شیعہ کی جارحیت اور مولانا حق نواز جھنگوی رحمۃ اللہ کی جدوجہد کا آغاز
ابو ریحان فاروقیشیعہ کی جارحیت اور مولانا حق نوازؒ کی جدوجہد کا آغاز:
تاریخِ اسلام: کی ورق گردانی کرنے والا ہر انسان اس حقیقت سے واقف ہے کہ عبداللہ ابنِ سبا کی ستم کاریوں سے لے کر بغداد کے ابنِ علقمی تک مصر کے ابنِ طالوت عراقی سے لے کر ایران کے میمون القداح بن دیصان تک بغداد کے معز الدولہ سے لے کر قم کے حسن بن صباح حمیری تک شیعہ کا ہر سرغنہ اسلام کے سینے کو چھیدتا رہا ایک طرف سیّدنا عثمان غنیؓ کی شہادت دوسری طرف خود سیّدنا حسینؓ پر تیشه کاری کہیں بغداد کی تارا جی اور کہیں صلاح الدین ایوبی کے خلاف سازشوں کی گہرائیاں ایک طرف فاطمیوں کی تعدی تو دوسری طرف سلجوقیوں کا تجاوز وہاں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ تو یہاں مغلیہ دور میں نور جہاں کا تفوق میرجعفر رافضی کے ہاتھوں سراج الدولہ کا قتل ہوا تو میرصادق سبائی کے دست ستم کش سے ٹیپو سلطان کی گردن کاٹی گئی الغرض کس کس عہد کی ابتلاؤں کا رونا رویا جائے کس کس دور کے المیے کی تاریخ یاد کر کے اشک بہائے جائیں صنفِ نازک کے ذریعے ہر عہد کے شیعہ نے مسلم حکمرانوں کے دماغوں کو ماؤف کیا حرص و آز کے دریچے کھول کر مذہبی پیشواؤں کو ہمنواء بنایا برصغیر میں انگریزی استبداد کو خوش آمدید کہہ کر نو نو سو مربع زمین الاٹ کرانے والے رافضی جاگیرداروں نے عہد ماضی کی تاریخ کو دہرایا اسلام کے نام پر اہلِ اسلام میں اثر و نفوذ کیا غریب مسلم عوام سنیت کی رواداری اور اعتدال و مصلحت کی بھینٹ چڑھتے رہے شیعہ نے مسلم قومیت میں اس قدر گہرا رشتہ استوار کر لیا کہ امام مالکؒ کے فتاویٰ شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی تصریحات امام غزالیؒ کی وضاحتیں ابنِ تیمیہؒ کا واویلا حضرت مجدد الف ثانیؒ کا غوغا مولانا عبدالشکور لکنھویؒ کی چیخ و پکار بھی ان کفر کے اماموں کو امت مسلمہ سے علیحدہ نہ کرسکی بلاشبہ ان اکابرین کے اتمامِ حُجت اور محنت شاقہ نے ایک عظیم مسلم طبقے کے ایمان کی حفاظت کی اور اسلام اور کفر کی حد فاصل کو واضح کیا اس طرح قیامِ پاکستان کے بعد بھی شیعہ ایک مسلم فرقے کے طور پر ملتِ اسلامیہ کوفریب دیتے رہے شیعہ اور مسلمانوں کے جغرافیائی روابط اور تمدنی الصاق و ارتباط نے علماءِ حق کی چیخ و پکار کو درخور اعتناءنہ سمجھا بلاشبہ قیامِ پاکستان کے بعد سے لے کر آج کے بڑے بڑے علماء تک مختلف جماعتوں کے ذریعے کئی شخصیتوں نے اصحابِ رسولﷺ کی تعلیمات کے فروغ میں قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں ایک حد تک امتِ مسلمہ کی اکثریت علماء کی اسی جدوجہد کی وجہ سے شیعہ کے دجل و تلبیس سے محفوظ رہی پاکستان کے بعض علاقوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ماں بہن کی ننگی گالیاں دی گئیں تحریر و تقریر کے ذریعے رفقائے نبوت کو کافر مرتد بدمعاش زانی شرابی خائن اور ہر قسم کے من گھڑت الزامات کا مورد ٹھرایا گیا قرآن کی 700 آیات کے مطابق دنیا کی جو جماعت قدسی الاصل اور محمدیﷺ شریعت کے عینی گواہوں کی حیثیت رکھتی تھی اسے دنیا کی سب سے بدترین جماعت کہا گیا غلاظت و کثافت کی یہ سڑاند تو شیعہ مذہب کے بانی عبداللہ بن سبا کے دور سے ہی مسلم معاشرے کو متعفن کرتی رہی تھی لیکن اس غلیظ اور بدبودار لٹریچر کو 13 زبانوں میں شائع کر کے دنیا بھر میں پھیلانے اور اپنے اصلی چہرے سے نقاب کھول کر خود کو آشکار کرنے کا سہرا عہد حاضر کے نام نہاد ایرانی پیشواء جناب خمینی صاحب کے حصہ میں آیا 11 فروری 1979 ء کو خمینی کے شیعہ انقلاب نے سینکڑوں برس کی بادشاہت کا خاتمہ کر کے جب اقتدار پر قبضہ جمایا تو امت مسلمہ کے ایک طبقے نے شاہِ ایران کی زیادتیوں کے باعث خمینی کے اسلامی دعوؤں سے ایسا فریب کھایا کہ وہ عصر حاضر کے ابنِ سباء اسلام کی بنیادوں کو منہدم کرنے والے اس دشمن اسلام کی کارگزاری کو اسلامی انقلاب قرار دینے لگے ایرانی انقلاب کی سالگرہ کے نام پر ہر سال جب یہاں کے بعض علماء اور اعتدال و مصلحت کے شکار چند دینی پیشواؤں کو ایران جا کر قریب سے "خمینیت" کو دیکھنے کا موقع ملا تو ان میں بیشتر بلبلا اٹھے غلط فہمی کا شکار ہونے والے ایک بڑے طبقے نے کھلے عام ایرانی انقلاب کو خالص شیعہ انقلاب قرار دیا رفتہ رفتہ ایرانی ذرائع ابلاغ ہی کے ذریعے ان کی اسلامیت کی قلعی کھلنے لگی خانہ کعبہ میں ہنگامہ آرائی عراق کے خلاف جنگ میں ایران کی ہٹ دھرمی اور پوری اسلامی دنیا کے موقف سے انحراف نے دنیا بھر میں خمینی اور اس کے حواریوں کے چہرے سے نقاب اتار کر اسے چوراہے میں ننگا کر دیا ایرانی ریڈیو اور ٹیلیویژن کا پروپیگنڈہ اس زور سے جاری رہا کہ 44 اسلامی ملک بشمول پاکستان ایران کی خمینی حکومت کو ملتِ اسلامیہ کا ایک حصہ گردانتے رہے جناب خمینی کے انقلاب نے دنیا کے ایک طبقہ کو اپنی طرف متوجہ ضرور کیا لیکن خمینی کے اپنے خطبات اور ان کی تصانیف جب مختلف ملکوں میں پہنچیں تو دنیائے اسلام ورطۂ حیرت میں ڈوب گئی دنیا بھر سے مختلف آراء سامنے آنے لگیں مسجدوں کے حجروں میں تبصرے ہوتے رہے جلسوں اور کانفرنسوں میں دبے لفظوں میں اختلاف کی چنگاری پھوٹنے لگی تاہم ایرانی حکومت نے ریڈیو ٹیلی ویژن اور اخبارات کے علاوہ دنیا بھر میں خانہ فرہنگ ہائے ایران کے نام پر تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک میں ایسے سازشی سینٹر قائم کئے کہ جنہوں نے ایک طرف صحابہ کرام عضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف متعلقہ ممالک کی زبانوں میں لٹریچر کے انبار لگائے تو دوسری طرف ہر ملک کی شیعہ اقلیت کو سرمایہ اور اسلحہ فراہم کیا نتیجتاً دنیا بھر میں ایران کے شیعہ انقلاب کو برآمد کرنے کی مہم زور شور سے جاری رہی بد قسمتی سے دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں کوئی حکومت مذہبی اور دینی اقدار کے احیاء میں اس قدر حساس اور اور مہم جو نہ تھی جو ایران کے اس طوفانی لٹریچر اور پر پیگنڈے کا مؤثر جواب دیتی شیعہ کی ایک مذہبی حکومت خود اپنے سبائی اور شیعی نظریات کو عین اسلام قرار دینے کیلئے کبھی لا شرقیہ و لا غربیہ اسلامیہ اسلامیہ کا نعرہ لگاتی رہی کبھی امریکی اور روسی سامراج کے خلاف اعلانِ جنگ سے امت مسلمہ کے ایک طبقے کو گمراہ کرتی رہی کبھی شیعہ سنی اتفاق و اتحاد کا واویلا کرتی رہی ایک طرف وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے اتحاد کی دعویدار بن رہی ہے دوسری طرف سیّدنا ابوبکر صدیقؓ سیّدنا عمرؓ اور سیّدنا عثمان غنیؓ کو کافر اور زندیق لکھتی رہی ایک طرف تمام امت مسلمہ ایک ہے کا راگ الاپتی رہی دوسری طرف ایران کی 34 فیصد سُنی آبادی کو ایک مسجد کے قیام سے سختی کے ساتھ روکتی رہی ایرانی حکومت نے ایک طرف کہا کہ شیعہ و سُنی میں جو تفریق کرتا ہے وہ نہ شیعہ ہے نہ سُنی تو دوسری طرف اپنے ہی حکومتی دستور میں اس کی دھجیاں یوں بکھیریں کہ ایران کا صدر وزیر اعظم وزراء حتیٰ کہ ایرانی پارلیمنٹ کا ممبر بھی اثنا عشری شیعہ ہی ہوگا اندریں حالات پاکستان میں جس پہلے انسان نے نہایت جرات اور بے مثال استقلال کے ساتھ کھلے عام خمینی کے کفریہ عقائد کو جلسوں اور کانفرنسوں میں آشکار کیا۔ وہ مولانا حقنواز جھنگوی شہیدؒ کی ذات گرامی تھی۔
آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے:
اذا ظهرت الفتن او البدع و سبت اصحابی فيظهر العالم علمه و ان لم يفعل ذالك فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين۔
ترجمہ: جب فتنے ظاہر ہو جائیں بدعات پھیلنے لگیں اور میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں دی جانے لگیں تو عالم کو چاہیے اپنا علم ظاہر کرے اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہوگی۔
آنحضرت ﷺ کے انہی ارشادات کا تقاضا تھا کہ تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالی دینے اور کافر قرار دینے والے گروہ کے خلاف علماء اٹھ کھڑے ہوں اپنی تمام توانائیاں اس عظیم فتنہ کی سرکوبی کے لئے صرف کریں آسائش و آرام اور عافیت و سکون کو تج کر اس کھلے کفر کو جو صرف دولت کے بل بوتے پر پروپیگنڈے کے ذریعے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے للکارا جائے اس کے کفریہ عقائد کو ہر شہر ہر کوچے ہر بستی اور ہر ملک میں کھول کر دنیا کے ایک عرب بیس کروڑ مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کی جائے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سبِ و شتم سے علماء پر جو محمدیﷺ احکام کے مطابق ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس سے عہدہ برآ ہوا جائے ایسے حالات میں پاکستان میں اسلامی سوچ رکھنے والی ایسی کوئی حکومت نہ تھی بیورو کریس میں ہر جگہ شیعہ کے جراثیم تھے مختلف علاقوں میں شیعہ جاگیرداروں کا تسلط تھا اس عظیم مشن کی تکمیل کس طرح ممکن تھی جب ہر علاقے اور ہر شہر کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی اسلام کے اس عظیم الشان فریضہ کی ادائیگی کو فرقہ واریت قرار دے رہے ہوں پاکستان کے تمام سیاستدان اپنی اپنی مصلحتوں اور مجبوریوں کے باعث اس خاردار وادی میں قدم رکھنے سے لرزاں ہوں اپنی اپنی چودھراہٹوں اور قیادتوں کی باہمی جنگ کو تو اصولی قرار دیتے ہوں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کھلے عام کافر قرار دینے والوں کے خلاف سخت لہجے کو ملکی حالات کی خرابی کے پر فریب الفاظ کے ذریعے ملک کے مفاد کے خلاف قرار دے رہے ہوں بہت مشکل تھا کہ کوئی شخص صرف دینی حمیت کا پیرہن اوڑھ کر کارزار میں اترے عواقب و نتائج سے بے نیاز ہو کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح اور ان کے دشمنوں سے نمٹنے کیلئے تنہا آتش خیرابات میں کود پڑے۔
مولانا حق نواز جھنگویؒ پاکستان کے پہلے عالم دین اور مجاہد خطیب تھے جنہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں مشکلات کا سینہ چیر کر مصائب کے سمندر میں شناوری کی انہوں نے مسلمانوں کے سامنے شیعہ کے کفر کو ایسے واضح دلائل سے آشکار کیا کہ لاکھوں کے اجتماعات میں ایک بھی ایسا شخص نہ ہوتا تھا جو ان کی تقریر کے بعد خمینی اور اس کے حواریوں کے کافر ہونے کا انکار کرے۔
مولانا حق نواز جھنگویؒ کی قائم کردہ تنظیم سپاہِ پاکستان نے صرف پانچ سال کے مختصر عرصہ میں کالجوں سکولوں یونیورسٹیوں میں اہلِ سنت کے تمام نوجوانوں کو لاکھوں کی تعداد میں ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے اس عظیم مشن کی تکمیل کی ان کو تخریب کار فسادی فرقہ پرور کہا گیا ان کے لہجے کو سخت ان کی تقریر کو شور و غل کا عنوان دیا گیا لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ انہوں نے 15 سالہ خطابت کے دوران کوئی تقریر ایسی نہیں کی جو دلائل و براہین سے خالی ہو وہ اپنے موقف پر انتہائی مضبوط شواہد پیش کرتے وہ جانتے تھے کہ میرا مقابلہ ایک ایسے کفر کے ساتھ ہے کہ جو نہ صرف یہ کہ ریڈیو ٹیلی ویژن اخبارات سے لیس ہے بلکہ کروڑوں ڈالر ہر سال اپنے کفریہ عقائد کو اسلام ثابت کرنے پر خرچ کرتا ہے لیکن حکومتی تعاون کے بغیر بے سرو سامانی کے عالم میں امت مسلمہ کی خوابیدہ روحوں کو جس ہمت اور پامردی سے بیدار کیا وہ انہی کا حصہ تھا تاریخ کے دریچے سے جھانکنے والا ہر شخص جانتا تھا کہ سیدنا سعید بن جبیرؓ امام ابوحنیفہؒ امام احمد بن حنبلؒ حضرت مجدد الف ثانیؒ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہابؒ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور شیخ الہند محمود الحسنؒ تاریخ اسلام کی وہ درخشندہ شخصیتیں ہیں جنہیں اپنے اپنے عہد میں ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا انکے سامنے حکومتوں کے مظالم اپنوں کی بے وفائی اور ہر راہ پر کانٹوں کی مالا تھی ہر عہد آفرین شخص جب دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے اخلاص وللہیت کے باعث اس کے مشن کی حقانیت سورج کی طرح آشکار ہوجاتی ہے اس کے مخالف بھی اس کے موقف کی تائید کرنے لگتے ہیں اسکو برا کہنے والے بھی اس کے مدح سرا ہوتے ہیں اس کے نصب العین سے اختلاف رکھنے والے بھی خود اس کے پروگرام کے علمبردار بن جاتے ہیں ایسی صورتِ حال شہید اسلام مولانا حق نواز جھنگویؒ کے بعد پیش آئی ہزاروں انسان ان کی قبر پر اشکبار نظر آتے ہیں ان کے مخالف بھی ان کے موقف سے یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں ان کے جنازے کے بے شمار لاکھ انسانوں میں ہر شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا حکومتی پابندیوں کے باوجود اتنا بڑا جنازہ پاکستان کی تاریخ میں چند بڑے جنازوں میں سے ایک تھا سپاہِ صحابہؓ کے قیام کے بعد 6 ستمبر 1984 ء سے مولانا حق نوازؒ خمینی کے کفریہ عقائد کھلے دجل و فریب اور ان کے حواریوں اور پیشواؤں کی غلیظ تحریروں کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آگئے تھے انہوں نے صرف 5 سال میں پاکستان میں ایسی فضا تیار کر دی تھی کہ عامتہ الناس میں خمینی اور ان کے ہمنواؤں کی صفائی پیش کرنا مشکل ہوگیا تھا ان کے اس چیلنج نے شیعہ کو ایسا لاجواب کر دیا وہ دلائل کا سامنا نہ کرسکے اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر ان کے قتل پر اتر آئے۔
مولانا حق نواز کا چیلنج یہ تھا۔
پاکستان اور دنیا بھر کے شیعو میں نے تمہارے کفریہ عقائد اور اسلام کے لبادے کو تار تار کر دیا ہے تمہیں میری تقریروں اور میری جماعت کی بڑھتی ہوئی ترقی سے بے حد تکلیف ہے میں جو کہتا ہوں وہ تمہاری کتابوں میں موجود ہے تمہارے امام خمینی نے سیدنا عمرؓ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کافر اور مرتد لکھا ہے اگر تم سمجھتے ہو کہ میں غلط کہہ رہا ہوں تو تم ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں میرے خلاف دعویٰ کرو کہ حق نواز ہمیں بلاوجہ کافر قرار دے رہا ہے حالانکہ ہم مسلمان ہیں۔
اگر عدالت کے کٹہرے میں میں تم کو تمہارے عقائد و کتابوں کی روشنی میں کافر ثابت نہ کرسکا تو مجھے عدالت ہی میں گولی مار دی جائے میرا خون تمہارے لئے معاف ہے مولانا حق نواز شہیدؒ کے اس چیلنج نے پاکستان اور ایران کے شیعہ میں کھلبلی مچادی تھی ان کے پیہم دلائل ایسے مضبوط ہوتے تھے کہ آج تک خمینی کا کوئی ہمنوا ان کے چیلنج کا جواب نہ دے سکا بالاخر ان کو حق گوئی کی پاداش میں گولیوں سے چھلنی کر کے شہید کر دیا گیا۔