Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

زمانۂ جاہلیت کی زندگی

  علی محمد الصلابی

زمانۂ جاہلیت کی زندگی

سیدنا عمرؓ نے اپنی زندگی کا لمبا عرصہ زمانۂ جاہلیت میں گزارا اور قریش کے اپنے ہم عمروں کے ساتھ پلے بڑھے، آپ اس اعتبار سے ان سے ممتاز تھے کہ آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پڑھنا سیکھ لیا تھا اور ایسے لوگ تعداد میں بہت تھوڑے تھے۔

(الکامل فی التاریخ: جلد، 2 صفحہ، 212)

آپ نے بچپن ہی سے ذمہ داری کا بوجھ اٹھایا، اور سختی و تنگی کے ماحول میں جوان ہوئے، ایسی سختی کہ عیش و عشرت اور مالداری کی کسی علامت کو جانا ہی نہیں، آپ کے باپ خطاب سختی سے آپ کو چراگاہ کی طرف اونٹ چرانے کے لیے بھیجتے تھے۔ باپ کی اس سختی نے آپ کی ذات پر برا اثر چھوڑا، آپ اسے اپنی زندگی بھر یاد کرتے رہے۔ عبد الرحمن بن حاطب اس کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں:

’’میں ضجنان(تاریخ الامم والملوک: طبری: جلد، 5 صفحہ، 191)

میں سیدنا عمر بن خطابؓ کے ساتھ تھا، آپ نے مجھ سے کہا: میں اسی جگہ خطاب کے اونٹوں کو چراتا تھا، وہ بہت سخت تھے، میں کبھی اونٹ چراتا اور کبھی لکڑیاں چننے چلا جاتا۔‘‘

(تاریخ الامم والملوک: طبری: جلد، 5 صفحہ، 192)

چونکہ سیدنا عمرؓ کی زندگی میں یہ مرحلہ سختی کا تھا اس لیے آپ اکثر اسے ذکر کیا کرتے تھے۔ سعید بن مسیبؒ فرماتے ہیں: سیدنا عمرؓ نے حج کیا، جب ضجنان پہنچے تو کہا: ’’ لا إلہ إلا اللہ العلی العظیم‘‘ جسے جو چاہتا ہے، دیتا ہے، میں اسی وادی میں اونی قمیص پہن کر خطاب کے اونٹوں کو چرایا کرتا تھا، وہ بہت سخت تھے، جب میں کام کرتا تو میرے پیچھے لگے رہتے، اگر کوتاہی کرتا تو مارتے، میری حالت ایسی ہو گئی کہ میرے اور اللہ کے درمیان کوئی نہیں رہا۔ پھر آپ نے مثال بیان کی:

لا شئی مما تری تبقی بشاشتہ یبقی الإلٰہ ویردی المال والولد

ترجمہ:’’جو کچھ تم دیکھ رہے ہو کسی کی بھی رونق باقی رہنے والی نہیں ہے، صرف اللہ باقی رہے گا اور مال و اولاد ختم ہو جائیں گے۔‘‘

لم تغن عن ہرمز یومًا خزائنہ والخلد قد حاولت عاد فما خلدوا

ترجمہ: ’’اس (موت کے) دن ہرمز کو اس کے خزانوں نے کوئی فائدہ نہیں دیا اور قوم عاد نے ہمیشہ آباد رہنے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ نہ رہی۔‘‘

ولا سلیمان إذ تجری الریاح لہ والانس والجن فیما بینہا یرد

ترجمہ: ’’اور نہ سلیمان علیہ السلام زندہ رہے جن کے لیے ہوائیں مسخر تھیں اور انسان و جنات ان کے تابع تھے۔‘‘

أین الملوک التی کانت نواھلہا

من کل أوب إلیہا راکب یفد

ترجمہ: ’’کہاں گئے وہ بادشاہ جن کے چشموں سے ہر طرف سے آنے والا قافلہ سیراب ہوتا تھا۔‘‘

حوضا ہنالک مورود بلا کذب

لابد من وردہ یوما کما وردوا

(الادارۃ الاسلامیۃ فی عہد عمر بن الخطاب: فاروق مجدلاوی: صفحہ، 90)

ترجمہ: ’’وہ (موت) ایسا حوض ہے جس پر یقیناً ہر کسی کو ایک نہ ایک دن آنا ہے، جیسے کہ وہ لوگ اس پر پہنچے۔‘‘

آپ صرف اپنے باپ کے اونٹوں کو نہیں چراتے تھے بلکہ بنی مخزوم سے تعلق رکھنے والی اپنی خالاؤں کے اونٹ بھی چراتے، اس بات کا ذکر سیدنا عمرؓ نے خود اس وقت کیا جب کہ امیر المؤمنین ہوتے ہوئے ایک دن آپ کو خیال آیا کہ میں امیر المؤمنین بن گیا ہوں، اب مجھ سے افضل کون ہے؟ تو آپ اپنے نفس کا غرور توڑنے کے لیے مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اعلان کیا کہ عمر بکریوں کا ایک چرواہا تھا، بنی مخزوم سے تعلق رکھنے والی اپنی خالاؤں کے اونٹوں کو چراتا تھا۔

محمد بن عمر مخزومی اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: عمر بن خطابؓ نے ’’الصلاۃ جامعۃ‘‘ کی منادی کروائی، جب لوگ جمع ہو گئے اور سب نے ’’اللہ اکبر‘‘ کہا تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، نبی کریمﷺ پر درود و سلام بھیجا، پھر گویا ہوئے: اے لوگو! میں نے خود کو اس حالت میں پایا ہے کہ بنی مخزوم کی اپنی خالاؤں کے جانوروں کو چرایا ہے، وہ مجھے مٹھی بھر کھجور یا کشمش دے دیتی تھیں اور اسی پر اپنا دن گزارتا، اور وہ دن بھی کیا دن تھے۔ پھر آپ منبر سے نیچے اتر گئے۔

عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے آپ سے کہا:

اے امیر المؤمنین! آپ نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ صرف خود کو ذلیل کیا۔ آپ نے فرمایا: اے ابن عوفؓ! تیرا برا ہو، سن! میں تنہائی میں تھا تو میرے نفس نے مجھ کو بڑائی کا احساس دلایا، کہا کہ تو امیر المؤمنین ہے، تجھ سے افضل کون ہے۔ تو میں نے چاہا کہ اس نفس کو اس کی حیثیت سمجھا دوں۔

اور ایک روایت میں ہے:

’’میں نے اپنے جی میں کچھ (بڑائی) محسوس کی تو میں نے چاہا کہ اسے اسی سے روند ڈالوں۔‘

(مکہ سے ایک منزل (تقریباً 12 میل) کی دوری پر ایک پہاڑ ہے اور ایک قول کے مطابق 25 کلومیٹر کی دوری پر ایک پہاڑ ہے۔)

بلاشبہ اسلام لانے سے پہلے مکہ کی زندگی میں سیدنا عمرؓ کے اس پیشے (گلہ بانی) سے جڑے رہنے نے ان کو قوت تحمل و برداشت، بہادری اور سخت گیری جیسی صفات کا مالک بنا دیا۔ زمانۂ جاہلیت میں آپ کی پوری زندگی ایسی نہ تھی کہ صرف بکریاں چرانے میں گزری ہو۔

(الفاروق مع النبی: د، عاطف لماضۃ، صفحہ، 5۔ آپ نے تاریخ ابنِ عساکر: جلد، 52 صفحہ، 269کے حوالہ سے اسے نقل کیا ہے۔)

بلکہ شروع جوانی میں مختلف جسمانی ورزش میں مہارت حاصل کی، کشتی لڑنے، گھوڑ سواری کرنے اور گھوڑ دوڑ میں خوب مشق کی، شعر و شاعری میں دلچسپی لی اور اس میں کمال حاصل کیا۔

(الطبقات الکبری: ابن سعد: جلد، 3 صفحہ، 293 اس روایت کے دیگر شواہد بھی ہیں)

آپ اپنی قوم کی تاریخ اور ان کے حالات میں دلچسپی لیتے، عرب کی بڑی تجارتی منڈیوں مثلاً عکاظ، مجنہ اور ذی المجاز کے بازاروں میں حاضر ہونے کے حریص ہوتے، اس سے آپ نے تجارت، عرب کی تاریخ اور قبیلوں میں ہونے والے جھگڑوں، ان کے تفاخر اور منافرت کے واقعات کے بارے میں بہت کچھ جانا۔ اس لیے کہ وہ واقعات و حوادث ادبی میراث کے طور پر تمام قبیلوں اور ان کے سرداروں کے درمیان پیش کیے جاتے تھے اور بڑے بڑے ادباء و ناقدین انہیں حفظ و تحریر میں لاتے تھے۔اسی چیز نے عربی تاریخ کا دائرہ وسیع اور ہمیشہ کے لیے اسے زندہ رکھا، جس پر کبھی بھول کا پردہ نہ پڑا۔ بسا اوقات حادثات کی چنگاریاں اڑیں اور لڑائی کی شکل میں ظاہر ہوئیں۔ بذات خود صرف عکاظ چار لڑائیوں کا براہ راست سبب بنا، جنہیں حروب فجار کہا جاتا ہے۔

سیدنا عمرؓ تجارت میں مشغول ہوئے اور اس سے خوب فائدہ اٹھایا، اسی تجارت نے ان کو مکہ کے مالداروں میں شامل کر دیا۔ تجارت کی غرض سے آپ نے جن شہروں کی زیارت کی وہاں سے متعدد معلومات حاصل کیں۔ موسم گرما میں شام اور سرما میں یمن کا سفر کیا اور جاہلیت کی مکی زندگی میں اپنا نمایاں مقام بنا لیا اور بڑے زور شور کے ساتھ اس کے معاملات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ کے بزرگ اجداد کی تاریخ نے آپ کی ہمت افزائی کی، آپ کے دادا نفیل بن عبد العزیٰ قریش کے ان لوگوں میں سے تھے جن کے پاس لوگ فیصلے لے کر آتے تھے۔ جب کہ آپ کے بڑے دادا کعب بن لؤی عربوں میں بلند مقام و مرتبہ والے اور صاحب حیثیت تھے۔ مؤرخین نے آپ کی تاریخ وفات عام الفیل بتائی ہے۔ سیّدنا عمرؓ نے یہ اہم مقام اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں پایا تھا۔ اسی مقام و مرتبہ نے ان کو تجربہ، عقلمندی اور عربوں کی تاریخ کی معرفت سے نوازا۔ جب کہ آپ کی دانش مندی اور ذہانت کا کچھ کہنا ہی نہیں۔ عرب کے لوگ اپنے جھگڑوں کو ختم کرانے کے لیے آپ ہی کے پاس آتے۔ ابن سعد فرماتے ہیں '’سیدنا عمرؓ اسلام لانے سے پہلے عربوں میں ان کے جھگڑوں کا فیصلہ کرتے تھے۔‘‘ 

(الفاروق مع النبی: صفحہ، 6)

آپ صاحب حکمت ودانش، بلیغ، عمدہ رائے والے، طاقتور، بردبار، شریف، دلیل میں پختہ اور گفتگو میں واضح الکلام تھے۔ ان خوبیوں نے آپ کو اس لائق بنا دیا کہ آپ دوسرے قبائل سے فخر و مباہات یا نفرت و تحقیر میں قریش کی جانب سے سفیر قرار پائے۔ 

(التاریخ الاسلامی العالم: علی حسن ابراہیم: صفحہ، 226، الادارۃ الاسلامیۃ فی عہد عمر بن الخطاب: صفحہ، 90)

ابن الجوزی کا بیان ہے: سیدنا عمر بن خطابؓ کے ذمہ سفارت کا منصب تھا۔ اگر قریش اور دیگر قبائل میں لڑائی چھڑ جاتی تو وہ آپ کو سفیر بنا کر بھیجتے۔ یا ان (قریش) کو اگر کوئی نفرت دلانے والا نفرت دلاتا، یا فخر کرنے والا فخر کرتا تو قریش آپ کو نفرت دلانے اور فخر و مباہات جتانے کے لیے اپنا سفیر بنا کر بھیجتے، اور آپ سے وہ سب خوش رہتے۔ (عمر بن الخطاب: حیاتہ: علمہ: ادبہ: علی احمد الخطیب: صفحہ، 153)

قریش کا جو بھی رسم و رواج، عبادتیں اور نظام زندگی ہوتا اس کی طرف سے آپ دفاع کرتے، آپ دل کے ایسے مخلص تھے کہ جس بات پر یقین کر لیتے اس کی طرف سے دفاع کرنے میں جان کھپا دیتے۔ یقین کی بنیاد پر دفاع کرنے والی اسی طبیعت و مزاج کی سختی کی وجہ سے سیدنا عمرؓ نے اسلامی دعوت کے بالکل ابتدائی مرحلے میں اس کی جم کر مخالفت کی، اور انہیں خوف محسوس ہوا کہ کہیں یہ دین، مکی نظام کی بنیادیں نہ ہلا دے، جو بہت ہی مستحکم ہے۔ اور جس نے مکہ کو عربوں میں ایک خاص مقام دیا ہے۔ اس مکہ میں وہ گھر ہے جس کی زیارت کے لیے لوگ آتے ہیں۔ اور پھر قریش کو اسی نے دیگر عربوں میں ایک نمایاں حیثیت دی ہے۔ اسی وجہ سے مکہ روحانی و مادی دولت سے مالا مال ہے۔ اور یہی مکہ کی روز افزوں ترقی اور اس کے سرداروں کی مال داری کا اصل سبب ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے سردارانِ مکہ نے دین اسلام کی بہت مخالفت کی، اور اس پر ایمان لانے والے کمزور لوگوں کو بہت ستایا، ان کمزوروں پر ظلم ڈھانے میں سیدنا عمرؓ انتہائی سخت تھے۔ 

(عمر بن الخطاب: محمد احمد ابوالنصر: صفحہ، 17 )

آپ زمانۂ جاہلیت میں ایک لونڈی کے اسلام قبول کر لینے پر اس کو اتنا مارتے رہے کہ آپ کے ہاتھ تھک گئے، کوڑا ہاتھوں سے گر گیا، تھک کر آپ رک گئے۔ سیدنا ابوبکرؓ کا ادھر سے گزر ہوا، اور آپ نے انہیں لونڈی کو مارتے دیکھا، تو اس کو آپ سے خرید لیا اور آزاد کر دیا۔ 

(الخلیفۃ الفاروق عمر بن الخطاب: العانی: صفحہ، 16)

سیدنا عمرؓ جاہلیت میں پلے بڑھے، اور ٹھیٹھ جاہلیت کی زندگی گزاری اور اس کی حقیقت و رسم و رواج سے بخوبی آشنا ہوئے، اور پوری قوت کے ساتھ اس کی طرف سے دفاع کیا۔ لیکن جب اسلام قبول کیا، اس کی خوبی و حقیقت کو پہچان لیا، ہدایت و گمراہی، ایمان و کفر اور حق و باطل کے درمیان حقیقی فرق سے واقف ہو گئے تو ایک بہت اہم بات کہی:

 انما تنقض عری الاسلام عروۃ عروۃ اذا نشأَ فی الاسلام من لا یعرف الجاہلیۃ۔

(الخلیفۃ الفاروق: د: العانی: صفحہ، 16)

جب اسلام میں ایسے لوگ پروان چڑھنے لگیں جو جاہلیت سے ناواقف ہوں تو اسلام کی ایک ایک جڑ ٹوٹتی چلی جائے گی۔