حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہ
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندحضرت ارقم بن ابی ارقمؓ
انھیں کے گھر میں حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تھا، اس کے بعد ہی کھلم کھلا اسلام کی دعوت دی جانے لگی، یہ گھر کوہِ صفا کے دامن میں تھا، اسے دعوتِ اسلام کا پہلا خفیہ مرکز کہا جا سکتا ہے، حضرت ارقمؓ ساتویں مسلمان تھے اور حضرت عمرؓ چالیسویں مسلمان تھے۔ آپ نے تمام غزوات میں حصہ لیا، سرکارِ دو عالمﷺ نے آپ کو صدقات جمع کرنے پر مامور فرمایا تھا، اور مدینہ طبیہ میں ایک حویلی بھی عنایت فرمائی تھی۔
(الاصابہ: جلد، 1 صفحہ، 280 اسد الغابہ: جلد، 1 صفحہ، 60)
متعدد مؤرخین نے آپ کا نام کاتبینِ دربارِ رسالتﷺ میں لکھا ہے، مثلاً ابن کثیر، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری وغیرہ۔
(حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ: جلد، 1 صفحہ، 60، عیون الاثر: جلد، 2 صفحہ، 316 شرح الفیہ صفحہ، 247، المصباح المضئی: صفحہ، 18 بحوالہ نقوش: جلد، 7 صفحہ، 142)
علامہ ابنِ کثیرؒ نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ:
حضرت ارقمؓ نے سرکارِ دوعالمﷺ کے حکم سے عظیم بن الحارث المحاربی کو ایک بہت بڑی جاگیر لکھ دی تھی۔
(البدایہ والنہایہ: جلد، 5 صفحہ، 341)
ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی مشہور و معروف کتاب الوثائق السیاسیہ میں وثیقہ نمبر 84، 88، 176، 221 پر بحیثیت کاتب حضرت ارقمؓ کے دستخط موجود ہیں۔ آپ کی عمر اسی سال سے زائد ہوئی، بعض نے حضرت صدیق اکبرؓ کی وفات کے دن آپ کی وفات لکھی ہے اور بعض نے 55ھ بتائی ہے، وصیت کے مطابق آپ کی نمازِ جنازہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے پڑھائی۔
(اسد الغابہ: جلد، 1 صفحہ، 229 بحوالہ نقوش: جلد، 7 صفحہ، 143)