ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام میں سے کسی ایک نبی کی مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ پیغمبر کے انتقال پر ملال پر پیغمبر کی اولاد کو باپ کے ترکہ سے محروم کردیا گیا ہو جیسا کہ رسول زادی کو حدیث نحن معاشر الانبياء لا نرث و لا نورث ما تركناه صداقة۔ خلیفہ وقت نے سنا کر باپ کی جائیداد سے محروم کردیا تھا۔ (دیکھو بخاری: صفحہ، 161)
مولانا مہرمحمد میانوالیمسئلہ باغ فدک:
جواب: اولاد کے مالی وارث ہونے کے شیعہ مدعی ہیں اہلِ سنت منکر ہیں مدعی کے ذمے ثبوت ہوتا ہے شیعہ ایک مثال پیش کریں کہ کسی نبی کا اپنا کمایا ہوا ذاتی مال یا ترکہ ان کی سب اولاد میں بطورِ وراثت شرعی پورا پورا تقسیم ہوا ہو جب ایسی کوئی مثال نہیں ملتی تو منکر کا دعویٰ از خود بلا دلیل و مثال ثابت ہوجاتا ہے۔
مسںٔلہ فدک:
یہ سوال قصہ فدک کی طرف اشارہ ہے جو یہ شیعہ کا پیدا کردہ معرکۃ الآرا مسںٔلہ ہے بلکہ اہلِ تشیع کا بزعمِ خودسنگِ بنیاد ہے انقلاباتِ زمانہ سے جب دسویں صدی ہجری میں صفوی خاندانِ ایران میں برسرِ اقتدار آیا اور شیعہ کا اصول تقیہ باطل ہوگیا۔ اور شیعہ ائمہ کے ارشادات کے شیعو! تم اس دین پر ہو جو اسے چھپائے گا عزت پائے گا اور جو ظاہر کرے گا خدا اسے ذلیل کرے گا نیز جوں جوں امام مہدی کے ظاہر ہونے کا زمانہ قریب آئے گا تقیہ اور کتمان دین کی ضرورت اور سخت ہوتی چلی جائے گی اصول کافی باب التقية خود شیعہ کے قول و فعل سے جھوٹے ثابت ہوئے تو شیعہ مبلغ سب سے پہلے مسئلہ فدک سے بحث شروع کرتے تھے کشف الغمہ کے مقدمہ میں مؤلف کے حالات میں ہے۔
یہاں یہ بات معلوم کر لینی چاہیئے کہ شیعہ مذہب صفوی زمانہ سے ایران میں شائع ہوا علامہ زواری شیخ بہاء الدین اور ملا فتح اللہ کاشانی جیسے لوگ دولتِ آصفیہ کے آغاز میں اہلِ بیتؓ کا طریقہ پھیلانے میں مصروف ہوئے۔
پھر اس اعتراض کے شیعہ مذہب فاتحِ ایران حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بغض کی وجہ سے ایران میں پیدا ہوا کے جواب میں کہتے ہیں:
و ما گوںٔییم ایں سخن غلط است و ایشاں نمی دانند کہ تشیع از زمان صفویہ با ہزاراں رنج و دشواری رواج گرفت و بیش از آں تا ہزار سال کشور عجم مانند ساںٔر ممالک اسلامیہ سنی بودند۔
(مقدمہ کشف الغمہ: صفحہ، 13 از مرزا ابوالحسن شعرانی)
ترجمہ: ہم کہتے ہیں یہ الزام غلط ہے یہ سنی نہیں جانتے کہ شیعہ مذہب تو صفویہ خاندان کے زمانہ سے ہزار رنج اور مشکلات کے ساتھ شائع ہوا اور اس سے پہلے ہزار سال تک عجمی ممالک تمام دیگر اسلامی ممالک کی طرح سنی المذہب تھے۔
اب ایسے مذہب کی حقیقت و صداقت کا کیا کہنا جو ہزار برس بعد ہی پردہ عدم سے ظہور میں آتا ہے اور بنیاد عہدِ نبوی کے بعد فدک جیسے چند اختلافات پر استوار کر کے اتفاقِ ملی کو پارہ پارہ کرتا اور اپنے فرقہ کے سوا سب مسلمانوں کو دائرہ ایمان سے خارج جانتا ہے حالانکہ بالکل کھلی بات ہے جن اختلافی مسائل پر آج ملتِ اسلامیہ کو کفر و اسلام میں منقسم کیا جاتا ہے عہدِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم و اہلِ بیتؓ میں ان کا وجود ایسے تھا ہی نہیں جیسے باور کرایا جاتا ہے ہر بات کا بتنگڑ بنا کر تصویر ہی غلط پیش کی جاتی ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ جس وقت یہ مسائل اٹھے یا اٹھائے گئے حضرات اھلِ بیتؓ سے عقیدت رکھنے والے بھی کروڑوں مسلمان تھے ہزار برس تک ان میں سے کوئی فرقہ شیعہ اہلبیتؓ نہ بنا اور نہ کسی نے ان اختلافات کو ہواد سے کرنیا مذہب تیار کیا مگر ہزار برس بعد یہود و مجوس کے ملغوبہ خاندان صفوی نے ان اختلافات کو مذہب کی شکل میں پھیلا دیا تبلیع کے اس اجمالی تعارف کے بعد اور مسئلہ فدک کی تفصیلات میں جانے سے پہلے چند باتوں پر غور کرنا ضروری ہے۔
1: مسئلہ کی حقیقت:
اس مسںٔلہ کی حقیقت صرف اتنی ہی ہے کہ یہود بنی نظیر قریظہ اور خیبر کے بعض قباںٔل نے اہلِ اسلام سے مرعوب ہوکر بلا جنگ جو جائیدادیں اہلِ اسلام کے سپرد کیں قرآنی اصطلاح میں وہ مالِ فے کہلاتا ہے اور اس کے آٹھ مصارف صورتِ حشر میں مذکور ہیں ان ہی میں فدک تھا یہ جائیدادیں صرف حضورﷺ کی تحویل میں تھیں کیونکہ کسی مسلمان مجاہد کا ان میں معین حصہ نہ تھا حضورﷺ صرف اپنی صوابدید سے مذکورہ بالا مصارف پر کلّا یا جزأ کمی بیشی کے ساتھ خریج کرتے تھے اپنا ذاتی خرچ رشتہ داروں کا خرچ بھی اسی سے نکالتے تھے اصولِ کافی میں تصریح ہے کہ یہ جائیداد پیغمبر کے بعد امام جانشین کی تحویل میں چلی جاتی ہے اور وہ اپنی کے مطابق ان میں عمل و تصرف کرتا ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب اسی حیثیت سے جانشین پیغمبرﷺ ہوئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے خلیفہ کی یہ حیثیت تسلیم کرتے ہوئے بذریعہ قاصد یہ مطالبہ کیا کہ فدک نامی شہر کی جائیداد جس کی آمدنی ہم استعمال کرتے ہیں براہِ راست میری تحویل میں دے دیں سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے فرمایا یہ وراثت کی سی شکل ہے رسول اللہﷺ کا فرمان میں نے سنا ہے کہ پیغمبروں کا ترکہ عام صدقہ ہوتا ہے اس میں کوئی وارث نہیں بنتا آپ کو خرچ کے لیے وہ سب آمدنی ملتی رہے گی جو حضورﷺ کے عہد میں ملا کرتی تھی حضورﷺ کی رشتہ داری مجھے سب دنیا سے بڑھ کر عزیز ہے لیکن میں بطورِ وراثت و تملیک وہ جائیداد آپ کے حوالے نہیں کر سکتا کیونکہ حضورﷺ کی روش کے خلاف کروں تو گمراہ ہوں گا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ معقول جواب سن کر خاموش ہوگئیں پھر اس مسئلہ پہ آپ سے بات نہیں کی حتیٰ کہ 6 ماہ بعد رحلت فرما گئیں۔
جناب رشید اختر ندوی مسلمان حکمران 32، 33 پر لکھتے ہیں:
سیدہ فاطمہؓ کا مطالبہ تھا انہیں باغِ فدک اور خیبر کی زمینیں دی جائیں جو رسول اللہﷺ کے براہِ راست تابع تھیں جن سے رسول اللہﷺ اپنی بولیوں اہلِ و عیال عام مسلمانوں مسافروں اور عمال کی تنخواہیں اور دوسرے اخراجات پورے کرتے تھے حضرت فاطمہؓ کی نظر منصبِ امامت اور اس کے فرائض پر نہ تھی وہ اپنے باپ کو نبی مانتی تھیں مگر وہ انہیں عرب کا امیر بھی سمجھتی تھیں۔
در حقیقت اسلام بڑے اونچے مقاصد لے کر اس دنیا میں آیا تھا رسول اللہﷺ نے جو طریق حکومتِ رواج دیا تھا اس میں امیرِ ملت یا حاکمِ اعلیٰ کی وراثت کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا البتہ اگر رسول اللہﷺ اپنے باپ یا دادا سے کوئی جائیداد پاتے اور یہ جائیداد نبی کی حیثیت سے نہیں ایک عام فرد کی حیثیت سے انہیں ملتی تو بات شاید الگ ہوتی تو شاید حضرت ابوبکرؓ حضرت فاطمہؓ کے مطالبہ کو رد نہ کرتے بہت ممکن تھا بلکہ یقیناً ایسا ہوتا کہ رسول اللہﷺ یہ جائیداد بیچ کر مستحق مسلمانوں کو کھلا دیتے اور وصال کے وقت اپنے پیچھے کچھ چھوڑ نہ جاتے اور باغِ فدک اور خیبر کی بعض زمین تو رسول اللہﷺ کو مسلمانوں کے حاکم ہونے کی حیثیت سے ملی تھی اور اگر وہ زمینیں اپنی بیٹی یا اپنے نواسوں اور دوسرے عزیزوں کے لیے مخصوص کر جاتے تو ان میں اور دوسرے حکمرانوں میں کیا فرق رہتا۔
سیدہ فاطمہؓ نورِ ملت اور جانِ ملت ہیں سیدہ فاطمہؓ ہم سب کی آنکھوں کا تارا ہیں ان کی محبت جزو ایمان ہے لیکن اسلام کے عظیم مقاصد اس محبت کے باوجود مقدم ہیں اور اس لیے حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا تھا یہ باغِ فدک میرے تسلط میں اس طرح رہے گا جس طرح رسول اللہﷺ کے تسلط میں تھا اور میں اسے اس طرح خرچ کروں گا جس طرح رسول اللہﷺ سے خرچ کرتے تھے۔
(ابنِ کثیر جزہ: صفحہ، 289)
اور تاریخ نے جو کسی کے عیوب و محاسن نہیں چھپاتی اور ہر عیب کو ظاہر کر دیتی ہے حضرت ابوبکرؓ پر یہ الزام نہیں لگایا کہ انہوں نے باغِ فدک یا کسی اور زمین کی پیداوار اپنے اوپر صرف کی ہو گو انہوں نے باغِ فدک اور دوسری زمینیں اپنے قبضے و تولیت میں لے لی تھیں لیکن ان کی پیدوار اپنے اوپر حرام کرلی تھی۔
وہ جس طرح کی زندگی گزارتے تھے اس کی تفصیل آگے آئے گی یہاں صرف اتنا بتانا مقصود ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ کی وراثت کے باب میں وہی مسلک اختیار کیا جو اسلام کا منشاء تھا انہوں نے وہی راہ اختیار کی جو اسلام کے پہلے حاکمِ اعلیٰ کو منظور و محبوب تھی۔
اور یہ راہ اختیار کرتے وقت انہوں نے رسول اللہﷺ کے ارشاد سے سند بھی لی تھی انہوں نے حضورﷺ کا ارشاد سیدہ فاطمہؓ اور دوسرے لوگوں کو سنا دیا تھا اور ان سے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا:
فرءیت ان ارده علی المسلمین۔
ترجمہ: میرا خیال ہے کہ میں اسے مسلمانوں کو لوٹا دوں۔
انہوں نے اپنا یہ خیال پورا کیا اور فدک اور خیبر کی مخصوص آمدنی مسلمانوں کے تصرف میں لائے اور یہ باغِ فدک اور دوسرے اموال رسول اللہﷺ کی زندگی میں حضورﷺ کے ذاتی اور قومی تصرف میں آیا کرتے تھے جن میں سے بنی نظیر کے اموال بھی تھے۔
مؤرخ ابو عبید نے اس سلسلہ میں حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی روایت درج کی ہے جس کے الفاظ ہیں:
كانت اموال بنی نضير مما افاء الله على رسوله مما لا يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب فكانت الرسول الله خاصة فكان ينفق منها على أهله نفقة سنة وما جعله فی الكراع والسلام عدة فی سبيل الله۔
(مسلمان حکمران: صفحہ، 32، 33، 34 مؤلفہ رشید اختر ندوی مطبوعہ احسن برادرز لاہور)
ترجمہ: کہ بنو نضیر کے اموال اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی گھڑ دوڑ اور لشکر کشی کے بغیر حضورﷺ کو بطورِ فے دیے تھے تو یہ حضورﷺ کے خاص تصرف میں تھے آپ سال کا خرچہ اپنے گھر والوں پر اس سے کرتے اور بقیہ کو جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری میں ہتھیار وغیرہ سامان پر خرچ کرتے تھے۔
شیعہ حضرات حضرت فاطمہؓ کی مفروضہ ناراضگی کو بہت اچھالتے ہیں تو گزارش یہ ہے سیدہ فاطمہؓ کی اپنی زبانی واقعہ کی تفصیل یا ناراضی کا اظہار اہلِ سنت کی کسی معتبر کتاب میں نہیں ملتا چونکہ خوشی یا ناراضی دل کا فعل ہے عام راوی اسے بطورِ ظن ہی بیان کرسکتا ہے چنانچہ بعض رواۃ اہلِ سنت نے خاموشی کو ناراضی پر محمول کیا اور اسی بناء پر ناراضی بعض روایات میں منقول ہے۔
2: دس تمہیدات:
اس سے قطعِ نظر کہ غضبت جیسے ثبت ناراضی الفاظ راوی کے مدرج الفاظ میں جیسے عنقریب بیان ہوگا قابلِ توجہ بات اس قدر ہے:
اولاً: کہ قرنِ اول کے دو بڑے بزرگوں پیغمبرﷺ کے خاص رشتہ داروں میں اتنا سا فکری یا نظریاتی اختلاف کیا اس بات کا جواز مہیا کرسکتا ہے کہ اس پر اصولی اختلاف کی طرح ڈال کر امتِ مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے خود حضرات اہلِ بیت رضی اللہ عنہم نے تو حدیثِ میراث اور عملِ صدیقی کی تغلیط نہیں کی قصہ فدک میں بدستور وہی طریقہ جاری رکھا جو پیغمبر اعظمﷺ اور حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے قائم کیا تھا پھر بعد میں آنے والے لوگوں کو انتشار و اختلاف برپا کرنے کا کیا حق ہے؟
ثانیاً: سیدہ فاطمہؓ جیسی عابدہ زاہدہ بتول سے عقلاً کیا ممکن ہے کہ وہ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے حدیث پیغمبرﷺ سن کر ناراض ہو جائیں یہ ادنیٰ مسلمان کی بھی شان نہیں ہوسکتی بالفرض اگر وہ حدیث آپ کے خیال میں درست نہیں تو برملا اس کا انکار کر کے اس کے برعکس قرآن و سنت سے ان کو قائل کریں اور اس کا ثبوت کتبِ معتبرہ فریقین سے ہونا چاہیئے خاموشی تو علامت رضا ہی ہے۔
ثالثاً: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے افضل صحابی ہی نہیں بلکہ حضرت فاطمہؓ کے رشتہ میں نانا بھی ہیں حضورﷺ کے یارِ قدیم اور صاحبُ الغار بھی ہیں عمر بھر جان و مال سے حضورﷺ کی خدمت و نصرت کی سیدہ فاطمہؓ کے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے رشتہ کے محرکِ اول حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ ہی ہیں آپ کا جہیز خرید کر لانے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں نکاح کے اہم شاہد بھی ہی حضراتِ ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں بلکہ سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے گھریلو تنازعات کو نمٹاتے وقت بھی حضورﷺ حضراتِ شیخینؓ کو شاہد بناتے تھے سب امور کے لیے قصہ تزویج ملاحظہ ہو:
(کشف الغمہ و جلاء العیون)
کیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا متعلق عقل سلیم کسی بھی درجے میں یہ باور کرسکتی ہے کہ آپ اپنے بڑے محسن رشتہ دار پر صرف تولیت فدک نہ ملنے کی وجہ سے ناراض ہوگئی ہوں اور تازیست کلام نہ کی ہو۔
رابعاً: فرض کیجئے آپ حساس اور نازک مزاج تھیں خلاف مرضی حضرت ابوبکرؓ کا عمل و ارشاد سن کر طبعاً ناراض ہوئیں، یا بقول شیعہ سیدنا ابوبکرؓ جیسے بزرگ محسن کو اپنے حق کا غاصب سمجھ کر ناراض ہوئیں تو کیا تین دن تک ناراضی کا جواز پھر ناراضی اور ترکِ کلام کی حرمت کا متفقہ مسئلہ آپ کو معلوم نہیں پھر اس کی خلاف ورزی کیسے؟ فدک کا مسئلہ مالی حقوق کے متعلق ایک دنیوی مسئلہ ہے عقیدہ اور فرائض شریعت کا مسئلہ تو نہیں جس کے خلل سے طویل ناراضی کا عذرِ لنگ تراشا جائے۔
خامساً: حضرت فاطمہ سيدة النساء رضی اللہ عنہا ہیں اعمالِ صالح اور پرہیز گاری میں اعلیٰ اور معیاری مقام رکھتی ہیں قرآن پاک می اہلِ جنت کے اوصاف عالیہ میں وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ الخ۔
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 134)
ترجمہ: اور اہلِ جنت غصے کو پینے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں آیا ہے گو برائی کا بدلہ اس کی مثل عام لوگوں کے لیے جائز ہے مگر خواص کے لیے: فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُهٗ عَلَى اللّٰهِ الخ۔(سورۃ الشوریٰ: آیت، 40)
ترجمہ: پس جو معاف کردے اور صلح کرلے پس اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور
وَلَمَنۡ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ۞ (سورۃ الشوریٰ: آیت، 43)
ترجمہ: اور البتہ جو صبر کرے اور بخش دے تو یہ پختہ کاری کی بات ہے جیسے لوگوں کی سیرت اپنانے کی تعلیم نازل کی گئی ہے رحم مجسم اور مہربان کائنات علیہ التحیہ والصلوات پیغمبرﷺ نے بڑے بڑے مجرموں کو معاف کر دینے کا اسوہ حسنہ یاد گار چھوڑا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے تو خصوصی طور پر اب رحیم کا حکم سفارش ہے: فَاعۡفُ عَنۡهُمۡ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ وَشَاوِرۡهُمۡ فِى الۡاَمۡرِ الخ۔(سورۃ آلِ عمران: آیت، 159)
ترجمہ: ان کو معاف کر دیں ان کے لیے بخشش مانگیں اور اہم کاموں میں ان سے مشورے لیں خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مثالی شوہر اور سبط پیغمبر فرزندوں نے تکالیف سہہ کر صبر و عفو کی مثالیں قائم کیں اب جو لوگ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حضرت ابوبکر صدیقؓ پر ناراضی کا افسانہ مشہور کرتے ہی رہتے ہیں رضامندی یا عفو کی کوئی روایت تسلیم ہی نہیں کرتے وہی بتائیں کہ مذکورہ بالا آیات کے مصداق سے سیدہ فاطمہؓ کیوں خارج ہیں آل عبا کے مثالی طرز عمل کی خلاف ورزی سیدہ فاطمہؓ کیوں کرتی ہیں کیا سیدہ فاطمہؓ کی پاکیزہ سیرت پر شیعہ کی طرف سے خوارج سے بڑھ کر یہ ناپاک حملہ نہیں جس کا مقصد وحید صرف سیدنا ابوبکرؓ پر طعن اور تشیع کے سنگ بنیاد ہی کو مضبوط کرنا ہے۔
سادساً: اگر کوئی بزرگ کسی صاحب سے بلا قصد و ارادہ طبعاً ناراض ہو جائیں تو زیادہ سے زیادہ ناراض کرنے والے کے ذمہ یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ ان سے معذرت اور دلجوئی کرلیں اعتزار اور معافی چاہنے والوں کو معاف کرنا سنتِ خدا و رسولﷺ کے علاوہ اخلاقی فریضہ بھی ہے اگر بقول شیعہ یہ طبعی ناراضی تسلیم ہی کی جائے تو شیعہ روایات میں ہی یہ تصریح ہے کہ حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہؓ سے جا کر معافی مانگی حالانکہ یہ دونوں نانا جی تھے اولو الامر تھے اور سیدہ فاطمہؓ سے افضل تھے مگر پھر بھی قرابتِ نبوی اور تعظیمِ حضرت فاطمہؓ کے جذبہ سے آپ کے گھر چل کر گئے ملاحظہ ہو:
حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ حال خفگی سیدہ فاطمہؓ دیکھا تو خدا سے عہد کیا کہ وہ چھت کے نیچے نہ جائیں گے جب تک کہ سیدہ فاطمہؓ کو راضی نہ کر لیں پس ایک رات وہ آسمان کے نیچے سوئے پھر سیدنا عمرؓ امیر المومنینؓ کے پاس آئے اور کہا حضرت ابوبکرؓ بوڑھے آدمی اور نازک دل ہیں رسولِ خداﷺ کے غار میں ساتھی تھے اور حضورﷺ سے پرانی محبت رکھتے ہیں ہم پہلے بھی کئی مرتبہ آئے ہیں اور سیدہ فاطمہؓ سے ملاقات کی اجازت مانگی ہے مگر وہ نہ مانیں اگر آپ مفید جانتے ہیں تو ہمارے لیے رخصت مانگیں پس امیر المؤمنین نے حضرت فاطمہؓ سے کہا میں ضامن ہوا ہوں کہ ان کے لیے اجازت چاہوں سیدہ فاطمہؓ نے فرمایا آپ کا گھر ہے اور آپ کو اختیار ہے عورتیں مردوں کے آڑے نہیں آتیں میں کسی بات میں آپ کی مخالفت نہیں کرتی جس کو چاہیں اجازت دیں پس حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ آئے حضرت ابوبکرؓ نے کہا اے رسول رسول خداﷺ کی صاحبزادی! ہم تیرے پاس آپ کی رضا چاہنے اور ناراضی سے پناہ مانگنے آئے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ جو کچھ ہم سے بروایتِ شیعہ کوتاہی ہوئی اسے بخش دیں سیدہ فاطمہؓ نے فرمایا میں ایک بات تم سے نہیں کرتی حتیٰ کہ اپنے والد ماجد سے ملاقات کروں اور تمہاری شکایت کروں۔ (جلاء العیون: صفحہ، 152)
شیعہ روایت کے آخری جملے غلط ہیں مگر حضرت ابوبکرؓ یہ تو حق پر تھے مطابق شرع اپنا فرض ادا کر چکے: وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ الخ۔ (سورۃ آلِ عمران: آیت، 134)
ترجمہ: وہ لوگوں کو معاف کرنے والے اور غصہ ختم کرنے والے ہیں پر عمل سیدہ فاطمہؓ کو کرنا چاہیے تھا جب حضرت علیؓ راضی اور اجازت دے کر گویا ایک قسم کی سفارشی ہیں پھر ناراضی پر اصرار کیوں؟ اگر حضورﷺ زندہ ہوتے اور آپﷺ سے حضرت فاطمہؓ یہ شکایت کرتیں تو کیا آپ صلح صفائی نہ کروا لیتے؟ جیسے سیدنا علیؓ پر سیدہ فاطمہؓ کی ناراضی اور شکایت کو ختم کرا دیتے تھے تو حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ بھی بالفرض ناراضگی ماننے میں آخرت میں ہی امید ہے کیونکہ جن پر خدا و رسولﷺ راضی ہوں ان پر بعض دوستوں کی ناراضی کا دفعیہ دوسرے ذریعہ سے ہو جائے گا قرآن و سنت میں یہ مسںٔلہ مصرح ہے
وَنَزَعۡنَا مَا فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ مِّنۡ غِلٍّ اِخۡوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيۡنَ ۞
(سورۃ الحجر: آیت، 47)
ترجمہ: اور جو چھ ان کے سینوں میں ایک دوسرے کے متعلق کدورت ہوگی ہم دور کردیں گے اور وہ بھائی بھائی ہو کر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔
سابعاً: یہ حقیقت ہے کہ فدک کے سوال پر حضرت علیؓ نے سیدہ فاطمہؓ کا ساتھ دینے میں پس و پیش کی تو آپ کو اتنا سخت سست سننا پڑا مانند جنین در رحم پردہ نشین شده و مثل خائناں در خانہ گریختہ۔ (حق الیقین: صفحہ، 125)
ترجمہ: ماں کے رحم میں بچے کی طرح پر دہ نشید طرح پردہ نشین ہوگئے ہو اور خاںٔنوں کی طرح گھر میں بھاگ آئے ہو اور ابھی ہم واضح کریں گے کہ حضرت علیؓ نے بھی باغِ فدک ورثائے حضرت فاطمہؓ کو نہ دیا اور عملِ صدیقی جاری فرمایا کیا شیعہ کا مشہور اصول الحق مع على حيث دار حقِ حضرت علیؓ کے ساتھ ہے جدہر بھی جائیں کے تحت تائیدِ علوی کی وجہ سے سیدنا علیؓ برحق نہیں، خانگی تنازعات حضرت فاطمہؓ و حضرت علیؓ میں اگر حق سیدنا علیؓ کے ساتھ ہوتا تھا تو یہاں کیوں ساتھ نہیں۔
ثامناً: حضرت علیؓ پر حضرت فاطمہؓ کی ناراضی کے واقعات کئی ہیں مثلاً جلاء العیون صفحہ 123، 126، 128، 129، 132، طبع ایران ملاحظہ ہو
اور شیعہ روایات کی روشنی میں آپ کی خانگی معاشرت اتنی تلخ تھی کہ حضور ﷺ کو یوں تہدید و سفارش کرنی پڑی۔
و مہربانی کن باز وجہ خود بدرستیکہ فاطمہؓ پاره تن من است ہرچہ اورا بد رو آور دمرا بدرد میآورد۔(جلاء العیون: صفحہ، 123)
ترجمہ: اے حضرت علیؓ اپنی زوجہ پر رحم کھایا کرو بلاشبہ سیدہ فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جو بات اسے تکلیف پہنچاتی ہے مجھے بھی تکلیف پہنچاتی ہے اس حدیث کو اپنے شانِ نزول سے کاٹ کر حضرت ابوبکرؓ پر منطبق کرنے والے دیانتدار فرقہ سے ہم پوچھتے ہیں کیا ان مسلسل ناراضیوں سے حضرت علیؓ کے دین پر حرف آیا یا نہ اگر نہیں آیا تو اصول کہاں گیا؟ اور اگر آیا تو فما ھو جوابکم فھو جوابنا۔
تاسعاً: اگر یہ کہو کہ یہ وقتی ناراضی ہوتی تھی بعد میں صلح صفائی ہو جاتی تھی تو سوال یہ ہے کہ صفائی سے قبل دو چار گھنٹے کے وقت ناراضی میں سیدنا علیؓ کے حبط اعمال پر فتویٰ دیا جاسکتا ہے اگر نہیں دیا جاسکتا تو حضرت ابوبکرؓ پر بھی دو ڈھائی ماہ کی ناراضی سے بھی فتویٰ نہیں دیا جاسکتا۔
عاشراً: فقد اغضبنی۔
ترجمہ: پس اس نے مجھے ناراض کیا کیا بناء برحقیقت ہی ہے یا دھمکی اور اغضابِ حضرت فاطمہؓ سے روکنا مقصود ہے اول بات پر اصرار ہو تو مندرجہ ذیل آیات کا جواب دیں سود خواروں کے متعلق ہے:
فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ الخ۔
(سورۃ البقرہ: آیت، 279)
ترجمہ: اگر تم سود خوری سے باز نہ آؤ تو خدا و رسول کے ساتھ اعلان جنگ کرو کیا محارب خدا و رسولﷺ سود خوار پر آپ حقیقت کفر کا فتویٰ لگائیں گے؟ غیبت کرنے والوں کے متعلق ہے:
اَيُحِبُّ اَحَدُكُمۡ اَنۡ يَّاۡكُلَ لَحۡمَ اَخِيۡهِ مَيۡتًا الخ۔
(سورۃ الحجرات آیت 12)
ترجمہ: کیا کوئی تم سے پسند کرتا ہے کہ مردہ بھائی کا گوشت کھائے کیا غیبت کرنے والا واقعی مردار خور ہے۔ یتیم کا مال ناجائز کھانے والوں کے متعلق وہ اپنے پیٹ میں آگ کھاتے ہیں:
اِنَّمَا يَاۡكُلُوۡنَ فِىۡ بُطُوۡنِهِمۡ نَارًا الخ۔(سورۃ النساء: آیت، 10)
ترجمہ: بےشک وہ اپنے پیٹ میں آگ کھاتے ہیں کیا اب وہ حقیقتہ آگ ہی کھاتے ہیں۔
اگر یہاں حقیقت مراد نہیں بلکہ ان گناہوں کی شفاعت کے لیے تمثیلات ہیں اسی طرح غضب فاطمہؓ پر غضب رسولﷺ بیان شناعت کا ایک طریق ہے اور اغضاب حضرت فاطمہؓ سے روکنا مقصود ہے حقیقت مراد نہیں ہے تو حضرت ابوبکرؓ پر ناراضی رسولﷺ ثابت نہیں ہوسکتی یہ سادہ بیان مسئلہ کی حقیقت ایک خالی الذہن عامی کے ذہن نشین کرنے کے لیے قلم بند کیا گیا علمی موشگافیوں کے دلدادہ اور ردو قدح کرنے والوں کے لیے تحقیقی بیان یہ ہے صحیح بخاری: جلد، 2 صفحہ، 995 سے حدیث میراث ملاحظہ ہو:
امام زہریؒ بروایت عروه از عائشہؓ روایت کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا عباسؓ سیدنا ابوبکرؓ کے پاس حضورﷺ کا ترکہ مانگنے آئے اور وہ فدک اور خیبر کے حصے کی زمینیں مانگتے تھے پس سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔
يقول لا نورث ما تركنا صدقة انما یاکل آل محمدﷺ من ھذا المال۔
ترجمہ: حضورﷺ فرماتے تھے ہمارا ورثہ نہیں ہوتا جو ہم چھوڑتے ہیں صدقہ ہوتا ہے آلِ محمدﷺ بلاشبہ اس مال سے کھاتے رہیں گے۔
سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا اللہ کی قسم میں وہ طریق کار نہیں چھوڑ سکتا جو رسول اللهﷺ کو میں نے کرتے دیکھا ہے مگر میں اسے ضرور کروں گا امام زہریؒ کہتے ہیں کہ سیدہ فاطمہؓ نے آپ سے گفتگو چھوڑ دی اور تا وفات بات نہیں کی۔
بخاری: جلد، 1 صفحہ، 435 کی روایت میں یہ لفظ بھی ہیں کہ آپ اس ترکہ کی وراثت مانگتی تھیں جو اللہ نے آپ پر بطورِ فے لوٹایا تھا نیز یہ خیبر فدک اور مدینہ منورہ کے وقف صدقات تھے حضرت ابوبکرؓ نے دینے سے انکار کیا اور فرمایا میں اس طرزِ عمل کو نہیں چھوڑ سکتا جو رسول اللہﷺ کرتے تھے مگر میں اسے ضرور کروں گا کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں نے حضورﷺ کا طرزِ عمل چھوڑ دیا تو گمراہ ہوجاؤں گا ایک روایت میں یہ لفظ ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ کی رشتہ داری سب سے زیادہ محبوب ہے بخاری: جلد، 2 صفحہ، 577، 996 مگر میں مالِ فے کی میرات دینے سے معذور ہوں میرا مال آپ کے لیے حاضر ہے۔
مسںٔلہ کی علمی تنقیح:
طعنِ فدک کا سارا دارو مدار اسی حدیث پر ہے چند تنقیحات کی شکل میں اس پر بحث کی جاتی ہے۔
1: مالِ فے اور فدک کی آمد و خرچ کی کیا پوزیشن ہے اور پیغمبر ﷺ کے بعد کس کے تصرف میں آتا ہے۔
2: سیدنا ابوبکرؓ اور دیگر خلفائے اسلام اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کا راشن ان اموال سے دیتے تھے۔
3: سیدہ فاطمہؓ کے سوال کا منشاء کیا تھا؟
4: حدیث لانورث متفق علیہ ہے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امت کا اس پر اجماع ہے۔
5: راوی کے الفاظ غضبت الخ مدرج اور اپنے ظن پر مبنی ہیں۔
6: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکرؓ پر خوش ہوکر رخصت ہوئیں۔
7: شیعہ کے دلائل وراثت پر تبصرہ۔
8: روایات ہبہ کی حقیقت۔
9: جنازہ سیدہ فاطمہؓ میں شیخینؓ کی شرکت۔
1: مال فے اور فدک کی حقیقت:
مسلمانوں کو کفار کے جو اموال ملتے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں:
1: انفال یعنی غنیمت
2: فے انفال نفل کی جمع ہے جس کے معنیٰ فضل و انعام کے ہیں یہ لفظ سورت انفال کے شروع میں استعمال ہوا ہے جب جنگِ بدر کی غنیمت کی تقسیم میں ایک دوسرے سے بڑھ کر مستحق ہونے کا سوال اٹھا تو اللہ پاک نے فرمایا: قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ (سورۃ الأنفال: آیت، 1)
ترجمہ: آپ فرمائیے انفال کی تقسیم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اختیار میں ہے اس سے مراد مالِ غنیمت ہی ہے جو کفار سے بصورتِ جنگ حاصل ہوا تھا فے مراد نہیں کیونکہ فے اس مال کو کہتے ہیں جو بغیر جنگ و قتال کے کفار سے ملے خواہ وہ چھوڑ کر بھاگ جائیں یا رضامندی سے دینا قبول کریں اور نفل انفال کا لفظ اکثر انعام کے لیے بولا جاتا ہے جو امیرِ جہاد کسی خاص مجاہد کو اس کی کارگزاری کے صلہ میں علاوہ حصہ غنیمت کے بطورِ انعام عطا کرے یہ معنیٰ تفسیر ابنِ جریر میں سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے نقل کیے ہیں۔ (ابنِ کثیر)
اور کبھی مطلقاً مالِ غنیمت کو بھی نفل اور انفال کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اس آیت میں اکثر مفسرین نے یہی عام معنیٰ مراد لیے ہیں صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے یہی عام معنیٰ نقل کیے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لفظ عام اور خاص دونوں معنیٰ کے لیے بولا جاتا ہے اس لیے کوئی اختلاف نہیں اور اس کی بہترین تشریح و تحقیق وہ ہے جو امام ابو عبید نے اپنی کتاب الاموال میں ذکر کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اصل لغت میں نفل کہتے ہیں فضل و انعام کو اور اس امتِ مرحومہ کہ اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی انعام ہے کہ جہاد و قتال کے ذریعے جو اموال کفار سے حاصل ہوں ان کو مسلمانوں کے لیے حلال کردیا گیا ورنہ پچھلی امتوں میں یہ دستور نہ تھا۔
(تفسیر معارف القرآن: جلد، 4 صفحہ، 174)
علماء لغت اور مفسرین کے ان بیانات سے معلوم ہوا کہ انفال بطور جنگ و قتال سے حاصل ہونے والے مال کو کہا جاتا ہے اور اسی کو مال غنیمت کہتے ہیں خواہ ایک ہی چیز کے دو نام ہوں یا عام خاص کا فرق ہو۔ جیسے اسی سورت میں: واعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ الخ۔(سورۃ الأنفال: آیت، 41)
سے مصارف انفال کا بیان ہے لیکن مالِ فے کی حقیقت اس سے جدا ہے کہ وہ بغیر جنگ کے محض رضامندی یا رعب سے حاصل ہوتا ہے اور یہ تعریف قرآن حکیم نے ہی سورت حشر میں کی ہے۔
وَمَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ مِنۡهُمۡ فَمَاۤ اَوۡجَفۡتُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ خَيۡلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰڪِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنۡ يَّشَآءُ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞ (سورۃ الحشر: آیت، 6)
ترجمہ: جو مال حق تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو ان لوگوں سے بغیر لڑے عنایت کیا ہے تو اس پر نہ تم نے گھوڑے دوڑائے ہیں نہ اونٹ لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس جس پر چاہتا ہے مسلط فرما دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھنے والا ہے۔
مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ مِنۡ اَهۡلِ الۡقُرٰى فَلِلّٰهِ وَلِلرَّسُوۡلِ وَلِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِۙ كَىۡ لَا يَكُوۡنَ دُوۡلَةًۢ بَيۡنَ الۡاَغۡنِيَآءِ مِنۡكُمۡ الخ (سورۃ الحشر: آیت، 7)
ترجمہ: دیہات والوں کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو بدون جہاد عنایت کیا وہ اللہ کا ہے اور رسولﷺ کا اور رسول کے قرابت مندوں کا اور انہی کے یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا تاکہ وہ مال غنیمت تمہارے دولتمندوں کے مابین چکر کھاتا نہ پھرے۔
لِلۡفُقَرَآءِ الۡمُهٰجِرِيۡنَ الخ۔(سورۃ الحشر: آیت، 8)
ترجمہ: نیز یہ مالِ فے ہجرت کرنے والوں میں سے ان ضرورت مندوں کا بھی حق ہے اور ان کا بھی حق ہے۔
وَالَّذِيۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالۡاِيۡمَانَ الخ۔ (سورۃ الحشر: آیت، 9)
ترجمہ: جو ہجرت کرنے والوں کے پہلے سے دار ہجرت میں مقیم اور ایمان پر قائم ہیں۔ (ترجمہ مقبول: صفحہ، 654)
انفال و غنیمت اور مالِ فے کے درمیان اس مباین فرق سے معلوم ہوا کہ شیعہ حضرت جو انفال کو بلا جنگ حاصل شدہ مال سے تعبیر کرتے ہیں، جیسے تجلیاتِ صداقت: صفحہ، 411 پر ہے اور اگر صرف تیاری جہاد کرنے، گھوڑے دوڑانے اور کچھ عملی تگ و تاز کرنے سے لیکن جہاد کے بغیر ملے جیسے اموال و املاک بنی نضیر تو اسے فے کہا جاتا ہے اور اگر ہر قسم کی کمی کوشش کے بغیر دستیاب ہو جائے تو اسے انفال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جیسے جائیدادِ فدک۔
قرآنِ حکیم کے بیان کے برعکس صریح دھاندلی اور باطل مقصد بر آرہی ہے شاید ان کے پیشِ نظر اپنے پیشوا علامہ کلینی کا بھی غلط بیان ہوگا جو خلفائے پیغمبر کو جنگ اور غلبہ سے مال واپس ملے وہ فے ہوتا ہے اور اس کا حکم: واعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ الخ۔ (سورۃ الأنفال: آیت، 41)
ترجمہ: یعنی غنیمت و فے ایک مال کے نام ہیں اور جو ان کے پاس بغیر گھوڑے دوڑانے اور لشکر کشی کے حاصل ہو وہ انفال کہلاتا ہے جو خدا و رسولﷺ کا خاص ہوتا ہے کسی کی شرکت نہیں ہوتی۔
(اصولِ کافی: صفحہ، 537 باب الفے والانفال)
حالانکہ قرآن پاک نے جنگِ بدر سے حاصل شدہ اموال و غنائم کو انفال اور بلا جنگ سے لشکر کشی اموال بنی نضیر کو مالِ فے سے تعبیر کیا ہے جن میں جائیداد فدک بھی شامل ہے۔
فَمَاذَا بَعۡدَ الۡحَـقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ الخ۔ (سورۃ یونس: آیت 32)
اب یہ بات تحقیق طلب ہے کہ جائیدادِ فدک انفال و غنیمت کے طور پر اہلِ اسلام کے قبضے میں آئی یا بطورِ فے بلا جنگ حاصل ہوئی سو تمام سنی شیعہ علماء کا اتفاق ہے کہ فدک مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر ایک بستی کا نام ہے وہاں کے یہود نے از خود صلح میں نصف جائیداد دینے کی حضورﷺ کو پیش کش کی آپﷺ نے منظور فرمالی، چنانچہ مؤلف تجلیاتِ صداقت محمد حسین صاحب نے اپنی منشاء کے موافق، معجم البلدان: جلد، 6 صفحہ، 623 تاریخ طبری: جلد، 3 صفحہ، 95 کامل ابنِ اثیر: جلد، 2 صفحہ، 108 فتح الباری کے حوالہ جات سے فدک کی تعریف کے بعد یہ الفاظ نقل کیے ہیں:
وكانت فدك خالصة الرسول الله لانهم لم يجلبوا عليها بخیل ولا رکاب۔
ترجمہ: فدک خالص رسول اللہ کے قبضے میں تھا کیونکہ مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور سواریاں نہیں دوڑائیں۔
معلوم ہوا کہ فدک مالِ فے کی قسم ہے جس پر گھڑ دوڑ اور لشکر کشی نہیں کی گئی اس کا حکم بھی وہی ہے جو اموالِ فے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آیتِ بالا میں فرمایا ہے کہ خالص حضورﷺ کی تحویل اور قبضے ہیں ہوگا اور آپﷺ حاکمانہ حیثیت سے مذکورہ بالا آٹھ مصارف اپنی صوابدید سے خرچ کریں گے اور عام مسلمانوں کو اس قسم پر چون و چرا کاحق نہ ہوگا کیونکہ ان کی جنگ اور لشکر کشی سے یہ حاصل نہیں ہوئے بلکہ منصبِ نبوت اور حاکمانہ رعب داب سے سپہ سالار اسلام کے قبضے میں آئے ہیں۔
فدک خالصتاً رسولﷺ کا تھا اس سے حضورﷺ کی شخصی تملیک پر استدلال کرنا منصبِ نبوت پر صریح حملہ اور قرآنِ کریم کے بیان کردہ آٹھ مصارف سے استہزاء کے مترادف ہے جیسے صاحبِ تجلیات اور دیگر شیعہ کرتے رہتے ہیں کیونکہ یہ منصبِ نبوت سے حاکمانہ حیثیت کا عمل ہونے کی وجہ سے آپ کو حاصل ہوئے اس کے خرچ میں آپﷺ خود مختار ضرور ہیں مگر خالص ملکیت کی طرح نہ نہیں رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
1: قُلۡ مَاۤ اَسۡئَــلُكُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ اَجۡرٍ وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُتَكَلِّفِيۡنَ ۞ (سورۃ ص: آیت، 86)
ترجمہ: آپ فرمائیے میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں سے ہوں۔
2: قُلۡ مَا سَاَلۡـتُكُمۡ مِّنۡ اَجۡرٍ فَهُوَ لَـكُمۡ اِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ الخ۔ (سورۃ سبا: آیت، 47)
ترجمہ: آپ فرماںٔیے جو کچھ میں تم سے اجرت مانگوں وہ تم اپنے پاس ہی رکھو میرا ثواب میرے رب کے ذمہ ہے۔
3: قُلْ لَّاۤ اَسۡئَـــلُـكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا الخ۔ (سورۃ الشوریٰ: آیت، 23)
ترجمہ: آپ فرمائیے ہیں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا کسی منصب کی رو سے جو چیز ملتی ہے وہ عام عطیہ ہے اسی منصب کا گویا اجر یا قدر و قیمت ہے۔
سنی شیعہ کتب میں کتاب القضاء کے تحت یہ حدیث آتی ہے حضورﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کو ہم حاکم مقرر کرتے ہیں وہ جب بہت سے مال جمع کر لاتا ہے تو کہتا ہے یہ مجھے ہدیہ ملا اور یہ عطیہ اور یہ بیت المال کے لیے ہے۔
هلا جلس فج بيت امه فیھدی الیه۔ (او کما قال)
ترجمہ: وہ اپنی ماں کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا تاکہ اسے ہدایا ملتے۔ (ابو داؤد: جلد، 2 صفحہ، 53)
معلوم ہوا کہ منصبِ نبوت اور حاکمانہ حیثیت سے فدک وغیرہ جو جائیداد اللہ نے آپﷺ کو قبضہ میں دیں وہ محض رفاہی امور اور مصارف ہشت گانہ مذکورہ پر خرچ ہوں گی اگر آپﷺ اسے محض ذاتی تملیک قرار دیں تو شیعہ ہی بتائیں کہ نبی کی حیثیت سے طلب اجر اور تکلف کی اس سے بڑی صورت کیا ہوسکتی ہے کیا ہزاروں بلکہ لاکھوں مربع ایکڑ کی اتنی بڑی جائیدادیں آپ نبوت و حکومت کے رعب سے حاصل کر کے تنہا اپنی صاحبزادی کو میراث بنا کر دیں یا ہبہ کر دیں تو لوگوں کے سامنے آپ یہ اعلان کر سکیں گے کہ نہ میں اجر مانگتا ہوں نہ تکلف کرتا ہوں۔ اس صورت میں ہم داعی اسلام کی کفار کے سامنے کیا بے لوثی اہلیت اور زہد و قناعت کی بات کر سکیں گے تاریخ و سیرت کا ایک ایک ورق گواہ ہے کہ حضورﷺ سب لوگوں سے بڑھ کر زاہد تھے فتوحات اور کثرت غنائم کے باوجود آپ کے گھر میں بسا اوقات دو دو ماہ تک آگ نہ جلتی ازواجِ مطہراتؓ پیوند لگے کپڑے پہنتی تھیں آپﷺ خود اور آپﷺ کے اہلِ بیتؓ فاقوں سے رہتے اور روزہ رکھ کر پانی یا کھجور سے افطار کرتے تھے خود سیدہ فاطمہؓ نے گھریلو خدمت کے لیے خادم مانگا مگر آپﷺ نے سب لوگوں میں تقسیم کے باوجود سیدہ فاطمہؓ کو خالی ہاتھ واپس لوٹا دیا اور تسبیح و تہلیل اور تحمید کی 100 مرتبہ تعلیم دی بروایت شیعہ محدث ابنِ بابوبہ بسند صحیح سیدہ فاطمہؓ کو آپﷺ نے زیور پہنے دکھا تو ناراض ہوگئے اور اتارنے کا حکم دے کر فرمایا۔
پدرش فدائے ادباد دنیا ان محمد و آل محمد نیست۔ (جلاء العیون: صفحہ، 94، 110)
ترجمہ: اس کا باپ اس پر قربان دنیا محمدﷺ اور آل محمدﷺ کے لیے نہیں ہے۔
روضہ کافی: صفحہ، 131 پر ہے حضورﷺ نے فرمایا: میں مکہ کے پہاڑوں کا سونا ہونا نہیں چاہتا بلکہ ایک دن بھوکا اور ایک دن سیر رہنا چاہتا ہوں تاکہ سیری پر شکر اور بھوک پر ذکر و دعا کروں صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ مالّ خمس میں سے سیدہ فاطمہؓ نے (باوجود حق دار ہونے کے) خدمت کے لیے خادم مانگا تو آپ نے یہ عذر فرما کر انکار کر دیا کہ میرے سامنے تمہاری ضرورت سے زیادہ اصحابِ صفہ کی ضرورت ہے جو انتہائی فقر و افلاس میں مبتلا ہیں ان کو چھوڑ کر میں تمہیں نہیں دے سکتا بخاری: صفحہ، 437 پر ہے کہ حضورﷺ کی وفات ہوئی میرے گھر میں ایسی چیز نہ تھی جسے کوئی جگر والا حیوان کھاتا بجز نصف صاع جو کے حضرت عمر بن الحارث رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے صرف ہتھیار سفید خچر اور کچھ صدقہ کی زمین ترکہ میں چھوڑی۔
کیا اس سیرتِ اقدس کی روشنی میں اتنے بڑے بہتان کی گنجائش ہے کہ حضورﷺ نے فدک وغیرہ مال فے کو ذاتی ملکیت بنالیا ہو اور سیدہ فاطمہؓ کو سب میراث بنا دی ہو یا ہبہ کر دیا ہو شیعہ کتاب علل الشرائع میں حضرت حسنؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ماں سے کہا کہ آپ نماز کے بعد مؤمنین و موثمنات کے لیے دعا مانگتی ہیں اپنے لیے کیوں نہیں؟ فرمایا یا بنی الجار ثم الداد اول ہمسایہ کا کام کرنا ہے پھر اپنا یہ ایثار آپؓ کو حضورﷺ نے ہی سکھلایا تھا تو ہبہ فدک اس سیرت سے مطابقت نہیں رکھتا
شیعہ کتاب عیون الاخبار میں سیدنا زین العابدین رحمہ اللہ از حضرت اسماء بنتِ عمیس رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ حضورﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گلے میں سونے کا گلو بند دیکھا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مالِ فے سے خریدا تھا تو آپﷺ نے فرمایا اے فاطمہؓ کیا لوگ نہ کہیں گے کہ فاطمہؓ محمدﷺ کی بیٹی حیابرہ مغرور اور امیروں کا سا زیور پہنتی ہے سیدہ فاطمہؓ نے اسی وقت اسے توڑ کر بیچ ڈالا اور اس سے ایک غلام خرید کر آزاد کر دیا اس بات سے حضورﷺ نہایت خوش ہوئے۔
(حوالہ باغِ فدک از نواب مہدی علی خان)
اموال فے میں حضورﷺ کا طرز عمل
اس تفصیل سے معلوم ہوچکا ہے کہ اموالِ فے کو حضورﷺ قرآنی آٹھ مصارف بنامِ خدا رسولﷺ رشتہ دار یتامی مساکین، مسافر، فقراء مہاجرین، فقراء النصار ہیں حسب صوابدید خرچ کرتے تھے اپنا اور اپنے گھر والوں کا خرچ بھی اس سے نکالتے تھے اور اہم کاموں میں اسے صرف فرماتے تھے سیدنا صدیق اکبرؓ بھی اسی سنتِ نبوی پر عمل پیرا تھے لہٰذا مطالبہ کے باوجود حضرت فاطمہؓ کو قبضہ مالکان نہیں دیا جسے خود حضورﷺ نے نہیں دیا تھا اور دنیا ان کے لیے پسند بھی نہ کرتے تھے اس پر سنی شیعہ احادیث ملاحظہ ہوں:
سنن ابی داؤد: جلد، 2 صفحہ، 59 پر ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے ارضِ فدک کا سوال خود آنحضرتﷺ سے بھی کیا تھا مگر آپﷺ نے دینے سے انکار کردیا تھا۔ غالباً اسی واقعہ کی مؤید یہ شیعی روایات بھی ہیں
انت فاطمة بنت رسول اللهﷺ فی شكواه الذی توفى فيه فقالت يا رسول الله ﷺ هذان انبای فورثهما شيئا فقال اما الحسن فله هیبتی واما الحسين فله جوءتی۔
ترجمہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسولِ خداﷺ اس بیماری میں حضورﷺ کے پاس آئیں جس میں آپﷺ کی وفات ہوئی تو فرمایا یا رسول اللہﷺ یہ میرے دو صاحبزادے ہیں ان کو کچھ وراثت دے جائیں تو آپ نے فرمایا حضرت حسنؓ کی میراث میری ہیبت و رعب اور حضرت حسینؓ کے لیے میری بہادری ہے۔
نیز شیعہ کے محدث فرات بن ابراہیم بن فرات کوفی تفسیر فرات مطبوعہ نجف اشرف صفحہ 82 پر لکھتے ہیں جو علی بن ابراہیم قمی کے استاذ اور کلینی کے استاذ الاستاذ ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو طلب رواثت کے سوال پر آپ نے کتاب اللہ اور سنتِ نبوی میراث بتائی صحیح بخاری میں قصہ کئی دفعہ آیا ہے کہ فدک وغیرہ بعض اموالِ فے پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو متولیانہ قبضہ دے دیا کچھ عرصہ تو وہ اتفاق سے رہے مگر پھر طبائع کے اختلاف سے جھگڑا پڑ گیا اور ہر ایک نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے علیحدہ تقسیم کا مطالبہ کیا تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اسے وراثت کا سا مطالبہ سمجھتے ہوئے تقسیم سے انکار کیا اور فرمایا:
فكان النبیﷺ ينفق على أهله من هذا المال نفقة سنة ثم ياخذ ما بقى فيجعله مجعل مال الله فعمل بذلك رسول اللهﷺ حياته انشدكم بالله هل تعلمون ذالك قالا نعم ثم قال لعلیؓ و عباسؓ انشد كما بالله هل تعلمان ذالك قالا نعم فتوفی الله نبيه۔
(بخاری: جلد، 2 صفحہ، 576، 996)
ترجمہ: حضورﷺ اپنے گھر والوں پر پورے سال کا خرچہ اس مال سے نکالتے تھے پھر بقیہ کو اللہ کے مال کی جگہ میں خرچ کر دیتے تھے حضورﷺ نے اپنی زندگی میں یہی عمل کیا میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ کیا تم اسے جانتے ہو سب نے کہا ہاں پھر سیدنا عمرؓ نے سیدنا علیؓ و سیدنا عباسؓ سے کہا میں تم کو بھی قسم دیتا ہوں کیا تم یہ بات جانتے ہو کہنے لگے ہاں اسی طرح اللہ نے اپنے نبی کو وفات دے دی۔
فتوح البلدان بلاذری: صفحہ، 29 اور 31 پر ہے:
فكان نصف فدك خالصا لرسول اللہﷺ و كان يصرف ما ياتيه منها الى ابناء السبيل وفی رواية ان فدك كانت النَّبِیﷺ فكان ينفق منها و ياكل ويعود على فقراء بنی هاشم و یزوج ابیھم۔
(بحوالہ الفاروق: صفحہ، 560)
ترجمہ: نصف فدک خالص حضورﷺ کے قبضے میں تھا اس سے جو آمدنی آتی اسے مسافروں پر خرچ کرتے اور ایک روایت میں ہے کہ فدک حضورﷺ کے قبضے میں تھا آپ اس سے خود خرج کرتے کھاتے اور فقرائے بنی ہاشم کو دیتے اور ان کے بے نکاحوں کی شادیاں کرتے وغیرہ۔
جب حضورﷺ کا مالِ فے میں طریقِ کار معلوم ہوچکا اور واضح ہوگیا کہ اس مال کی آمد پر قصبہ نبوی سب متولیانہ تھا نہ خالص مالکانہ اب یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ یہ مال حضورﷺ کے بعد کس کے قبضے اور تولیت میں جانا چاہیئے اصولِ سیاست اور طریقِ تمدن سے آج کل یہ سمجھنا مشکل نہیں رہا کہ سربراہ مملکت کو جو اموال و جائیداد حکومت کی حیثیت سے ملتی ہیں ان میں ذاتی ملکیت نہیں چلتی وفات کے ساتھ شخصی استحقاق ختم ہو جاتا ہے کتب شیعہ میں بھی مسںٔلہ واضح ہے اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 436 باب الفںٔی و الانفال کے بعض اقتباسات ملاحظہ ہوں:
ان الله تبارك وتعالیٰ جعل الدنيا كلها باسرها لخليفته حيث يقول للملائكة إني جاعل في الأرض خليفة فكانت الدنيا باسرها الادم وصارت بعده لا برار ولده وخلفاءه۔
ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ نے سب زمین خلیفہ کے لیے بنائی ہے جیسے فرمایا فرشتوں سے بے شک میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں پس روئے دنیا سب حضرت آدم علیہ السلام کے لیے تھی اور اس کے بعد آپﷺ کے نیک صاحبزادوں اور خلیفوں کو ملی۔
معلوم ہوا کہ وہ زمین حضرت آدم علیہ السلام کی سب اولاد میں بطورِ میراث تقسیم نہ ہوئی بلکہ صرف نیک جانشین صاحبزادوں کو ملی سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں:
الانفال ما لم يوجف عليه بخیل ولا ركاب او قوم صالحوا او قوم اعطوا بايديهم وكل ارض خوبة وبطون الأودية فهو الرسول اللهﷺ وهو للامام من بعده يضعه حیث یشاء۔
ترجمہ: انفال وہ مال ہیں جن پر گھڑ دوڑ اور لشکر کشی نہ کی جائے یا کوئی قوم صلح میں دے دے یا اپنے ہاتھوں کوئی قوم مرعوب ہو کر دے دے اور ہر خراب زمین اور وادیوں کے پیٹ سب رسول اللہﷺ کے قبضے میں ہوں گے پھر اس کے قبضے میں جو آپ کا جانشین ہوگا جہاں چاہے گا خرچ کرے گا۔
پس حضورﷺ کے بعد خدا اور رسولﷺ کا حصہ اولی الامر کو بطورِ وراثت ملے گا اور ایک اس کو اپنا حصہ منجانب اللہ ملے گا۔
(اصولِ کافی: صفحہ، 539 ابو داؤد: جلد، 2 صفحہ، 59)
پر ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ میں نے حضورﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نبی کو خوراک کھلانے کے لیے دیتے ہیں فهو للذی یقوم من بعدہ تو اس میں تصرف کا حق اس خلیفہ کو ہے جو اس کا قائم مقام ہے اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ وہ مالِ فے یا باصطلاح شیعہ انفال بلا جنگ حاصل ہونے والا مال حضورﷺ کے بعد آپﷺ کے خلیفہ کے قبضے میں آئے گا تو آپ کا اس پر قبضہ متولیانہ و حاکمانہ ہوا نہ مالکانہ فهو المقصود ورنہ رشتہ داروں کو ملنا چاہئیے ہمارے اعتقاد میں جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ خلیفہ رسولﷺ ہیں تو اس متفقہ بین الفریقین اصول کی رو سے فدک وغیرہ کے متولی آپ ہوئے اور یہ تولیت بطورِ میراث کسی کا حق نہ ہوا، فهو المقصود۔
ابوداؤد: كتاب الخراج الفںٔی، جلد، 2 صفحہ، 59 مالک بن اوس الحدثان سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ و حضرت عباسؓ حضرت عمرؓ کے پاس اموالِ فدک کے علیحدہ علیحدہ متولی بننے کا جھگڑا لے کر آئے حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعدؓ اور حضرت عثمانؓ نے بھی پاس بیٹھے تھے تو حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کیا تم جانتے نہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے۔
كل مال النَّبِیﷺ صدقة الاما اطعمه أهله وكساهم انا لا نورث قالوا بلیٰ۔
ترجمہ: نبی کریمﷺ کا ہر مال مقبوضہ صدقہ ہوتا ہے مگر جو کچھ اپنے گھر والوں کو کھلا پہنا دیں ہم کسی کو وارث دنیوی نہیں چھوڑتے سب نے کہا جی ہاں۔ تو رسول اللہﷺ اس مال سے اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے اور بقیہ صدقہ کر دیتے تھے اللہ نے جب اپنے نبی کو وفات دے دی تو دو سال حضرت ابوبکرؓ والی بنے وہ بھی یہی عمل کرتے رہے جو رسول اللہﷺ کرتے تھے میں بھی ایسا کرتا رہا پھر تم کو تقسیم من المسلمین کا متولی بنایا اب تم علیحدہ تقسیم کا مطالبہ کرتے ہو خدا کی قسم میں تاقیامت ایسا نہ کروں گا تم اگر مشترکہ تولیت سے عاجز ہو تو مجھے یہ اموال واپس کر دو۔
(کذا فی: جلد، 2 صفحہ، 57)
2 : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سنت نبوی کے مطابق اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو خرچ دیتے تھے:
جب فدک کا مال فے ہونا آٹھ مصارف میں قابلِ تقسیم ہونا حضورﷺ کا ذاتی ملکیت نہ ہونا بھر جانشین پیغمبر کا اس پر قابض ہونا اور مالکانہ حقوق و تقسیم کسی کو نہ دینا تنقیح اول سے معلوم ہوچکا تو اب واضح ہو کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور اسی طرح سیدنا عمر فاروقؓ سیدنا عثمانِ غنیؓ سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا حسن مجتبیٰؓ بھی سنتِ پیغمبر کے مطابق خرچ کرتے اور اہلِ بیتؓ کو راشن دیتے تھے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھرے مجمع میں قسم دے کر سیدنا عمرؓ کا حاضرین سے پوچھنا اور سیدنا علیؓ و سیدنا عباسؓ سے پوچھ کر ان سب سے اس بات کی تصدیق کرانا کہ حضورﷺ ایک سال کا خرچ اپنے اہلِ بیتؓ کو اس مال سے دیتے تھے اور بقیہ دیگر اللہ کی خرچ کی جگہوں میں خرچ کرتے تھے گزر چکا ہے اور اس میں یہ تصریح ہے۔
فقال ابو بکرؓ ان ولی رسول اللهﷺ فقبضتها فعمل بما عمل به رسول اللهﷺ ثم توفی الله ابا بکرؓ فقلت انا ولی رسول اللهﷺ فقبضتها سنتين اعمل فيها بما عمل فيها رسول اللهﷺ وابو بکرؓ۔ (بخاری: صفحہ، 996)
پس سیدنا ابوبکرؓ نے کہا میں حضورﷺ کا خلیفہ ہوں میں نے ان مالوں کو لے کر وہی عمل کیا جو حضورﷺ نے کیا تھا پھر اللہ نے حضرت ابوبکرؓ کو وفات دے دی تو میں نے کہا کہ میں اب رسول اللہﷺ کا خلیفہ ہوں پس دو سال تک ان سالوں پر قابض ہو کر وہی کرتا رہا تو حضورﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ کرتے تھے۔
عام مؤرخین کے علاوہ شارحین نہج البلاغہ بھی سیدنا ابوبکرؓ کے نفقہ اہلبیتؓ کو دینے کا ذکر کرتے ہیں۔
خلاصہ ابوبکرؓ غلہ و سود آنرا گرفتہ بقدر کفایت باہلبیت علیہم السلام مے دارد خلفاء بعد از وہم براں اسلوب افتاد نمودندتا زمان معاویہؓ۔
(جلد، 2 صفحہ، 960 فیض الاسلام از سید علی نقوی)
خلاصہ یہ کہ سیدنا ابوبکرؓ غلہ اور دیگر آمدنی ان مالوں کی لیکر اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو پورے خرچ کی مقدار دے دیتے تھے اور دیگر خلفاء بھی اس کے بعد حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ حضرت امیرِ معاویہؓ اسی طور پر کرتے رہے۔
علام مثیم بحرانی بھی حضرت ابوبکرؓ کے اعتذار اور رضاء حضرت فاطمہؓ کے متعلق لکھتے ہیں:
وذلك ان لك ما لا بيك كان رسول اللهﷺ ياخذ من ذلك قوتكم ويقسيم الباقی و یحمل منه فی سبيل الله ولك على الله ان اصنع بها كما كان يصنع فرضيت بذلك واخذت العهد عليه به وكان يأخذ غلتها فيدفع اليهم منها ما يكفيهم ثم فعلت الخلفاء بعدہ كذلك۔
(ومثله فی درة النجفية شرح نہج البلاغہ: صفحہ، 332)
اور وہ یہ کہ آپ کو وہ کچھ ملے گا جو رسول اللہﷺ سے ملا کرتا ہوں حضورﷺ فدک سے تمہاری خوراک لیتے تھے اور باقی تقسیم کردیتے تھے اور جہاد میں سواریاں فراہم کرتے تھے تیرے دوسرے خلفاء بھی اسی طرح کرتے تھے تیرے لیے میں اللہ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ میں فدک میں وہی کروں گا جو رسولﷺ خدا کیا کرتے تھے سیدہ فاطمہؓ اس معاہدہ پر خوش ہوگئیں اور وعدہ پختہ لے لیا سیدنا ابوبکرؓ یہ فدک کا غلہ لیکر اہلبیت کو اتنا دے دیتے جو ان کو پورا ہوتا پھر دوسرے خلفاء بھی اسی طرح کرتے رہے۔
صحیح بخاری: جلد، 2 صفحہ، 576 پر ہے سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ یہ مال فے کے صدقات حضرت علیؓ کے ہاتھ میں رہے حضرت عباسؓ کو تصرف کرنے سے روکا اور ان پر غالب ہوئے پھر یہ حضرت حسن بن علیؓ کے پاس پھر حضرت حسین بن علیؓ کے پاس یہی رسول اللہﷺ کی جائیداد متروکہ کے صدقات تھے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے کہ علامہ قرطبی کہتے ہیکہ حضرت علیؓ نے فے کے صدقات کو حضراتِ شیخینؓ کے طرز سے بدلا یا نہیں پھر اس کے بعد حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت علی بن حسینؓ کے ہاتھ میں آتے رہے کسی سے مروی نہیں کہ اس نے ملکیت کا دعویٰ کیا ہو۔
قارئین کرام غور فرمائیں جب حضرت ابوبکرؓ شیعہ تصریحات کی روشنی میں سنتِ نبوی کے مطابق حضرات اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو پورا خرچ دیتے تھے اور حضرت فاطمہؓ اس پر راضی بھی ہوگئی تھیں اور معاہدہ بھی ہوگیا تھا اور سنی تصریحات کے مطابق یہ اموال حضرات اہلِ بیت رضی اللہ عنہم ہی کے تصرف و ولایت میں رہے۔
نہ معلوم اب 1400 سال تک جھگڑا کس بات پر ہے۔ مدعی سست گواہ چست کی مثال اس پر صادق آتی ہے کیا یہ سب کچھ فرقہ پرستی اور حضرت ابوبکرؓ دشمنی کا آئینہ دار نہیں ان حقائق سے قاضی نور اللہ شوستری مجالس المومنین: صفحہ، 53 جیسے لوگوں کے اس سوال کا بھی جواب ہوگیا کہ حضرت ابوبکرؓ نے بطورِ تبرع ہی دے کر سیدہ فاطمہؓ کیوں خوش نہ کر دیا۔
اگر حضرت ابوبکرؓ اموالِ فے فدک خبیر صدقات مدینہ سیدہ فاطمہؓ کو سب دے دیتے تو خلاف اصول ہوتا کیونکہ دیگر چھے مصارف کا بھی حصہ تھا نیز سیدنا ابوبکرؓ پر جانبداری از خویش نوازی کا الزام آتا کہ مسلمان خلیفہ نے اپنے پیغمبر کی صاحبزادی کا لحاظ کیا یا اپنی نواسی کو اتنی بڑی جائیداد سب مسلمانوں سے کاٹ کر دے دی یہاں یہ اعتراض کوئی وزن نہیں رکھتا کہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ نے جب یہ دعویٰ کیا کہ مجھے حضورﷺ نے کچھ مال دینے کا وعدہ فرمایا تھا تو سیدنا ابوبکرؓ نے ان کو تین دفعہ مٹھی بھر کر دراہم دیئے (بخاری) اس لیے کہ برعکس سیدہ فاطمہؓ کا دعویٰ فدک جیبر اور مدینہ کے صدقات پر تھا کما فی بخاری اور شیعہ روایات کی روشنی میں تو بہت بڑی جائیداد تھی ایک روایت کے مطابق یہ بڑا شہر تھا جہاں کھجوروں کے بہت باغات تھے۔
(شرح ابنِ ابی الحدید: جلد، 7 صفحہ، 348 مناقب فاخرہ: صفحہ، 178 اصول کافی: صفحہ، 355 کی روایت کے مطابق:
حد اول عریش مصر حد دوم دومة الجندل حد سوم تیا حد چہارم جبل احد۔
گویا سب مملکت اسلامیہ پر سیدہ فاطمہؓ کا دعویٰ تھا تیسری روایت کے مطابق سیدنا موسیٰ کاظم رحمہ اللہ نے ہارون الرشید کے دربار میں جو حدودِ فدک بیان کی تھیں،
- حد اول: عدن
- حد دوم: سمرقند
- حد سوم: افریقہ اور
- حد چہارم: سیف البحر یعنی جزر اور ازمینیہ سے تمام ملک گویا سب خلافت عباسیہ-
ان هذا كله مما لم يوجف على أهله رسول اللهﷺ بخیل و لا ركاب فقال كثير النظر فيه۔
(اصول کافی: صفحہ، 546 باب الفںٔی)
ترجمہ: پھر سیدنا موسیٰؒ نے فرمایا یہ سب وہ فدک والی جائیداد ہے جس پر حضورﷺ نے گھڑ دوڑ اور لشکر کشتی نہیں کی ہارون نے کہا یہ تو بہت ہے اچھا میں غور کروں گا۔
حضرات! یہ شیعہ تصریحات کی روشنی میں بنام حقِ فدک سب ملتِ اسلامیہ کے رقبہ پر دعویٰ ہے اس کو تسلیم کرنے کا معنیٰ یہ ہے خلیفہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام حکومت کا سب رقبہ انتقال کرا دے اور زمانہ خلافت آپ کو دے دے اور سب مسلمان مصارفِ حکومت کے لیے دریوزہ گری کریں کیا اس کا حضرت جابرؓ کے تین مٹھی دراہم پر دعویٰ سے موازنہ کرنے کا کوئی تک ہے جو تجلیات صداقت میں کیا گیا ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کا منشاء کیا تھا:
یہ سوال واقعی اہم ہے ہم شیعہ دماغ سے اس کا جواب نہیں دے سکتے کیونکہ ان کے ہاں جب پیغمبرﷺ نے منصبِ نبوت اور شاہانہ رعب سے یہ صوبے کفار سے لے کر (العیاذ بالله) خود اپنی ملکیت خاص بنا لیے اور پھر لختِ جگر حضرت فاطمہؓ ہی کو ہبہ کر دیئے تو سیدہ فاطمہؓ نے 6 ماہ 75 دن کی زندگی کے لیے اتنی بڑی جائیداد، دنیا کو بلا شرکت غیر اپنا ہی حق سمجھ کر مطالبہ کی زحمت اٹھائی گواہ بھی دربارِ خلافت میں پیش کیے جب نصاب نامکمل ہونے کی وجہ سے رد ہوگئے تو لوگوں کے سامنے فریاد کرتی پھریں حضراتِ حسنینؓ وغیرہ معصوم بچوں کو خچر پر بیٹھا کر لوگوں سے استغاثہ اور ہمدردی چاہتیں مگر کوئی سنے والا نہ تھا غصب فدک کے غم میں رو رو کر جان نڈھال کر دی پھر اسی صدمہ سے جان بحق ہوگئیں شیعہ ذاکرین بالکل اس انداز میں مظلوم حضرت فاطمہؓ کی صورت و سیرت فخریہ طور پر پیش کرکے ہزاروں روپے کے نذرانے پنج تن کے نام پر بھکاری کی طرح قوم سے وصول کرتے ہیں جیسے امام ویسے مقتدی کتبِ اہلِ سنت میں مطالبہ کی صورت بظاہر سیدہ فاطمہؓ کی زاہدانہ سیرت کے منافی معلوم ہوتی ہے اہلِ سنت و الجماعت چونکہ اپنے مذہبی اصول کی رو سے بزرگانِ دین خصوصاً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے دفاع باعثِ سعادت جانتے ہیں لہٰذا بظاہر قادح یا منافی سیرت اعمال میں مناسب توجیہ و تاویل کے قائل ہیں۔
1: شیعہ اعتقاد کے علی الرغم ذاتی حق یا دنیوی لالچ کے پیش نظر یہ مطالبہ نہیں کیا بلکہ مقصد یہ تھا کہ مالِ فے کی جن جائیدادوں سے ہمیں آمدنی ملا کرتی تھی وہ حضورﷺ کی تحویل میں تھیں اب بطورِ وراثت و قرابت میری تحویل میں آجائیں تو میں رفاہی اور ملی کاموں میں صرف کر کے خدمتِ اسلام بجا لاؤں چونکہ یہ منصب جانشینِ پیغمبرﷺ کا تھا جیسے سیدنا جعفر صادق رحمہ اللہ کے ارشاد: و ھو الامام من بعده يضعه حيث يشاء۔
ترجمہ: وہ امام کے قبضے میں رہے گا جہاں چاہے رکھے گا، اور فرمانِ نبوی بروایتِ سیدنا صدیقؓ گزر چکا ہے لہٰذا آپ نے معذرت فرما دی یہی وجہ ہے کہ سیدنا عباسؓ بھی آپ کے ساتھ مطالبہ میں شریک تھے اور معین جائیداد فدک کا مطالبہ نہ تھا خیبر فدک مدینہ تینوں مقامات کے صدقات کی تولیت کا مسئلہ تھا بقول شیعہ اگر حیاتِ نبویﷺ میں ہبہ ہوچکا ہوتا تو نہ سیدنا عباسؓ ساتھ ہوتے نہ میراث کا سوال اٹھتا اور نہ خیبر و مدینہ کے صدقات کی صراحت ملتی علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے عرف الشذی: صفحہ، 485 پر علامہ سمودیؒ سے نقل کیا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کا سوال صرف ان اموالِ فے میں بطورِ قرابت رشتہ داری متولی بننے کے متعلق تھا۔
2: میراث فدک و فے کا سوال اس وجہ سے اٹھا کہ ان اموال کی حیثیت ذو الوجہین تھی اس لحاظ سے کہ یہ صرف حضور اکرمﷺ کی تحویل اور قبضے میں تھے اور کسی مسلمان کو تصرف کا حق نہ تھا ملکیت خاصہ کا شبہ ہوتا تھا اور اس لحاظ سے کہ یہ قرآن کے آٹھ مصارف اور دیگر رفاہی و ملی کاموں میں آپ صرف فرماتے تھے یہ اموال خالصہ در تصرف پیغمبرﷺ بیتُ المال کا حق معلوم ہوتے تھے سیدہ فاطمہؓ کے ذہن میں پہلی وجہ آئی تو آپؓ نے دعویٰ فرمایا حافظ ابنِ القیم زاد المعاد: جلد، 2 صفحہ، 163 پر رقمطراز ہیں:
مالِ فے ایک ایسی ملک تھی جس کا حکم دوسری املاک سے مختلف تھا اموال کی یہی وہ قسم ہے جس بعد وفاتِ نبوی نزاع پڑا اور آج تک ختم نہ ہوا اور اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر یہی اشتباه بوتا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے ترکہ سے میراث نہ مانگتیں اور یہ گمان نہ کرتیں کہ دوسرے مالکوں کی طرح یہ بھی ملکیتِ پیغمبرﷺ ہے جس میں وراثت چلے گی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر اس ملکیت کی یہ حقیقت مخفی رہ گئی کہ اس قسم کی ملکیت میں وراثت نہیں چلتی جیسے اصول کافی کی ایسی حدیث گزر چکی ہے یہاں یہی سوال ہوتا ہے اور شیعہ بڑے طمطراق سے اچھالتے بھی ہیں کیا سیدہ فاطمہؓ جیسی عالمہ فاصلہ کو غلط فہمی ہوگئی تھی یا ان کو وراثت انبیاء کا مسںٔلہ معلوم نہ تھا تو جواب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق مذہبِ حنفیہ اہلِ سنت والجماعت میں جملہ کلیات و جزئیات کے ظاہر و باطن سے واقف اور عالم الغیب و الشہادۃ صرف اللہ کی ذات ہے شریعت کے اصول و ارکان کا علم تو ضروری ہے مگر غیر محدد فروع اور ضمنی جملہ مسائل کا ہر وقت نہ کاملین کے لیے علم شرط ہے نہ اس کا استحضار ضروری ہے 23 سال بتدریج نزولِ قرآنی اسی پر دال ہے حسبِ منشاءِ خداوندی ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جیسے:
سَنُقۡرِئُكَ فَلَا تَنۡسٰٓى ۞ (سورۃ الاعلیٰ: آیت، 6)
اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ الخ۔ (سورۃ الاعلیٰ: آیت، 7)
شاہد ہے اور بسا اوقات کاملین سے اصابت فہم میں چوک ہو جاتی ہے حضرت آدم نبینا الصلاة والسلام شجر و السلام سے شجر منہی عنہ کی تعیین میں چوک ہوئی جو کچھ ہوا آل کے مفہوم میں حضرت نوح علیہ السلام نے صلبی بیٹے کو سمجھا مگر قرآنِ پاک نے اس کی نفی فرما دی حضرت ہارون علیہ السلام کو خلافتِ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حق ادا کرنے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خاطی سمجھا اور سختی کی مگر حضرت ہارون علیہ السلام بے قصور تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے زعم میں تادیب کی خاطر قبطی کو مکا مارا مگر فی نفسہ قتل جیسا فعل سرزد ہوگیا پھر آپ نے معافی مانگی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کمال حلم اور ایفائے عہد کے لیے والد کے لیے دعائے مغفرت کی مگر بعد میں بیزاری اختیار کرنی پڑی خود سرکار دو عالمﷺ و فداہ امی نے اپنے خیال کی رو سے غزوہ تبوک کے موقعہ پر بہانہ ساز منافقین کو شرکت نہ کرنے کی چھٹی دے دی نابینا صحابی کے اچانک آنے پر ناگواری ظاہر فرمائی اساریٰ بدر کو اپنے خیال میں فدیہ لے کر چھوڑ دیا ان تمام واقعات میں قرآنِ حکیم نے اس کے خلاف فیصلا دے کر آپ کی رائے کی تصویب کی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے حق مشورہ دینے سے نہ رکو کیونکہ میں اپنے نفس میں غلطی کرنے سے بالا نہیں ہوں۔
(روضہ کافی: صفحہ، 357 نہج البلاغہ: صفحہ، 436 جلد، 1 خطبہ صنفین)
خود حضرت فاطمہؓ نے کئی مرتبہ غلط فہمی کی بناء پر دربار رسالت میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شکایت کی مگر آپؓ نے یکطرفہ وکالت کرنے اور معاملہ کو طول دینے کے بجائے صلح صفائی ہی کرائی کی ان تمام واقعات و شواہد کے پیش نظر ہم اس مسںٔلہ میں سیدنا علیؓ سیدنا صدیقِ اکبرؓ اور جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے موقف کی تائید کریں او نیک نیتی کے باوجود حضرت فاطمہؓ کے خیال کو درست قرار نہ دیں جس سے بصورتِ خاموشی آپ نے رجوع کرلیا تو کیا کفر کی بات ہو جائے گی سنتِ نبویﷺ کے دلدادہ اہلِ اسلام کے لیے درد رکھنے والے تو ان بزرگوں کے اجتہادی اختلاف میں طرفین کے کمالِ ادب کے باوجود مصلحت اور قطع نزاع پر ہی صرف ہمت کریں گے مگر روزِ اول سے تاہنوز مسلمانوں میں جنگ و جدال اور اصولی اختلافات کو ہوا دیکر ملتِ اسلامیہ میں انتشار پھیلانے والے آج بھی ان مسائل میں تمام تر قوتیں صرف کر دیں گے۔
3: میراث کا سوال اٹھانے کی تیسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خدائے تعالیٰ کی حکمت نفی میراثِ انبیاء کے مسںٔلہ کو واقعہ کے ضمن میں مشہور کرنا چاہتی تھی کیونکہ اخبار کی بہ نسبت واقعات دیر پانقوش چھوڑتے ہیں ممکن ہے حضرت فاطمہؓ کا باطن یہی مقصود ہو جیسے حدیبیہ کی بظاہر عاجزانہ مصالحت سے اسلام کو دراصل غالب اور شائع کرنا مقصود ایزدی تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حضرت خضر علیہ السلام کی شاگردی اختیار کرنا پھر نباہ نہ ہوسکنا اس سے امورِ تکوینیہ کے اسرار کو کھولنا مقصود تھا۔ دنیائے امن کے محسن حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی مصالحت اور بیعت در دست حضرت امیرِ معاویہؓ شیعہ کے علی الرغم بہت بڑی خدمت اسلام اور مسلمانوں کے خون کا تحفظ مقصود تھا جیسے علی العکس حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا بچوں تک کو قربان کرا دینا شیعہ کے خیال میں ہزار برس بعد میں پھیلنے والے ملنے والے یہ اسلام کے لیے تخم کاری کا سبب تھا کیونکہ منافقینِ کوفہ کے ہاتھوں سانحہ کربلا سے اہلِ بیتؓ اور محمدی اسلام کی عزت و عظمت کی بنیادیں حسبِ اعتراف حضرت سجاد اور ملا مجلسی صاحب پیوند خاک ہوگئی تھیں۔
حدیث لا نورث متفق علیہ ہے:
شیعہ حضرات بلا دلیل اس حدیث کو قول حضرت صدیقؓ کہتے ہیں حالانکہ یہ فرمانِ نبویﷺ ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا گویا اس پر اجماع ہے کتبِ شیعہ میں بھی یہ قطعاً ثابت ہے حافظ محب الدین طبری ریاض النضرہ میں لکھتے ہیں کہ نفی میراث کی حدیث کو جماعتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضورﷺ سے روایت کیا ہے ان میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں جن کے مرفوع الفاظ یہ ہیں:
لا يقسم ورثتی دینارا ولا درهما ما تركت بعد نفقة نسائی و مؤنتہ عاملی فهو صدقة۔ (ابو داؤد: جلد، 2 صفحہ، 59)
ترجمہ: میرا ورثہ نہ دینار تقسیم ہوں گے نہ دراہم میری بیویوں کے خرچ اور خادموں کے نفقہ سے جو بچے وہ صدقہ ہوگا۔
اس کی امام بخاری رحمہ اللہ نے جلد، 1 صفحہ، 437 پر اور جلد، 2 صفحہ، 90 پر تخریج کی ہے اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ حضرت عثمانؓ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ حضرت سعد ابی وقاصؓ حضرت زبیر بن عوامؓ حضرت عباسؓ بن عبد المطلب نے روایت کیا ہے تفسیر معارف القرآن: جلد، 6 صفحہ، 14 پر ہے اس کے علاوہ صحیح حدیث جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ثابت ہے اس میں ہے۔
ان العلماء ورثة الأنبياء وان الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما وانما اورثوا العلم فمن اخذها اخذ بحظ وافر۔ (رواه ابوداؤد واحمد و ابنِ ماجۃ والترمذی)
ترجمہ: بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں بلاشبہ انبیاء نہ دینار کا وارث بناتے ہیں نہ دراہم کا وہ تو صرف علم کا وارث بناتے ہیں جو اسے لے لیتا ہے وہ بڑا حصہ کما لیتا ہے۔
سیدنا عمر رضی الله عنہ تولیت صدقات میں سیدنا علیؓ و سیدنا عباسؓ کا نزاع ختم کرتے وقت سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرماتے ہیں:
انشدكم بالله الذی باذنه تقوم السماء والأرض هل تعلمون ان رسول اللهﷺ قال لا نورث ما تركنا صدقة يريد بذلك نفسه قالوا قد قال ذلك فاقبل عمرؓ الی علی و عباسؓ فقال انشدکم بالله ھل تعلمان ان رسول اللهﷺ قد قال ذلك قالا نعم۔
(بخاری: جلد، 2 صفحہ، 575، 996)
ترجمہ: میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسولِ خداﷺ نے فرمایا ہم وارث کسی کو نہیں بناتے جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اس سے حضورﷺ کی اپنی ذات مراد تھی پھر سیدنا عمرؓ سیدنا علیؓ و سیدنا عباسؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ میں تم کو قسم دے کر پوچھتا ہوں تم جانتے ہو کہ رسول اللہ نے ایسا فرمایا ہے وہ کہنے لگے ہاں۔
ان ہی صفحات میں دوسری سند سے سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے بھی مروی ہے مذکورہ بالا مصدقین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی ہیں اور حضرت عمرو بن حارث خزاعی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے:
حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں اس حدیث میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی موافقت حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ حضرت عباسؓ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ حضرت طلحہٰؓ بن عبید الله زبیرؓ بن العوام سعد بن ابی وقاصؓ حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت عائشہؓ یعنی دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کی ہے اگر حضرت ابوبکر صدیقؓ تنہا بھی ہوتے تو سب اہلِ زمین پر آپؓ کی روایت کو ماننا لازم تھا۔
(البدایہ والنہایہ: جلد، 5 صفحہ، 287)
کتب شیعہ سے ثبوت:
حدیث نفی میراث انبیاء کتب شیعہ میں بھی موجود ہے۔
1: محمد بن یحییٰ سلمہ بن خطاب سے وہ عبداللہ بن القاسم سے وہ زرعہ بن محمد سے اور وہ مفضل بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ نے فرمایا حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے اور محمدﷺ حضرت سلمان علیہ السلام کے وارث بنے اور ہم محمد مصطفیٰﷺ کے وارث ہیں ہمارے پاس علم تورات، انجیل اور زبور کا ہے اور الواحِ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا علم بھی ہے۔
2: احمد بن ادریس محمد بن عبد الجبار سے وہ صفوان بن یحییٰ سے وہ شعیب بن الحداد سے وہ فریس الکنانی سے روایت کرتے ہیں کہ میں ابو عبد اللہ صادقؒ کے پاس تھا اور ابو بصیر بھی بیٹھا تھا کہ سیدنا جعفرؒ نے فرمایا کہ حضرت داؤد علیہ السلام تمام انبیاء کے وارث ہوئے حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث بنے اور محمدﷺ حضرت سلیمان کے وارث بنے اور ہم محمدﷺ کے وارث ہیں ہمارے پاس صحفِ ابراہیم علیہ السلام اور الواحِ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔
(اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 225 ایران باب ان الائمة ورثوا علم النبی وجميع الانبیاء)
خود سرکار دو عالمﷺ کا ارشاد ہے:
3: ان العلماء ورثة الانبياء وان الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه اخذ بحظ وافر۔
(اصول5 کافی: صفحہ، 34)
ترجمہ: بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام درہم و دینار کی میراث نہیں چھوڑتے لیکن وہ علم کا وارث بناتے ہیں جو وہ لیتا ہے وہ بڑی دولت حاصل کر لیتا ہے۔
باب ثواب العالم و المتعلم میں ایک لمبی حدیث کے آخر میں روایت بخاری کی طرح نفی میراث کی حدیث موجود ہے۔
4: عن ابی عبد الله عليه السلام قال ان العلماء ورثة الأنبياء وذالك ان الانبياء لم يورثوا درهما ولا دينارا وانما اورثوا احاديث من أحاديثھم فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافر أفانظر واعلمكم عمن تأخذون۔
(باب صفۃ العلم: صفحہ، 32)
ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا بے شک انبیاء کے وارث علماء ہیں اس لیے کہ انبیاء درہم و دنانیر کا کسی کو وارث نہیں بناتے بلاشبہ وہ احادیث ہی وراثت میں چھوڑتے ہیں جو ان میں سے کچھ لے لیتا ہے وہ بڑا حصہ لے لیتا ہے تم اپنے علم میں غور کرو کن لوگوں سے لے رہے ہو۔
5: سیدنا علیؓ نے اپنے صاحبزادے محمد بن حنفیہ کو وصیت فرمائی:
و تفقہ فی الدین فان الفقهاء ورثۃ الانبياء ان الانبياء لم يورثوا دينار او لا درهما ولكنهم أورثوا العلم فمن اخذ منه أخذ بحظ وافر۔ (من لا يحضره الفقيه: جلد، 2 صفحہ، 346)
ترجمہ: اور دین میں سمجھ حاصل کر اس لیے کہ فقہاء ہی انبیاء کے وارث ہیں انبیاء درہم و دینار کی وراثت نہیں چھوڑتے لیکن صرف علم کی وراثت چھوڑتے ہیں جو اس سے حاصل کرتا ہے وہ بڑا حصہ حاصل کرتا ہے۔
6: خصال ابنِ بابویہ: صفحہ، 39 وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں خود سیدہ فاطمہؓ نے حضورﷺ سے حضرت حسنینؓ کے لیے میراث کا مالی مطالبہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا حضرت حسنؓ کے لیے میرا رعب اور حضرت حسینؓ کیلئے میری شجاعت میراث ہے۔
7: حضرت سلیمان علیہ السلام کے وارث حضرت داؤد علیہ السلام اور حضور کے وارث حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کے وارث حضرت زکریا علیہ السلام ہونے کی اصولِ کافی کی احادیث عنقریب آجائیں گی جن میں صراحتاً مالی وراثت کی نفی اور علم و نبوت کی میراث کا اثبات ہے۔ محدث شیعہ فرات بن ابراہیم کوفی جو علامہ کلینی کے استاذ الاستاذ ہیں اور علی بن ابراہیم قمی کے استاذ ہیں اپنی تفسیر فرات: صفحہ، 82 مطبوعہ نجف اشرف پر یہ حدیث لکھتے ہیں:
8: قال على ما ارث منك يا رسول الله قال ما ورثت الانبیاء من قبلی قال و ما ورثت الانبياء من قبلك فقال النبي عليه الصلواة والسلام کتاب ربهم وسنة نبيهم (الجوار عبقات: صفحہ، 240 از علامہ خالد محمود و کشف الغمہ: جلد، 1 صفحہ، 447)
ترجمہ: حضرت علیؓ نے پوچھا میں آپ سے کیا میراث پاؤں گا آپﷺ نے فرمایا جو مجھ سے پہلے پیغمبروں نے میراث دی پوچھا آپ سے پہلے انبیاء نے کیا میراث دی تو حضورﷺ نے فرمایا اپنے رب کی کتاب اور نبی کی سنت میراث میں دی۔
9: فضیلؒ بن عیاض سیدنا باقرؒ سے سماعی حدیث بیان کرتے ہیں:
يقول لا والله ما ورث رسول الله العباسؓ ولا علىؓ ولا ورثته الا فاطمة عليها السلام۔
(من لا يحضره الفقيہ: جلد، 2 صفحہ، 217)
ترجمہ: سیدنا باقرؒ فرماتے تھے اللہ کی قسم رسول الله کے وارث نہ حضرت عباسؓ بنے نہ حضرت علیؓ اور نہ دیگر وارث بنے بجز حضرت فاطمہؓ کے۔
اس حدیث سے وراثتِ علمی و خلقی کا ثبوت اور مالی کی نفی معلوم ہوئی کیونکہ مالی وراثت کی رو سے ازواجِ مطہراتؓ بھی وارث تھیں پھر اس حدیث میں ان کی نفی درست نہیں۔
بعض شیعہ کہتے ہیں کہ فقہ جعفری میں عورتوں کو جائیداد کا ترکہ نہیں ملتا تو نفی درست ہے حالانکہ قرآنی ارشاد:
فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ الخ۔ (سورۃ النساء: آیت، 12)
ترکہ عقار کو بھی شامل ہے تو خلافِ قرآن فقہ جعفری کو کون مانتا ہے اگر کسی اپنی روایت سے تخصیص کرتے ہو تو ہم بجا کہتے ہیں کہ: یُوْصِیْکُمُ اللّٰه الخ۔
(سورۃ النساء: آیت، 11)
حدیثِ میراث سے مخصص اور حضورﷺ کو شامل نہیں ہے یہ تمام احادیث صیغہ حصر و استشار کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کی مالی وراثت کی نفی اور علمِ نبوت کی وراثت پر قطعی دال ہیں لہٰذا صاحبِ تجلیات جیسے لوگوں کا یہ کہنا کہ انبیاء کے وارث دو قسم کے ہیں مالی کے رشتہ دار اور علمی کے علماء یہاں علمی وراثت اور علماء کا ذکر ہے مالی وارثوں کی نفی نہیں صراحتاً جہالت اور سینہ زوری ہے کیونکہ وانما اورثو العلم ولكنهم اورثوا العلم کا معنیٰ ہی علم نحو کے مطابق لم يورثوا شيئا الا العلم والاحاديث خصوصاً جبكہ ماقبل ان الانبياء لم يورثوا دینارا و لا درھما۔
ترجمہ: بےشک انبیاء دینار اور درہم کا وارث نہیں بناتے سے مالی وراثت کی نفی کی گئی ہے۔
پیش کردہ احادیث میں سے بعض شیعہ حدیث 3 پر طعن کرتے ہیں کہ اس کا راوی ابو البختری کذاب ہے تو قابلِ استدلال نہیں مگر یہ بوجوہ باطل ہے۔
الف: دیگر صحیح اسناد والی احادیث جب کتب شیعہ و سنی میں موجود ہیں تو ایک سند کے کذاب راوی سے اس حدیث پر فرق نہیں پڑتا یہ ان کی مؤید سمجھی جائے گی۔
ب: اصولِ کافی کو مصدقہ امام مہدی بھی کہا جاتا ہے پھر موافِق مذہبِ حقہ اہلِ سنت احادیث کو غلط بھی یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے یا امام کی تصدیق پر اعتماد کر دیا پھر کافی میرے موضوع احادیث کا وجود تسلیم کر کے اہلِ سنت کی تصدیق اور امام کی تغلیط کرو۔
ج: اصول تجرح و تعدیل اور کتب رجال شیعہ کی رو سے بھی اصول کافی کا شاذ و نادر راوی تنقید سے محفوظ ہو ورنہ ابو بصیر زرارہ ہشام جیسے ہزاروں احادیث شیعہ کے مرکزی رواۃ بھی نہایت مطعون بلکہ ائمہ کی زبانی کذاب طعون اور بد عقیدہ بنائے گئے ہیں تو ان کو اپنی سب احادیث سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور یہ سودا شیعہ کو مہنگا پڑے گا۔
10: حضورﷺ کی نفی میراث کے متعلق آخر میں ایک اور اہم حدیث بھی ملاحظہ کرلیں شیعہ کتاب قرب الاسناد حمیری: صفحہ، 44 پر ہے سیدنا باقرؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے وراثت میں نہ درہم چھوڑا نہ دینار نہ باندی نہ غلام نہ بکری نہ اونٹ آپﷺ کی روح اس حالت میں قبض ہوئی کہ آپکی ذرہ مدینہ کے یہودی کے پاس 20 صاع جو کے بدلے میں گروی تھی جو آپﷺ نے اہل و عیال کے خرچ کیلئے ادہار لیے تھے۔ تلك عشر كاملة۔
ایک شبہ کا ازالہ:
جب ناقابلِ انکار دلائل سے یہ واضح ہوچکا کہ حدیث النورث لفظاً یا معناً قطعی اور متفقہ الفریقین ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے اور ہر شیعہ اسے اٹھاتا ہے کہ کیا مائی صاحبہ کو اس حدیث کا علم نہ تھا حالانکہ وہ قریب ترین رشتہ دار اور اس حدیث سے متعلقہ تھیں ان کو تو ضرور معلوم ہونا چاہیئے تھا اس کا ایک جواب تو تقریباً گزر چکا ہے کہ کسی غیر اصولی مسںٔلے کا علم یا اس کے متعلق حدیث کا علم ہونا کمال علم کے منافی نہیں ہزاروں باتیں ایک شخص کے علم میں ہوتی ہیں مگر دوسرا ان میں سے بعض نہیں جانتا علی العکس دوسرے کی معلومات میں سے پہلے کو کئی باتیں معلوم نہیں ہوتیں مگر کسی کو ناقص العلم نہیں کہا جاتا اغلب یہ ہے کہ مردوں کے مجمع میں حضرت رسولِ خداﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہوگا حضرت علی المرتضیٰؓ حضرت صدیقِ اکبرؓ جیسے حضرت کو معلوم ہوگا مگر حضرت فاطمہؓ کو اطلاع نہ ہوئی اور نہ حضرت علیؓ نے بتلایا حضور اکرمﷺ قرآن و سنت کے مطابق عالم الغیب نہ تھے کہ آپﷺ کو بعد از وفات مطالبہ حضرت فاطمہؓ کا علم ہو تو ضرور ان کو بھی حدیث لا نورث سنا دیں، اور وَاَنۡذِرۡ عَشِيۡرَتَكَ الۡاَقۡرَبِيۡنَ ۞ (سورۃ الشعراء آیت 214) سے نفی ميراث کی حدیث سنانی لازم نہ تھی تاکہ منصبِ نبوت پر حرف آئے کیونکہ آیت کا مقصد فکرِ آخرت پیدا کر کے اعمال بجا لانا ہے اور رشتہ داری پر بھروسہ نہ کرنا ہے اور یہ چیز اور سینکڑوں احادیث و آیات سنانے سے حاصل ہوچکی تھی۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو علم تو تھا مگر نفی کے عموم سے اپنے کو کمال تقرب کی بناء پر مستثنیٰ جانتی تھیں گویا حدیث بھی عام مخصوص عنہ البعض کے درجے میں تھی مگر حضرت صدیقِ اکبرؓ اور جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کو عام ہی سمجھا تو یہ اختلاف حدیث کے ثبوت و صحت کے متعلق نہ تھا بلکہ مفہوم کی تعین میں اختلاف تھا۔
حافظ ابنِ حجرؒ فتح الباری شرح بخاری میں فرماتے ہیں:
حضرت ابوبکرؓ کے حدیث سے استدلال کے باوجود حضرت فاطمہؓ کی ناگواری کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا خیال حضرت ابوبکرؓ کے استدلال کے برعکس تھا۔ گویا آپ نے حدیث لا نورث کے عموم سے تخصیص جائز سمجھی اور یہ خیال کیا کہ حضورﷺ کے زمینی متروکہ میں وارث بننے کی نفی اس حدیث میں نہیں حضرت ابوبکرؓ نے عموم سے استدلال کیا اور اسی بات میں اختلاف ہوا جس میں تاویل کی طرفین کو گنجائش تھی جب حضرت ابوبکرؓ اپنے موقف پر جمے رہے تو سیدہ فاطمہؓ نے اس وجہ سے میل ملاپ بند کردیا اگر امام شعبی کی حدیث بروایت بہیقی ثابت ہو احادیث رضا ثابت ہیں کما سیاتی تو اشکال دور ہو جاتا ہے حضرت فاطمہؓ کے اخلاق کے مناسب یہی ہے کہ آپؓ راضی ہوگئی ہوں کیونکہ آپؓ کی عقل کی زیادتی اور دینداری ہر کسی کو معلوم ہے آپؓ پر سلامتی ہو۔ (بحوالہ حاشیہ صحیح بخاری: جلد، 1 صفحہ، 435)
لفظ اغضبت راوی کا مدرج ہے:
سیدہ فاطمہؓ کے مطالبہ فدک کی روایت تقریباً 15 عدد باسند کتب حدیث و تاریخ میں پائی جاتی ہے بخاری شریف میں پانچ عدد اور مسلم شریف میں دو عدد ترمذی شریف میں دو عدد ابو داؤد میں چار عدد نسائی میں ایک عدد وغیرہ ان تمام مقامات میں یہ روایت تقریباً 36 عدد مروی ہے اور یہ 25 عدد صرف سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے اور 11 عدد سیدہ عائشہؓ کے ما سوا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے چھ عدد حضرت ابو ہریرہؓ سے حضرت ام ہانیؓ سے دو عدد اور حضرت ابو طفیل عامر بن واثلہؓ سے تین عدد مروی ہے حضرت عائشہؓ کے علاوہ باقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت میں لفظ غضبت مذکور نہیں ہے پھر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایات بھی دو قسم ہیں بعض روایات میں ناراضی کا ذکر پایا جاتا ہے اور بعض میں نہیں جن میں یایا جاتا ہے ان سب اسانید میں ابنِ شہاب زہری موجود ہے کوئی ایک روایت بھی تاحال دستیاب نہ ہوسکی کہ ناراضی کا ذکر ہوا اور اس میں ابنِ شہاب زہری نہ پایا جاتا ہو دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں تدبر کرنے سے معلوم ہوا کہ اس میں غضبت کے الفاظ کا ابنِ شہاب سے ادراج پایا جاتا ہے اس میں قرینہ بعض روایات سے دستیاب ہوگیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جواب ختم ہوا لا نورث ما تركناہ صدقة اس کے بعد رواۃ کی طرف سے قال کا لفظ روایات میں مذکور ہے اور قال کے بعد غضب فاطمہؓ ہجران اور عدم کلام ذکر کیا گیا ہے یہ تین چیزیں اسی قال کا مقولہ میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کلام سے یہ تین چیزیں خارج ہیں خلاصہ یہ کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیقؓ کا جواب سن کر مطمئن ہو کر خاموش ہوگئیں روایت کرنے والے نے اپنے گمان سے اس خاموشی کو ناراضی پر محمول کیا اور اپنے ظن کو اس طرح روایت کے ساتھ ملا کر ذکر کردیا جو قال کے بعد مذکور ہے محدثین کی اصطلاح میں اس کو ظن راوی یا وہم راوی سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کا اصل روایت اور اس سے مستنبط مسںٔلے سے کچھ تعلق نہیں ہوتا دوسرے الفاظ میں ہی یہ روایت مدرج ہے اور ادرارج کننده ابنِ شہاب زہری ہے علمائے اصول حدیث کا اتفاق ہے کہ عمداً ادراج حرام سے بجز اس کے کہ اس کے کسی لفظ کی لغوی تشریح کر دی جائے یا مرجع حدیث اور مسئلہ مستنبطہ کا ذکر کیا جائے اور مدرج الفاظ کو کبھی قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ بعض اوقات عمداً ادراج کرنے والا ساقط العدالة ہوتا ہے دیکھیئے تدریب الراوی یہاں عمداً ادراج نہ سہی مگر اپنے فن کی بناء پر خطاً خاموشی کو ان الفاظ مدرجہ سے ادا کردیا ہے۔
مندرجہ ذیل مقامات پہ قال کا لفظ پایا جاتا ہے:
1: بخاری شریف: جلد، 2 صفحہ، 995 باب قول النَّبِیﷺ لا نورث ما تركناه صدقة۔
2: مسلم شریف: جلد، 2 صفحہ، 91 باب حكم الفی۔
3: تاریخ ابنِ جریر طبری: حدیث سقیفہ جلد، 3 صفحہ، 202۔
4: سننِ کبریٰ بیہقی: جلد، 6 صفحہ، 300۔
5: مسندِ لابی عوانہ: جلد، 4 صفحہ، 145، 146۔
6: مصنف عبد الرزاق: جلد، 5 صفحہ، 472، 473۔
7: البدایہ والنہایہ: جلد، 5 صفحہ، 285 پھر یہ الفاظ مدرج ہیں: قال فهجرته فاطمةؓ ولم تكلمه فی ذلك حتىٰ ماتت فدفنها على ليلا ولم يؤذن بها ابابكرؓ الخ۔
7: اہلِ تشیع کی کتاب شرح نہج البلاغہ لابنِ ابى الحديد: جلد، 4 صفحہ، 112 تحت الخطبة فی كلامه عليه السلام إلى عثمان بن حنيف الانصاری۔
اس کتاب کا مصنف معتزلی شیعہ ہے مسئلہ فدک پر تین فصلیں لکھی ہیں پہلی فصل میں قال ابوبکر الجوہری کے بعد مذکورہ بالا الفاظ درج ہیں مدرج ہیں: (از افادات علامہ عبد الستار صاحب تونسوی مدظلہ العالی)
بالفرض حدیث کا جملہ ہی مانا جائے تو راوی اول حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہے کے اپنے گمان پر مبنی ہے گمان میں خطاً غلطی ممکن ہے اس پر اتنے بڑے قضیے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی غضبت کا معنیٰ طبعاً ناگواری بھی ممکن ہے جیسے قصد مواقعات میں حضورﷺ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: اغضبت علی حين أخيت۔ (اكشف الغمہ: صفحہ، 92)
من ولم تكلمه کا معنیٰ یہ ہے کہ پھر فدک مانگنے کے متعلق بات نہیں کی۔
(فتح الباری: جلد، 12 صفحہ، 140 شرح مسلم نوی: جلد، 2 صفحہ، 90)
اور ہجران سے ملاقات عمومی کا ترک مراد ہے نہ کہ احیاناً سلام و کلام کا چھوڑنا کیونکہ یہ شرعاً تین دن سے زیادہ بہر صورت درست نہیں۔
چھٹی تنقیح کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر خوش ہو کر رخصت ہوگئیں۔
علامہ مثیم بحرانی کی شرح نہج البلاغہ اور شرح درہ نجفیہ وغیرہ کے حوالہ جات سے گزر چکا ہے کہ سیده فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکرؓ پر راضی ہوگئیں معین راشن پر معاہدہ بھی ہوگیا۔
در نجفیہ: صفحہ، 331 مولفہ ابراهیم بن حاجی حسین بن علی بن الغفار الدنبلی: 1291ھ طبع ایران کی عبارت یہ ہے:
ذالك ان لك ما لا بيك كان رسول اللهﷺ يأخذ من فدك قوتكم ويقسم الباقی ويحمل منه فی سبيل الله ولك على الله ان اصنع بها كما كان يصنع فرضیت بذالك أخذت العهد به۔
یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا آپکے والد محترم کے لیے جو حق تھا وہی حق آپ کے لیے ثابت ہے حضور اکرمﷺ فدک کی آمد سے تمہارے اخراجات لے لیتے تھے اور باقی کو ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر مجھ پر آپ کا حق ہے کہ فدک کے متعلق ہمیں وہی طریق کار جاری رکھوں جس طرح نبی کریمﷺ جاری رکھتے تھے ہیں اس معاملہ فدک کے متعلق حضرت فاطمہؓ راضی اور خوش ہوگئیں اور اس چیز پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پختہ وعدہ اور عہد لے لیا۔ (بحوالہ رحماء بینہم: جلد، 1 صفحہ، 154)
یہ خالص شیعوں کی روایت ہے اگر سنیوں کی ہوتی ضرور شیعہ اس کی نسبت ان کی طرف کر دیتے نیز اس روایت کے ذکر کرنے کے بعد سابق مصفین اور مجتہدین نے کوئی تنقید و تردید نہیں کی معلوم ہوا کہ یہ بڑی سچی اور مقبول عام روایت ہے جو شیعہ پر حجت ہے۔
سنی کتب سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رضا مندی:
کتب اہلِ سنت میں بھی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا راضی ہونا ثابت ہے۔
1: عامر شعبیؒ کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شدتِ مرض میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور اجازت مانگی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دروازے پر اجازت چاہتے ہیں آپ چاہیں تو اجازت دے دیں، فرمایا کیا آپ کو بھی یہ پسند ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا ہاں پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ داخل ہوئے اور عذر خواہی کی اور گفتگو کی فرضیت عنه، پس حضرت فاطمہؓ راضی ہوگئیں۔ (ریاض النضره: صفحہ، 156)
2: طبقات ابنّ سعد: جلد، 8 صفحہ، 45 (اردو) میں اسی قسم کی روایت میں ہے چنانچہ حضرت ابوبکرؓ حضرت فاطمہؓ کے پاس آئے اور ان کے آگے عذر پیش کیا اور ان سے باتیں کیں اور حضرت فاطمہؓ آپ سے راضی ہوگئیں۔
3: امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہﷺ حضرت ابوبکرؓ پر خوش بوگںٔیں تو حضرت ابوبکرؓ گھر سے نکل پڑے اور سخت گرمی کے دن آپ کے دروازے کڑھے ہوگںٔے اور فرمایا اب میں اپنی اس جگہ سے نہ ہٹوں گا جب تک کہ اے دختر رسولﷺ آپؓ راضی نہ جائیں پھر سیدنا علیؓ نے اندر جا کر سیدہ فاطمہؓ کو قسمیہ کہا کہ آپؓ راضی ہو جائیں چنانچہ سیدہ فاطمہؓ راضی ہوگئیں۔
(اخرجه ابنِ اسحاق فی الموافقة رياض النضرة: صفحہ، 156)
4: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے مطالبہ کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ولك على أن أفعل فيها ماكان ابوك يفعل قالت والله لتفعلن ذالك قال والله لافعلن ذالك قالت اللهم اشهد قال فكان ابوبكرؓ يعطيهم منها قوتهم ویقسم الباقی فی الفقراء والمساكين و ابن السبيل ثم ولى ذالك عمرؓ ففعل مثل ذالك ثم فعل ذلك علیؓ بن ابی طالب فقيل له فی ذلك فقال انى لاستحی من الله ان انقض شيئا فعله ابوبكرؓ و عمرؓ۔
(ریاض النضرہ: صفحہ، 170)
ترجمہ: تیرے لیے مجھ پر لازم ہے کہ میں اموالِ فدک میں وہی کروں جو تیرے والد کرتے تھے فرمانے لگیں خدا کی قسم آپ ایسا ہی کریں گے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فریایا بخدا میں ایسا ہی کروں گا فرمانے لگیں اے اللہ تو گواہ رہنا ہیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کو ان کا راشن دیتے اور باقی فقراء مساکین اور مسافروں میں بانٹ دیتے پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے بھی ایسا ہی کیا پھر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا کسی نے اس میں ترمیم کا مشورہ دیا تو فرمایا مجھے اللہ سے حیا آتی ہے کہ میں اس طریقہ کو توڑوں جو حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ نے رائج فرمایا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مکالمہ اول ہی کامیاب ثابت ہوا ناراضی کا سوال پیدا ہی نہیں ہوا اسی طرح
5: سنن الکبریٰ بیہقی: جلد، 6 صفحہ، 301 شروح بخاری: شروح مشكوٰۃ: نبراس شرح شرح عقائد: صفحہ، 550 البدايہ والنہایہ اور طبقات ابنِ سعد وغیرہ میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رضا مندی ثابت ہے۔ حضورﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں آئے اور فرمایا: والله ما تركت الدار والمال والاھل والعشيرة الا ابتغاء مرضاة الله و مرضاۃ رسوله ومرضاتكم اهل البيت ثم ترضاها حتى رضيت وهذا اسناد جید قوی۔ (البدايہ والنہایہ: جلد، 5 صفحہ، 289)
ترجمہ: اللہ کی قسم میں نے اپنا گھر مال بال سے اور خاندان صرف اللہ کی رضا اللہ کے رسولﷺ کی مرضی اور تم اہلِ بیتؓ کی رضا مندی کی خاطر ہی چھوڑا ہے پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے رضا چاہی اور وہ راضی ہوگئیں اس حدیث کی سند جید اور قوی ہے۔
6: علامہ ابنِ کثیر اس بحث میں فرماتے ہیں:
واحسن ما فيه قولها انت وما سمعت من رسول اللهﷺ وهذا هو الصواب والمظنون بها والائق باهرها و سيادتها وعلمها و دينها۔
ترجمہ: اس باب میں سب سے بہتر حضرت فاطمہؓ کا یہ ارشاد ہے اے حضرت ابوبکرؓ آپ ارشادِ رسول پر عمل کریں جو حضورﷺ سے سنا ہے میں راضی ہوں یہی درست ہے آپ سے اسی کا گمان ہے اور یہی سیدہ فاطمہؓ کے مرتبہ مقام اور علم دین کے شایانِ شان ہے۔
پھر مذکورہ بالا معذرتِ صدیقی نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ظاہر یہ ہے کہ عامر شعبی نے یہ حضرت علیؓ سے یا ان لوگوں سے جنہوں نے حضرت علیؓ سے سنا ہے اور بلا شبہ علمائے اھلبیتؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے فیصلہ کو صحیح قرار دیا ہے جسے حافظ بیہقی نے اپنی سند سے حضرت زید بن علی بن حسینؓ سے نقل فرمایا ہے:
اما انا فلو كنت مكان ابى بكر لحكمت بما حكم به ابوبكر فی فدك۔
(البدایہ والنہایہ: جلد، 5 صفحہ، 290)
ترجمہ: حضرت زیدؓ فرماتے ہیں اگر میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جگہ ہوتا تو فدک کا وہی فیصلہ کرتا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا۔
بلکہ اس سے زیادہ واضح سیدہ فاطمہؓ کی رضامندی بلکہ ترکِ دعویٰ پر دلیل وہ حدیث ہے جو تمام ثقات راویوں اس حدیث کے رواۃ کی توثیق یہ ہے۔
1: عبداللہ بن احمد بن حنبل الشيبانی ولد الامام ثقہ متوفی 290ھ۔
2: عبد الله بن محمد بن ابى شيبة الكوفی ثقہ صاحب التصانيف المتوفى 235ھ۔
3: محمد بن فضيل بن غزوان الكوفى صدوق رمى بالتشيع المتوفى 1951ھ۔
4: ولید بن جميع الزهری المکی نزیل کوفه صدوق يهم من الخامسة۔
5: ابو الطفيل عامر بن واثلةؓ فی أخر من مات من الصحابة 110ھ۔ (تقریب التہذیب)
مسند احمد بن حنبل: جلد، 1 صفحہ، 4 پر مروی ہے مقصودی جملہ خود سیدہ فاطمہؓ سے مروی ہے تو یہ روایت معین کی روایت پر بھی راجح ہوگی جس میں راوی نے اپنے گمان سے حضرت فاطمہؓ کی طرف ناراضی کی نسبت کی ہے۔
عن ابج الطفيل قال لما قبض اللهﷺ ارسلت فاطمةؓ الى ابى بكرؓ انت ورثت رسول اللهﷺ ام اهله فقال لا بل اهله قال فاین سهم رسول اللهﷺ قال فقال ابوبکرؓ انی سمعت رسول اللہﷺ يقول ان الله عزوجل اذا اطعم نبيا طعمة ثم قبضه جعله الذی يقوم من بعده فرءيت ان اردہ على المسلمين فقالت فانت و ما سمعت من رسول اللهﷺ اعلم۔ (مسانيد ابى بكرؓ)
ترجمہ: حضرت ابو الطفيل عامر بن واثلہؓ فرماتے ہیں کہ جب حضورﷺ وفات پاگئے تو سیدہ فاطمہؓ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عدالت میں قاصد بھیجا کہ آپ حضورﷺ کے وارث ہیں یا حضورﷺ کے گھر والے فرمایا گھر والے ہوتے ہیں فرمانے لگیں پھر حضورﷺ کا حصہ کہاں ہے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا میں نے حضورﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ اللہ پاک کسی نبی کو جب کچھ رزق دیتے ہیں پھر اسے وفات دے دیں تو وہ مال اس شخص کے تصرف میں آتا ہے جو آپ کا قائم مقام ہوتا ہے تو میرا خیال ہے کہ میں اسے مسلمانوں پر وقف کردوں تو سیدہ فاطمہؓ نے فرمایا آپ جانیں اور حضورﷺ سے شنیده فرمان کیونکہ آپ اسے خوب جانتے ہیں۔
شیعہ کے دلاںٔل وراثت:
سنی نقطہ نظر سے مسئلہ فدک مثبت و منفی پہلوؤں سے مبرہن ہوچکا اب شیعہ کے ذرا ان دلائل پر بھی غور کریں جن سے شیعہ حضرت صدیقِ اکبرؓ پر طعن کرنے کے لے اپنی احادیث کے بھی خلاف توریثِ انبیاء کے قاںٔل ہیں:
1: يُوۡصِيۡكُمُ اللّٰهُ فِىۡۤ اَوۡلَادِكُمۡ ۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَيَيۡنِ الخ
(سورۃ النساء: آیت، 11)
يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْ أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ
ترجمہ: اللہ تم کو تاکید کرتا ہے اولاد کے متعلق کر لڑکے کو لڑکی کا دوہرا حصہ ملے۔
2: وَلِلنِّسَآءِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ الخ۔ (سورۃ النساء: آیت، 17)
ترجمہ: عورتوں کا بھی حصہ ہے جو والدین اور قریبی چھوڑ کر مریں۔
3: وَلِكُلٍّ جَعَلۡنَا مَوَالِىَ مِمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ الخ۔(سورۃ النساء: آیت، 33)
ترجمہ: ہر ایک مسلمان کے لیے ہم نے وارث بنائے اس ترکہ کے جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ جائیں۔
کہتے ہیں کہ یہ آیتیں توریث اولاد میں عام ہیں اور انبیاء کو بھی شامل ہیں جسے دیگر احکام۔
الجواب: الفاظ تو عام ہیں مگر عام مخصوص عنہ البعض ہیں اور بالاتفاق سنی شیعہ علماء اصول چار قسم کے لوگوں کو وراثت نہیں ملے گی کافر و مرتد اولاد کو قاتل اولاد کو غلام اولاد کو ولد لعان کو اہلِ سنت کی سراجی اور شیعہ کی شرائع الاسلام میں ہے: المانع من الارث اربعة الرق والقتل والارتداد واللعان۔ فقہ شیعہ کی کتاب جامع المسائل: صفحہ، 365 میں ہے:
موانعِ ارث قتل کفر اور غلامی اور لعان ہیں یہ موانع قرآنِ پاک میں صراحتاً نہیں بلکہ اخبار آحاد احادیث سے ماخوذ ہیں جب ان احادیث سے تخصیص ہوگئی تو علمائے اصولِ فقہ کا یہ قاعدہ بھی ہے کہ عام میں پھر وہ قطعیت باقی نہیں رہتی کیونکہ احتمال ہے کہ کسی خاص خبر واحد سے اور افراد بھی خارج ہوجائیں۔
(اصول الشاشی و نور الانوار)
نیز تیسری آیت میں کل اضافی مراد ہے جیسے ملکہ بلقیس کے محدود شاہی ساز و سامان کے متعلق آیا ہے:
وَاُوۡتِيَتۡ مِنۡ كُلِّ شَىۡءٍ الخ۔ (سورۃ النمل: آیت، 23)
بنا بریں ہم کہتے ہیں کہ حدیث نفی میراث حسب تصریح سابق سنی و شیعہ کی متفقہ اور اجلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع سے مروی ہے اسے خبر واحد نہیں بلکہ خبر مشہور اور تواتر معنیٰ و طبقہ کا درجہ حاصل ہے لہٰذا اس سے تخصیص درست ہے اور پیغمبر علیہ الصلاة والسلام اس حکم سے خارج ہیں جیسے:
فَانْكِحُوۡا مَا طَابَ لَـكُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ الخ۔ (سورۃ النساء: آیت، 3)
ترجمہ: پس نکاح کرو جو عورتیں تم کو پسند ہوں چار تک کے تحت آپ 4 عورتوں کی پابندی سے خارج ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چار سے زیادہ کی اجازت کی تخصیص ایک دوسری آیت: يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَـكَ الخ۔ (سورۃ الاحزاب: آیت، 50)سے ماخوذ ہے تو آیت کی تخصیص آیت سے ہوئی مگر یہ قلت تدبر کا نتیجہ ہے کیونکہ سورۃ النساء مدنی زندگی کے اوائل میں نازل ہوئی اور سورت الاحزاب غزوہِ خندق 5ھ کے بھی بعد نازل ہوئی اور اس وقت آپ ہم سے زائد متعدد شادیاں کر چکے تھے: آیت
اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَـكَ اَزۡوَاجَكَ الّٰتِىۡۤ اٰتَيۡتَ اُجُوۡرَهُنَّ الخ (سورۃ الاحزاب: آیت، 50)
ترجمہ: بے شک ہم نے حلال کی ہیں آپ کے لیے وہ عورتیں جن کے مہر آپ دے چکے نے تو ان سابقہ نکاحوں کی صحت اور لوگوں کے شبہات کا ازالہ فرمایا بلکہ مزید نکاحوں پر پابندی لگادی:
لَا يَحِلُّ لَـكَ النِّسَآءُ مِنۡۢ بَعۡدُ وَلَاۤ اَنۡ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجٍ الخ (سورۃ الاحزاب: آیت، 52)
ترجمہ: اس کے بعد آپ کو اور عورتیں حلال نہیں اور نہ ان ازواج میں آپ ردو بدل کر سکتے ہیں اگرچہ آپ کو اوروں کا حسن پسند ہو بجز باندیوں کے الحاصل جیسے فَانْكِحُوۡا کے حکم سے آپ مستثنیٰ ہیں اسی طرح آیتِ میراث سے بھی آپ مستثنیٰ ہیں۔
4: رَبِّ هَبۡ لِىۡ مِنۡ لَّدُنۡكَ وَلِيًّا يَّرِثُنِىۡ وَيَرِثُ مِنۡ اٰلِ يَعۡقُوۡبَ وَاجۡعَلۡهُ رَبِّ رَضِيًّا ۙالخ۔(سورۃ مریم: آیت، 6)
ترجمہ: اے اللہ میرے اپنی جانب سے بخش دے ایسا ولی جو میرا وارث بنے اور آلِ یعقوب کا بھی اور اللہ اس کو پسندیدہ بنا۔
5: وَوَرِثَ سُلَيۡمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّيۡرِ وَاُوۡتِيۡنَا مِنۡ كُلِّ شَىۡءٍ الخ۔ (سورۃ النمل: آیت، 16)
ترجمہ: اور حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث بنے تو فرمایا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہر چیز دی گئی ہے یہ تو اللہ کا کھلا انعام ہے۔
شیعہ کا خیال ہے کہ دونوں آیتوں میں اور پہلی آیت میں دونوں جگہ وراثت سے مال مراد ہے کیونکہ حسن بصریؒ نے یہ تفسیر کی ہے اور حضرت ابنِ عباسؓ اور ضحاک کا بھی یہ قول ہے۔
(تفسیر فخر الدین رازی: جلد، 21 صفحہ، 184)
نیز رضیا پسندیدہ کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ وارث غیر نبی ہو نبی کے لیے اس دعا کی حاجت نہیں خفت الموالی چچا زادوں سے خوف ضیاع نبوت کی وجہ سے نہیں ہوسکتا مال کی وجہ سے ہوتا ہے بعض تفاسیر میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک ہزار گھوڑے باپ سے وراثت میں پائے نیز لفظ ارث کا استعمال مال میں حقیقتًہ ہے اور باقی چیزوں میں مجازاً حب تک حقیقت متعذر نہ ہو مجاز مراد لینا درست نہیں۔
الجواب: شیعہ مذہب کی رو سے آیات بالا کی یہ تفسیر اجتہاد فی مقابل النص ہونے کی وجہ سے مردود ہیں اس لیے کہ جب ان آیات کے مصداق کی تعیین اںٔمہ معصومین سے ہوچکی ہے پھر اِدھر اُدھر کی باتیں نکالنا کیا معنیٰ؟
سیدنا جعفر صادقؒ سے روایت ہے:
ان سلیمان ورث داؤد وان محمد ورث سلیمان وانا ورثنا محمدا وان عندنا علم التورٰۃ والانجیل والزبور وتبیان ما فی الالواح۔
(اصولِ کافی: صفحہ، 225)
ترجمہ: بلاشبہ سلیمان ہی وارثِ داؤد بنے اور حضرت محمدﷺ سلیمان کے وارث بنے اور ہم محمدﷺ کے وارث ہوئے، بیشک ہمارے پاس تورات انجیل زبور اور الواحِ موسیٰ کی تفصیل کا علم ہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت جعفر صادقؒ نے فرمایا حضرت داؤد انبیاء کے علم کے وارث ہوئے و ان سلیمان ورث داؤد وان محمدﷺ ورث سلیمان و انا ورثنا محمدﷺ وان عندنا صحف ابراھیم و الواح موسیٰ۔
(ایضاً: صفحہ، 225 باب ان الاںٔمۃ ورثوا علم النبی وجمیع الانبیاء)
ترجمہ: حضرت سلیمان داؤد علیہما السلام کے وارث بنے اور حضرت محمدﷺ سلیمان کے وارث ہوئے اور ہم حضورﷺ کے وارث ہوئے بیشک ہمارے پاس حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تختیاں ہیں۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی وراثت کے متعلق سیدنا باقرؒ کا ارشاد ہے:
ثم مات زكريا فورث ابنه يحيىٰ الكتاب والحكمة وأتيناه الحكم صبيا۔(اصولِ کافی: جلد، 1 صفحہ، 382)
ترجمہ: پھر زکریا فوت ہوئے تو ان کے صاحبزادے حضرت یحییٰ علیہ السلام کتاب اور حکمت کے وارث بنے اور ہم نے ان کو حکم بچپن میں بھی دے دیا تھا
کیا پہلی دو احادیث کی روشنی میں حضرت داؤد علیہ السلام کی وراثت کا حضرت سلیمان علیہ السلام کو انتقال اور پھر حضورﷺ اور اںٔمہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم تک پہنچنا، وراث علمی و پیغمبری یقیناً ثابت نہیں ہوئی ان کے مقابل حسن بصریؒ کا قول کیا حقیقت رکھتا ہے ہزار گھوڑے پانا شاہی ترکہ بطورِ حکومت مراد ہے نہ کہ ذاتی وراثت حضرت داؤد علیہ السلام تو خانگی نفقہ کے لیے زرہ بنا کر بیچتے تھے کیا اس معمولی مزدوری سے وہ ایک ہزار اعلیٰ نسل کے گھوڑے خریدتے یا پال سکتے تھے؟ پھر کل 18 بیٹے تھے تو اٹھارہ ہزار گھوڑے ہوں تب فی بیٹا ایک ہزار گھوڑے تقسیم میں لے۔
قرآنِ پاک میں وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوٗدَ الخ۔ (سورۃ النمل: آیت، 16) داؤد کے بعد فَقَالَ يٰاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ الخ۔(سورۃ النمل: آیت، 16) کیا یہ وراثت علمی پر قطعی دلیل نہیں ہے؟ اگر وراثت مالی ہو تو بقیہ 18 بیٹے بھی بدستور عالم مَنْطِقَ الطَّیْرِ ہوں اور ہر بڑی چیز کے مالک اور تذکرہ قرآنی سے مشرف ہوں یہ کہنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر خاص بلند رتبی کی وجہ سے ہے لغو ہے کیونکہ یہ بلند رتبی نبوت اور سیاست میں والد ماجد کی جانشینی سے ملی ہے تو وراثت نبوت و سیاست ثابت ہوگئی فھو المقصود علامہ رازیؒ نے تفسیر میں پانچ قول لکھے ہیں مفید مطلب ایک قول کو شیعہ لے اڑاتے ہیں حالانکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ نبوت اور شاہی خزانوں اور اموال کے جانشین و وارث حضرت سلیمان علیہ السلام ہی ہوئے تو ذاتی مال کی وراثت باطل ہوئی اور پھر اس کے شخص واحد میں انحصار نے نبوت و حکومت کے لیے مخصوص کردیا۔
یہ کہنا کہ نبوت تو حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس سے پہلے بھیڑوں کا قضیہ چکاتے وقت ملی ہوئی تھی تو وراثت مالی مراد ہے درست نہیں کیونکہ اس وقت آپ نابالغ بچے تھے احکامِ شریعہ ہی کے مکلف نہ تھے چہ جائیکہ نبوت کے منصبِ عظیم کے بالفعل حامل ہوں ہاں نبوت کے تحمل کے لیے فطری استعداد اور عقل و فرات کا اعلیٰ درجہ حاصل تھا پھر تعظیمِ خداوندی نے سونے پر سہاگہ کر کے وہ بہتر فیصلہ آپ سے کروا دیا اس وقت حکمت اور علم سے یہی مراد ہے علاوہ ازیں منصب نبوت کیلیے نامزد ہونا یا موصوف ہونا اور بات ہے اور بالفعل فرائض نبوت کو تعلیم تبلیغ جہاد سیاست امت وغیرہ میں ادا کرنا اور بات ہے حضرت داؤد علیہ السلام کے جانشین اور وارث بننے میں فرائض نبوت اور ادائیگی سیاست امت مراد ہے جو پہلی بات کے منافی نہیں۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی وراثت نبوت تو اور واضح تر ہے سیدنا باقرؒ کے الفاظ کہ حضرت زکریا علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے بھی کتاب و حکمت کے وارث ہوئے اور ہم نے ان کو حکم بچین میں عطا کردیا تھا کا آیتِ کریمہ کے ان الفاظ سے موازنہ تو کریں:
يٰيَحۡيٰى خُذِ الۡكِتٰبَ بِقُوَّةٍ وَاٰتَيۡنٰهُ الۡحُكۡمَ صَبِيًّا ۞ (سورۃ مریم: آیت، 12)
ترجمہ: اے یحییٰ مضبوطی سے کتاب پکڑ لو اور ہم نے ان کو چین میں ہی حکم دے دیا کیا بارشاد امام وراثت علمی و پیغمبری متعین ہونے میں اب بھی کوئی شک و شبہ باقی ہے؟
تفسیر فخر الدین رازیؒ میں سیدنا ابنِ عباسؓ حسن بصریؒ اور ضحاک کا یہ قول بھی مروی ہے کہ یرثنی سے مال اور: يَّرِثُنِىۡ وَيَرِثُ مِنۡ اٰلِ يَعۡقُوۡبَ الخ۔ (سورۃ مریم: آیت، 6) سے نبوت کی وراثت مراد ہے سدی، مجاہد اور شعبی کا بھی یہی قول ہے تو وراثتِ مالی کی تخصیص باطل ہوگئی دونوں کے معاً وارث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نبی امت کے لیے ایک قسم کا حاکم و منتظم بھی ہوتا ہے امت کے نظم و نسق کے سلسلے میں خرچ ہونے والا جو مال بطورِ فنڈ آپ کے پاس تھا وہ بھی نبوت کے ساتھ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو منتقل ہوا بعینہ جیسے حسب تفصیل سابق حضورﷺ کے بعد امام ان چیزوں کا وارث و متولی ہوگا امام رازیؒ نے باقی اقوال میں وراثت یحییٰ سے مراد سرداری علم نبوت اور اخلاق حسنہ مراد لیے ہیں یہ چاروں چیزیں غیر مالی ہیں اور یہاں مراد ہوسکتی ہیں لفظ ارث ہر ایک میں بطورِ حقیقہ مستعمل ہے جیسے مال کے لیے:
وَاَوۡرَثَكُمۡ اَرۡضَهُمۡ وَدِيَارَهُمۡ وَ اَمۡوَالَهُمۡ الخ۔ (سورۃ الاحزاب: آیت، 27)
ترجمہ: اور تم کو وارث بنا دیا ان کی زمینوں مکانوں اور مالوں کا علم کے لیے:
وَاَوۡرَثۡنَا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ الۡكِتٰبَ ۞ (سورۃ غافر: آیت ،53)
ترجمہ: ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا۔
العلماء ورثة الانبیاء۔
ترجمہ: علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں۔
وان الانبیاء لم یورثوا درهما ولا دینارا۔
ترجمہ: انبیاء دراهم و دنانیر کی وراثت نہیں چھوڑتے۔ حکومت اور نبوت کے لیے:
وَلَقَدْ اٰتَيۡنَا دَاوٗدَ وَ سُلَيۡمٰنَ عِلۡمًا الخ۔ (سورۃ النمل: آیت، 27)
ترجمہ: اور بلا شبہ ہم نے داؤد و سلیمان کو علم عطا کیا معنوی خصائل کے لیے جیسے کہا جاتا ہے اورثنی ھذا غماد حزنا اس چیز نے میرے اندر غم اور فکر چھوڑ دیا ہے پھر امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ پختہ بات یہ ہے کہ یہ لفظ ان تمام معانی کا احتمال رکھتا ہے اور سب سے بہتر یہ ہے کہ اس وراثت سے مراد ہر وہ چیز ہو جس میں دین کی بہتری اور نفع ہو اور یہ نبوت علم سیرتِ حسنہ حکومت براںٔے نفع دینی اور دین کے لیے کام آنے والا مال سب کو شامل ہے
(تفسیر رازی: پارہ، 16 صفحہ، 184) پھر اس سے زیادہ وضاحت اور مالی وراثت کا ابطال: وَوَرِثَ سُلَيۡمٰنُ دَاوٗدَ الخ۔(سورۃ النمل: آیت، 16) کے تحت پارہ، 19 صفحہ، 186 پر علامہ رازیؒ نے کر دیا ہے۔
قارئین کرام! اس تفصیل سے شیعہ کی خیانت اور منہ زوری کا پتہ چل گیا کہ صرف ایک قول کو لے کر اپنا الو سیدھا کرتے اور مفسر علیہ الرحمہ کا اپنا فیصلہ چھوڑ دیتے ہیں یہاں سے یہ بھی واضح ہو چکا کہ ان تمام معانی میں یہ لفظ بطورِ حقیقت شائع ہے تو وراثت غیر مالی کو مجازی کہنا باطل ثابت ہوا ہاں فقہاء کی اصطلاح میں زیادہ تر اس کا استعمال منقولات عرفیہ کی طرح وراثت مالی میں پایا جاتا ہے بالفرض اسے مجاز تسلیم کیا جائے تو عموم مجاز ہے جو حقیقت کی مانند شائع و ذائع ہوتا ہے مثلاً:
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الخ۔ (سورۃ فاطر: آیت، 32)
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْکِتٰبَ الخ (سورۃ الاعراف: آیت، 169)
اِنَّ الَّذِيۡنَ اُوۡرِثُوا الۡكِتٰبَ الخ۔ (سورۃ الشوریٰ: آیت، 14)
اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ﳜ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ الخ۔ (سورۃ الاعراف: آیت، 128)
وَلِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الخ۔ (سورۃ الحدید: آیت، 10)
رہا یہ شبہ کہ مجاز میں استعمال کے لیے داعیہ چاہیے تو داعیہ یہ ہے کہ معصوم کے قول کو جھوٹ اور نامناسب بات سے بچانا ہے۔ اگر حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کا منشاء یہ ہو کہ میرے مال کے وارث چچا زاد بھائی ہیں ان سے مجھے مال ضائع کرنے کا اندیشہ ہے مجھے ایسا فرزند عطا فرما جو میرے مال کا وارث بنے تو ایک پیغمبر کی طرف اس کی نسبت بھی معیوب ہے انبیاء کا ذہن دنیا کے لیے حریص یا متفکر نہیں ہوتا بالفرض اگر وہ موالی برے ہوں اور برائی میں مال خرچ کرنے کا اندیشہ ہو تو یہ بھی مفید نہیں کیونکہ جب ان تک وراثت پہنچے گی وہ خود مالک ہوں گے اور بھلائی برائی کے ذمہ دار ہوں گے حضرت زکریا علیہ السلام کی ملکیت میں مال نہ رہے گا پھر تفکر کا کیا فائدہ؟ ہاں نبوت و تبلیغ کے متعلق اندیشہ درست ہے ممکن ہے وہ نا اہلِ ثابت ہوں اور پیغمبری کے لائق نہ ہوں تو یہ میری اور آلِ یعقوب علیہ السلام کی نعمت نبوت ضائع ہو جائے گی تو الہیٰ مجھے وارث عطا فرما آج گئے گزرے دور میں بھی جو اولو العزم قسم کے خاندانی شریف ہوں اور مخصوص فن یا کمالات میں شہرت رکھتے ہوں وہ اولاد اس لیے نہیں مانگتے کہ ہم اسے کماںٔے ہوئے مال و جائیداد یا مکانات کے مالک نہیں بلکہ وہ اپنے ہنر اور فن کے بقاء خاندان کی عظمت و شہرت اور باپ دادے کی اقدار کو زندہ رکھنے کے لیے اولاد مانگتے ہیں عالم کی اولاد عالم ہو مرشد روحانی کی اولاد متقی پرہیزگار ہو معلم پروفیسر کی اولاد علم دوست اور استاد بنے تاجر کی اولا تاجر بنے زمیندار کی اولاد زمیندار اور کھیتی باڑی میں دلچسپی لینے والی بنے، ہر ایک کو یہی تمنا اور آرزو ہوتی ہے اور اسی فن و ہنر میں جانشینی کے لیے اولاد مانگتا یا اس کی تربیت کرتا ہے اگر کسی کی اولاد اس کے ہنر و کمال میں وارث نہ بنے خواہ مال و دولت یا دیگر امور میں بڑھ ہی کیوں نہ جائے باپ کی نظر میں وہ ناخلف ہی ہوتے ہیں اس حقیقت کے پیش نظر حضرت زکریا علیہ السلام جیسے بڑھئی پیشہ غریب پیغمبر نبوت کا وارث بننے کے لیے دعا مانگیں تو زیادہ بہتر ہے یا تیشہ آری جیسے آلات نجاری کو سنبھالنے کے لیے بیٹا مانگیں تو وہ ان کی شان کے لائق ہے اور وہ بھی محض اس خدشہ سے کہ چچا زاد اولاد یہ ہتھیار نہ لے لیں شیعہ کو اللہ تعالیٰ عقل و فہم نصیب کرے ان کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دشمنی میں اگر انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے کتنی گھٹیا سوچ کرنی پڑی ہے آخر ایک مزدور پیشہ پیغمبر کے پاس ضروریات زندگی سے زائد بچت آ کہاں سے گئی اور زائد ان ضرورت کمانے سے ان کو فرصت کیسے ملتی تھی پھر وہ سیرتِ انبیاء کے برعکس پس انداز کر کر کے اتنا خزانہ جمع کیسے کر چکے تھے جس کے ضیاع کا بنی اعمام کے ہاتھوں اندیشہ پیدا ہوگیا تھا رہا یہ شبہ کہ انبیاء کرام علیہم السلام تو خدائی پسندیدہ ہوتے ہیں:
وَاجۡعَلۡهُ رَبِّ رَضِيًّا ۞ (سورۃ مریم: آیت، 6)
کی دعا تحصیل حاصل ہوئی تو وضاحت یہ ہے کہ صفتِ کشف حال اور وضاحت مقصد کے لیے ہے صفتِ احترازی نہیں ہے اسی سورت میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق ہے:
وَكَانَ عِنۡدَ رَبِّهٖ مَرۡضِيًّا ۞ (سورۃ مریم: آیت، 19)
ترجمہ: کہ وہ اپنے رب کے ہاں پسندیدہ تھے سورۃ ص میں انبیاء علیہم السلام کی ایک جماعت کے متعلق ارشاد ہے کو:
وَاِنَّهُمۡ عِنۡدَنَا لَمِنَ الۡمُصۡطَفَيۡنَ الۡاَخۡيَارِؕ ۞(سورۃ ص: آیت، 47)
ترجمہ: بے شک وہ ہمارے ہاں بہترین چنے ہوئے بندوں سے ہیں۔ ِ
وَاجۡعَلۡهُ رَبِّ رَضِيًّا ۞ (سورۃ مریم: آیت، 6) کی دعا ایسے ہی ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے:
رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ الخ(سورۃ البقرہ: آیت، 129)
ترجمہ: اے اللہ ان میں سے ایک رسول بنا کے بعد
يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَ يُزَكِّيۡهِمۡ الخ۔ (سورۃ البقرہ: آیت، 129)
ترجمہ: جو تیری آیتیں ان پر پڑھے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے سے وضاحت فرمائی کیا لفظ رسول کافی نہیں تھا؟ کوئی ایسا رسول بھی ہوتا ہے جس کا فریضہ تلاوتِ آیات اور کتاب و حکمت کی تعلیم و تزکیہ نہ ہو؟ یا جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے:
وَاجۡعَلْ لِّىۡ وَزِيۡرًا مِّنۡ اَهۡلِىْ ۞ (سورۃ طٰہ: آیت، 29)
هٰرُوۡنَ اَخِى ۞ (سورۃ طٰہ: آیت، 30)
اشۡدُدۡ بِهٖۤ اَزۡرِىْ ۞(سورۃ طٰہ: آیت، 31)
ترجمہ: ہارون میرے بھائی کو میرا وزیر بنا اور میری کمر اس سے مضبوط کر کے بعد:
وَاَشۡرِكۡهُ فِىۡۤ اَمۡرِىْ۞ (سورۃ طٰہ: آیت، 32)
ترجمہ: اور اس کو میرے کام میں شریک کر سے اپنے مدعا کی وضاحت فرمائی جیسے یہاں تحصیل حاصل لازم نہیں آتی اسی طرح رب رضیا سے بھی نہیں آتی یہ بھی ممکن ہے کہ ان الفاظ سے مقبول و معزز عند الناس ہونے کی دعا کی ہو چنانچہ وہ مقبول بھی ہوئی جیسے آلِ عمران میں ارشاد ہے:
مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَسَيِّدًا وَّحَصُوۡرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيۡنَ ۞
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 39)
ترجمہ: آپ کو یحییٰ کی بشارت ہو جو خدا کے کلمہ عیسیٰ کے مصدق لوگوں میں سردار، پاکدامن اور نیک پیغمبروں سے ہوں گے۔
راقم کے علم میں ان آیات سے متعلق شیعہ کی جوکٹ حجتیاں تھیں ان کا جواب ہوچکا۔ واللہ الحمد
اور اظہر من الشمس ہوگا کہ انبیاء علیہ السلام کی وراثت مالی نہیں ہوتی کہ علمی اور منصب پیغمبری اور اسکے متعلقات کی ہوتی ہے اور یہاں یہی مراد ہے۔
روایات ہبہ کی حقیقیت:
شیعہ جب دعویٰ وراثت میں ناکام ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے آپ کو زندگی میں ہبہ کردیا تھا پھر سیدہ فاطمہؓ نے یہ ہبہ کا دعویٰ فرمایا اس پر گواہ بھی پیش کیے مگر خلیفہ نے رد کر دیئے اس کا بطلان کئی وجوہ سے ہے۔
اولاً: ہبہ اور میراث دو متضاد باتیں ہیں معاً جمع ہو ہی نہیں سکتیں ہبہ کا معنیٰ یہ ہے کہ حضورﷺ نے اپنی ملکیت سے خارج کر کے سیدہ فاطمہؓ کی ملکیت اور قبضے میں دے دیا اگر واقعی ہبہ تھا تو وراثت کا سوال کیسے؟ یہ تو اس مال میں ہوتا ہے جو موروث عنہ کی تا وفات ملکیت میں ہو اور اگر حضورﷺ کی ملکیت میں کہا اور سوال وراثت درست تھا تو ہبہ کی کہانی خود بخود لغو ہوئی کیونکہ ایک چیز معاً دو ملکیتوں میں متضاد اسباب سے جمع نہیں ہوسکتی۔ خلافا للشركة فانها بسبب واحد بعض شیعہ اسے حصول مقصد کی خاطر عنوان بدلنے سے تعبیر کرتے ہیں۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کے ساتھ مناظرہ میں ایک دلیل میرا رب مارتا جلاتا ہے چھوڑ کر دوسری دلیل میرا رب سورج مشرق سے لاتا ہے تو مغرب سے لا پیش کی مگر یہ نری جہالت ہے یہاں دونوں دلیلیں خدا کی صفت ہیں ان میں تضاد نہیں دلیلِ ہبہ اور دلیلِ میراث میں ذاتی تضاد ہے۔ فافترقا۔
ثانیاً: اگر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خاوند بیٹے اور اپنی باندی کی گواہی نصاب نامکمل ہونے کی وجہ سے مسترد کردی تو یہ قرآنی اصول شہادت
وَاسۡتَشۡهِدُوۡا شَهِيۡدَيۡنِ مِنۡ رِّجَالِكُمۡۚ فَاِنۡ لَّمۡ يَكُوۡنَا رَجُلَيۡنِ فَرَجُلٌ وَّامۡرَاَتٰنِ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ الخ۔ (سورۃ البقرہ: آیت 282)
ترجمہ: پس تم مردوں سے دو گواہ بناؤ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ہونی چاہیں جن گواہوں کو تم عادل پسند کرو پر عمل کیا سیدہ فاطمہؓ اور اس کے گواہ سچے سہی مگر قاضی ظاہر قانون پر فیصلہ دیا کرتا ہے قاضی کے ذاتی علم پر فیصلہ بعض مخصوص حالات میں ہوتا ہے قاضی شریح نے ایک یہودی سے نزاع میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جیسے سچے کا نہ دعویٰ تسلیم کیا نہ حضراتِ حسنینؓ کی گواہی مانی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے بادل نخواستہ نہ صرف فیصلہ تسلیم کیا بلکہ قاضی کو اپنے منصب پر برقرار رکھا۔ (کشف الغمہ)
چنانچہ یہ اصول پسندی دیکھ کر یہودی مسلمان ہوگیا آج مسئلہ فدک کی مثال سے مسلمان اپنے قانون کی عظمت تاریخ سے سربلند کر سکتے ہیں۔
ثالثاً: ہبہ اور عطا کے متعلق روایات ہماری مستند امہات کتب میں نہیں بلکہ بعض کتب تاریخ میں چھان بین کے بعد بلا سند یا منقطع و مردود و سندوں کے ساتھ ان کا پتہ چلتا ہے مگر اس اہم مسئلہ پر ان سے استشہاد نا انصافی ہی ہے اس سلسلہ کی اصل سب سے زیادہ مشہور روایت وہ ہے جو تفسیر در منثور کنز العمال مسند ابو یعلیٰ اور مجمع الزوائد میں سورت اسراء کی آیت وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حقہ کے تحت تفسیر روایت کی گئی ہے۔
عن ابی سعيد الخدریؓ قال لما نزلت ھذہ الآیۃ وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حقه دعا رسول اللهﷺ فاطمةؓ فاعطاھا فدك عن ابن عباسؓ قال لما نزلت وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حقه اقطع رسول اللہ فاطمۃؓ فدکا۔
(تفسیر در منثور: جلد، 4 صفحہ، 177)
حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ جب آیت وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى اتری تو حضورﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو بلا کر فدک دیا حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت اتری تو سیدہ فاطمہؓ کو حضورﷺ نے جائداد دے دی حالانکہ آیت مکی ہے فدک کا تصور وجود ہی نہ تھا پھر آیت پر عمل کی شکل میں چاہیئے کہ مسکین اور ابن السبیل کو بھی مخصوص جائداد دی جائے جب یہ نہیں ہوا تو پہلا بھی نہیں ہوا۔
یاد رہے کہ یہ روایت حضرت ابو سعید خدریؓ سے نقل کی جاتی ہے جیسا کہ در منثور کنز العمال اور مجمع الزوائد میں ہے اور سیدنا ابو سعیدؓ سے راوی عطیہ عوفی ہے یہ مشہور مدلس ہے یہ محمد بن سائب کلبی کا شاگرد خاص تھا اور وہ مشہور کذاب تھا یہ اس کی کنیت ابو سعید رکھتا تھا پھر جب کلبی کی صراحت کیے بغیر عن ابی سعید کہتا تو لوگ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہی سمجھتے اور صحابی سے روایت کرتے حالانکہ یہ دجل و تلبیسں عطیہ عوفی کا کرشمہ ہے میزان الاعتدال: جلد، 1 صفحہ، 201 عطیہ عوفی کے ترجمہ میں ہے۔
قال سالم الموادى كان عطية یتشیع ضعیف الحدیث وقال احمد بلغنی ان عطیۃ کان یأتی الکلبی فیاخذ عنه التفسیر وکان یکنیه بابی سعید فیقول قال ابو سعید فیوھم انه الخدری۔
ترجمہ: سالم مرادی کہتے ہیں عطیہ شیعہ تھا امام احمد اسے ضعیف الحدیث کہتے ہیں، نیز کہتے ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ عطیہ کلبی کے پاس آتا تھا اس سے تفسیر لیتا اور اس کی کنیت ابوسعید مشہور کرتا تھا جب کہتا ابو سعید نے فرمایا تو یہ وہم ہوتا کہ ابو سعید خدری صحابی مراد ہیں۔
امام نسائی اور ناقدین اںٔمہ کی جماعت اسے ضعیف کہتی ہے فریقین کے ہاں عطیہ عوفی شیعہ مسلم ہے
شیعہ علامہ مامقانی کی تنقیح المقال فی احوال الرجال: جلد، 2 صفحہ، 253 پر ہے:
عطية عوفی كوفج من اصحاب باقرؒ۔
ترجمہ: عطیہ عوفی کوفی تھا سیدنا باقرؒ کے شاگردوں سے تھا۔
تو متنازعہ فیہ مسئلہ میں ایسے راوی کی روایت بالکل مردود ہے۔ جب یہ سیدنا باقر کا شاگرد ہے تو حضرت ابو سعید خدریؓ کے زمانے میں شاید اس کا والد بھی نہ ہو۔
فتوح البلدان بلاذری بحث فدک میں جو عطاء فدک کے متعلق مذکور ہے اور صواعقِ محرقہ شرح مواقف معجم البلدان کے متاخر مؤلفین تو محض ان کتب قدیمیہ سے بلا سند نقل کردیتے ہیں اس سے روایت کی صحت تو ثابت نہیں ہوتی وہ رواۃ کے اعتبار سے مجروح ہیں قبیح السند نہیں کنز العمال میں جو روایت ہے اس کا ایک راوی محمد بن میمون ہے جس کو حافظ ذہبی نے مندرجہ ذیل الفاظ میں ذکر کیا ہے
ابراهيم من اجلاء الشيعة روی عن علی بن عابس خبرا عجیباً۔
(میزان الاعتدال: جلد، 1 صفحہ، 130)
ابراہیم بڑے شیعوں سے ہے علی بن عابس سے ایک عجیب روایت کی ہے علامہ عینی اس مفہوم کی روایات ذکر کر کے کہتے ہیں۔
قلت هذا الا اصل له ولا یثبت به روایۃ انها ادعت ذلك وانما ھواھر مفتعل لا یثبت۔
(عمدۃ القاری شرح بخاری باب فرض الخمس تحت حدیث دوم)
ترجمہ: میں کہتا ہوں یہ باطل ہے اور ایسی کوئی روایت ثابت نہیں ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے ایسا دعویٰ کیا ہو یہ تو ایک من گھڑت بات ہے جو کبھی ثابت نہیں ہو سکتی۔
علامہ ذہبیؒ نے میزان الاعتدال میں عطیہ اور ہبہ کی روایات کو ان لفظوں میں رد کیا ہے۔
قلت هذا باطل ولو كان وقعہ ذالك لما جاءت فاطمة تطلب شيئا وهو فی حوزها و ملكها۔
(جلد: 2 صفحہ، 283 تحت علی بن عباس)
ترجمہ: میں کہتا ہوں یہ باطل ہے اگر یہ ہوچکا ہوتا تو سیدہ فاطمہؓ کچھ مانگنے نہ آتیں جب کہ وہ آپ کی تحویل و ملکیت نہیں تھا۔
کتبِ اہلِ سنت کی طرف نسبت کر کے ہبہ فدک کے بارے میں جو روایات شیعہ علماء نے اپنی کتب مناظرہ میں نقل کی ہیں ان کی تفصیل علامہ نواب مہدی علی خان سابق شیعہ مجتہد نے آیاتِ بینات میں بحثِ فدک میں پیش کی ہے واللہ درہ وہ پوری سند اور رواۃ کی تفصیل والی 4 روایات بتاتے ہیں اور بعض سند کے ساتھ یا صرف منقول عنہ کا ذکر کرنے والی 5 روایات بناتے ہیں، پھر ہر راوی کا کتب رجال سے شیعہ کمزور یا کذاب ہونا بتاتے ہیں ان سب کا سرا اور ماخذ عطیہ از ابو سعید ہے وہ ابوسعید سے حضرت ابو سعید خدریؓ کا وہم دلاتا ہے اور بعض راویوں نے غلطی سے اسے خدری سمجھ لیا حالانکہ یہ کلبی کذاب شیعہ ہے جس کے متعلق میزان الاعتدال میں ہے محمد بن السائب کلبی ابوالنصر اخباری حساب مفسر مشہور ہے ثوری کہتے ہیں کلبی سے بچو بخاری کہتے ہی اسے یحییٰ اور ابنِ مہدی نے چھوڑ دیا ہے یزید بن زریع کہتے ہیں کلبی سبائی تھا جو حضرت علیؓ کی وفات کے قائل نہیں دوبارہ رجعت کے قائل ہیں ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں ہشام بن کلبی کے ذکر میں اس کے باپ کو رافضی لکھا ہے یاقوت حموی نے معجم الادبار میں محمد بن جریر طبری کی کتابوں کے حال میں لکھا ہے طبری نے غیر معتبر تفسیروں سے تعرض نہیں کیا کہ اس نے محمد بن سائب کلبی مقاتل بن سلیمان اور محمد بن عمر واقدی کی کتابوں سے تفسیر نہیں لی کیونکہ یہ لوگ اس کے نزدیک مشکوکین سے ہی محمد طاہر گجراتی نے تذکرہ الموضوعات میں کلبی کی نسبت لکھا ہے کہ امام احمد نے کہا کلبی کی تفسیر از اول تا آخر جھوٹی ہے دیکھنا بھی جائز نہیں ایک روایت حضرت ابنِ عباسؓ سے نقل کی جاتی ہے مگر وہ بھی بلاسند ہے اور در منثور تو طبقہ چہارم کی کتاب ہے جس میں صحیح ضعیف موضوع ہر قسم کی روایات ہیں بہرحال ایسی ہر روایت معیار صحت پر جانچے بغیر حجت نہیں ہے۔
اس کے بر عکس سب کی نفی پر اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی یہ مشہور روایت شاہد ہے۔
کہ درک رسول اللہﷺ کے قبضے میں آیا تھا آپ اس میں سے خرچ کرتے بنی ہاشم کے چھوٹے ناداروں پر لوٹاتے اور ان کے بیواؤں کی شادیاں کراتے تھے سیدہ فاطمہؓ نے آپ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان کو دے دیں تو آپ نے انکار کیا تو رسول اللہﷺ کی زندگی میں اس دستور پر بنو ہاشم اور فقراء و مساکین میں تقسیم ہوتا رہا یہاں تک کہ آپﷺ مسافر آخرت ہوگئے پھر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اپنی زندگی میں وہی عمل جاری رکھا جو رسول اللہﷺ نے کیا تھا یہاں تک کہ آپ فوت ہوگئے پھر جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی وہی عمل جاری رکھا جو حضورﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کیا تھا یہاں تک کہ وہ بھی چلے گئے پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ و حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی یہی دستور جاری رکھا، پھر مروان نے اپنے دور میں اسے اپنا قطعہ بنایا پھر یہ عمر عبد العزیزؒ کے قبضے میں آگیا تو میں نے فیصلہ کیا کہ جو چیز رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہؓ سے روکی تھی میرا بھی اس پر کوئی حق نہیں ہیں میں تم کو گواہ بناکر اسے اسی طرز پر لوٹاتا ہوں جس پر رسول اللہﷺ کے زمانے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تھا۔
(ابو داؤد: جلد، 2 صفحہ، 59 مشکوٰۃ: صفحہ، 356)
یہ روایت گو مرسل ہے اور مرسل حدیث جمہور علماء کے نزدیک حجت ہوتی ہے چونکہ یہ مجمع عام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے فاضل خلیفہ راشد نے بیان کی کسی نے اختلاف بھی نہیں کیا تو یہ حکماً متصل اور مرفوع کے قائم مقام ہے اس سے واضح ہوا کہ:
1: فدک حضورﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ نہیں کیا تھا بلکہ طلب کے باوجود نہ دیا جیسے خصال بن بابویہ: صفحہ، 39 کی شیعہ حدیث بھی گزری۔
حضراتِ شیخینؓ وغیره خلفاءث اسلام نے طریقہ نبی کریمﷺ نہیں بدلایا نہ اہلِ بیتؓ و بنو ہاشم کے مالی حقوق بند کیے بلکہ بدستور ان کو دیتے رہے۔
ایک لغو رسالہ کا جاںٔزہ:
بحمد اللہ وعونہ ہم نے مسئلہ فدک پر سیر حاصل بحث کر کے ہر پہلو کو روشن کردیا شیعہ مؤلفین کے اعتراضات کا منبع بند کر دیا ایک صاحب نے مقدمہ باغِ فدک پر افسانوی رنگ میں قلم کاری کی ہے بقول اس کے اس کتاب میں انتہائی رواداری و شائستگی کے ساتھ حضراتِ شیخینؓ پر تنقیدی قلم کاری کی گئی ہے یہی نہیں بلکہ بے اصولی ثقلین کی خلاف ورزی بد تہذیبی دروغ گولی اور بے فائدہ لایعنی باتوں کے تکرار میں اپنی مثال آپ ہے کہ وہی مجرم وہی مصنف کا آئینہ ہے اس کی اکثر باتوں کا جواب آگیا کچھ ہفوات لائق توجہ ہی نہیں آخر میں بطورِ خلاصہ کتاب جو دعا دی اس نے بزعمِ خویش ثابت کیے ان سے اور چند اہم باتوں سے ہم آپ کو متعارف کرا دیتے ہیں۔
1: قولہ: الغرض ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکرؓ کا مقدمہ فدک میں صادر کردہ فیصلہ نہ ہی اخلاقی لحاظ سے درست تھا نہ ہی قانونی مراتب سے۔
جواب: سبحان اللہ گالیوں اور لعن طعن کو مذہب بنانے والے اور کتاب و سنت چھوڑ کر اپنے دین کے منبع ائمہ سے ان طعن کی ہی تعلیم پانے والے لوگ اہلِ سنت اور ان کے اکابر کو اخلاقی لحاظ سے نادرست بناتے ہیں درج ذیل مکالمہ سے آپ خود فیصلہ کر لیں کہ کس کا اخلاق درست ہے۔
حضرت فاطمہؓ نے فرمایا قسم بخدا میں ہرگز تجھ سے کلام نہ کروں گی حضرت ابوبکرؓ نے کہا واللہ میں ہرگز تجھ سے دوری اختیار نہ کروں گا سیدہ فاطمہؓ نے کہا واللہ میں خدا کے حضور تجھ پر نضرین کروں گی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا واللہ میں تمہارے لیے دعا کروں گا۔
(حق الیقین از شیعہ علامہ مجلسی: جلد، 2 صفحہ، 56)
بغض و قطع رحمی کا کتنا بڑا بہتان سیدہ فاطمہؓ پر شیعہ نے لگایا مگر سیدنا ابوبکرؓ کا تو مقرب سیدہ فاطمہؓ اور دعاگو ہونا خود روایت کیا قانون کتاب و سنت کا نام ہے اسی کے مطابق آپ نے فیصلہ کیا۔
2: قولہ: یہ فیصلہ فطرت کے فیصلوں کے بھی خلاف ہوا اور عقل و دانش کی کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتا۔
جواب: یہ ہوائی گپ ہے اور پورا رسالہ اسی ہوا سے بھرا ہوا غبارہ ہے جو احمقوں کی نگاہ میں اُڑ تو سکتا ہے مگر کتاب اللہ سنت نبویﷺ عمل اہلبیتؓ اور عقل سلیم کے سامنے پرِ کاہ کا وزن نہیں رکھتا فطرۃ اللہ کا فیصلہ مال فے کی ذوی القربیٰ غرباء، مساکین اور مسافروں میں تقسیم کا بے عقل و دانش کی کسوٹی انبیاء اور اہلبیت رضی اللہ عنہم کو زاہد بتاتی ہے جاگیردار ہو تاکہ اگر وہ نہ ملے فقراء و مساکین کا حق بنا دیا جائے تو پوری امت سے دشمنی رکھ لی جائے۔
3: قولہ: اس فیصلہ کو نہ ہی کتاب خدا سے کوئی تائید حاصل ہے نہ ہی سنتِ رسول سے توثیق میسر آتی ہے یہ وہ فیصلہ ہے جس کے خلاف خود منصف نے عمل کیا اس فیصلہ کو اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مسترد کر دیا۔
جواب: تینوں دعوے بالکل جھوٹ اور بہتان ہیں (سورۃ الحشر: پارہ، 28) کی آیات پھر دیکھ لیں کہ مالِ فے فدک وغیرہ 8 قسم کے لوگوں کا حق ہے کسی فرد واحد کی میراث و ملکیت نہیں:
كَىۡ لَا يَكُوۡنَ دُوۡلَةًۢ بَيۡنَ الۡاَغۡنِيَآءِ مِنۡكُمۡ الخ۔ (سورۃ الحشر: آیت، 7)
ترجمہ: تاکہ وہ اموال و جاگیریں تمہارے غنیوں کے درمیان نہ پھرتی رہیں۔
وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَالۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ الخ۔ (سورۃ الاسراء: آیت، 26)
ترجمہ: آپ رشتہ داروں کو حق الخدمت دیں اور مساکین و مسافروں کو بھی دیں بھی یہی بتاتی ہے کہ مال فے صرف ذوی القربیٰ کا حق نہیں کہ ان کو ہی ہبہ کردو کہ وہ مسکینوں مسافروں کا بھی حق ہے جب وہ لاتعداد اور غیر معین ہیں تو یہ ذوی القربیٰ کو ہبہ کے بجائے تینوں اقسام پر وقف عام قرار پائے گا اور یہی فیصلہ خود حضورﷺ نے اور حضراتث شیخینؓ نے کیا اب مؤلف اپنی ہی تحریر اور روایت سے یہ فیصلہ پڑھیں جسے سچا کہتے ہیں اے فاطمہؓ تم نہ اپنے حق سے روکی جاؤ گی اور نہ سچ بولنے سے باز رکھی جاؤ گی خدا کی قسم میں نے نہ تو رسولِ خداﷺ کی رائے سے تجاوز کیا اور نہ ان کے حکم کے بغیر کوئی کام کیا آبِ ودانہ کی تلاش میں آگے جانے والا اپنے اہلُ و عیال سے جھوٹ نہیں بولتا میں خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں اور وہ گواہی کے لیے کافی ہے کہ میں نے رسول خداﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم گروہِ انبیاء نہ تو سونے چاندی کو میراث میں چھوڑتے ہیں اور نہ مکان جائیداد، ہم نبی لوگ تو کتاب حکمت علم نبوت کو وارثت میں چھوڑ جاتے ہیں اور جو کچھ ہمارا مال ہوتا ہے وہ ہمارے بعد ولی امر حاکم کا ہوتا ہے جیسے کافی کی حدیث بھی گزر چکی ہے اسے اختیار ہے کہ وہ اس میں اپنا حکم جاری کرے اور جو تم مانگ رہی ہو یعنی فدک اس کو ہم نے جنگی گھوڑوں اور سامان جنگ کے لیے مخصوص کر دیا جس کے ذریعے سے مسلمان کافروں سے جہاد کریں گے اور سرکش فاسقوں کا مقابلہ کریں گے اور یہ چیز میں نے تنہا اپنی رائے سے نہیں کی بلکہ مسلمانوں کی اجماع کی مدد سے کی ہے اور میرا مال آپ کا مال ہے اور آپ کے سامنے حاضر ہے آپ کی فضیلت کا انکار نہیں ہوسکتا آپ کے فرع و اصل کو پست نہیں سمجھا جاسکتا آپ کا حکم اس مال میں نافذ ہے جو میری ملکیت ہے پس کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ میں نے ان باتوں میں آپ کے والد محترم کی مخالفت کی ہے یہ شیعہ روایت صدیق کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آپ نے مجمع عام میں واضح کیا کہ میں نے حضورﷺ کے قول و فعل کے ذرہ بھر بھی خلاف نہیں کیا اور سب مسلمان اسی کی تائید کر رہے تھے تبھی تو روایت شیعہ حضرت فاطمہؓ نے (معاذ الله) فرمایا کیا تم لوگوں نے اللہ کے رسولﷺ پر جھوٹ باندھ کر اس کے ذریعہ دغا بازی کا اجماع کر لیا ہے پھر جب اس کے جواب میں سراپہ رأفت و رحمت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا خدا بھی سچا اللہ کا رسول بھی سچا اور رسول کی بیٹی بھی سچی تم حکمت کا معدن ہدایت و رحمت کا مسکن دین کا رکن ہو تمہارے درست باتوں کو حق سے دور نہیں سمجھتا اور تمہارے کلام کا انکار نہیں ہے لیکن میرے اور تمہارے درمیان یہ مسلمان ہیں جنہوں نے مجھے حاکم بنایا اور میں نے جو کچھ اپنے قبضے میں لیا ہے وہ انہی مسلمانوں کے اتفاق سے ہوا ہے اس میں نہ میں نے ہٹ دھرمی کی ہے اور نہ اپنی رائے سے کام لیا ہے اور یہ لوگ اس کے گواہ ہیں۔
(ایضاً صفحہ، 38 و حق الیقین: جلد، 2 صفحہ، 53) اس کے جواب میں جو جلی کٹی اور سخت سست صلاتیں سیدہ فاطمہؓ نے معاذ اللہ بروایت شیعہ مسلمانوں کو سنائیں ہمارے قلم میں ان کے نقل کرنے کے تاب نہیں پھر ان مسلمانوں میں آپ کے بزرگوار خاوند اسد اللہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی تھے وہ خیر سے آج تو باعتقادِ شیعہ ہر فاسق و فاجر شیعہ کے مددگار و مشکل کشا ہیں جو ان کو اپنے گناہوں کی پاداش میں پھنس کر بھی مصیبت میں پکارے مگر انہوں نے مخدرہ مظلومہ لختِ جگر رسولﷺ کی زوجہ ہونے کے باوجود مدد و اعانت نہ کی تھی حتیٰ کہ تنہا ان مجمعوں سے خطاب کر کے جب سیدہ گھر پہنچی تو گرجتی ہوئی شیرنی کی طرح سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو جو کچھ برا بھلا کہا وہ بھی شیعہ روایات و حق الیقین: جلد، 2 صفحہ، 54 سے ہم نقل کرنے کی جرأت نہیں رکھتے ہمارا مقصد یہ شیعہ اقتباسات نقل کرنے سے صرف یہ ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کہ دعویٰ کی تائید کسی مسلمان نے نہیں کی اور شیعہ کے تینوں دعوے غلط ثابت ہوئے کیونکہ کتاب و سنت کے بعد سب کا اکابر وساغر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تائید و حمایت کی یہ تو سب کچھ شیعہ روایات نے بتایا جبکہ ہمارا موقثف یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فرمان۔ رسولﷺ سن کر فیصلہ پر مطمئن اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے راضی مسلمانوں سے خوش اور فدک معین حصہ کے ملنے پر راضی و شاکر تھیں یہ خطبہ بالا اور غیر اخلاقی نہ شایانِ شان گفتگو آپ پر بہتان محض ہے جو دشمن اسلام و اھلبیت شیعوں نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں دینے سیدہ فاطمہؓ کو بے وقار اور طالبِ دنیا بتانے کے لیے خود بنا کر اپنی کتب میں مشہور کیا۔ (معاذ اللہ)
4 قولہ: اس فیصلے سے اہلِ بیتؓ کو اذیت پہنچی عمِ رسول حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس فیصلہ کو کاذب آثم غادر اور خائن منصف کا فیصلہ قرار دیا دامادِ رسول حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اسے ہرگز قبول نہ کیا۔
جواب: اتفاقاً کسی بزرگ کے قول و فعل سے کسی بزرگ کو صدمہ پہنچنا قابلِ طعن نہیں ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے بچھڑا پوجنے اور حضرت ہارون علیہ السلام کے فہمائش کے سوا کوئی سخت اقدام نہ کرنے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو صدمہ ہوا اور بھائی پر گرفت فرمائی۔ (القرآن)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو شادی کے بعد بروایتِ جلاء العیون شکایات پیدا ہوئی حضرت حسین قیس بن شہد اور دیگر شیعانِ حسنؓ کو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے فیصلہ صلح بیعت سے ناگواری اور اذیت ہوئی مگر کسی پر کوئی طعن نہیں کیا جاتا یہاں پہ طعن کا موقع نہیں بقول مجلسی بزرگوں اور مقربان الہی کے معاملات میں دخل نہ دینا چاہیئے۔ (جلاء العیون)
دوسری بات بالکل بہتان محض ہے مسلم کی روایت کے مطابق یہ الفاظ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے حق میں فرمائے جب کہ دونوں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف سے صدقاتِ فدک تقسیم کرنے میں متولی تھے مگر مزاج کے اختلاف سے نزاع اور مخالفت کی نوبت آجاتی تو حضرت عباسؓ نے حضرت عمرؓ سے مطالبہ کیا کہ مجھے اس شخص سے چھٹکارا دلائیے یعنی میرا حصہ تولیت الگ کر دیجئے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسے منظور نہ کیا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ مستعفیٰ ہوگئے سیدنا علی المرتضیٰؓ تنہا صدقات کے متولی اور قاسم قرار پائے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چچا بھتیجے کی جب یہ تلخی دیکھی اس مطالبہ کو شخصی میراث اور تملیک کے مشابہ سمجھا اور مطالبہ رد کر کے استفہامیہ انداز میں کہا کہ کیا تم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایسا ایسا سمجھتے تھے کیا اس نے بطورِ وارث و ملک تقسیم نہ کیا تھا حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ وہ بار راشد تابع الحق تھے کیا تم مجھ کو ایسا جانتے ہو حالانکہ میں بھی رسول اللہﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ولی اور تابع ہوں خدا کی قسم میں تا قیامت ان کے فیصلے کو ہرگز نہیں بدل سکتا اگر تم مشترکہ متولی نہیں رہ سکتے تو یہ مجھے واپس کر دو میں کسی اور کو متولی بنا دوں گا ابو داؤد و مسلم یہاں معناً حرف استفہام مقدر ہے جیسے سورۃ انعام: پارہ، 7 میں قوم کے ساتھ گفتگو میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کہ کلام میں حرف استفہام مقدر مانا جاتا ہے یہ سورج میرا رب ہے یہ چاند میرا رب ہے یہ ستارے میرے رب ہیں یعنی کیا یہ چیزیں میرے خدا ہیں ہرگز نہیں تو اسی طرح مقولہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا مطلب ہے کیا تم حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو یا مجھ کو ایسا ایسا سمجھتے ہو کہ اس فیصلہ کے خلاف کروانا چاہتے ہو ہرگز ایسا نہ ہوگا زوجِ بتول سیدنا علیؓ نے یہ فیصلہ یقیناً قبول کیا تبھی تو حضرت فاروقِ اعظمؓ کے نائب ہو کر صدقاتِ فدک کے متولی اور قاسم بنے اگر نہ مانتے تو یہ عہدہ کیوں قبول کرتے منکر و مستعفیٰ ہو جاتے۔
قولہ 5: مسلمانوں کے مملکت کے سربراہ کی حیثیت سے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو یہ چاہیئے تھا کہ کہ وہ دیگر مقدمات کی طرح اس مقدمہ کو بھی دیگر صحابہؓ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورہ سے کسی فرد عادل صحابی کو غازی مقرر کر دیتے جو اس تنازعہ پر اپنا فیصلہ صادر کرتا۔
جواب: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورہ اور اتفاق سے یہ کام کیا جیسے ابھی گزرا تو اس بے فائدہ نفاظی کا کوئی فائدہ نہیں ہاں یہ دعویٰ اور مطالبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل اور حقانیت پر مہر فاطمی ثبت کر رہا ہے کیونکہ جب وہ مدعا علیہ تھے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دعویٰ حضرت علیؓ حق کی عدالت میں یا مسلمانوں کے کسی عدالتی پنج میں کرنا چاہیئے تھا مدعی مقدمہ کا فیصلہ مدعیٰ علیہ کے دربار سے کرائے عقل و دانش کے خلاف ہے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ عمل کیا حالانکہ ظالموں سے فیصلہ کرانے کی کتب شیعہ میں ممانعت ہے اور حضرت فاطمہؓ ان کے ہاں معصوم ہیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا خلیفہ راشد عادل برحق ہونا ثابت ہوا۔
قولہ 6: ہم کہتے ہیں نصابِ شہادت کی ضرورت وہاں ہوتی ہے دعویٰ کی تردید کرنے والا کوئی دوسرا موجود ہو اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بالفرض محال مدعا علیہ نہ تھے بلکہ میں قاضی تھے تو اب شہادت کے نصاب کی قطعاً ضرورت باقی نہیں رہی صرف عادل منصف کو اپنی تسلی درکار ہے۔
جواب: دراصل مدعا علیہ سب سے فقراء مساکین اور مسافر مسلمان تھے ان کا حق اس دعویٰ سے متاثر ہوتا تھا بحیثیتِ ولی و سربراہ حضرت ابوبکرؓ ان کے نمائندے و فریق تھے اب نصابِ شہادت کی باقاعدہ ضرورت تھی اور وہ پوری نہ ہوئی اور عادل منصف کو درکار تسلی حاصل نہ ہوئی طبقات ابنِ سعد: جلد، 2 صفحہ، 415 اردو تبع نفیس اکیڈمی کراچی سے ملاحظہ ہو:
حضرت ابوبکرؓ نے کہا باخدا آپ کے والد مجھ سے بہتر تھے آپ اللہ میری بیٹیوں سے بہتر ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ ہم کسی کو وارث نہیں بناتے ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے یعنی اموال موجودہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کے والد نے وہ آپ کو دے دیا ہے؟ وہ اللہ اگر آپ ہاں کہہ دیں تو میں ضرور ضرور آپ کا قول قبول کروں گا اور ضرور ضرور آپ کی تصدیق کروں گا انہوں نے کہا میرے پاس حضرت امِ ایمن رضی اللہ عنہا آئیں اور انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ رسول اللہﷺ نے فدک مجھے دیا ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا پھر آپ نے بھی آنحضرتﷺ کو فرماتے سنا کہ فدک آپ کے لیے ہے؟ اگر آپ کہیں دیں گی کہ میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ فدک آپ کے لیے ہے تو میں آپ کی تصدیق کروں گا حضرت فاطمہؓ نے کہا جو دلیل میرے پاس تھی اس سے میں آپ کو آگاہ کر چکی ہوں اس سے معلوم ہوا کہ حضرت امِ ایمنؓ کے کہنے پر ہی سیدہ فاطمہؓ نے مطالبہ کیا تھا اپنا ذاتی سماع از پیغمبر وثقہ یا کوئی شہادت نہ تھی ظاہر ہے کہ نصاب شہادت نہ تھا پھر آپ کے پاس نفی میراث پر حدیث ذاتی سماع سے تھی سیدہ فاطمہؓ کے پاس نہ تھی تو منصف عادل ثبوت اور تسلی کے بغیر اپنے سماع و علم کے خلاف کیسے فیصلہ دے سکتا تھا۔
قولہ 7: مؤلف کا دعویٰ ہے کہ حدیث خلافِ عقل ہے کیونکہ سب لوگ اپنے آباء کی میراث پائیں مگر اولاد انبیاء محروم رہے اور امت کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جائے تو جواب یہ ہے کہ انبیاء کے عالی رتبی کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی وارث وقف عام ہو تاکہ کوئی وارث ان کی موت کی تمنا نہ کر سکے پھر ایسے اعمال جو نبوت اور حکومت کے زور سے حاصل ہوں وہ بیتُ المال کا حصہ ہوں اگر وہ بھی ورثاء میں تقسیم ہوں تو عقل کا فیصلہ ان کے زہد و للہیت کے خلاف ہوگا ہاں وہ امت کے رحم و کرم کے محتاج نہ ہوں گے بیتُ المال سے خوبصورت خمس یا فے سے ان کو حصہ باقاعدہ ملے گا اور وہ خلفاء ان کو دیتے رہیں گے پھر عام نفلی تبرع اور ہبہ میں ان کو مقدم رکھا گیا ہے کیونکہ زکوٰۃ و صدقاتِ واجبہ ان پر حرام ہیں تو شریعت کا فیصلہ ان کے متعلق معتدل ہیں۔
قولہ 8: مؤلف کا دعویٰ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ فدک ذاتی تصرف میں لائے کسی روایت سے معلوم نہیں ہوتا کہ فدک کی آمدنی کو مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
جواب: یہ ڈھٹائی سے دروغ محض ہے سیرت و تاریخ کا ایک ایک ورق بتاتا ہے کہ آپ حضورﷺ کے بعد زاہد ترین تھے بصورتِ خلیفہ جو رقم بیتُ المال سے مسلمانوں کے مجبور کرنے پر لی تھی وہ بھی وفات پر زمین بیچ کر واپس کرا دی بیتُ المال بھی سب تقسیم کر دیا تھا کوئی چیز باقی نہ تھی جب سیدنا عمر فاروقؓ نے حضورﷺ و سیدنا ابوبکرؓ کی تقسیم کا حوالہ دے کر صدقاتِ فدک کا ناظم و خازن سیدنا عباس رضی اللہ عنہ و سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو بنا دیا اور وہ خود بنو ہاشم کے علاوہ تمام فقراء و مساکین پر صرف کرتے تھے تو اس کا انکار دوپہر کے سورج کا انکار ہے۔
(طبقاتِ ابنِ سعد: جلد، 3 صفحہ، 40)
اردو میں ہے کہ وفات کے وقت ان کے پاس نہ کوئی دینار تھا نہ کوئی درہم صرف ایک خادم ایک دودھ والے اونٹنی دودھ دوہنے کا برتن تھا سیدنا عمرؓ نے اسے اپنے پاس لاتے دیکھا تو کہا اللہ سیدنا ابوبکرؓ پر رحمت کرے انہوں نے اپنے بعد والے کو مشقت میں ڈال دیا۔
9: کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث واقعہ کے خلاف ہے کیونکہ خود حضورﷺ نے اپنے باپ کی میراث پائی تھی اگر یہ استدلال تام نہیں ہے کیونکہ آپ اس وقت گو فی علم اللہ نبی مقرر تھے مگر بزعمِ خویش اور بالفعل نہ تھے تمام سنی اور شیعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ بعثتِ نبوی 40 سال کے بعد ہوئی پھر قرآن اترنا شروع ہوا اس سے قبل نبی کی حیثیت سے آپ نامور تھے نہ نبوت سے متعلقہ خصوصی احکام آپ پر جاری تھے بخدا اس کے مروجہ برائیوں سے آپ پاک دامن اور معصوم تھے۔
10: کہا جاتا ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ نے خود اس حدیث کے خلاف کہ حضرت عمرؓ کو خلیفہ بنایا تو انہوں نے حضرت عباسؓ حضرت علیؓ کو اس کا متولی بنا دیا حالانکہ بطورِ وارث مالک بنانا اور ہے اور باحیثیتِ متولی و خازن تقسیم کا ذمہ دار بنانا اور ہے۔
11: مؤلف کا دعویٰ ہے کہ حدیث نفی میراث لاوارث ہے اپنی نوعیت کی حدیث صرف حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ اور حضرت عائشہؓ سے مروی ہے اس کا شانِ نزول بھی معلوم نہیں حالانکہ اس کی سنی اور شیعہ کتب سے بالمعنیٰ تخریج ہم کرچکے ہیں۔
(طبقاتِ ابنِ سعد: جلد، 2 صفحہ، 413)
اردو میں ہے سیدہ عائشہؓ حضرت عمرؓ بن الخطاب حضرت عثمانؓ بن عفان حضرت علیؓ بن ابی طالب حضرت زبیر بن العوامؓ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب سے مروی ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا ہم کسی کو وارث نہیں بناتے ہم جو چھوڑیں وہ صدقہ ہے اس سے رسول اللہﷺ کہ مراد اپنی ذات تھی پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث لا يقسم ورثتی دنیا را ولا درهما پیش کی ہے اور سو نیک صحابی سے روایت بھی حجت ہے چہ جائیکہ وہ ایک اکابر جماعتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے ہر آیت یا ہر حدیث کا شانِ نزول پایا جانا نہ ایمان و عمل کے لیے ضروری ہے نہ معلوم کرنا ممکن ہے اصول و کلیات بغیر شانِ نزول کے بیان ہوتے رہتے ہیں کسی خاص سببِ واقعہ کی ضرورت نہیں ہوتی برخلاف اس کے حدیث غدیر ولایت حضرت علیؓ سے شکایت کی ازالہ کے لیے ارشاد فرمائی گئی تھی حدیث منزلت ان کی تسلی کے لیے اور ہاں ثقلین قرآن و سنت بطورِ وصیت ارشاد فرمائی گئی تھی۔
12: مؤلف کا دعویٰ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اہلِ بیتؓ کا خمس بند کر کے رسول کے خلاف کیا۔
جواب: یہ مغالطہ ہے ورنہ سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ سب سہمِ ذو القربیٰ (خمس الخمس) کو حضورﷺ کے اقرباء اور بنی ہاشم میں تقسیم کرتے تھے اور تقسیمِ خمس کے متولی سیدنا علی المرتضیٰؓ ہوتے تھے چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں حضرت علیؓ فرماتے ہیں میں نے حضورﷺ سے درخواست کی آپ ہمارے حق خمس پر مجھے والی بنا دے تو میں آپ کی زندگی میں تقسیم کروں تاکہ آپ کے بعد ہم سے کوئی جھگڑا نہ کرے تو حضورﷺ نے مجھے والی بنا دیا تو میں نے آپ کی زندگی میں سے تقسیم کیا ہے۔
ثمہ و لانیه ابوبکرؓ ققسمته فی حياته ثمہ ولانيه عمرؓ فقسمته فی حياتنه۔
ترجمہ: پھر مجھے حضرت ابوبکرؓ نے والی بنایا تو میں نے ان کی زندگی میں تقسیم کیا پھر حضرت عمرؓ نے مجھے ماری بنایا تو میں نے ان کی زندگی میں بھی تقسیم کیا حتیٰ کہ حضرت عمرؓ کے آخری سال تھے آپ کے پاس بہت مال آیا انہوں نے ہمارا جدا کیا اور میری طرف قاصد بھیجا کہ لے لو اور تقسیم کرو میں نے کہا اے امیر المؤمنین ہم مالدار ہیں اور مسلمان حاجت مند ہیں یہ ان کو واپس کر دیجئے۔
(کتاب الخیر لابی یوسف: صفحہ، 40 با ف قسمتہ الغنائم ط مصر)
بالکل یہ روایت سننِ ابی داؤد: جلد، 2 صفحہ، 61 باب مواضع قسم الخمس میں ہے اور امام احمد نے اپنی سند کے سات مسندات علی مسند احمد: جلد، 1 صفحہ، 84 میں ذکر کی ہے فاضل بیہقی نے کی سنن الکبریٰ: جلد، 6 صفحہ، 343 باب سہم ذوالقربیٰ من الخمس میں اپنی سند سے اور مسند ابی لیعلیٰ: صفحہ، 243 میں باسند سیدنا علیؓ سے مروی ہے امام بخاری نے تاریخ کبیرق: جلد، 1 صفحہ، 381 میں بالفاظِ ذیل یہ روایت درج کی ہے:
عن بن ابی لیلی قال سمعت علياؓ قال سألت النَّبِیﷺ ان يولينی الخمس فاعطانی ثمر ابوبکرؓ فاعطانی ثمر عمرؓ فاعطانی۔
ترجمہ: ابنِ ابی لیلی نے کہا میں نے حضرت علیؓ سے سنا، فرمایا میں نے حضورﷺ سے سوال کیا تھا کر خمس پہ مجھے نگران بنادیں تو مجھے بنا دیا پھر حضرت ابوبکرؓ نے بھی بنایا حضرت عمرؓ ہم نے بھی بنایا۔ (بحوالہ رحماء بینیم حصہ دوم)
اور شیعہ بھی اسے تسلیم کرتے ہیں چنانچہ حق الیقین: جلد، 2 صفحہ، 59 پر ہے حضرت ابوبکرؓ نے کہا میں اس آیت سے یہ نہیں سمجھتا کہ وہ تمام تمہیں کو دوں مگر جس قدر تم کو کافی ہو میں تم دیکھتا ہوں اور حضرت عمرؓ نے بھی اس باب میں اس کی تصدیق کی اور جو یہ حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔
کان ابوبکرؓ يأخذ علتها فيدفع اليهم منها ما يكفيهم ويقسم الباقی وكان عمرؓ كن الك ثمر كان عثمانؓ كذ الك ثم كان علیؓ کذالك۔
ترجمہ: ابوبکرؓ فدک وغیرہ کی جائیدادوں کا غلہ لے کر بقدر کفایت تو ضرورت اہلِ بیتؓ کو دیتے باقی تقسیم کر دیتے پھر حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ نے اسی طرح عمل جاری رکھا۔
(1: حدیدی شرح نہج البلاغہ: جلد، 2 صفحہ، 292) (2: شرح نہج البلاغہ لابن میثم بحرانی: جلد، 5 صفحہ، 107 جدید طہرانی)
(3: درہ بخفیہ: صفحہ، 332 )
(4: فیض السلام نقوی: صفحہ، 960 شرح نہج البلاغہ) 13: کہا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے مدعیہ سے قسم لے کر نصاب شہادت کیوں مکمل نہ کر لیا ایک گواہ کو صادق جان کر ڈگری کیوں نہ دی از خود تبرع سے حضرت فاطمہؓ کو دے کر خوش کیوں نہ کیا یا مسلمانوں سے اجازت لے کر کیوں نہ دیا جیسے حضورﷺ نے حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا فدیہ میں بھیجا ہوا ہار مسلمانوں سے اجازت دے کر واپس کر دیا جواب گزارش یہ ہے کہ یہ سب خصوصی ایمرجنسی حالات ہیں ان سے نہ کوئی قاعدہ کلیہ اخذ ہو سکتا ہے نہ ان کی پابندی سنت یا واجب ہے جیسے روزہ توڑ کر دوسرے کا دیا ہوا کفارے کا مال بحکمِ نبوی خود کھانے والے غریب صحابی کے واقعہ سے کوئی عام قانون نہیں نکلتا اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایسا کر دیتے تو ان کی صوابدید ہوتی جب قاضی و حاکم کی حیثیت سے شرائع قانون پر عمل کیا اور بحکمِ قران و سنت مالِ فے کو 8 قسم کے مسلمانوں کا حق قرار دیا تو آپ پر طعن کیوں کیا جائے الحمدللہ مسئلہ فدک پر ہر قسم کے قدیم و جدید مطاعن کا تصفیہ ہو چکا اب حضرت فاطمہؓ کے جنازہ کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
جنازہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ اور حضراتِ شیخینؓ:
شیعہ یہاں تک کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہؓ نے حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کو اپنی جنازے پر نہ آنے کی وصیت کی تھی اور جنازہ رات کو اٹھانے میں یہی مقصود تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہ آنے پائے حالانکہ جب رضامندی کی احادیث اور حضرت فاطمہؓ کے کریمانہ اخلاق کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے یہ بات دل کو نہیں لگتی کہ حضرت فاطمہؓ باغیِ فدک کے چند ٹکے نہ ملنے کی وجہ سے سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ناراض ہو کر رخصت ہوں رات کو دفن کی وصیت پردہ پوشی پرسکون وقت میں مکہ کے استقبال کرنے کی خاطر ہے یا یہ تاثر دینا ہے کہ رسول خدا کی صاحبزادی دنیا سے رخصت ہو کر گویا اہل و عیال اور مسلمانوں کو اپنے نور سے محروم کر کے جا رہی ہیں صیحین کی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رات کو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے دفن کیا اور ابوبکرؓ کو اطلاع نہ کی اور حضرت علیؓ نے جنازہ پڑھا اس سے یہ تاثر تراشنا کے حضراتِ شیخینؓ سے ناراض تھی اور گویا جنازہ میں شرکت سے منع فرما گئیں شعیہ کا غلط استدلال ہے کیونکہ وفات و جنازہ کے اطلاع خود خاوند گھر گھر جا کر نہیں دیتا بلکہ ایسی خبر جنگل میں آگ کی طرح خود پھیل جاتی ہے جہاں تک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ اور مسلمان جنازہ میں شریک تھے بضعہ رسول کا جنازہ اور پیغمبرﷺ پر جان و مال قربان کرنے والے اور خدا سے رضا و جنت کی سندیں پانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غیر حاضر و محروم رہیں یہ کوئی دشمن اسلام تو کہہ سکتا ہے جو حضرت فاطمہؓ کو مسلمانوں کے دلوں میں اتنا بے وقعت ثابت کرنا چاہتے ہیں صحیح العقیدہ مسلمان اس کا قائل نہیں ہوسکتا یہ کہنا کہ حضرت ابوبکرؓ کو نہ وفات کی اطلاع ملی نہ وہ شریک جنازہ ہوئے درایتاً بھی غلط ہے کیونکہ حضرت صدیقِ اکبرؓ کی اہلیہ محترمہ اسماءؓ بنتِ عمیس سب بیماری میں سیدہ فاطمہؓ کے تیماردار اور واحد خدمت گار تھی اور تجہیز و تکفین اور غسلِ سیدہ فاطمہؓ کا کام بھی حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے سانجام دیا اور ان کے جنازہ کے پردہ کا گہوارہ بھی حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ نے بنایا اس حد تک تیماردار اور حاضر خادمہ ہوں اور خاوند کو ان کی وفات و جنازہ کا بھی علم نہ ہوسکے مسلم کی روایت کے مطابق سیدنا علیؓ نے جنازہ پڑھایا اور سیدنا ابوبکرؓ وغیرہ مقتدی بنے ہوں تو کیا اعتراض کی بات ہے حضرت علیؓ والی تھے اور اس کے برعکس حضرت ابوبکرؓ نے امامت کرائی۔ خلیفہ وقت کو اس وقت امام بنایا جاتا تھا تو انکار کی بات نہیں جیسے حضرت حسینؓ نے حضرت حسنؓ کے جنازے پر حاکم مدینہ سعید بن عاص اموی کو امام بناتے وقت فرمایا: لولا انه سنة ما قدمته۔
اگر حاکم سے نماز پڑھانے کی سنت نہ ہوتی تو میں ان کو آگے کرتا بہرحال اصولی طور پر روایات نفی پر روایات اثبات کو ترجیح ہوتی ہے تو جن روایات میں حضرت علیؓ حضرت عباسؓ کے متعلق کے الفاظ وارد ہیں ان سے جنازہ پڑھنا مراد ہے امامت مراد نہیں اب امامت صدیقی کے متعلق صریح احادیث ملاحظہ ہوں۔
عن جعفر بن محمد عن ابيه قال ماتت فاطمةؓ بنت النبیﷺ فجاء ابوبكرؓ وعمرؓ ليصلوا فقال ابوبكرؓ لعلىؓ بن ابى طالب تقدم فقال ما كنت لا تقدم وانت خليفة رسول اللهﷺ فتقدم ابوبكرؓ فصلى عليها اربعاً۔
(كنز العمال: جلد، 6 كتاب الفضائل من قسم الافعال صفحہ، 318)
سیدنا باقرؒ اپنے والد سے راوی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہؓ بنتِ رسول اللہﷺ فوت ہوگئیں تو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ نمازِ جنازہ پڑھنے آئے تو سیدنا ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ سے فرمایا آگے ہوں اور جنازہ پڑھائیں تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں آگے نہیں ہوسکتا جب آپ رسول اللہﷺ کے خلیفہ موجود ہیں پس حضرت ابوبکرؓ آگے بڑھے اور چار تکبیروں سے نماز جنازہ پڑھائی۔
طبقات ابنِ سعد: جلد، 8 صفحہ، 47 اردو پر ہے:
باخبار محمد بن عمر تجدیث قیس بن ربیع از مجالداز شعبی حضرت فاطمہؓ پر حضرت ابوبکرؓ نے نماز پڑھی تھی۔
2: طبقات ابنِ سعد: جلد، ہشتم صفحہ، 29 پر ہے:
عن حماد عن ابراهيم قال صلی ابوبكر الصديقؓ على فاطمةؓ بنت رسول اللهﷺ فکبر علیھا اربعا۔
ترجمہ: حماد ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت فاطمہؓ بنتِ رسول پر نماز جنازہ پڑھائی اور چار تکبیریں کہیں۔
اسی طرح یہ روایت بعینہ سیرت حلبیہ: جلد، 3 صفحہ، 390 پر بھی ہے۔
جو مائل الى التشیع بھی ہیں۔ (وللہ الحمد)
آخری گزارش:
قارئین کرام! یہ مسںٔلہ فدک کی حقیقت جس سے شیعہ کا مقصود صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق اپنی دشمنی کو پختہ کرنا ہے اور بس ورنہ فی نفسہ حضرت فاطمہؓ اور ان کی اولاد سے ہمدردی ان کو مقصود نہیں اگر ہمدردی ہو تو وہ اس مسئلہ میں ایسے کیوں نہیں سوچتے اور بحث کرتے جس سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خاتونِ جنت کی شان دو بالا معلوم ہو چند دن کی خاطر دنیا کے چند ٹکوں کے لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نا محرموں کی عدالت میں چڑھایا جائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے نانوں سے مناظرہ کرایا جائے پھر ناراضی اور دشمنی پیدا کر کے سب مسلمانوں کو جنازہ کی شرکت سے بھی روک دیا جائے صلہ رحمی استغناء صبر اور قناعت جیسی صفات کی نفی پر زور دیا جائے اہلِ اسلام کی نظر میں ان کو بے قدر اور بے وقعت ثابت کیا جائے پھر 1400 سال تک مسلمانوں میں غیر مختتم جدال و مناظرہ کا بازار گرم رکھا جائے بقول شیعہ یہ مذکورہ بالا کارروائی درست ہے یا اس واقعہ کو نیک نیتی سے صرف ایک غلط فہمی پر حمل کرکے طبعی شکر رنجی کو رضا و صلہ رحمی سے دور کر دکھایا جائے حضرت علیؓ اور جملہ اہلِ بیتؓ کے طرز عمل کی تصدیق کی جائے اور ان کی اتباع کی جائے ان کو ظاہر و باطن میں یکساں جان کر نفاق و تقیہ کی ہمت سے بچایا جائے ان کو رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ کا مصداق جان کر ان میں جھگڑے اور اختلافات ثابت نہ کیے جائیں قلبی یا اجتہادی اختلافی امور میں دیانت و انصاف کا مصالحانہ فیصلہ دے کر:
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَةٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَ اَخَوَيۡكُمۡ الخ۔ (سورۃ الحجرات: آیت، 10)
ترجمہ: بےشک مومن بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو پر عمل کیا جائے۔ ہم تو مسلمان ہیں اور:
وَالصُّلۡحُ خَيۡرٌ الخ۔ (سورۃ النساء: آیت، 128)
ترجمہ: صلح ہی بہتر ہے ہی پسند کرتے ہیں تعلیمِ قرآنی کے مطابق اگلے پچھلے سب مسلمانوں کے لیے یہ دعا مانگتے ہیں اے اللہ ہمیں بخش دے اور ہمارے پہلے مؤمن بھائیوں کو بھی اور ایمان والوں کے حق میں ہمارے دل میں کینہ نہ رکھ: رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ ۞ (سورۃ الحشر: آیت، 10)