Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حرمت متعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ

  مولانا اللہ یار خانؒ

حرمت متعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ

حضرت ابنِ عباسؓ کی عمر وفاتِ رسول خداﷺ کے وقت 10 سال تھی فتح مکہ کے وقت سات آٹھ سال اس وقت خود مکہ میں حاضر بھی نہ تھا۔

عن ابن عباسؓ توفی رسول اللهﷺ وانا ابن عشر سنين (استیعاب: صفحہ 343 جلد 2)۔ 

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری عمر وقت وفاتِ رسولﷺ 10 سال تھی۔ 

فائدہ: سیدنا ابنِ عباسؓ سنی سنائی بات بیان کرتے تھے۔

والله ما بهذا افتيت ولاهذا اردت ولا احللت منها الا ما احل الله الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ الخ۔

سیدنا ابنِ عباسؓ نے فرمایا خدا کی قسم میں نے یہ فتویٰ نہیں دیا اور نہ میں نے یہ ارادہ کیا ہے میں نے اس کو اس طرح حلال سمجھا ہے جس طرح خدا نے مردار کا گوشت اور خنزیر کا گوشت حلال کیا ہے اور دوم مسفوح حلال کیا ہے۔

فائدہ: جب متعہ یعنی نکاحِ مؤقت کے متعلق سیدنا ابنِ عباسؓ سے سوال ہوا تو یہ جواب دیا کہ یہ خنزیر اور مردار کے گوشت کی طرح ہے مزید بحث اس پر گزر چکی ہے بہرحال یہ حکم حالتِ اضطراری میں تھا۔ "ان الاضطرار ليس من افعال المكلف" اور اضطراری حالت میں انسان مکلف ہی نہیں ہوتا باقی سیدنا ابنِ عباسؓ کا جواز مت کا قائل ہونا ان کی اپنی ذاتی رائے تھی اور ان کا ذاتی اجتہاد تھا اس جواز پر آپ کے پاس کوئی حکم موجود نہ تھا اور یہ رائے بھی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف تھی۔ 

ان مجموعه الروايات تدل على اصرار ابن عباسؓ على فتوبه بالمتعة لكن على سبيل الضرورة وهو اجتهاد منه معارض بالنصوص ويقابلة اجتهاد السواد الاعظم من الصحابة والتابعين والسائر المسلمين۔ 

(التفسير مناز: صفحہ 15 جلد 5) تمام روایات دلالت کرتی ہیں اس امر پر کے سیدنا ابنِ عباسؓ کا جوازِ متعہ کا فتویٰ ضرورت کے لیے تھا اور یہ ان کا ذاتی اجتہاد تھا جو کہ قرآن و حدیث کے نصوص کے مخالف تھا اور بڑی جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تابعینؒ کی اور مسلمانوں کی اس کے خلاف تھی۔

و جزم جماعة من الائمة متفرد ابن عباسؓ بابامتها فهی من المسئلة مشهورة وهی ندرة المخالف۔ 

(وفتح الملہم: صفحہ 444 جلد 3) ائمہ مجتہدین کی جماعت نے ثابت کیا ہے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ جوازِ متعہ کے متفرد تھا اور یہ مسئلہ مشہور ہے جس کو یہ ندرة المخالف سے تعبیر کرتے ہیں یعنی شاذ و نادرہ سے ہے اور شاذ و نادرہ قول پر فتویٰ نہیں دیا جاتا۔

فائدہ: اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی ذاتی رائے تھی کوئی شرعی دلیل آپؓ کے پاس نہ تھی یہ رائے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مخالف تھی جو قابلِ حجت نہ تھی۔ ان تمام امورِ غریبہ کے باوجود حضرت ابنِ عباسؓ کا رجوع ثابت ہے جب رجوع ثابت ہے تو پھر ان کا قول ثابت کرنا بددیانتی و خیانت نہیں تو اور کیا ہے چلو کچھ بھی تھا مگر جب سیدنا ابنِ عباسؓ نے رجوع کر لیا تو پھر یہ سخت بد دیانتی ہے ان کا قول پیش کر کے خلق کو صریح زناء میں مبتلا کرنے کی کوشش کرنا۔

  •  وابن عباسؓ صح رجوعه الى قولهم۔ (فتح القدير)

سیدنا ابنِ عباسؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا کہ متعہ حرام ہے۔

  •  و ابن عباسؓ صح رجوعه بعد ما اشتهرت عنه من اباحتها (فتح القدیر: صفحہ 32)

سیدنا ابنِ عباسؓ اول اباحتِ متعہ کے قائل تھے پھر رجوع کر لیا تھا اباحت سے اور حرمتِ متعہ کے قائل ہو گئے تھے۔ 

  • وما نقل عن ابن عباسؓ من اباحتها فقد صح رجوعه

 (بحر الرائق: صفحہ 108 جلد 2)

سیدنا ابنِ عباسؓ سے اباحت منقول ہے بس صحیح ہو چکا ہے رجوع سیدنا ابنِ عباسؓ کا متعہ کی حرمت کی طرف۔

فائدہ: بہرحال جس وقت ہی رجوع ثابت ہوا رجوع کے بعد ان کا قول پیش کرنا بغیر بددیانتی کے اور کچھ نہیں۔

شیعہ علی نقی نے متعہ اور اسلام کے صفحہ 232 پر ایک اور دیانت داری کی ہے سیدنا ابن عباسؓ اور سیدنا علیؓ کا تنازعہ ،بیان کرتے ہوئے فرمایا: 

وکان ابن عباسؓ يلين فی المتعة۔ 

سیدنا ابنِ عباسؓ متعہ میں نرمی کرتے تھے اس میں یہ دیانت داری کی ہے کہ سیدنا ابنِ عباسؓ حلتِ متعہ میں نرمی کرتے تھے اور سیدنا علیؓ نے ان کو مضبوط کیا کے متعہ حلال ہے نرمی سے فتویٰ نہ دیں خوب زور سے دیں

الجواب: یہ شیعہ علی نقی کی لیاقتِ علمی کی دلیل ہے اور دیانت داری کی اصل عبارت یوں ہے۔ "وكان ابن عباسؓ يلين فی حرمت المتعة" یعنی حرمت میں سیدنا ابنِ عباسؓ سستی کرتا تھا یعنی حلال کا فتویٰ دیتا تھا جیسا کہ گزر چکا ہے سیدنا علیؓ نے فرمایا حرمت میں سستی نہ کیجئے گا یہ حرام ہے مگر آئیے میں آپ کو شیعہ علی نقی کی دیانت داری کا نمونہ دکھاتا ہوں اس نے متعہ اور اسلام کے صفحہ 249 پر فتح القدیر کی طولانی عبارت نقل کر کے آخری حصہ اس عبارت کا ترک کر دیا اور ثابت یہ کیا کہ سیدنا ابنِ عباسؓ نے موت تک رجوع نہیں کیا

"ولم يرجع الى قول علىؓ رضى الله ذلك ه فالا ولى ان يحكم بأنه رجع بعد بناء على ما رواه الترمذی۔ (فتح القدیر: صفحہ 34 جلد 2) اور نہ رجوع کیا سیدنا ابنِ عباسؓ نے قولِ سیدنا علیؓ کی طرف پس اولیٰ بات یہ ہے کہ حکم کیا جائے کہ سیدنا ابنِ عباسؓ نے رجوع کر لیا تھا اس کے بعد جیسا ترمزی نے بیان کیا۔

فائدہ: اس عبارت کو ترک کر دیا۔ اس سے پہلے بھی کتنی عبارتیں نقل کر چکا ہوں کہ سیدنا ابنِ عباسؓ نے رجوع کرلیا تھا مگر شیعہ علی نقی کی دیانت داری یہ کہ ان تمام کو ترک کر دیا ہے ہر عبارت میں ان کی خیانت ٹپک رہی ہے جواب کس کس بد دیانتی کا دیا جائے۔