Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دین اور اختلاف کا وقوع

  امام ابنِ تیمیہؒ

[دین اور اختلاف کا وقوع ]دین کی اصل یہ ہے کہ محبت، نفرت، دوستی، دشمنی، عبادت و استعانت سب اللہ کے لیے ہو اور اللہ ہی سے ڈرنا ہو اسی سے امید ہو، اسی کی خاطر دے، اسی کے لیے روکے اور یہ بات صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہی مل سکتی ہے کیونکہ آپ کا امر و نہی بھی دراصل اللہ ہی کا امر و نہی ہے۔ چنانچہ نبی سے دشمنی یہ اللہ سے دشمنی ہے، نبی کی طاعت، یہ اللہ کی طاعت ہے اور نبی کی نافرمانی اللہ کی ہی نافرمانی ہے۔رہی خواہش پرستی تو بندہ اپنی خواہش کے ہاتھوں اندھا اور بہرا بن جاتا ہے، اسے کسی کام میں اللہ اور اس کے رسول کا استحضار نہیں رہتا اور نہ وہ رب کی رضا کا طلب گار ہی ہوتا ہے۔ نہ وہ اللہ رسول کے لیے راضی ہوتا ہے اور نہ ان کے لیے ناراضی ہوتا ہے۔ بلکہ راضی ہوتا ہے تو ہوائے نفس کے حصول پر۔ ناراض ہوتا ہے تو خواہش نفس پر زَد آنے پر اور اس کے ساتھ اسے دین میں یہ شبہات بھی پیش آنے لگتے ہیں کہ اس کی ناراضی اور رضا سنت کے عین موافق ہے اور وہ حق اور دین ہے۔پھر فرض کیا کہ اگر حق اسی کے ساتھ تھا اور وہ خالص دین پر بھی تھا لیکن افسوس کہ اس کا قصد و ارادہ یہ نہ تھا کہ یہ دین سارے کا سارا اللہ کے لیے ہو جائے اور اس کا کلمہ سربلند ہو، بلکہ اس کا ارادہ اپنی ذات اور اپنی جماعت کی حمیت تھا، یا نمود و نمائش اور دکھلاوا تھا تاکہ اس کی تعریف ہو اور اس کی تعظیم کی جائے۔ یا اس نے یہ حق کام بھی دادِ شجاعت لینے کے لیے یا طبیعت کے مقتضٰی کی خاطر یا کسی دنیاوی غرض کے لیے کیا تو یہ کام بھی حق ہونے کے باوجود اللہ کے لیے نہ ہو گا اور نہ ایسا شخص مجاہد فی سبیل اللہ کہلوائے جانے کا سزاوار رہے گا۔ بھلا جو حق اور سنت پر مستقیم ہونے کا مدعی ہونے کے باوجود ایسا ہے تو جس کے ساتھ حق و باطل اور سنت و بدعت دونوں گڈ مڈ ہو چکے ہیں ، وہ اس کی نظیر کیونکر بن سکتا ہے اور خود حق و باطل کے ورطوں میں غوطے کھانے والا حق والے کی نظیر کیونکر بن سکتا ہے اور ایسا شخص اپنے اس خصم کی نظیر بھی نہیں بن سکتا جو حق و باطل اور سنت و بدعت غرض سب رطب و یابس کو اٹھائے ہوئے ہیں ۔یہ ان اختلاف کرنے والوں کا حال ہے جنھوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔ پھر ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق کی۔ اسی لیے رب تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے:﴿وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَیِّنَۃُo وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِo﴾ (البینۃ: ۴۔۵)’’اور وہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی، جدا جدا نہیں ہوئے مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس کھلی دلیل آگئی۔ اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں ، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نمازقائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً﴾ (البقرۃ: ۲۱۳)’’لوگ ایک ہی امت تھے۔‘‘یعنی پھر انھوں نے اختلاف کیا جیسا کہ سورۂ یونس میں ہے اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کی قراء ت میں اسی طرح ہے۔ جبکہ جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کی تفسیر یہ ہے کہ وہ سب دین اسلام پر تھے اور ابن عطیہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ تفسیر نقل کرتے ہیں کہ وہ سب کفر پر تھے۔[1][1] دیکھیں : تفسیر ابن کثیر: ۱؍۳۶۴۔۳۶۵ طبعۃ الشعب۔ اس آیت کی تفسیر میں قتادہ سے مروی ہے کہ کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً، یعنی سب ہدایت پر تھے۔﴿فَاخْتَلَفُوْا فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ ﴾ (البقرۃ: ۲۱۳) ’’پھر اللہ نے نبی بھیجے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے۔‘‘ پس سب سے پہلے بھیجے جانے والے پیغمبر سیدنا نوح علیہ السلام تھے۔ مجاہد نے یوں ہی کہا ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا پہلا قول ہے۔ عوفی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی یہ تفسیر نقل کرتے ہیں : لوگ پہلے سب کے سب کافر تھے پھر اللہ نے خوش خبری دینے والے اور ڈر سنانے والے پیغمبر بھیجے، یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا دوسرا قول ہے لیکن سند اور معنی کے اعتبار سے اصح قول پہلا ہی ہے کیونکہ لوگ پہلے ملت آدم علیہ السلام پر تھے یہاں تک کہ بتوں کو پوجنے لگے۔ تو رب تعالیٰ نے ان کی طرف سیدنا نوح علیہ السلام کو بھیجا۔ یہ زمین کی طرف مبعوث ہو کر آنے والے رب تعالیٰ کے سب سے پہلے پیغمبر تھے۔ لیکن یہ تفسیر کچھ بھی نہیں یہ تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے غیر ثابت ہے۔ بلکہ ثابت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا نوح علیہ السلام کے درمیان دس نسلیں تھیں جو سب کی سب اسلام پر تھیں ۔سورۂ یونس میں ارشاد ہے:﴿وَ مَا کَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا﴾ (یونس: ۱۹)’’اور نہیں تھے لوگ مگر ایک ہی امت، پھر وہ جدا جدا ہوگئے۔‘‘یہاں رب تعالیٰ نے اس بات کی مذمت بیان فرمائی ہے کہ جب پہلے سب ایک دین پر تھے تو بعد میں اختلاف کیوں کیا، جس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا پہلا قول صحیح ہے۔اب کتاب اللہ میں اختلاف کرنا دو طرح کا ہے:(۱) ایک یہ کہ وہ سارا اختلاف ہی مذموم ہو جیسا کہ ارشاد ہے:﴿وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْ الْکِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍo﴾ (البقرۃ: ۱۷۶)’’اور جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا ہے یقیناً وہ بہت دور کی مخالفت میں پڑے ہیں ۔‘‘(۲) دوسرا یہ کہ اس اختلاف میں بعض حق پر اور بعض باطل پر ہوں ۔ جیسا کہ ارشاد ہے:﴿تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ مِنْہُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَ رَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجٰتٍ وَ اٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ لٰکِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْہُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْہُمْ مَّنْ کَفَرَ وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُo﴾ (البقرۃ: ۲۵۳)’’یہ رسول، ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی، ان میں سے کچھ وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اوران کے بعض کو اس نے درجوں میں بلند کیا اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو واضح نشانیاں دیں اور اسے پاک روح کے ساتھ قوت بخشی۔ اور اگر اللہ چاہتا تو جو لوگ ان کے بعد تھے آپس میں نہ لڑتے، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکیں اور لیکن انھوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے کوئی تو وہ تھا جو ایمان لایا اور ان سے کوئی وہ تھا جس نے کفر کیا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے اور لیکن اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔‘‘لیکن اختلاف کا لفظ جب مطلق بولا جاتا ہے تو وہ سب کا سب مذموم ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:﴿وَ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَo اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ ولذلک خلقہم ﴾ (ہود: ۱۱۸۔۱۱۹)’’اور وہ ہمیشہ مختلف رہیں گے۔ مگر جس پر تیرا رب رحم کرے؛ اور اسی لیے انہیں پیدا کیا ہے۔‘‘اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’بے شک تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک ہوئے کیونکہ انھوں نے اپنے پیغمبروں سے کثرت کے ساتھ سوال کیے اور ان سے اختلاف کیا۔‘‘[یہ حدیث پہلے گزرچکی ہے]اس لیے اس مقام پر اختلاف کی تفسیر یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ سارے کا سارا ہی مذموم ہے۔ فراء کا قول ہے ان کے اختلاف کی دو صورتیں تھیں : (۱) بعض کا بعض کتاب سے انکار کرنا (۲) اور بعض کتاب کا بدلنا اور بات یہی ہے جو فراء نے کہی ہے۔ کیونکہ سب اختلاف کرنے والوں کے ساتھ حق اور باطل ملا جلا ہوتا ہے۔ پس ان میں سے ایک اس حق کا انکار کر ہا ہوتا ہے جو دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ اس باطل کی تصدیق کر رہا ہوتا ہے جو دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے اور یہی حق بات کو بدلنا ہے۔پس ضروری ہے کہ اختلاف ان دونوں قسموں کو جامع ہو، اس لیے سب اسلاف نے اختلاف کی مختلف انواع ذکر کی ہیں ۔ جیسے:۱۔ اس دن میں اختلاف کرنا جس میں اجتماع ہوتا ہے اور یہ جمعہ کا دن ہے اور اس میں اختلاف کرتے ہوئے ایک جماعت نے یہ دن ’’ہفتہ‘‘ کو بنا لیا اور دوسری یہ دن ’’اتوار‘‘ کو بنا لیا۔ صحیحین میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ہم (دنیا میں ) سب سے آخر میں آنے والے (اور) قیامت میں سب سے پہلے (جنت میں جانے والے) ہیں حالانکہ انھیں ہم سے پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں ان کے بعد دی گئی۔ پس یہ وہ دن ہے جس میں ان لوگوں نے اختلاف کیا اور اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور لوگ اس میں ہمارے تابع ہیں ۔ آج کا دن ہمارا ہے، کل کا یہود کا اور پرسوں کا نصاریٰ کا ہے۔‘‘[1][1] یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور بعض روایات میں یہ اضافہ بھی ہے: ’’ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر سات دنوں میں ایک دن غسل کرے، جس میں وہ اپنا سر اور اپنا بدن دھوئے۔‘‘ الحدیث۔ یہ حدیث صحیح البخاری (۲؍۲) کتاب الجمعۃ اور (۴؍۱۷۷) کتاب الابنیاء میں مذکور ہے۔ اسی طرح صحیح مسلم (۲؍۵۸۵، ۵۸۶)، مسند احمد (۷۲۱۳، ۷۳۰۸، ۷۳۹۵، ۸۴۸۴، ۱۵۳۷) طبعۃ المعارف میں اور سنن النسائی میں بھی ہے۔ یہ حدیث اس ارشاد باری تعالیٰ کے عین مطابق و موافق ہے:﴿فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہِ﴾ (البقرۃ: ۲۱۳)’’پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انھیں اپنے حکم سے حق میں سے اس بات کی ہدایت دی جس میں انھوں نے اختلاف کیا تھا۔‘‘صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز پڑھتے تھے تو یہ دعا مانگا کرتے تھے:(( اَللّٰہُمَّ رَبَّ جِبْرَآئِیْلَ وَمِیْکَائِیْلَ وَاِسْرَافِیْلَ فَاطِرَ السّٰمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ اِھْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِکَ اِنَّکَ تَھْدِیْ مَنْ تَشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ))’’اے اللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! اے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے! اے چھپے اور کھلے کو جاننے والے! تو لوگوں میں ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ تو مجھے جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے، اپنے حکم سے ان میں حق بات کی ہدایت دے۔ بے شک تو جسے چاہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔‘‘پہلی حدیث بتلاتی ہے کہ رب تعالیٰ نے ایمان والوں کو اختلاف سے بچا کر حق بات کی توفیق دی، لہٰذا نہ یہ یہود کے ساتھ ہیں اور نہ نصاریٰ کے ساتھ۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اختلاف سارے کا سارا مذموم ہے۔۲۔ اختلاف کی دوسری قسم قبلہ میں اختلاف کرنا ہے، چنانچہ کوئی مشرق کی طرف تو کوئی مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے اور یہ دونوں باتیں مذموم ہیں کیونکہ رب تعالیٰ نے ان کو مشروع نہیں کیا۔۳۔ تیسری قسم سیدنا ابراہیم علیہ السلام میں اختلاف کرنا ہے کہ کسی نے انھیں یہودی تو کسی نے نصرانی کہا۔ یہ دونوں باتیں ہی مذموم ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo﴾ (آل عمران: ۶۷)’’ابراہیم نہ یہودی تھا اور نہ نصرانی، بلکہ ایک طرف والا فرماں بردار تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔‘‘۴۔ چوتھی قسم سیدنا عیسیٰ علیہ السلام میں اختلاف کرنا ہے کہ یہود نے انھیں (معاذ اللہ) ولد الزنا کہا تو نصاریٰ نے الٰہ بنا دیا۔۵۔ پانچویں قسم آسمانی کتابوں میں اختلاف کرنا ہے کہ کوئی ایک پر تو دوسرا کسی دوسری پر ایمان لے آیا۔۶۔ چھٹی قسم دین میں اختلاف کرنا ہے کہ کسی نے کسی بات کو اور کسی نے کسی اور بات کو دین بنا لیا۔ رب تعالیٰ کا یہ ارشاد اسی باب سے ہے:﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیْ ئٍ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰی لَیْسَتِ الْیَہُوْدُ عَلٰی شَیْئٍ﴾ (البقرۃ: ۱۱۳)’’اور یہودیوں نے کہا نصاریٰ کسی چیز پر نہیں ہیں اور نصاریٰ نے کہا یہودی کسی چیز پر نہیں ہیں ۔‘‘حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ کے یہود اور نجران کے نصاریٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور جھگڑا کیا۔ پس یہود بولے: نصاریٰ کسی بات پر نہیں جنت میں صرف یہودی داخل ہوں گے اور انھوں نے انجیل کا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا بھی انکار کر دیا۔ ادھر نصاریٰ نے یہ کہا کہ یہود کسی بات پر نہیں اور ساتھ ہی تورات کا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا انکار کر دیا۔ اس پر رب تعالیٰ نے یہ اور اس سے پہلے والی آیت نازل فرمائی۔[1][1] اس آیت کی تفسیر کے لیے دیکھیں : تفسیر ابن کثیر: ۱؍۲۲۳۔۲۲۴، زاد المسیر: ۱؍۱۳۳یاد رہے کہ اہل بدعت کا اختلاف بھی اسی قبیل سے ہے چنانچہ خوارج کہتے ہیں کہ شیعہ حضرات کسی بات پر نہیں اور یہی بات شیعہ حضرات خوارج کے بارے میں کہتے ہیں ۔ ادھر صفاتِ باری تعالیٰ کی نفی کرنے والے قدری کہتے ہیں کہ صفات کا اثبات کرنے والے کسی بات پر نہیں ۔ جبکہ صفات کا اثبات کرنے والے جبری قدری کہتے ہیں کہ یہ نفی کرنے والے کسی بات پر نہیں ۔ وعیدیہ کہتے ہیں کہ مرجئہ کسی بات پر نہیں اور مرجئہ کے نزدیک یہ وعیدیہ کسی بات پر نہیں ۔ بلکہ یہ بات کسی قدر سنت کی طرف منسوب اصولیہ اور فروعیہ مذاہب والوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ کلابیہ کرامیہ کو کچھ نہیں مانتے اور کرامیہ کلابیہ کو کچھ نہیں سمجھتے۔ یہی قول اشعریہ اور سالمیہ کا بھی ایک دوسرے کے بارے میں ہے۔ چنانچہ ابو علی اہوازی سالمی نے اشعریہ کی مذمت میں جبکہ ابن عساکر اشعری نے سالمیہ کی مذمت میں مستقل ایک کتاب لکھی جس میں سالمیہ کے جملہ اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔[2] [2] اس کتاب کا نام ’’تبیین کذب المفتری فیما نسب الی الامام ابی الحسن الاشعری‘‘ ہے جو ابو القاسم علی بن حسن بن ھبۃ اللہ بن عساکر الدمشقی المتوفی ۵۷۱ ہجری کی شہرۂ آفاق کتاب ہے۔ یہ کتاب دمشق سے ۱۳۴۷ ہجری کو طبع ہوئی ہے۔ایسا ہی اہل مذاہب اربعہ میں بھی ہے۔ ان میں سے اکثر نے اصولی مقالات میں التباس سے کام لیا ہے اور ایک بات کو دوسری میں گڈ مڈ کر دیا ہے۔ چنانچہ بعض حنبلی، شافعی اور مالکی حضرات نے اپنے مذاہب کو اشعریہ اور سالمیہ وغیرہ کے بعض اصول میں خلط ملط کر دیا ہے اور اشعریہ اور سالمیہ کے بعض اقوال کو ان حضرات کے مذہب کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ اسی طرح بعض علمائے احناف نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعض مذاہب میں معتزلہ، کرامیہ اور کلابیہ کے بعض اصول میں رلا ملا دیا ہے اور اسے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب باور کروایا ہے۔ یہ رفض و تشیع کی جنس میں سے ہے۔ لیکن یہ بعض علماء اور جماعتوں کی تفضیل میں تشیع ہے ناکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کی تفضیل میں تشیع ہے۔تب پھر ہر مسلمان پر واجب ہے کہ ’’وہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ کی شہادت دے اور اس شہادت سے اس کا اصل مقصد ایک اکیلے اللہ کی بلاشرکت غیرے عبادت کرنا اور اس کے رسول کی طاعت کرنا ہو۔ یہی اس کے عمل و عقیدہ کا مدارہو اور وہ ہر حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طاعت کرے اور اس بات کو بالضرور جانے کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ لہٰذا مطلق صرف ایک ہی ذات کی مدد کے لیے کمربستہ ہو اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور مطلق صرف ایک ہی جماعت کے لیے انتقام لے اور وہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہے۔ کیونکہ ہدایت صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہے۔ یہ حضرات کبھی خطا پر جمع نہیں ہوئے۔ بخلاف کسی بھی دوسرے صاحب مذہب عالم کے اصحاب و احباب کے کہ ان کا اجماع ہر حال میں حجت و ہدایت نہیں ۔ کیونکہ بسا اوقات ان کا اجماع خطا پر بھی واقع ہو جاتا ہے۔ بلکہ ان لوگوں کا وہ قول جو صرف انھی کا ہو اور امت میں سے کسی اور کا نہ ہو، وہ عموماً خطا ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ دین جسے دے کر رب تعالیٰ نے اپنے رسول کو بھیجا ہے، وہ صرف ایک عالم اور اس کی جماعت کے سپرد نہیں اور اگر یہی بات ہوتی تو بلاشبہ یہ عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر ہوتا جو ’’امامِ‘‘ معصوم کے بارے میں روافض کے قول کے مشابہ قول ہے۔یہ بات لازم اور واجب ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پورے دین کے اصول و فروع کے مذاہب کی طرف منسوب متبعین کے وجود سے قبل پورے پورے عالم و عارف ہوں اور یہ بات ممتنع اور محال ہے کہ یہ متبعین مذاہب ایک ایسی حق بات کو لے آئیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے مخالف ہو، کیونکہ تعلیمات نبویہ کے مخالف ہر بات باطل ہے پھر یہ بات بھی ممتنع ہے کہ یہ متبعین مذاہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک ایسی بات کو جانتے ہوں جو حضرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے مخالف ہو۔ کیونکہ یہ دونوں طبقے کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایک صاحب مذہب کا قول ....بشرطیکہ وہ حق ہو ....نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی تعلیمات سے ماخوذ اور ان اصحاب مذاہب کے وجود سے پہلے کا ہو۔ پس دین اسلام میں کہا گیا ہر وہ قول جو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے مخالف ہو، اور ان میں سے کسی نے وہ قول کیا بھی نہ ہو بلکہ انھوں نے اس قول کے خلاف کہا ہو، بلاشبہ وہ قول باطل ہے۔غرض یہاں یہ کہنا مقصود ہے کہ رب تعالیٰ یہ بیان فرمایا ہے کہ ان اختلاف کرنے والوں کے پاس روشن دلیل اور قطعی علم آ چکا تھا اور انھوں نے یہ اختلاف صرف ضد اور عناد میں کیا تھا، اسی لیے تو رب تعالیٰ نے ان کے اختلاف کی مذمت بیان فرمائی اور انھیں اس کی سزا بھی دی۔ کیونکہ نہ تو وہ مجتہد تھے اور نہ اپنے اجتہاد میں خطا پر تھے بلکہ قصد و ارادہ سے ضد و عناد پر اڑے ہوئے تھے، حق کو جانتے بھی تھے پھر بھی قول و عمل دونوں کے ساتھ حق سے روگرداں تھے۔اس کی نظیر یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآء َہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَہُمْ﴾ (آل عمران: ۱۹)’’بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے اور وہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی انھوں نے اختلاف نہیں کیا مگراس کے بعد کہ ان کے پاس علم آ چکا، آپس میں ضد کی وجہ سے۔‘‘اس آیت کی تفسیر میں زجاج کا قول ہے کہ ان لوگوں نے باہمی ضد میں آ کر اختلاف کیا تھا نہ کہ دلیل و برہان کی جستجو میں ۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّ رَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰی جَآئَ ہُمُ الْعِلْمُ اِنَّ رَبَّکَ َقْضِیْ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ﴾ (یونس: ۹۳)’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو ٹھکانا دیا، باعزت ٹھکانا، اور انھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا، پھر انھوں نے آپس میں اختلاف نہیں کیا، یہاں تک کہ ان کے پاس علم آگیا، بے شک تیرا رب ان کے درمیان قیامت کے دن اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَلَقَدْ آتَیْنَا بَنِیْ اِِسْرَآئِیلَ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ وَرَزَقْنَاہُمْ مِّنْ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَo وَآتَیْنَاہُمْ بَیِّنَاتٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَمَا اخْتَلَفُوْا اِِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَائَہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَہُمْ اِِنَّ رَبَّکَ یَقْضِی بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَo ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَائَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَo اِِنَّہُمْ لَنْ یُّغْنُوْا عَنکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّاِِنَّ الظٰلِمِیْنَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَّ اللّٰہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَo ہٰذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُوقِنُوْنَo﴾ (الجاثیۃ: ۱۶۔۲۰)’’جس نے کوئی نیک عمل کیا تو وہ اسی کے لیے ہے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہے، پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔اور بلا شبہ یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکم اور نبوت دی اور انھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور انھیں جہانوں پر فضیلت بخشی۔اور انھیں (دین کے) معاملے میں واضح احکام عطا کیے، پھر انھوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آگیا، آپس میں ضد کی وجہ سے ،بے شک تیرا رب ان کے درمیان قیامت کے دن اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے ۔پھر ہم نے تجھے (دین کے) معاملے میں ایک واضح راستے پر لگا دیا، سو اسی پر چل اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چل جو نہیں جانتے۔بلاشبہ وہ اللہ کے مقابلے میں ہر گز تیرے کسی کام نہ آئیں گے اور یقیناً ظالم لوگ، ان کے بعض بعض کے دوست ہیں اور اللہ متقی لوگوں کا دوست ہے۔‘‘قرآن کریم کے یہ مواقع اس بات کو کھول کر بیان کرتے ہیں کہ ان اختلاف کرنے والوں نے علم اور روشن دلائل آ چکنے کے بعد ہی اختلاف کیا تھا اور اس سے غرض ظلم و زیادتی تھی۔ نہ کہ اس لیے ان پر حق و باطل میں اشتباہ ہو گیا تھا۔یہ مذموم اختلاف کرنے والے جملہ اہل ہواء و بدعت کا حال ہے۔ جو حق ظاہر ہو جانے کے بعد ہی اختلاف کرتے ہیں جبکہ ان کے پاس علم بھی آ چکا ہوتا ہے، تب یہ ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں ۔پھر مذموم اختلاف کرنے والے سب کے سب ایک دوسرے پر ظلم ڈھاتے ہیں اور ان کی حق بات کو جانتے بوجھتے جھٹلاتے ہیں اور اپنی باطل بات کی جانتے بوجھتے تصدیق کرتے ہیں ۔یہ سب مذموم لوگ ہیں ۔ اسی لیے کتاب و سنت میں اختلاف کرنے والوں کی مطلق مذمت آئی ہے۔ کیونکہ یہ سب کے سب حق کے مخالف اور باطل کے پیروکار ہوتے ہیں ۔ اسی لیے رب تعالیٰ نے رسولوں کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ ایک ہی دین ....دین اسلام ....کی طرف دعوت دیں اور اس میں تفرقہ نہ ڈالیں اور یہی اولین و آخرین اور ان کے پیروکاروں کا دین ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿شَرَعَ لَکُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہٖ نُوحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِِلَیْہِ﴾ (الشوری: ۱۳)’’اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ہم نے تیری طرف کی اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، یہ کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں جدا جدا نہ ہو جاؤ۔ مشرکوں پر وہ بات بھاری ہے جس کی طرف تو انھیں بلاتا ہے۔‘‘اوردوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:﴿یٰٓاََیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنْ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِِنِّی بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌo وَاِِنَّ ہٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِیo فَتَقَطَّعُوْا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ زُبُرًا کُلُّ حِزْبٍ بِّمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَo﴾ (المومنون: ۵۱۔۵۳)’’اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤاور نیک عمل کرو، یقیناً میں اسے جو تم کرتے ہو، خوب جاننے والا ہوں ۔ اور بے شک یہ تمھاری امت ہے، جو ایک ہی امت ہے اور میں تمھارا رب ہوں ، سو مجھ سے ڈرو۔ پھر وہ اپنے معاملے میں آپس میں کئی گروہ ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ ہر گروہ کے لوگ اسی پر خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔‘‘’’زُبُرًا‘‘ سے یہاں مراد کتابیں ہیں ۔ یعنی ہر قوم نے کتاب اللہ کے سوا اپنی بنائی اور گھڑی ہوئی جعلی اور بدعتی کتاب کی پیروی کی۔ جس سے وہ باہم متفرق و مختلف ہو گئے کیونکہ اہل تفریق و اختلاف خالص دین حنیف پر نہیں ہوتے۔ جو خالص اسلام ہے۔ جو سارے کے سارے دین کو صرف اللہ کے لیے کرنے کا دوسرا نام ہے۔ جس کا ذکر اس ارشاد باری تعالیٰ میں ہے:﴿وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِo﴾ (البینۃ: ۵)’’اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں ، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نمازقائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔‘‘ایک اور جگہ ارشاد ہے:﴿فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہُ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَo﴾ (الروم: ۳۰۔۳۲)’’پس تو ایک طرف کا ہوکر اپنا چہرہ دین کے لیے سیدھا رکھ، اللہ کی اس فطرت کے مطابق، جس پر اس نے سب لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی پیدائش کو کسی طرح بدلنا (جائز) نہیں ، یہی سیدھا دین ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور اس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور شرک کرنے والوں سے نہ ہو جاؤ۔ ان لوگوں سے جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی گروہ ہوگئے، ہر گروہ اسی پر جو ان کے پاس ہے، خوش ہیں ۔‘‘اس آیت میں رب تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مشرکوں میں سے بنیں جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے خود کو گروہ در گروہ کر لیا تھا۔یاد رہے کہ اس آیت میں ’’مِنْ‘‘ حرفِ جر کا اعادہ یہ بتلانے کے لیے ہے کہ دوسرا کلمہ﴿مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا﴾ یہ پہلے کلمے﴿مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ کا بدل ہے اور کلام میں مقصود ہمیشہ بدل ہوتا ہے جبکہ پہلا کلمہ یعنی مبدل منہ وہ بطور تمہید کے ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْہِ وَ لَوْ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ وَ اِنَّہُمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍo ........o وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَo اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَہُمْ﴾ (ہود۱۱۰۔۱۱۹ )’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پھر اس میں اختلاف کیا گیا اور اگر وہ بات نہ ہوتی جو تیرے رب کی طرف سے پہلے ہوچکی تو ان کے درمیان ضرور فیصلہ کر دیا جاتا اور بے شک یہ لوگ اس کے بارے میں ایک بے چین رکھنے والے شک میں ہیں ۔........اور اگر تیرا رب چاہتا تو یقیناً سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا اور وہ ہمیشہ مختلف رہیں گے۔ مگر جس پر تیرا رب رحم کرے اور اس نے انھیں اسی لیے پیدا کیا۔‘‘پس رب تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ جن پر رب تعالیٰ رحمت فرماتے ہیں وہ اختلاف سے دور رہتے ہیں ۔ قرآن کریم میں یہ مضمون متعدد مواقع پر مذکور ہے کہ سب پیغمبروں کا دین اسلام تھا۔ جیسا کہ نوح علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے:﴿وَ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (النمل: ۹۱)’’اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرماں برداروں میں سے ہو جاؤں ۔‘‘سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے:﴿اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنo وَ وَصّٰی بِہَآ اِبْرٰہٖمُ بَنِیْہِ وَ یَعْقُوْبُ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۱۳۱۔۱۳۲)’’جب اس سے اس کے رب نے کہا فرماں بردار ہو جا، توکہا میں رب العالمین کا فرماں بردار ہوگیا۔ اور اسی کی وصیت ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو کی اور یعقوب نے بھی۔ اے میرے بیٹو! بے شک اللہ نے تمھارے لیے یہ دین چن لیا ہے، تو تم ہر گز فوت نہ ہونا مگر اس حال میں کہ تم فرماں بردار ہو۔‘‘حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا:﴿فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَo﴾ (یوسف: ۱۰۱)’’آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے! دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا یار ومددگار ہے، مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ قَالَ مُوْسٰی یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَo﴾(یونس: ۸۴)’’اور موسیٰ نے کہا اے میری قوم! اگر تم اللہ پرایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسا کرو، اگر تم مسلمان ہو۔‘‘اور جادوگروں کے بارے میں فرمایا:﴿رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَo﴾ (الاعراف: ۱۲۶)’’اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں اس حال میں فوت کر کہ فرماں بردار ہوں ۔‘‘اور بلقیس کے بارے میں فرمایا:﴿رَبِّ اِِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo﴾ (النمل: ۴۴)’’اے میرے رب! بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کے لیے فرماں بردار ہو گئی۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ﴾ (المائدۃ: ۴۴)’’اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے انبیاء جو فرماں بردار تھے، ان لوگوں کے لیے جو یہودی بنے اور رب والے اور علماء۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْہَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَo﴾(المائدۃ: ۱۱۱)’’اور جب میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ، انھوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ بے شک ہم فرماں بردار ہیں ۔‘‘صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ہم گروہ انبیاء ہیں ، ہمارا دین ایک ہی ہے۔‘‘[1][1] مجھے یہ حدیث ان لفظوں کے ساتھ نہیں ملی۔ لیکن ’’صحیح البخاری‘‘ (۴؍۱۶۷) کتاب الانبیاء میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میں دنیا اور آخرت میں سب لوگوں سے زیادہ عیسیٰ بن مریم رحمہم اللہ کے قریب ہوں اور انبیاء (ایک دوسرے کے) باپ شریک بھائی ہوتے ہیں جن کی مائیں تو جدا جدا ہیں اور ان کا دین ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی صفحہ پر قریب قریب انہی الفاظ کے ساتھ ایک اور حدیث بھی روایت کی ہے۔ ’’صحیح مسلم‘‘ (۴؍۱۸۳۷) کتاب الفضائل میں یہ حدیث ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ تین طرق سے مروی ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے۔ امام ابن حجر ’’فتح الباری‘‘ (۶؍۴۸۹) طبعۃ السلفیۃ میں لکھتے ہیں : علات: عین کے فتح کے ساتھ یہ سوکنوں کو کہتے ہیں ، اور ان کا یہ نام اس لیے ہے گویا کہ خاوند ایک پر دوسری کو بیاہ کر سے پیتا ہے۔ کیونکہ ’’علات‘‘ یہ علل سے ہے اور علل یہ ایک دفعہ سیراب ہونے کے بعد دوسری دفعہ پینے کو کہتے ہیں اور علاتی اولاد باپ شریک کو کہتے ہیں جن کی مائیں تو جدا جدا ہوں مگر باپ ایک ہو۔ اسی معنی میں حدیث ’’سنن ابی داود‘‘ (۴؍۳۰۲)، مسند احمد (۲؍۳۱۹، ۴۰۶) طبعۃ الحلبی اور ’’ترتیب مسند الطیالسی‘‘ (۲؍۸۴) میں بھی ہے۔غرض شرائع کا تنوع یہ دین کے ایک ہونے کو مانع نہیں اور وہ اسلام ہے۔ جیسے وہ دین جس کے ساتھ رب تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے، وہ اول و آخر ہر اعتبار سے اسلام ہی ہے۔اول اول قبلہ بیت المقدس تھا جو بعد میں کعبہ مقرر کر دیا گیا۔ لیکن ان دونوں اوال میں دین ایک ہی رہا اور وہ ہے اسلام۔ہم سے پہلے کے جملہ انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں بھی ایسی ہی ہیں اسی لیے رب تعالیٰ نے قرآن کریم میں حق کو ذکر فرما کر فرمایا ہے کہ وہ ایک ہی ہے، البتہ باطل کئی قسم پر ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾ (الانعام: ۱۵۳) ’’اور یہ کہ بے شک یہی میرا راستہ ہے سیدھا، پس اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمھیں اس کے راستے سے جدا کر دیں گے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنo﴾ (الفاتحۃ: ۶۔۷)’’ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اِجْتَبٰیہُ وَ ہَدٰیہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo﴾ (النحل: ۱۲۱)’’اس نے اسے چن لیا اور اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاo﴾ (الفتح: ۲)’’اور تجھے سیدھے راستے پر چلائے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓئُہُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ﴾ (البقرۃ: ۲۵۷)’’اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے دوست باطل معبود ہیں ، وہ انھیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لاتے ہیں ۔‘‘غرض یہ بات کتاب اللہ کے مطابق ہے کہ مطلق اختلاف مذموم ہے بخلاف مقید اختلاف کے کہ اس کے بارے میں رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَ لٰکِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْہُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْہُمْ مَّنْ کَفَرَ وَ لَوْ شَآ ئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا﴾ (البقرۃ: ۲۵۳)’’اور لیکن انھوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے کوئی تو وہ تھا جو ایمان لایا اور ان سے کوئی وہ تھا جس نے کفر کیا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے۔‘‘یہ بات واضح ہے کہ یہ اختلاف اہل حق اور اہل باطل کے درمیان ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿ہٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّہِمْ﴾ (الحج: ۱۹)’’یہ دو جھگڑنے والے ہیں ، جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔‘‘صحیحین میں ثابت ہے کہ یہ آیت بدر کے دن لڑنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد تھے۔ جبکہ اس دن مشرکین میں سے لڑنے والے عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ تھے جنھوں نے اہل ایمان سے مبارزت کی تھی۔[1][1] صحیح البخاری، کتاب التفسیر: ۹؍۸۶ ۔ صحیح مسلم، کتاب التفسیر: ۴؍۲۳۲۳۔ دیکھیں : تفسیر ابن کثیر: ۵؍۴۰۱۔میں نے کتب اختلاف میں ، جن میں لوگوں کے مقالات درج ہیں ، خوب غور و تدبر کیا ہے۔ یا تو وہ محض نقل ہیں جیسے ابو الحسن الاشعری کی ’’کتاب المقالات‘‘ اور شہرستانی اور ابو عسی الوراق کی ’’الملل و النحل‘‘ یا پھر ان میں بعض اقوال کی تائید ہے۔ اہل کلام کی، حسب اختلافِ طبقات، اکثر کتب و تصانیف کا حال یہی ہے۔ میں نے ان میں زیادہ تر جس اختلاف کو مذکور دیکھا ہے، وہ مذموم اختلاف ہی ہے۔ رہا وہ حق جسے دے کر رب تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور امت کے اکثر اسلاف بھی اسی پر ہیں ۔ اس حق کے جمیع مسائل میں ایسا اختلاف دیکھنے کو نہیں ملتا۔ بلکہ یہ اہل کلام ایک ایک مسئلہ کے تحت متعدد اقوال نقل کرتے ہیں اور کتاب و سنت کا ایک قول بھی نقل نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے ان کو ذکر نہ کرتے تھے بلکہ بات یہ ہے کہ وہ لوگ حق جانتے ہی نہ تھے اسی لیے ائمہ اسلاف اس علم کلام کی مذمت بیان کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل کلام میں سے جو لوگ منصف مزاج اور حاذق اور سمجھ دار تھے انھیں اخیر عمر میں جا کر علم کلام سے شک اور حیرت کے سوا اور کچھ نہ ملا، جس کا انھوں نے صاف صاف اقرار بھی کیا۔ کیونکہ انھیں ان اختلافات میں حق نہ ملا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ان میں سے اکثر عوام کے اسی دین کی طرف لوٹ آئے جس پر پرانے بوڑھے اور بدوی لوگ تھے۔چنانچہ ابو المعالی نے عالم نزع میں یہ کہا: میں ایک گہرے سمندر میں اترا اور میں نے اہل اسلام اور ان کے علوم کو ترک کر دیا اور ان باتوں میں جا گھسا جس سے انھوں نے روکا تھا۔ اب اگر میرے رب کی رحمت نے مجھے نہ ڈھانپا تو ابن جوینی کے لیے ہلاکت ہے۔ گواہ رہو کہ میں اپنی ماں کے عقیدہ پر مر رہا ہوں ۔ابوحامد غزالی کا معاملہ بھی اخیر عمر میں شک اور حیرت پر ہی جا کر ٹھہر گیا تھا اور انھیں یہ کیفیت متکلمین و فلاسفہ کے طرق میں خوب غور و تدبر کے بعد حاصل ہوئی تھی۔ چنانچہ موصوف عبادت و ریاضت اور زہد کے طرق پر چل پڑے اور اخیر عمر میں صرف ’’صحیحین‘‘ میں مشغول ہو کر رہ گئے۔یہی حالت امام شہرستانی کی بھی ہوئی تھی۔ حالانکہ وہ ان متکلمین کے مقالات و اختلاف کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے اور انھوں نے اپنی وہ شہرۂ آفاق کتاب ’’نہایۃ الأقدام فی علم الکلام‘‘ بھی لکھی اور اس میں یہ لکھا: مجھے اس ذات نے مشورہ دیا جس کا مشورہ غنیمت اور جس کا حکم بجا لانا حتمی ہے کہ میں ان کے لیے مشکلات الاصول میں سے ان باتوں کو ایک کتاب میں رقم کروں جن کی بابت اہل عقل و فہم کو بھی اشکالات اور مشکلات پیش آتی ہیں ۔ لیکن شاید انھوں نے سوج کو فربہی سمجھا اور بجھے انگاروں میں پھونک ماری۔ میری عمر کی قسم! میں سب تعلیم گاہوں میں گھوم گیا اور ان سب آثار پر نگاہ دوڑائی تو میں نے اس کے سوا اور نہ دیکھا کہ کوئی تو مارے حیرت کے انگشت بدنداں ہے اور کوئی ندامت سے دانت پیس رہا ہے۔غرض موصوف شہرستانی بتلا رہے ہیں کہ انھیں متکلمی و فلاسفہ میں سے سوائے حیراں و سرگرداں کے اور شک و ارتیاب میں غلطاں کے یا اپنے خود ساختہ عقائد کی خطا ظاہر ہونے پر کف افسوس ملنے والے ندامت کے ماروں کے اور کوئی نہیں ملا۔اب ان میں سے پہلی قسم کے متکلمین جہل بسیط کا شکار ہیں جو تہہ بہ تہہ اندھیروں کے جیسا ہے۔ کہ اس میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا اور دوسری قسم کے متکلمین جہل مرکب میں ڈوبے ہیں ۔ پھر موصوف پر اپنا جہل عیاں ہوا تو بے حد نادم ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم موصوف شہرستانی کو دیکھتے ہیں کہ وہ مسائل کے تحت مختلف فرقوں کے اقوال و دلائل تو ذکر کرتے ہیں لیکن مارے حیرت کے کسی ایک قول کو ترجیح نہیں دے پاتے۔یہی حال علامہ آمدی کا بھی ہے کہ ان پر توقف اور حیرت ہی غالب رہتی ہے۔اب امام رازی کو ہی لے لیجیے کہ وہ ایک کتاب میں ، بلکہ ایک ہی کتاب کی ایک جگہ میں ایک قول کی تائید کرتے نظر آتے ہیں جبکہ اسی کتاب کے دوسرے مقام پر یا پھر کسی اور کتاب میں اسی قول کی نقیض ذکر کر دیتے ہیں ۔ یہ بات بالآخر انھیں شک اور حیرت کے دروازے پر لے گئے۔ اسی لیے جب یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ کامل ترین علم رب تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات و افعال سے متعلق علم ہے تو ساتھ ہی یہ بھی ذکر کر دیا جاتا ہے کہ ان سب باتوں پر چند اشکال بھی ہیں (کہ یہ اکثر متکلمین کا حال ہے)میں نے متعدد مقامات پر امام رازی کے کلام کو اور انھیں اور دیگر متکلمین پر وارد ہونے والے اشکالات کو مفصل اور واضح ذکر کیا ہے۔ بے شک رب تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو حق دے کر بھیجا ہے اور اپنے بندوں کو فطرت پر پیدا کیا ہے۔ پس جس نے اپنی فطرت کو اس دین کے ساتھ مکمل کر لیا جسے دے کر رب تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بھیجا ہے تو اس نے ہدایت اور وہ یقین پا لیا جس میں کوئی شک بھی نہیں اور نہ کوئی تناقض ہی ہے۔ لیکن ان لوگوں نے اپنی عقلی فطرت اور سمعی شریعت دونوں کو برباد کر لیا جس کا سبب وہ شبہات اور اختلافات تھے جن میں وہ پڑ گئے تھے، جن کی نحوست سے یہ لوگ حق تک پہنچنے سے قاصر رہے۔ جیسا کہ میں نے ایک دوسرے مقام پر اس کی تفصیل ذکر کر دی ہے۔یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جب امام رازی نے یہ ذکر کیا تو یہ کہا: ’’اور جو اس دروازے تک پہنچا اور جس نے یہ شراب پی لی۔‘‘[1][1] امام رازی کی یہ عبارت ’’درء التعارض ....‘‘ (۱؍۱۶۰) میں یوں ہی مذکور ہے اور وہاں میں نے یہ بھی ذکر کیا ہے مجھے یہ کلام نہیں ملا۔ امام رازی کی دستیاب مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتب میں ہمیں جو عبارت ملی ہے، وہ یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ ذکر کرتے ہیں کہ رازی اپنی کتاب میں اس کلام کے ذریعے لذات کی اقسام کو ذکر کرتے تھے۔ یہ مخطوطہ ہندوستان میں موجود ہے۔ امام رازی کی تالیفات کے ذکر میں ’’بروکلیمین‘‘ نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ میں نے ’’درء ....‘‘ پر اپنی تعلیق میں یہ لکھا ہے کہ امام ابن تیمیہ نے یہ (عقلوں کی زیادہ سے زیادہ پہنچ بے بسی پر ہے اور علماء کی دوڑ گمراہی تک ہی ہے، ہماری روحیں ہمارے جسموں میں وحشت زدہ ہیں ، ہمارا دنیا کا حاصل اور مآل اذیت اور وبال ہے۔ ہمیں اپنی عمر بھر کی بحث و تحقیق سے سوائے قیل و قال کے جمع کرنے کے اور کچھ ہاتھ نہ آیا میں نے متکلمین کے طرق اور ان کے فلسفیانہ مناہج میں خوب غور کیا۔ سو میں نے دیکھا کہ ان میں کسی بیمار کے لیے شفا کا سامان اور کسی پیاسے کے لیے سیراب کے اسباب موجود نہیں اور میں نے صحیح ترین طریق قرآن کریم کا طریق پایا۔ اے مخاطب! تو رب تعالیٰ کی صفات کے اثبات کے باب میں یہ ارشادات باری تعالیٰ پڑھ:﴿اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ﴾ (فاطر: ۱۰)’’اسی کی طرف ہر پا کیزہ بات چڑھتی ہے اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰیo﴾ (طہ: ۵)’’وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا۔‘‘اور نفی کی بابت یہ ارشاداتِ باری تعالیٰ پڑھو:﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾ (الشوری: ۱۱)’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عَلْمًاo﴾ (طہ: ۱۱۰)’’اور وہ علم سے اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔‘‘پس جو بھی میرے جیسا تجربہ کرے گا وہ میرے جیسی معرفت بھی پائے گا۔