فصل پنجم: اصحاب ثلاثہ رضی اللہ عنہم اور روافض اصحاب ثلاثہ کے بارے میں شیعہ کی دروغ گوئی:
امام ابنِ تیمیہؒفصل پنجم:
اصحاب ثلاثہ رضی اللہ عنہم اور روافض
اصحاب ثلاثہ کے بارے میں شیعہ کی دروغ گوئی:
[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’متعدد وجوہ کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے کے خلفاء ائمہ [برحق]نہ تھے۔ اس پر بہت سارے دلائل موجود ہیں ۔‘‘
[جواب]:میں اس کے جواب میں کہتا ہوں :[شیعہ مصنف کا یہ بیان غلط ہے ۔ خلفاء ثلاثہ امام تھے]۔اگر مذکورہ کلام سے مراد یہ ہے کہ باقی تینوں خلفاء مسلمانوں کے امیر مقرر نہیں ہوئے ‘ اور نہ ہی مسلمانوں نے ان کی بیعت کی ہے؛ اور نہ ہی انہیں ایسا اقتدار حاصل تھا جس کے ذریعہ وہ شرعی حدود کو قائم کرسکیں ؛ اور لوگوں کے حقوق ادا کرسکیں ؛ اور دشمن سے جہاد کرسکیں ؛ اور مسلمانوں کو جمعہ اور عیدین کی نمازیں پڑھائیں ۔ اورنہ ہی وہ ان امور پر قدرت رکھتے تھے جو امامت و خلافت کے ذیل میں آتے ہیں ؛ تو یہ سراسر جھوٹ اور حق سے رو گردانی ہے۔ کیونکہ یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہے جسے روافض اور دوسرے لوگ بھی جانتے ہیں ۔اگر وہ امامت کے مرتبہ پر فائز نہ ہوتے تو روافض ان پر یوں طعن و تشنیع بھی نہ کرتے۔
[حقیقت میں سابقہ خلفاء ثلاثہ ہر لحاظ سے منصب امامت کی اہلیت و صلاحیت سے بہرہ ور تھے۔ ان کی وجہ سے اسلام اکناف ارضی میں پھیلا اور مسلمانوں نے بلاد واقالیم کو فتح کیا۔ یہ صحیح معنی میں خلفائے راشدین تھے۔ شیعہ کے سوا اس میں مسلمانوں کے سب فرقے متحد الخیال ہیں ۔ وہ بہمہ وجوہ اس کے اہل اور حق دار تھے، ہمارا یہ حتمی و قطعی نقطہ نظر ہے، کوئی قطعی یا باطنی دلیل اس کی مخالف نہیں ہے جہاں تک قطعی دلائل و نصوص کا تعلق ہے ان میں تناقض کا احتمال نہیں ہے باقی رہے ظنی دلائل تو وہ قطعیات کا معارضہ نہیں کر سکتے]
لیکن روافض امامت کے اثبات و نفی مطلقاً ذکر کرتے ہیں ‘ اور یہ تفصیل بیان نہیں کرتے کہ ان کی مراد امامت اور اس کے متعلقہ امور کا ثبوت ہے یا پھر امامت کے استحقاق کا ثبوت ۔ وہ لفظ ’’امام‘‘ کااطلاق دوسری صورت پر کرتے ہیں اور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ یہ لفظ دونوں صورتوں کو شامل ہے۔تواگر ان کی مراد یہ ہے کہ خلفاء ثلاثہ امامت و خلافت کے لائق نہیں تھے ‘ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی اس کے سب سے زیادہ حق دار تھے؛ یا پھر آپ ان سے بڑھ کر خلافت کے حق دار تھے تو تو یہ بات کھلا ہوا جھوٹ ہے۔اور یہی نکتہ مورد نزاع بھی ہے۔
ہم اس بارے میں اس ضابطہ بیان کرتے ہیں جو کہ قاعدہ کلیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پھر اسے تفصیل سے بیان کریں گے ۔ کلی جواب تو یہ ہے کہ یہ بات تو ہم بخوبی جانتے ہیں کہ خلفاء ثلاثہ خلافت وامامت کے لائق تھے۔ یہ بات ہمیں قطعی طور پر معلوم ہے۔ اس مسئلہ میں روافض کے علاوہ کوئی بھی دوسرا فرقہ مسلمانوں سے اختلاف نہیں کرتا۔ بلکہ امت کے ائمہ اور جمہور سے یہ منقول ہے کہ وہ لوگ امامت کے زیادہ حق دار تھے اور یہ بھی منقول ہے کہ وہ اس امت کے سب سے زیادہ افضل لوگ تھے۔ جو بات ہمیں قطعی طور پر معلوم ہوئی ہے۔ اسے کسی قطعی یا ظنی دلیل سے رد نہیں کیا جاسکتا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ادلہ قطعیہ کے مابین اختلاف نہیں ہوتا۔ اور ادلہ قطعیہ کو ادلہ ظنیہ سے رد نہیں کیا جاسکتا اورنہ ہی وہ اس کے معارض ہوسکتی ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قادحین خلفائے ثلاثہ کے مخالف جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ دو حال سے خالی نہیں ہیں ۔
۱۔ یا تو وہ ایسے نقلی دلائل ہیں جن کی صحت کا کچھ پتہ نہیں ۔
۲۔ یا وہ دلائل بجائے خود صحیح ہیں ، مگر ان سے خلفائے ثلاثہ کی خلافت کا ابطال نہیں ہوتا۔
دلیل کے دونوں مقدمات میں سے جو مقدمہ بھی معلوم نہ ہو وہ دلائل و مقدمات معلومہ قطعیہ کا معارض نہیں ہو سکتا۔ جب ہم اعتراض کے متعلق ثابت کردیں کہ واضح اور قطعی نہیں ہے توپھر کسی گمراہ کرنے والے شبہ کا جواب دینا ہمارے لیے ضروری نہ ہوگا۔جیسے کوئی شخص اگر بدیہی طور پر معلوم ہونے والے حقائق کاانکار کردے تو ہم پر اس کے احمقانہ فعل کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتی۔
اسی طرح ہم کسی کواس بات کا پابندنہیں بنا سکتے کہ جو بات دلائل قطعیہ سے ثابت ہو؛ اسے دلائل ظنیہ سے رد کرے؛ خواہ وہ محقق ہو یا مناظر۔بلکہ اگر اس پر اس شبہ کا فاسد ہونا ظاہر ہوجائے اوراسے دوسروں کے سامنے بیان کردے تو اس سے علم و معرفت اور حق کو تقویت ملے گی۔تحقیق اور مناظرہ کے میدان میں اگرشبہ ظاہرنہ ہو تو یقین کو شک کی بنیاد پر رد نہیں کیا جاسکتا۔[ اگر ہم شیعہ کے شکوک و شبہات کی وجہ فساد و بطلان بھی واضح کردیں تو یہ علمی اضافہ کا موجب ہے اور مناظرہ کے دوران اس سے حق کی تائید بھی ہو جاتی ہے]۔
ہم ائمہ ثلاثہ کے استحقاق امامت کے متعلق بہت سے دلائل عنقریب ذکر کریں گے ۔اور یہ ثابت کریں گے وہ امامت کے سب سے زیادہ مستحق تھے۔