Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل: جہت اور حدوث کی بحث اور ابن تیمیہ کا ردّ

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:جہت اور حدوث کی بحث اور ابن تیمیہ کا ردّ[اعتراض] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’فرقہ کرامیہ اﷲ تعالیٰ کو بالائی جانب قرار دیتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ جو چیز کسی جہت میں ہو، وہ اس جہت کی محتاج ہوگی، اور اس کے ساتھ ساتھ حادث بھی ہوگی۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی][جواب]: یہ نہ کرامیہ کا مذہب ہے؛اور نہ ہی کسی دوسرے کا۔ بلکہ کوئی بھی یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ اللہ تعالیٰ ایسی جہت میں ہے کہ اس جہت نے اس کا احاطہ کیا ہوا ہے؛ یا پھر وہ اس کا محتاج ہے۔ بلکہ تمام لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ فوق العالم ہے،اوروہ اپنے علاوہ ہر ایک سے بے نیاز اور غنی ہے۔خواہ اسے جہت کانام دیا جائے یا نہ دیا جائے۔ اگرچہ جب وہ جہت کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے فوق العالم ہونا مراد لیتے ہیں ۔ یہ کرامیہ کے علاوہ دوسر ے لوگوں کا بھی مذہب ہے۔ قدیم دور کے ائمہ شیعہ کا بھی مذہب تھا ؛ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر گزر چکا ہے۔ تم نے اس کے ابطال پر کوئی دلیل نہیں بیان کی ۔ جب کوئی لوگوں کے مذاہب میں کوئی برائی بیان کرتا ہے تو اس کے لیے ضرور ی ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے بطلان پر دلیل بھی بیان کرے۔تمام مخلوق کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عالم کے اوپر ہے۔ اگرچہ یہ لوگ لفظ جہت کے بولنے سے احتراز کرتے ہیں ۔ وہ اپنے دل سے اس کا اعتقاد رکھتے ہیں اور زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ ان کا رب اوپر ہے۔[1][1] صحیح مسلم کتاب الحج، باب فضل یوم عرفۃ، (حدیث:۱۳۴۸) اور وہ کہتے ہیں کہ : یہ بات ان کی فطرت میں داخل ہوچکی ہے۔ جیسا کہ ابو جعفر ہمدانی[2] [2] نام محمد بن حسن بن محمد کنیت ابو جعفر اور نسبت ہمدانی ہے۔ آپ بہت بڑے حافظ حدیث اور صادق القول تھے ۔ابن السمعانی کہتے ہیں : یہ اپنے عصر و عہد میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے، ۔امام الحرمین فرماتے ہیں : ظواہر نصوص کے بارے میں علماء کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے، علماء کی ایک جماعت آیات و احادیث نبویہ میں تاویل کی قائل ہے، ائمہ سلف تاویل نہیں کرتے، بلکہ نصوص کو ان کے ظاہری مفہوم پر محمول کرتے ہیں وہ ان کے مفاہیم و معانی کا علم اﷲ تعالیٰ کو تفویض کرتے ہیں ۔ ہمارا ذاتی زاویہ نگاہ اس ضمن میں یہ ہے کہ ہم سلف صالحین کی پیروی کرتے ہیں ، اس مسئلہ میں قطعی دلیل یہ ہے کہ امت کا اجماع ایک لائق اتباع حجت ہے جس کی تائید شریعت حقہ سے ہوتی ہے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ظواہر نصوص کے فہم و ادراک کے درپے نہیں ہوتے تھے۔ علامہ المناوی الجامع الصغیر کی شرح میں لکھتے ہیں : علامہ سمعانی رحمہ اللہ نے ابو جعفر ہمدانی رحمہ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے امام الحرمین ابو المعالی کو سنا فرماتے تھے: ’’ میں نے لاکھوں اوراق کا مطالعہ کیا اور پھر بغور اس بات کا جائزہ لیا کہ مسلمان اسلامی عقائد اور ظاہری علوم پر کہاں تک اعتماد رکھتے ہیں ، میں بحر مواج میں سوار ہوا اور ان چیزوں میں سوار ہوا جس سے اسلام نے منع کیا ہے( یعنی فلسفہ و علم الکلام کا مطالعہ کیا) یہ سب کچھ حق کی تلاش میں کیا، میں اب ان تمام باتوں سے منہ موڑ کر کلمہ حق کی طرف لوٹ( نے استواء کے منکر سے کہا تھا۔ جب ان سے کہا گیا کہ : اگر اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوتے تو اس سے حوادث پیش آتے۔ تو ابو جعفر نے کہا:’’ استواء کا علم ہمیں نقلی دلائل سے حاصل ہوا، ان کی عدم موجودگی میں ہم اسے معلوم نہ کر سکتے تھے۔ اور آپ اس کی تاویل کرتے ہیں ۔اب اسے چھوڑئیے اور ہمیں ایک بد یہی بات کا پتہ بتلائیے جس کا احساس ہمارے دل میں جاگزیں رہتا ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی عارف زبان سے ’’ یا اﷲ ‘‘ کہتا ہے تو قبل اس کے کہ اس کی زبان پر یہ کلمہ جاری ہو،اس کے دل میں علو (بلندی) کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے، (یعنی فوراً اس کا ذہن اس طرف مائل ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فوق العالم ہے) وہ دائیں بائیں متوجہ نہیں ہوتا، کیا آپ کسی حیلہ سے اس بد یہی بات کو ہمارے دل سے محو کر سکتے ہیں ؟ ‘‘مذکورہ صدرعبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی فوقیت کی نفی کے لیے جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ نظری کسبی ہے؛جوکہ کسی بھی طرح ایک بد یہی و فطری دلیل کا مقابلہ نہیں کر سکتی، خصوصاً جب کہ باری تعالیٰ کا فوق العالم ہونا، نصوص متواترہ سے ضرورت کے تحت ثابت ہے۔ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بدیہیات کا نظری دلائل سے ردکرنا ناممکن ہے، اگر بدیہیات کو بھی ہدف تنقید بنایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اساسی نظریات پر جرح و قدح کا دروازہ کھول دیا جائے اور اس طرح فروعات کی بجائے اصول کو تنقید کے تیروں سے چھلنی کیا جائے؛تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بدیہیات و نظریات دونوں ہی باطل ہو کر رہ جائیں گے۔پس اس پر متکلم نے اپنے سر پر ہاتھ مارا اور کہا: ہمدانی نے مجھے حیران کردیا۔ ہمدانی نے مجھے حیران کردیا۔ ہمدانی نے مجھے حیران کردیا۔‘‘تاہم اﷲ تعالیٰ کے فوق العالم ہونے کی نفی کرنے والوں نے اپنے زاویہ نگاہ کو عقلی دلائل کے بل بوتے پر ثابت کرنے کی سعی لا حاصل کی ہے؛اگران کی دلیل صحیح ثابت بھی ہوجائے تو وہ فقط نظری دلیل ہوتی ہے۔جب کہ ہمارے پاس اس کا علم ضروری پایا جاتا ہے۔اس علم کی روشنی میں ہم اس قصد ویقین پر مجبور ہیں ۔پس کیا آپ کے پاس اس علم ضروری اور قصد ضروری کے رد میں کوئی دلیل ہے؟جو کہ ہم پر اس طرح سے لازم ہے کہ ہم اس کو ختم نہیں کرسکتے۔ پھر اس کے بعد اس کے نقیض پر دلائل پیش کئے۔ ضروریات کو نظریات سے ختم کرنا نا ممکن ہے۔ اس لیے کہ نظریات کی منتہاء یہ ہے کہ ان پر ضروری مقدمات سے دلائل پیش کئے جاسکیں ۔ پس ضروریات نظریات کی اصل اور بنیاد ہیں ۔ اگر ضروریات پر نظریات سے قدح کی جائے تو اس سے نظریات کی اصل پر قدح لازم آتی ہے۔ پس اس صورت میں نظریات اور ضروریات دونوں باطل ٹھہرتی ہیں ۔پس اس لیے ہر حال میں ہم پر اس قدح کو باطل ثابت کرنا لازم آتا ہے۔ اس لیے کہ کسی چیز کی بنیاد پر قدح کرنا خود اس کی ذات میں[1][1] آیا ہوں ۔اور وہ یہ ہے کہ انہی عقائد پر قائم رہو جن پر بوڑھی عورتیں یقین رکھتی ہیں ، اسی پر میری موت واقع ہوگی اور میرا خاتمہ حق و صداقت اور کلمہ اخلاص پر ہوگا، اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو تو ابن الجوینی کے لیے تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ شذرات الذہب میں لکھا ہے کہ: یہ امام الحرمین کے اصلی الفاظ ہیں ۔قدح ہے۔ اورجب اس کا فساد ثابت ہوجائے تو قدح بھی باطل ہوجاتی ہے۔ پس صحت و فساد ہر دو صورتوں میں قدح باطل ہے۔ اس لیے کہ اس کی صحت سے اصل کی صحت لازم آتی ہے۔ اور اس کے فساد سے اصل کا فساد لازم نہیں آتا۔ اس لیے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ فساد صرف اس چیز میں ہو ؛ اس کی اصل میں نہ ہو۔ اس لیے کہ اصل میں قدح سے فرع کا بھی فساد لازم آتا ہے۔ اور جب اصل ہی فاسد ہو تو پھر اس میں کوئی قدح نہ ہوتی ہے نہ ہی ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نظری دلیل اپنے مقدمات اور ان کی تالیف پرموقوف ہوتی ہے۔ اور کبھی اس دلیل کا فساد اس مقدمہ کے فساد کے وجہ سے بھی ہوتا ہے یا کسی دوسرے فساد کی وجہ سے ؛ یا فساد نظم کی وجہ سے۔ پس جب یہ ایک مقدمہ باطل ہو تو پھر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ تمام ہی مقدمات باطل ہوں ۔ اس کے برعکس جب ایک مقدمہ باطل ہو تو پھر اس کی دلیل بھی باطل ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر کسی ایک مقام پر واقع ہوجائے جس میں وہ اس جگہ سے مستغنی نہ ہو مگر وہ جگہ اس سے مستغنی ہو؛اس صورت میں وہ غیر کا محتاج ہو۔ مگر یہ کسی ایک کا بھی عقیدہ نہیں ۔ایسے ہی ہمیں کسی ایک بھی ایسے کا علم نہیں ہوا جو یہ کہتا ہو کہ وہ اپنی مخلوقات میں سے کسی ایک کا محتاج ہے۔ چہ جائے کہ وہ مخلوقات کے علاوہ کسی اور کا محتاج ہو۔اور نہ ہی کسی ایک نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا محتاج ہے؛ حالانکہ وہی اس کا خالق ہے۔ اور مخلوق تمام کی تمام اپنے خالق کی محتاج ہے ؛ جب کہ خالق مخلوق میں سے کسی ایک کا بھی محتاج نہیں ۔ وہ اپنی قدرت سے عرش اورتمام مخلوقات کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ وہ عرش سے بے نیاز ہے ؛ اور دیگر تمام مخلوقات اس کی فقیر و محتاج ہیں ۔جو کوئی کرامیہ یا دیگر اثبات صفات والے گروہ سے یہ سمجھا ہے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش کے محتاج ہیں ؛ تو یقیناً اس نے ان لوگوں پر بہت بڑا بہتان گھڑا ہے۔اور یہ کیسے ممکن ہے ؛ جب کہ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تخلیق عرش سے پہلے بھی موجود تھے۔ اور جب وہ عرش سے پہلے موجود اور اپنی ذات کے ساتھ قائم ہے؛ تو اس سے صاف واضح ہوگیا ؛ کہ وہ ہستی عرش سے بے نیاز ہے۔جب اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہیں ؛ تو اس سے یہ واجب نہیں ہوتا کہ وہ اس کا محتاج بھی ہو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ اس کے بعض حصے اس کے بعض کے اوپر ہیں ۔ مگر اس کا اوپر والا حصہ نیچے والے حصہ کا محتاج نہیں ہے۔ پس ہوا زمین کے اوپر ہے؛ مگر وہ اس کی محتاج نہیں ہے۔ایسے ہی بادل بھی زمین سے اوپر ہوتے ہیں مگر اس کے محتاج نہیں ہوتے۔ ایسے ہی آسمان بادلوں ؛ ہوا اور زمین سے بھی اوپر ہے ؛ مگر ان کا محتاج نہیں ہے۔ تو پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ العلی الاعلی ہر چیز کا خالق وہ اپنی مخلوق کا اس لیے محتاج ہے کہ وہ ان سے اوپر اور بلند ہے۔ایسے ہی شیعہ کا یہ کہنا کہ : ’’ہر وہ چیز جو کسی جہت میں ہوگی وہ محدَث ہوگی‘‘ مگر اس پر کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔ اس کے سابقہ بیان سے اس کے کلام کا خلاصہ یہ لگتا ہے کہ وہ کہنا چاہتا ہے کہ : اگر اللہ تعالیٰ کسی جہت میں ہے تو وہ جسم ہوگا؛ اگر جسم ہوا تو پھر ہر جسم محدث ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جسم حوادث سے خالی نہیں ہوتا۔ اور جو حوادث سے خالی نہ ہو وہ خود بھی حادث ہوتا ہے۔[ جس طرح وہ یہ کہتے ہیں کہ: دو چیزیں جو موجود ہوں گی وہ باہم یا تو متباین ہوں گی یا متداخل۔ ان کے زعم میں اس کا علم ہونا ایک بد یہی؍ضروری بات ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسے موجود کا اثبات جس کی جانب اشارہ نہ کیا جاسکتاہو حس و عقل کے منافی ہے۔حالانکہ قرآن کے بیشتر مقامات پر اﷲ تعالیٰ کا فوق العالم ہونا مذکور ہے، بعض علماء کا قول ہے کہ قرآن کریم میں ۳۰۰ جگہ اس کا ذکر آیا ہے۔ احادیث نبویہ میں تواتر کے ساتھ یہ ثابت ہے ۔ علماء سلف سے بھی تواتر کے ساتھ منقول ہے؛ وہ بھی اس میں متحد الخیال تھے؛ ان میں کوئی ایک بھی اس کا منکر نہیں تھا۔ جو لوگوں پر تنقید کرنا چاہتا ہو اور اس غرض کے لیے دلائل قاطعہ کو بھی رد کر دے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے نظریات کو دلائل کی روشنی میں ثابت کرے۔