قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق؟
غلام مصطفی ظہیر امن پوریقرآن کریم کے بوسیدہ اوراق
قرآن کریم اللہ تعالی کا حقیقی کلام ہے۔ اس کا احترام فرض ہے، قرآن کریم کی صیانت و حفاظت مومن کا فریضہ ہے ۔ اس کی توہیں و اہانت کفر ہے ، البتہ قرآن کریم کے اوراق انتہائی بوسیدہ ہو جائیں ، پڑھنے کے لائق نہ رہیں ، انہیں کسی ایسی زمین میں دفن کر دیا جائے ، جہاں ان کی بے حرمتی کا شائبہ نہ ہو۔ یا کسی غیر آباد کنویں میں ڈال دیا جائے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو ، تو ان اوراق کو جلا دینے میں کوئی حرج نہیں ، وہ خاک دفن کر دی جائے ۔ اس میں چونکہ قرآن کریم کی تحقیر کا قصد نہیں ہے، بلکہ اس کی حفاظت اور احترام پیش نظر ہے۔ جمہور علماۓ اسلام کی یہی رائے ہے۔
قاضی عیاض ( 544ھ) لکھتے ہیں :
إعلم أن من استخف بالقرآن أو المصحف أو بشيء منه أو سبهما أو جحده أو حرفا منه أو آية أو كذب به أو بشيء منه أو كذب بشيء مما صرح به فيه من حكم أو خبر أو أثبت ما نفاه أو نفى ما أثبته على علم منه بذلك أو شك في شيء من ذلك فهو كافر عند أهل العلم بإجماع .
’’جان لیجئے کہ جس نے قرآن با مصحف یا اس کے ایک حصے کا استخفاف کیا ، یا ان کے بارے میں کوئی توہین آمیز کلمہ کہا ، یا قرآن یا اس کے کسی حصے یا آیت کا انکار کیا ، یا اس کی یا کچھ حصہ کی تکذیب کی ، یا اس میں موجود کسی واضح حکم یا خبر کو جھٹلایا ، یا جانتے بوجھتے اس بات کو ثابت کیا، جس کی قرآن نے نفی کی ، یا اس کی نفی کی ، جس کو قرآن نے ثابت کیا ، یا قرآن کے کسی حصہ میں شک کیا، تو وہ اہل علم کے نزدیک بالاجماع کافر ہے ۔‘‘
(الشفا بتعريف حقوق المصطفى : 304/2)
حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) لکھتے ہیں:
أجمع المسلمون على وجوب تعظيم القرآن العزيز على الإطلاق وتنزيه، وصيانته وأجمعوا على أن من جحد منه حرفا مما أجمع عليه أو زاد حرفا لم يقرأ به أحد وهو عالم بذلك فهو كافر .
’’مسلمانوں کا اجماع ہے کہ مطلقا قرآن عزیز کی تعظیم ، تنزیہ اور حفاظت کرنا واجب ہے ، نیز اجماع ہے کہ جو جان بوجھ کر قرآن کے ایک بھی حرف کہ جس پر اجماع ہو چکا ہے، کا انکار کرے یا اپنی طرف سے کوئی حرف زیادہ کرے کہ جس کی قرآت ( اس سے پہلے) کسی ( اہل علم) نے نہیں کی تو وہ کافر ہے۔(التبيان في آداب حملة القرآن، صفحہ 164 )
سیدنا انس بن مالک اللہ بیان کرتے ہیں
قال عثمان للرهط القرشيين الثلاثة : إذا اختلفتم أنتم وزيد بن ثابت في شيء من القرآن فاكتبوه بلسان قريش، فإنّما نزل بلسانهم ففعلوا حتى إذا نسخوا الصحف في المصاحف، رد عثمان الصحف إلى حفصة، وأرسل إلى كل أفق بمصحف مما نشخوا، وأمر بما سواه من القرآن في كل صحيفة أو مصحف، أن يحرق .
سید نا عثمان بن عفانؓ نے تین قریشیوں سے کہا : اگر تمہارا اور زید بن ثابتؓ ہار کا قرآن کے کسی حصہ کے بارے اختلاف ہو جائے ، تو اسے قریش کی زبان میں لکھ دینا، کیونکہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے ۔ تو انہوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ جب صحیفوں سے نسخے تیار کر دیے گئے ، تو سیدنا عثمانؓ نے وہ صحیفے سیدہ حفصہ پا کو واپس کر دیے اور تیار کردہ نسخوں میں سے ایک ایک نسخہ ہر علاقے میں بھیج دیا ، اس کے علاوہ قرآن کے جتنے بھی صحائف تھے، سب کو جلانے کا حکم فرمایا۔‘‘
(صحيح البخاري : 4987)
علامہ ابن بطالؒ (449ھ) لکھتے ہیں :
في أمر عثمان بتخريق الصحف والمصاحف حين جمع القرآن جواز تخريق الكتب التي فيها أسماء الله تعالى وأنّ ذلك إكرام لها، وصيانة من الوطء بالأقدام وطرحها في ضياع من الأرض .
قرآن کو ( کتابی شکل میں) جمع کرنے کے بعد سید نا عثمانؓ کا بقیہ تمام صحائف کو جلا دینے کا حکم دینے میں جواز ہے کہ ان کتب کو جلانا جائز ہے، جن میں اللہ کے نام درج ہوتے ہیں ، یہ ان کتب کی عزت اور پاؤں میں روندے جانے سے حفاظت ہے۔ نیز یہ بھی جائز ہے کہ ان کتب کو غیر آباد زمینوں کے سپرد کر دیا جائے ۔‘‘
(شرح صحيح البخاري : 226/10 )
نیز اہل علم کی مختلف آرا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
قول من حرقها أولى بالصواب .
’’ان کتب کو جلانے والوں کی بات زیادہ درست ہے ۔
(شرح صحيح البخاري : 226/10 )
سید تا کعب بن مالک اپنی توبہ کا واقعہ میں فرماتے ہیں کہ میری طرف غسان کے بادشاہ کا بایں الفاظ خط آیا :
أما بعد، فإنه قد بلغني أن صاحبك قد جفاك ولم يجعلك الله بدار هوان، ولا مضيعة، فالحق بنا نواسك، فقلتُ لما قرأتها : وهذا أيضا من البلاء، فتيممت بها التثور فسجرته بها .
’’اما بعد ، مجھے خبر ملی ہے کہ آپ کے ساتھی ( نبی کریم ﷺ ) نے آپ کو چھوڑ دیا ہے ،لیکن اللہ نے آپ کو رسوائی اور تنگی سے دوچار نہیں کیا ، آپ ہمارے پاس آ جائیں، ہم آپ کا ساتھ دیں گے، میں ( کعب ) نے خط پڑھ کر سوچا: یہ بھی ایک آزمائش ہی ہے ،لہٰذا میں نے اسے تندور میں پھینک کر جلا دیا۔‘‘(صحيح البخاري : 4418 ، صحیح مسلم : 2769)
اس حدیث کی شرح میں قاضی عیاض رحمہ للہ ( 544ھ) لکھتے ہیں :
فيه جواز حرق ما فيه اسم الله تعالى يعلة توجب ذلك .
یہ حدیث دلیل ہے کہ ضرورت (مثلا بے حرمتی سے بچاؤ) کے لیے ان اوراق کو جلا نا جائز ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ کا نام درج ہو‘۔
(إكمال المعلم بفوائد مسلم : 280/8)
ثقہ امام ، خالد بن مہران ، حذاءؒ بیان کرتے ہیں :
إذا حدثت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بحديث فازدهر به .
’’جب آپ کو رسول اللہ سے (ثابت ) کوئی حدیث بیان کی جائے ، تو اسے محفوظ کر لیں ۔
(شعب الإيمان للبيهقي : 1488 ، وسنده صحيح)
اس قول کے تحت حافظ بیہقیؒ فرماتے ہیں: