امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی گواہی اسلام میں قابلِ قبول نہیں۔
مولانا ابوالحسن ہزارویامیر معاویہؓ، عمرو بن العاصؓ، مغیرہ بن شعبہؓ کی گواہی اِسلام میں قابلِ قبول نہیں۔
(کتاب المختصر فی اخبار البشر)
الجواب اہلسنّت
1_ یہ روایت بھی گھڑ کر سنی کتابوں میں داخل کی گئی ہے جِس کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ روایت بلا سند منقول ہے۔ صِرف اتنا لکھا گیا ہے کہ روی عن الشافعی الخ۔ اگر اس شافعی سے امام الفقہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ مراد ہیں تو سراسر اُن پر اس کلام کی نسبت جھوٹ کا پلندہ ہے۔ کیونکہ مذکورہ بالا حضرات صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پیدا ہونے سے پہلے دُنیا سے جا چُکے تھے اور کِسی کے دُنیا سے چلے جانے کے بعد اسے ناقابلِ شہادت قرار دینا مضحکہ خیز ہے۔
2_ امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھلا اُن حضرات کو ناقابلِ شہادت کیسے قرار دے سکتے ہیں جِن کی روایات سے وہ اپنے فقہی مسائل کو ثابت کرتے ہیں ! اِن مذکورہ صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کے ارشادات اور ان کی بیان کردہ احادیث کو اہلِ السنّت والجماعت کے محدثین و فقہاء سب نے نقل کیا اور ان کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔ اس بھرپور اعتماد کے بعد تاریخ کی بے سند بات کو کوئی وزن نہیں دیا جا سکتا۔
3۔ کِسی بات یا قول کو قبول کرنے کے لیے فریقین کے نزدیک یہ اصول مسلم ہے کہ جو روایت یا قول قرآن پاک اور سنت متواترہ کے خلاف ہو اسے رد کرنا واجب ہے۔ یہ تاریخی قول قرآن پاک و سنت کے خلاف ہے۔ اللّٰه تعالٰی نے قرآن پاک میں مختلف مقامات پر صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کے ایمان کی گواہی دی ہے اور فتح مکہ سے قبل ایمان قبول کرنے والوں کو فضیلت والا بتایا ہے۔ ان کے ایمان اور عمل کو معیار قرار دے کر بعد والوں کو ان کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین کی فضیلت میں نازل شدہ آیات کے تحت یہ مذکورہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیھم اجمعین بھی شامل ہیں۔ اسی طرح احادیث میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے امیر معاویہ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ، عمرو بن العاص رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کے لیے الگ الگ فضیلت ارشاد فرمائی ہے۔ جِس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ تاریخ کی مذکورہ روایت ان آیات و احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔