میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ (تحقیق)
خادم الحدیث سید محمد عاقب حسینمیرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ (تحقیق)
امام ابنِ حبانؒ رحمہ اللہ (المتوفى: 354ھ) نے فرمایا:
أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَىٰ قَالَ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَىٰ زَحْمَوَيْهِ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِی عُبَيْدَةُ بْنُ أَبِی رَائِطَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغَفَّلِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ اللَّهَ اللَّهَ فِی أَصْحَابِی لَا تَتَّخِذُوا أَصْحَابِی غَرَضًا مَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّی أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِی أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذاهم فقد آذانی ومن آذانی فقد آذ اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ۔
(صحيح ابنِ حبان: 7256)
ترجمہ: عبداللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاملہ میں اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے۔
(ھذا حدیث صحیح لغیرہ)
صحیح ابنِ حبان کی سند میں عبد الله بن عبد الرحمٰن الرومی پر جہالت کا الزام ہے جس وجہ سے اس سند کو ضعیف کہا جاتا ہے مگر تحقیق کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ الزام درست نہیں سب سے پہلے ہم اس راوی کے معروف ہونے پر دلیل دیں گے اور پھر اس کی توثیق پر چنانچہ سید المحدثین امام بخاریؒ فرماتے ہیں:
مُحَمد بْن الحُسَين بْن إِبْرَاهِيم، حدَّثنی أَبی، سَمِعتُ حَماد بْن زَيد، حدَّثنا عَبد اللهِ الرُّومِی، ولم يكن رُومِيًّا، كَانَ رجلا منا من أهل خُراسان۔
ترجمہ: حسین بن ابراہیم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انہوں نے حماد بن زید سے سنا کہ عبداللہ الرومی جو ہے یہ رومیوں میں سے نہیں بلکہ یہ اہلِ خراسان میں سے ایک ہے۔
یہ ہے اس راوی کے معروف ہونے کی دلیل جہاں تک بات رہی توثیق کی تو درج ذیل محدثین نے اس کی توثیق کی۔
1: امام ابنِ حبؒان نے ان کو ثقہ کہا۔
(ثقات ابنِ حبان: جلد، 5 صفحہ، 17 رقم: 52)
2: امام زین الدین قاسمؒ بن قطلوبغا نے اپنی کتاب الثقات ممن لم يقع فی الكتب الستة۔
ترجمہ: یعنی وہ ثقہ راوی جو کتب ستہ میں موجود نہیں اس کتاب میں درج کرکے توثیق کی۔
(الثقات ممن لم يقع فی الكتب الستة: جلد، 5 صفحہ، 378)
3: اور امام عجلیؒ نے بھی اس کو ثقہ کہا ہے
(تاريخ الثقات: صفحہ، 284 رقم: 914)
ان تمام تصریحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ راوی کم از کم درجہ صدوق حسن الحدیث پر فائز ہے اور اس کو اس درجہ سے گرانا زیادتی ہوگی ہو سکتا ہے یہاں پر کچھ لوگوں کو اشکال ہو کہ امام الائمہ و المسلمین شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ نے تقریب التہذیب میں اس کو مقبول کہا ہے اور وہ اس اصطلاح کا اطلاق لین الحدیث پر کرتے ہیں تو اس اشکال کا بھی جواب دیتے چلتے ہیں:
اسکا جواب یہ ہے کہ امام ابنِ حجر عسقلانیؒ کا اس کو مقبول کہنا اس کو درجہ صدوق سے نہیں گراتا کیونکہ امام ابنِ حجر عسقلانیؒ نے تو اپنی اصطلاح مقبول کا اطلاق صحیح بخاری کے ثقہ راویوں پر بھی کیا ہے مثلاً:
يحيىٰ بن قزعة:
ان کو امام ابنِ حبانؒ نے ثقہ کہا امام ذھبیؒ نے ثقہ کہا مگر حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ نے ان کو مقبول کہا جب کہ یہ امام بخاریؒ کے شیخ ہیں اور امام بخاریؒ ان سے صحیح بخاری میں متصل مرفوع روایات لائے ہیں مثال کے طور پر چند حدیثوں کے نمبر پیش کر دیتا ہوں جن میں امام بخاریؒ ڈائریکٹ ان سے روایت کر رہے ہیں۔
(حدیث نمبر: 4491، 2602، 6988، 4216)
تو ثابت ہوا کہ صحیح ابنِ حبان کی سند حسن ہے اب چلتے ہیں سنن الترمذی کی سند کی طرف:
امام ترمذیؒ (المتوفى: 279ھ) نے فرمایا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَىٰ قال: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ قال: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ أَبِی رَائِطَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ اللَّهَ اللَّهَ فِی أَصْحَابِی، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِی، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّی أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِی أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِی، وَمَنْ آذَانِی فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَه۔
(سننِ ترمذی: 3862)
ترجمہ: عبداللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاملہ میں اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذاء پہنچائی اس نے اللہ کو ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذاء دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے۔
اس کی سند میں موجود راوی عبد الرحمٰن بن زياد پر یہ اعتراض ہے کہ یہ مجہول راوی ہے یہ اعتراض بھی حقیقت کے بالکل مخالف ہے یہ راوی صدوق حسن الحدیث ہے۔
1: اس کو امام یحییٰ بن معین نے ثقہ کہا:
اور یہ ایک متفقہ اصول ہے کہ اگر متشدد امام کسی راوی کی تعدیل و توثیق کرے تو وہ اعلیٰ درجہ کی مقبولیت کی حامل ہوتی ہے جیسا کہ امام ذہبیؒ نے امام یحییٰؒ بن سعید القطان کے بارے میں فرمایا اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امام یحییٰؒ بن معین جرح میں متشدد امام تھے لہٰذا آپ کی توثیق اعلیٰ درجے کی مقبولیت کی حامل ہے
(سير أعلام النبلاء للإمام الذهبی: جلد 9 صفحہ 183)
2 اس کو امام ابنِ حبؒان نے ثقہ کہا:
3 اس کو امام عجلیؒ نے ثقہ کہا:
(كتاب تہذيب التہذيب: جلد 6 صفحہ 177)
كتاب تحریر تقريب التہذيب میں اس راوی کے حوالے سے حتمی فیصلہ یہ بتایا گیا کہ یہ راوی صدوق حسن الحدیث ہے اور ہمارے نزدیک بھی یہی درست اور راجح ہے
(كتاب تقريب التہذيب: جلد 2 صفحہ 320)
تو ثابت ہوا کہ ابنِ حبانؒ کی سند بھی حسن ہے اور ترمذی کی سند بھی حسن ہے اور جامع ترمذی کی سند کو تو خود امام ترمذیؒ نے بھی حسن غریب کہا ہے لہٰذا یہ حدیث صحیح لغیرہ کے درجے پر فائز ہے کیونکہ اصول حدیث کی کتب میں صحیح لغیرہ کی تعریف واضح ہے:
الصحيح لغيرہ هو الحسن لذاته إذا روی من طريق آخر مثله أو أقوى منه وسمی صحيحا لغيره؛ لأن الصحة لم تأت من ذات السند الأول، وإنما جاءت من انضمام غيره له۔
ترجمہ: صحیح لغیرہ وہ ہے جب حسن لذاتہ کو کسی دوسرے طریق سند کے ساتھ روایت کیا جائے جو اس کی مثل یا اس سے زیادہ قوی ہو تو یہ صحیح لغیرہ ہے اس کو صحیح لغیرہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی صحت سند کی ذات سے نہیں آتی بلکہ اس کے غیر کو اس سے ملانے کی وجہ سے آتی ہے۔
(نخبة الفكر مع شرحها نزهة النظر: صفحہ، 34)
(كتاب تيسير مصطلح الحديث: صفحہ، 64)
خلاصہ کلام:
اصولی طور پر ہم نے ثابت کیا کہ صحیح ابنِ حبان کی سند بھی حسن ہے اور جامع ترمذی کی سند بھی حسن ہے لہٰذا جب دو حسن اسناد ایک دوسرے کی مثل موجود ہیں تو یہ حدیث صحیح لغیرہ کے درجہ پر فائز ہے
اگر کوئی شخص صحیح ابنِ حبان کی سند کو ضعیف مانتا ہے اور جامع ترمذی کی سند کو حسن مانتا ہے تو تب بھی یہ حدیث حسن لذاتہ کے درجے پر فائز رہے گی اور ابنِ حبان کی سند اس کی متابعت بنے گی اور اگر کوئی شخص دونوں اسناد کو ضعیف کہتا ہے تب بھی یہ حدیث درجہ حسن لغیرہ پر فائز رہے گی یعنی قابل احتجاج و استدلال رہے گی۔
لہٰذا کسی طرح بھی اس حدیث کے قوی ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی شخص مطلقاً اس حدیث کو ضعیف کہتا ہے تو وہ علم و اصول حدیث سے ناواقف ہے۔
فقط واللہ ورسولہٗ اعلم بالصواب
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی۔