آپ رضی اللہ عنہ کی دعا و شدت تضرع
علی محمد الصلابیآپؓ کی دعا و شدتِ تضرع
دعا بہت بڑا دروازہ ہے۔ جب یہ بندے کے لیے کھول دیا جاتا ہے تو خیر و برکت کے دہانے بندے کے لیے کھل جاتے ہیں، اسی لیے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تعلق باللہ اور کثرت دعا کے انتہائی حریص تھے۔ اسی طرح دعا، اعداء پر نصرت و فتح کے قوی ترین اور عظیم اسباب وعوامل میں سے ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ۔
(سورۃ الغافر: آیت نمبر، 60)
ترجمہ: اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہو چکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔ اور فرمایا
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖفَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ۔
(سورۃ البقرہ: آیت نمبر، 186)
ترجمہ: جب میرے بندے میرے بارے میں آپﷺ سے سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں، ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں۔ اس لیے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔
حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کی رفاقت کو لازم پکڑا اور انتہائی قریب سے دیکھا کہ کس طرح آپؓ اللہ تعالیٰ سے استغاثہ کرتے ہیں اور اس سے نصرت و مدد طلب کرتے ہیں۔ آپؓ اس عبادت کو رسول اللہﷺ سے سیکھنے کے بڑے حریص تھے۔ آپؓ اس کا اہتمام کرتے تھے کہ دعا و تسبیح کے الفاظ و صیغے وہی استعمال کریں جن کا رسول اللہﷺ حکم فرماتے ہیں، اور وہ آپؓ کو پسند ہیں، کیونکہ دعا، تسبیح و ذکر اور درود و صلاۃ سے متعلق ماثور الفاظ اور صیغوں پر مسلمان دوسرے صیغوں اور الفاظ کو ترجیح نہیں دے سکتا، خواہ بظاہر یہ الفاظ و معانی میں کتنا ہی حسین کیوں نہ معلوم ہوں، کیونکہ رسول اللہﷺ ہی خیر کے معلم اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت دینے والے ہیں، آپﷺ افضل و اکمل کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔
(ابوبکر الصدیقؓ: علی الطنطاوی صفحہ، 207)
صحیحین کی روایت ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے ایسی دعا سکھا دیجیے جسے میں نماز میں کیا کروں۔ آپﷺ نے فرمایا، کہو
اللہم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا ولا یغفر الذنوب الا انت فاغفرلی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم۔
(البخاری: صفحہ، 843 مسلم: الذکر والدعا ء: صفحہ، 2705)
ترجمہ: الہٰی میں نے اپنے نفس پر ڈھیر سا ظلم ڈھایا ہے اور گناہوں کو تو ہی بخشنے والا ہے۔ پس تو مجھے اپنی طرف سے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما۔ یقیناً تو بخشنے والا مہربان ہے۔
اس دعا میں بندہ اپنے آپ کو ایسے وصف سے متصف کرتا ہے جو مغفرت کا متقاضی ہے اور اپنے رب کو ایسے وصف سے یاد کرتا ہے جس سے لازم آتا ہے کہ اس کے مطلوب کو اس کے رب کے علاؤہ کوئی پورا کرنے پر قادر نہیں۔ اس دعا میں بندہ صراحت کے ساتھ اپنے مطلوب کا سوال کرتا ہے اور اس میں قبولیت کے مقتضیات کو بیان کیا گیا ہے، وہ یہ کہ رب تعالیٰ کو مغفرت و رحمت سے متصف قرار دیا تو یہ انواع طلب میں سے اکمل ترین نوع ہے۔
(مجموع الفتاویٰ: جلد، 9 صفحہ، 146)
سنن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے ایسی دعا سکھا دیجیے جو صبح و شام کیا کروں۔ آپﷺ نے فرمایا، کہو
اللہم فاطر السموات والارض عالم الغیب والشہادۃ رب کل شیٍٔ وملیکہ، اشہد ان لا الہ الا انت، اعوذ بک من شر نفسی، ومن شر الشیطان وشرکہ، وان اقترف علی نفسی سوء ا او اجرہ الی مسلم۔
ترجمہ: الٰہی آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے! غیب و حاضر کو جاننے والے! ہر چیز کے رب اور بادشاہ! میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور میں اپنے نفس کے شر سے اور شیطان کے شر و شرک سے اور اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نفس پر گناہ کر کے ظلم ڈھاؤں یا کسی مسلمان پر ظلم کروں۔
آپﷺ نے فرمایا صبح و شام اور سوتے وقت یہ دعا پڑھ لیا کرو۔
(ابوداؤد: الادب صفحہ، 5067 الترمذی: الدعوات صفحہ، 3529)
سیدنا ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ سے یہ سیکھ لیا تھا کہ کوئی شخص توبہ و استغفار سے مستغنی نہیں ہو سکتا بلکہ ہمہ وقت ہر شخص اس کا محتاج ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ﴿٧٢﴾ لِّيُعَذِّبَ اللَّـهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا.
(سورۃ الاحزاب: آیت نمبر، 72/73)
ترجمہ: ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر، زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھا لیا، وہ بڑا ہی ظالم و جاہل ہے۔ (یہ اس لیے) کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں، عورتوں کو سزا دے اور مؤمن مردوں، عورتوں کی توبہ قبول فرمائے اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا اور مہربان ہے۔
انسان ظالم و جاہل ہے اور مؤمن مرد و خواتین کا مقصود و مطلوب توبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے صالح بندوں کی توبہ اور ان کی مغفرت کی خبر دی ہے اور صحیحین میں نبی کریمﷺ سے ثابت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا
لن یدخل الجنۃ احد بعملہ
ترجمہ: کوئی شخص صرف اپنے عمل کی بنیاد پر جنت میں ہرگز داخل نہ ہو گا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! آپﷺ بھی؟ فرمایا
ولا انا الا ان یتغمدنی اللہ برحمتہ۔
ترجمہ: اور میں بھی نہیں، اِلّا یہ کہ اللہ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے۔
(بخاری: الرقاق، صفحہ، 6463)
لیکن یہ اس ارشاد الٰہی کے منافی نہیں
كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ.
(سورۃ الحاقۃ: آیت نمبر، 24)
ترجمہ: (اہلِ جنت سے کہا جائے گا) کہ مزے سے کھاؤ اور پیو، اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گذشتہ زمانے میں کیے۔
کیونکہ رسول اللہﷺ نے اپنے ارشاد میں اس ب کی نفی کی ہے جو مقابلہ اور معادلہ کے معنیٰ میں ہے اور قرآن نے اس ب کو ثابت کیا ہے جو اسباب کے معنیٰ میں ہے۔ (یعنی اعمال صالحہ جنت کی قیمت نہیں ہیں بلکہ حصول جنت کے اسباب میں سے ہیں اور حصول جنت کے لیے صرف یہی سبب کافی نہیں بلکہ رحمت الٰہی کا شامل حال ہونا ضروری ہے)۔
اور بعض لوگوں کے اس قول کہ جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کو گناہ نقصان نہیں پہنچاتے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کو توبہ و استغفار کی توفیق دے دیتا ہے لہٰذا وہ گناہوں پر اصرار نہیں کرتا اور جو اس کا یہ مطلب سمجھتا ہے کہ گناہوں پر اصرار کے باوجود یہ گناہ اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتے، تو ایسا شخص گمراہ ہے اور کتاب و سنت اور اجماع سلف و ائمہ کرام کا مخالف ہے۔ جو ذرّہ برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو ذرّہ برابر برائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔
(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ: جلد، 11 صفحہ، 142)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ برابر اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے، اللہ سے بڑی آہ و زاری اور تضرع کرتے، کثرت سے اللہ کی طرف متوجہ ہوتے اور کسی بھی حال میں دعا سے بے نیاز نہ ہوتے، آپؓ کی بعض دعائیں منقول ہوئی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں
الف: اسألک تمام النعمۃ فی الاشیاء کلہا، والشکرلک علیہا حتی ترضی، وبعد الرضی، والخیرۃ فی جمیع ما تکون الیہ الخِیَرَۃُ، بجمیع میسور الامور کلہا، لا بمعسورہا یا کریم۔
(لابن ابی الدنیا: صفحہ، 109 بحوالہ خطب ابی بکر: صفحہ، 39)
ترجمہ: اے کریم! میں تجھ سے تمام چیزوں میں نعمت کا سوالی ہوں اور تو مجھے اس پر اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما، یہاں تک کہ تو خوش ہو جائے اور خوش ہونے کے بعد بھی اور تمام خیر کے کاموں میں
افضل ترین خیر کی توفیق دے، تجھ سے تمام آسان کاموں کا سوالی ہوں اور مشکل امور سے پناہ کا طالب ہوں۔
ب: اللہم انی اسألک الذی ہو خیر لی فی عاقبۃ الخیر، اللہم اجعل آخر ما تعطینی من الخیر رضوانک و الدرجات العُلا من جنات النعیم۔
(خطب ابی بکر الصدیق: صفحہ، 139)
ترجمہ: الٰہی میں تجھ سے اس چیز کا سوالی ہوں جو انجام خیر میں میرے لیے بہتر ہو۔ الٰہی آخری خیر جو تو مجھے عطا فرما وہ تیری رضا اور جنات نعیم میں بلند درجات ہوں۔
ج: اللہم اجعل خیر عمری آخرہ وخیر عملی خواتمہ وخیر ایامی یوم القاک۔
(کنزالعمال: صفحہ، 5030 بحوالہ خطب ابی بکر رضی اللہ عنہ: صفحہ، 39)
ترجمہ: اے اللہ میری عمر کا آخری حصہ سب سے بہتر، میرے اعمال میں سب سے بہتر آخری عمل اور میرے ایام میں سے اس دن کو جس دن تجھ سے ملوں سب سے بہتر بنا دے۔
د: اللہم انت اعلم بی من نفسی وانا اعلم بنفسی منہم، اللہم اجعلنی خیر مما یظنون، واغفرلی مالا یعلمون، ولا تواخذنی بما یقولون۔
(اسدالغابۃ: جلد، 3 صفحہ، 324)
ترجمہ: اے اللہ! تو مجھے میرے نفس سے زیادہ جانتا ہے اور میں اپنے نفس کو ان لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں۔ اے اللہ مجھے ان کے گمان سے بہتر بنا دے، اے اللہ! جسے یہ نہیں جانتے اسے بخش دے اور جو یہ لوگ کہتے ہیں اس پر میری پکڑ نہ کرنا۔
سیدنا ابوبکرؓ کی یہ بعض اہم صفات وفضائل ہیں، جنہیں اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ آئندہ ہم وفات نبوی کے بعد حضرت صدیقِ رضی اللہ عنہ پر تربیت نبویﷺ کا اثر دیکھیں گے کہ کس طرح اللہ کے فضل و توفیق، بہترین تربیت، ایمان عظیم، عمل راسخ اور نبی کریمﷺ کی شاگردی کی وجہ سے اس مقام پر فائز ہوئے، جہاں دوسرے نہ پہنچ سکے۔ اپنے عظیم قائد محمدﷺ کی رفاقت میں اچھی سپاہ گری سیکھی اور اس کے مختلف مراحل و ادوار کو طے کیا اور جب خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تو کشتی اسلام کو شدید آندھیوں اور تلاطم خیز موجوں اور تاریک فتنوں کے باوجود ساحل امن و امان تک پہنچایا۔