسرا نچلا دانت گر گیا۔
یقیناً ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ حسین چہرہ والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرہم پٹی سے فارغ ہو کر ہم طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جو ایک گڑھے میں گرے ہوئے تھے، دیکھا تو ان کے جسم پر ستر (۷۰) سے زائد نیزے، تیر اور تلوار کے زخم لگے تھے، آپ کی انگلی کٹ گئی تھی، ہم نے ان کی مرہم پٹی کی۔(منحۃ المعبود: جلد، 2 صفحہ، 19 نقلًا عن تاریخ الدعوۃ الاسلامیۃ ، صفحہ، 130)
اس غزوہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ ابوسفیان کے اس موقف سے بھی واضح ہوتا ہے جبکہ اس نے پکار پکار کر سوال کرنا شروع کیا:
کیا تم میں محمد ہیں؟ کیا تم میں محمد ہیں؟ کیا تم میں محمد ہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے سے صحابہ کو منع کر دیا۔
پھر اس نے کہا: کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں؟ کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں؟ کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں؟
پھر کہا: کیا تم میں ابن خطاب ہیں؟ کیا تم میں ابن خطاب ہیں؟ کیا تم میں ابن خطاب ہیں؟
جب جواب نہیں ملا، تو اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا: یہ سب کے سب قتل کیے جا چکے ہیں…
(فتح الباری: جلد، 6 صفحہ، 188 جلد، 6 صفحہ، 405)
مشرکین کے لیڈر ابوسفیان کو اس حقیقت کا اعتراف و یقین تھا کہ اسلام کے ستون و اساس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ہیں۔(مواقف الصدیق مع النبی فی المدینۃ: د/ عاطف لماضہ: 38۔ اس سے یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی اپنے تو اپنے اعدائے اسلام بھی مانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں پہلا مقام ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہے اور پھر دوسرا عمر رضی اللہ عنہ کا۔ (مترجم))
جب مشرکین نے مسلمانوں کو تباہ کرنے اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منصوبہ بندی سامنے آئی اور ان کی سازشوں کو باطل کر دیا۔ احد سے فراغت کے بعد مدینہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ کہیں کفار مدینہ کی طرف پلٹ نہ آئیں۔ باوجود یہ کہ صحابہ کرام زخموں سے چور تھے اور احد میں شہید ہونے والے ساتھیوں کی وجہ سے دل گرفتہ اور مغموم و محزون تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مشرکین کا پیچھا کرنے پر ابھارا اور نکلنے کا حکم جاری کر دیا، اور صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے اس فرمان پر لبیک کہتے ہوئے کفار کے تعاقب میں نکل پڑے، مسلمانوں کا یہ قافلہ جب مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر واقع حمراء الاسد پر پہنچا تو مشرکین کو خوف محسوس ہوا اور مدینہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ ترک کر کے مکہ روانہ ہو گئے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے عروہ بن زبیر سے اس آیت کریمہ:
الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿١٧٢﴾ (سورۃ آل عمران: آیت، 172)
ترجمہ: ’’جن لوگوں نے اللہ اور رسول کے حکم کو قبول کیا اور اس کے بعد کہ انہیں پورے زخم لگ چکے تھے ان میں سے جنہوں نے نیکی کی اور پرہیزگاری برتی، ان کے لیے بہت زیادہ اجر ہے۔‘‘
کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: میرے بھانجے! تمہارے والد زبیر اور نانا ابوبکر رضی اللہ عنہما انھی لوگوں میں سے تھے۔ جب احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو جو لاحق ہونا تھا لاحق ہوا اور مشرکین واپس ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں کفار پھر واپس نہ آجائیں۔ آپ نے صحابہ سے کہا: کون ان کے تعاقب میں نکلے گا؟ ستر صحابہ کرام تیار ہوئے، ان میں ابوبکر و زبیر رضی اللہ عنہما تھے۔ (مسلم: 2418)