خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کی نبی اکرمﷺ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے ساتھ قرابتیں اور رشتہ داریاں
علامہ مولانا عبد الرحیم بھٹوخلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفانؓ اور ان کی اولاد کی نبی اکرمﷺ اور اہلِ بیت کے ساتھ قرابتیں اور رشتہ داریاں
پہلا رشتہ
سیدنا عثمان غنیؓ (رسولﷺ کے داماد ہیں)
حضورﷺ کی دو بیٹیاں یعنی سیدہ رقیہؓ اور سیدہ اُمِ کُلثومؓ یکے بعد دیگرے سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں اس وقت آئیں، جب نزولِ قرآن کا زمانہ تھا۔ اس وجہ سے آپؓ کو ذوالنُورین کہا جاتا ہے(یعنی دونور والا) سیدہ رقیہؓ کی رحلت کے بعد نبیﷺ نے اپنی پیاری دختر سیدہ اُمِ کُلثومؓ کا نکاح بھی سیدنا عثمانؓ کے ساتھ کردیا۔ پھر جب سیدہ اُمِ کُلثومؓ کا بھی انتقال ہوگیا تو رسولﷺ کو بہت صدمہ ہوا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے سب عثمانؓ کو دیتا رہتا۔
بعض بے علم شیعوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺکی صرف ایک ہی بیٹی سیدہ فاطمۃالزہرہؓ تھیں، جو کہ سیدنا علیؓ کے عقد میں آئیں، باقی دوسری بیٹیاں تھیں ہی نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شیعہ اگر ان کو دخترانِ نبیﷺ تسلیم کرتے ہیں تو پھر لازماً سیدنا عثمان غنیؓ کو داماد رسولﷺ ماننا پڑے گا۔ اگر سیدنا عثمانؓ کو دامادِ رسول ﷺ کرتے ہیں تو پھر ان کی عزت، عظمت، شرافت اور کاملِ ایمان و الیقین ہونے کا اقرار بھی کرنا پڑے گا اور یہ شیعوں کے لئے بہت مشکل ہے کیونکہ ان کا سینہ سیدنا عثمانؓ کے بغض سے بھرا ہوا ہے اور ان کاکلیجہ سیدنا عثمانؓ کی دشمنی کی وجہ سے رات دن جلتا ہی رہتا ہے۔ اس لئے انہوں نے سیدہ رقیہؓ اور سیدہ ام کلثومؓ کو دخترانِ نبیﷺ تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔
درِحقیقت حضورﷺ کی چار بیٹیاں تھیں۔زینبؓ، رقیہؓ، اُمِ کُلثومؓ اور فاطمہؓ ۔ ان میں سے سیدہ زینبؓ سیدنا ابو العاصؓ کے نکاح میں آئیں اور سیدہ رقیہؓ سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں آئیں اور سیدہ فاطمہؓ کا نکاح سیدنا علیؓ کے ساتھ ہوا۔
اب میں شیعوں کی کتابوں کی فہرست آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں، جن میں سیدہ زینبؓ ، سیدہ رقیہؓ اور اُمِ کلثومؓ کے اسماء گرامی موجود ہیں۔ وہ اس طرح کہ بعض کتب میں ایک نام ملتا ہےاور بعض میں دو اور بعض میں تینوں نام ظاہر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ تینوں نام کتب شیعہ میں صراحت کے ساتھ موجود ہیں۔ لیکن جاہل اور ضدی شیعہ انکار کرتے ہیں۔کیونکہ حقیقت کو تسلیم کرنے میں انہیں موت نظر آتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
¹- شیعہ کی معتبر کتاب، قرب الاسناد صفحہ6۔7 مطبوعہ ایران دیکھیں عکس صفحہ 197
²-شیعہ کی معتبر کتاب،خصال شیخ صدوق قمی جلد1 صفحہ 167 حدیث 67 دیکھیں عکس 206
³-شیعہ کی معتبر کتاب، الانوار النعمانیہ جلد1 صفحہ 367، نور فی مولود النبیؐ مطبوعہ ایران دیکھیں عکس صفحہ240
⁴-شیعہ کی معتبر کتاب، اعلام الوریٰ صفحہ140،141 ذکر ازواج النبی ﷺ و اولادہ طبع ایران عکس صفحہ 227
⁵-شیعہ کی معتبر کتاب،وسائل الشیعہ جلد7 صفحہ 178، کتاب النکاح مطبوعہ بیروت، عکس صفحہ234
⁶-شیعہ کی معتبر کتاب، تفسیر مجمع البیان طبرسی جلد3 صفحہ 233، مطبوعہ ایران، عکس صفحہ349
⁷-شیعہ کی معتبر کتاب، بحارالانوار جلد22 صفحہ 151، باب عدد اولادہ علیہ السلام عکس صفحہ211
⁸-شیعہ کی معتبر کتاب،مجالس المؤمنین جلد1 صفحہ 204، مطبوعہ ایران۔ عکس صفحہ 352
⁹-شیعہ کی معتبر کتاب، منتہی الآمال جلد1 صفحہ 108 فصل ششم دربیان احوال اولاد عکس صفحہ355
¹⁰- شیعہ کی معتبر کتاب، ناسِخ التواریخ جلد3 صفحہ268، ذکر ازواج و اولاد عثمان طبع ایران عکس صفحہ259
¹¹- شیعہ کی معتبر کتاب، نہج البلاغہ جلد2صفحہ 322، مطبوعہ مصر، شارح شیخ عبدہ عکس صفحہ 145
۱²- شیعہ کی معتبر کتاب، رجال کشی صفحہ 142، تذکرہ زرارہ بن اعین مطبوعہ نجف دیکھیں عکس صفحہ 274
¹³-شیعہ کی معتبر کتاب،تنقیح المقال فی علم الرجال جلد3 صفحہ 77،78 من فصل النسآء عکس صفحہ 280
¹⁴- شیعہ کی معتبر کتاب،حیات القلوب جلد2 صفحہ اول588، باب پنجاہ و یکم۔ طبع ایران عکس صفحہ 310
¹⁵-شیعہ کی معتبر کتاب، مرأۃ العقول جلد5 صفحہ 180،181 کتاب الحجۃ، مطبوعہ ایران عکس صفحہ 315
¹⁶-شیعہ کی معتبر کتاب، اصول کافی جلد1 صفحہ 439، کتاب الحجہ باب مولود النبیؐ۔ ایران عکس صفحہ 163
¹⁷-شیعہ کی معتبر کتاب، تہذیب الاحکام جلد3 صفحہ120 الدعا فی کل یوم من شہر رمضان۔ عکس 188
¹⁸- شیعہ کی معتبر کتاب، امالی شیخ طوسی جلد1صفحہ 42، مطبوعہ ایران دیکھیں عکس صفحہ 389
¹⁹- شیعہ کی معتبر کتاب، منتخب التواریخ جلد1 صفحہ 27 درحالات ازواجات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم طبع ایران عکس صفحہ302
²⁰-شیعہ کی معتبر کتاب، فیض الاسلام شرح نہج البلاغہ صفحہ 528، مطبوعہ ایران عکس صفحہ 157
²¹-شیعہ کی معتبر کتاب، الاستبصار جلد1 صفحہ 485 باب صلوٰۃ الجنائز معہار امرأۃ۔ عکس صفحہ 184
²²- شیعہ کی معتبر کتاب، من لا یحضر ہ الفقیہ جلد4 صفحہ 146، باب الوصیۃ طبع ایران عکس صفحہ 180
²³- شیعہ کی معتبر کتاب،نزل الابرار فی مناقب اہل البیت الاطہار صفحہ 75 عکس صفحہ 393
²⁴-شیعہ کی معتبر کتاب،ذبح عظیم صفحہ 77،78 مطبوعہ لاہور، دیکھیں عکس433
²⁵- شیعہ کی معتبر کتاب، تذکرۃ المعصومین صفحہ 3،4 مطبوعہ ولی العصر ٹرسٹ رتہ میۃ جھنگ عکس صفحہ 439
²⁶-شیعہ کی معتبر کتاب، مسالک الافہام فی شرح شرائع الاسلام جلد1 صفحہ 398، مطبوعہ قم ایران عکس صفحہ 340
²⁷- شیعہ کی معتبر کتاب، قصص الانبیاء از آدم تا خاتم جلد2 صفحہ 780، فرزندان پیغمبرؐ طبع ایران عکس صفحہ410
²⁸- شیعہ کی معتبر کتاب، نقش عائشہؓ صفحہ 143، ذکر عثمان بن عفانؓ تالیف سید مرتضیٰ عسکری عکس صفحہ 408
²⁹- شیعہ کی معتبر کتاب، مفاتیح الجنان صفحہ 212، اعمال ایام شہر رمضان طبع بیروت۔ عکس صفحہ 380
³⁰- شیعہ کی معتبر کتاب، شجرۃ طوبیٰ جلد2صفحہ 238 تا 242، مطبوعہ نجف دیکھیں عکس صفحہ 369
³¹- شیعہ کی معتبر کتاب، زندگانی حضرت فاطمۃ صفحہ 183، مطبوعہ جھنگ پاکستان عکس صفحہ 242
³²-شیعہ کی معتبر کتاب، طراز المذہب مظفری صفحہ 60،63 مطبوعہ بمبئی انڈیا، عکس صفحہ 292
³³-شیعہ کی معتبر کتاب، فاطمہ فاطمہ ہے صفحہ 161،162 مطبوعہ کراچی عکس صفحہ 435
³⁴- شیعہ کی معتبر کتاب،چہادہ معصوم جلد1 صفحہ 224، تالیف حسین عمادہ زادہ طبع ایران عکس صفحہ 462
³⁵- شیعہ کی معتبر کتاب، اعیان الشیعہ جلد3 صفحہ 487، تذکرہ ام کلثوم بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عکس صفحہ 460
³⁶-۔ شیعہ کی معتبر کتاب، سفینۃ البحار صفحہ379، باب تزویج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخدیجہ عکس صفحہ 382
³⁷- شیعہ کی معتبر کتاب، کشف الغمہ جلد1 صفحہ 442، ذکر اولادہ الذکور والاناث نجف عراق
³⁸-۔ شیعہ کی معتبر کتاب، مناقب آل ابی طالب جلد1 صفحہ 162، فصل فی اقربائہ دخدامہ علیہ السلام
³⁹۔ شیعہ کی معتبر کتاب، تحفۃ العوام صفحہ 113 باب 17، مطبوعہ نولکشور انڈیا
⁴⁰ شیعہ کی معتبر کتاب، کتاب سلیم قیس ھلالی صفحہ 255، مطبوعہ قم ایران
⁴¹-۔ شیعہ کی معتبر کتاب، جلاء العیون ج ۔ صفحہ 224، زندگانی فاطمہ علیہا السلام طبع ایران
⁴²۔ شیعہ کی معتبر کتاب، حق الیقین صفحہ 274، ذکر عثمانؓ مطبوعہ ایران
⁴³-۔ شیعہ کی معتبر کتاب، مروج الذہب للمسعودی جلد2 صفحہ 331، ذکر عثمان بن عفانؓ۔ بیروت
⁴⁴- شیعہ کی معتبر کتاب، تفسیر منہاج الصادقین جلد 4 صفحہ 457، زیر آیت ھٰٓؤلآءِ بناتی ایران
⁴⁵- شیعہ کی معتبر کتاب، تفسیر صافی جلد1 صفحہ 327، سورۃ النسآء آیت نمبر 1 مطبوعہ ایران
⁴⁶- شیعہ کی معتبر کتاب، اخبار ماتم صفحہ 85تالیف محمد حسن بن محمد علی طبع رامپور انڈیا
⁴⁷- شیعہ کی معتبر کتاب، تذکرۃ الائمہ صفحہ 26، تالیف باقر مجلسی (المتوفی 1111ھ)
⁴⁸- شیعہ کی معتبر کتاب، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد15صفحہ 195، مناکحات بنی ہاشم و بنی عبد الشمس
⁴⁹-شیعہ کی معتبر کتاب، الکنی والالقاب جلد1 صفحہ 114، ذکر ابوالعاص مطبوعہ بیروت
⁵⁰-شیعہ کی معتبر کتاب، التنبیہ و الاشراف للمسعودی صفحہ255، ذکر خلافت عثمانؓ طبع مصر
⁵¹- شیعہ کی معتبر کتاب، عورت پردے کی آغوش میں صفحہ 201، مطبوعہ کراچی تالیف مرتضیٰ مظہری
⁵²- شیعہ کی معتبر کتاب، بیت الاحزان فی ذکر سیدہ نسا ء العٰلمین صفحہ 133، مطبوعہ اصفہان ایران
⁵³-شیعہ کی معتبر کتاب، حملہ حیدری کرمانی صفحہ 31، متولد شدن دخترانِ پیغمبر از خدیجہ
⁵⁴-شیعہ کی معتبر کتاب، فصل الخطاب صفحہ 125، کتاب نواکرالحکمۃ والعلوم مطبوعہ ایران
⁵⁵-شیعہ کی معتبر کتاب، لباب الانساب صفحہ 337، اولاد الامام امیر المؤمنین طبع ایران
⁵⁶ شیعہ کی معتبر کتاب، عوام العلوم صفحہ 61، تالیف شیخ عبداللہ الحرانی الاصفہانی ایران
⁵⁷- شیعہ کی معتبر کتاب، رسائل الشریف المرتضیٰ جلد3 صفحہ 149، تالیف شریف مرتضیٰ ایران
⁵⁸-شیعہ کی معتبر کتاب، مسکن الفواد صفحہ 95، تالیف زین الدین شہید ثانی مطبوعہ قم ایران
⁵⁹ شیعہ کی معتبر کتاب، مجمع الفائدۃ والبرہان جلد2 صفحہ 470، تالیف احمد الاردبیلی قم ایران
⁶⁰- شیعہ کی معتبر کتاب، فاطمۃ الزہرآء صفحہ 105،230تالیف آغا محمد سلطان میرزادہلوی مطبعہ کراچی
⁶¹-شیعہ کی معتبر کتاب، کتاب الوافی جلد2 صفحہ722 مطبوعہ ایران دیکھئے عکس صفحہ 278
⁶²-شیعہ کی معتبر کتاب، دروس من الثقافۃ الاسلامیۃ صفحہ146، مطبوعہ قم ایران۔ عکس صفحہ415
⁶³- شیعہ کی معتبر کتاب، محمد قدوۃ واسوۃ صفحہ 16، مطبوعہ ایران، عکس صفحہ418
⁶⁴- شیعہ کی معتبر کتاب، العقائد الجعفریۃ صفحہ 25، مطبوعہ ایران عکس صفحہ 421
⁶⁵-شیعہ کی معتبر کتاب، زینب الکبریٰ بنت امیر المؤمنینؓ صفحہ 36، طبع ایران عکس صفحہ 401
⁶⁶- شیعہ کی معتبر کتاب، الزواج الاول لمحمد صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 11، قم یران عکس صفحہ 412
⁶⁷- شیعہ کی معتبر کتاب، تاریخ اسلام صفحہ 191 مطبوعہ کراچی، دیکھئے عکس 455
⁶⁸-شیعہ کی معتبر کتاب، ریاض السالکین جلد1 صفحہ 432، مطبوعہ ایران عکس صفحہ 445
⁶⁹-شیعہ کی معتبر کتاب، فاطمۃ الزہراء قدوۃ و اسوۃ صفحہ 16، قم ایران عکس صفحہ 449
⁷⁰-شیعہ کی معتبر کتاب، المجالس السنیہ صفحہ 45، مطبوعہ قم ایران۔
شیعوں کا محدث شیخ محمد مہدی الحائری لکھتا ہے:
ومن بنات رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم رقية وتزوجها عثمان في الجاهلية فولدت له ابنا سماه عبد الله ربه يكنى وهاجرت مع عثمان الى الحبشة ثم هاجرت معه الى المدينة، وتوفيت سنة أثنين من الهجرة والنبي في غزوة بدر وتوفي ابنها سنة اربع وله ست سنين، وام كلثوم تزوجها عثمان بعد رقية سنة ثلاث وتوفيت في شعبان سنة سبع
حضرت رقیہؓ رسول اللہﷺ کی بیٹی تھیں دورِ جاہلیت میں حضرت عثمانؓ کے ساتھ ان کی شادی ہوئی تھی، جن سے عبداللہ نامی ایک صاحبزادے پیدا ہوئے تھے، رقیّہ نے حضرت عثمانؓ کے ساتھ پہلے حبشہ پر مدینہ ہجرت کی۔ آپ دو ہجری میں فوت ہوئیں۔ اس وقت رسول اللہﷺ بدر کی لڑائی میں مشغول تھے۔ ان کا بیٹا (عبداللہ) 6 سال کی عمر میں سنہ 6ھ میں فوت ہوا۔ رقیہ کی وفات کے بعد سنہ 3 ھ میں حضرت عثمانؓ نے ام کلثومؓ کے ساتھ شادی کی۔ جو ماہ شعبان سنہ7ھ میں فوت ہوئی۔
(شجرۃ طوبیٰ صفحہ 242، المجلس العاشر، مطبوعہ نجف عراق عکس صفحہ369)
(مکتبہ شیعہ شاملہ: شجرة طوبى الشيخ محمد مهدي الحائري 2/ 45)
ان ستر کتابوں میں سے بعض کی عبارتیں پیشِ خدمت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عثمان بن عفانؓ حضور ﷺ کے داماد ہیں اور ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی دو صاحبزادیاں آئیں، اِسی لئے آپؓ کو ذوالنُورین کہا جاتا ہے۔
عبداللہ بن جعفر الحمیری قمی (المتوفی 292ھ) امام حسن عسکریؒ کا خاص شاگرد ہے جو ہارون بن مسلم سے روایت کرتا ہے:
قال: وحدثني مسعدة بن صدقة قال: حدثني جعفر بن محمد، عن أبيه قال: " ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله من خديجة: القاسم، والطاهر، وأم كلثوم، ورقية، وفاطمة، وزينب. فتزوج علي عليه السلام فاطمة عليها السلام، وتزوج أبوالعاص بن ربيعة - وهو من بني امية - زينب، وتزوج عثمان بن عفان أم كلثوم ولم يدخل بها حتى هلكت، وزوجه رسول الله صلى الله عليه وآله مكانها رقية.
وہ کہتا ہے کہ مجھ سے مسعد بن صدقہ نے بیان کیا کہ حضرت جعفر صادقؒ اپنے والد محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ کی زوجہ مطہرہ خدیجہؓ سے قاسم، طاہر، ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اور زینبؓ پیدا ہوئے۔ فاطمہ کی شادی حضرت علیؓ کے ساتھ ہوئی اور زینبؓ کا نکاح حضرت ابوالعاص سے ہوا اور ام کلثومؓ کا نکاح حضرت عثمان بن عفانؓ سے ہوا۔ رخصتی سے پہلے ان کا انتقال ہوگیا تو پھر رسول اللہﷺ نے رقیہؓ کا نکاح (بھی) حضرت عثمانؓ کے ساتھ کردیا۔
(قرب الاسناد صفحہ 6،7مطبوعہ ایران ملاحظہ فرمائیں عکس صفحہ 197
شیعوں کا شیخ عبداللہ مامقانی ماہر فن ااسمآء الرجال (المتوفی 1351ھ) نے بحوالہ قرب الاسناد، اِسی سند کے ساتھ یہی روایت اپنی کتاب تنقیح المقال جلد3 صفحہ 73، منْ فَصْلِ النسآء میں بطور دلیل پیش کیا ہے۔
شیعوں کے ثقۃ المحدیثین ناصر الملۃ والدین شیخ عباس قمی (المتوفی 1359ھ) نے قرب الاسناد کے حوالہ سے یہی روایت منتہی الآمال جلد1 صفحہ108، فصل ہشتم دربیان احوال اولاد آنحضرت، مطبوعہ ایران میں بھی بطور دلیل پیش کی ہے۔ دیکھیں عکس صفحہ355
شیعوں کے بزرگ محدث باقر مجلسی (المتوفی 1111ھ) نے یہی روایت حیات القلوب جلد2، صفحہ588باب پنجاہ ویکم مطبوعہ ایران اور بحار الانوار جلد22 صفحہ 151 باب عدد اولادہ علیہ السلام مطبوعہ بیروت میں بھی بطور دلیل بیان کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں عکس حیات القلوب صفحہ 310 اور عکس بحار الانوار صفحہ 211
یہ ایسی مظبوط اور صحیح روایت ہے، جس کے تمام راوی شیعہ اور ان کے نزدیک ثقہ ہیں بوجہ طوالت ان روایات پر بحث نہیں کرتے:
شیعوں کا رئیس المحدثین صدوق قمی (المتوفی 371ھ) روایت کرتا ہے:
عن أبي عبد الله عليه السلام قال : ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله من خديجة القاسم والطاهر وهو عبد الله ، وأم كلثوم ، ورقية ، وزينب ، وفاطمة . وتزوج علي ابن أبي طالب عليه السلام فاطمة عليها السلام ، وتزوج أبوالعاص بن الربيع وهو رجل من بني امية زينب ، وتزوج عثمان بن عفان ام كلثوم فماتت ولم يدخل بها ، فلما ساروا إلى بدر زوجه رسول الله صلى الله عليه وآله رقية . وولد لرسول الله صلى الله عليه وآله إبراهيم من مارية القبطية
حضرت جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہؓ سے رسول اللہﷺ سے (دو بیٹے)قاسم اور طاہر جسے عبداللہ بھی کہتے ہیں اور چار بیٹیاں ام کلثومؓ، رقیہؓ، زینبؓ اور فاطمہؓ پیدا ہوئیں۔ ان میں سے فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے ہوا اور زینبؓ کا نکاح حضرت ابوالعاصؓ بن ربیع سے ہوا جو کہ بنو امیّہ میں سے ہے اور حضرت ام کلثومؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے ہوا۔ رخصتی سے پہلے ان کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ بدر کے موقعہ پر حضرت رقیہؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ کے ساتھ کردیا اور حضرت ماریہ قبطیہؓ سے رسول اللہﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ پیدا ہوئے۔
دیکھیں خصال شیخ صدوق جلد1 صفحہ 167، حدیث 67 ”کاَنَ لِرَسُوْلِ اللہِ سَبْعَۃ اَوْلاَدٍ“ عکس صفحہ 206
(مکتبہ شیعہ شاملہ: الخصال 1/ 418)
شیعوں کا شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری ( المتوفی 1019ھ) لکھتا ہے:
اگر نبی دختر بہ عثمان داد، ولی دختر بعمر فرستاد
اگر نبی اکرمﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت عثمانؓ کو دی ہے تو حضرت علیؓ نے اپنی صاحبزادی حضرت عمرؓ کو دی ہے۔
(مجالس المؤمنین جلد1 صفحہ 204، مطبوعہ ایران۔ دیکھیں عکس صفحہ352)
شیعوں کے شیخ الطائفہ ابوجعفر طوسی (المتوفی 460ھ اور شیخ حر العاملی (المتوفی 1104ھ) لکھتے ہیں:
قد زوج رسول الله صلى الله عليه وآله أبا العاص ابن الربيع وعثمان بن عفان، وتزوج عايشة وحفصة وغيرهما۔
تحقیق رسول اللہﷺ نے عثمان بن عفانؓ اور ابوالعاص
¹-رجال کشی صفحہ 142، تذکرہ رزارہ بن اعین مطبوعہ نجف دیکھیں عکس 274
²-وسائل الشیعہ جلد2صفحہ433، مطبوعہ بیروت لبنان
(مکتبہ شیعہ شاملہ: رجال الكشي 1)
شیعوں کا مؤرخ شہیر مرزا محمد تقی سپہر (المتوفی 1297ھ) لکھتا ہے:
عثمان را در روزگار جاہلیت و اسلام ہشت زن بحبالہ نکاح در آمد، ازیں جملہ دو تن دخترانِ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم بودند، یکی رقیہ و آں دیگر ام کلثوم۔
زمانہ جاہلیت اور اسلام میں حضرت عثمانؓ کے نکاح میں آٹھ (8) عورتیں آئیں ہیں۔ ان میں سے دو خواتین رسول اللہﷺ کی دو صاحبزادیاں تھیں۔ ایک رقیہؓ اور دوسری ام کلثومؓ۔
(ملاحظہ فرمائیں ناسخ التواریخ، جلد3 صفحہ 268، ذکر ازواج و اولاد عثمانؓ طبع ایران عکس صفحہ 259)
شیعوں کی معتبر و مستند کتاب، نہج البلاغہ میں ہے کہ حضرت علی المرتضیٰؓ نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا:
اَنْتَ اَقْرَبُ اِلیٰ رَسُولِ اللھِ صَلّی اللھ علیہ وسلم وَشِیْجَۃَ رَحِمٍ مِنْہُمَا وَقَدْ نَلْتَ مِنْ صِھْرِھ مَالَمْ یَنَالَا۔
(عثمان!) آپ رشتہ میں رسول اللہﷺ سے ان دونوں (ابوبکرؓ و عمرؓ) سے زیادہ قریب ہیں تمہیں رسول اللہﷺسے دامادی کا شرف حاصل ہے، جو کہ ان دونوں کو حاصل نہیں۔
(نہج البلاغہ جلد1 صفحہ 322، مطبوعہ مصر دیکھیں عکس 145
مفسر القرآن ابو علی الفضل بن حسن طبرسی شیعہ (المتوفی 548ھ) اور باقر مجلسی (المتوفی1111ھ) لکھتے ہیں:
فخرج إليها سرا أحد عشر رجلا و أربع نسوة و هم عثمان بن عفان و امرأته رقية بنت رسول الله
حبشہ کی طرف چھپ کر ہجرت کرکے جانے والے گیارہ مرد اور چار عورتیں تھیں، جن میں حضرت عثمان بن عفانؓ اور ان کی بیوی رقیہ بنت رسول اللہﷺ بھی تھیں۔
¹-تفسیر مجمع البیان جلد3صفحہ 233، مطبوعہ قم ایران دیکھیں عکس صفحہ 348
²-بحار الانوار جلد18صفحہ 412، تاریخ بنینا علیہ السلام بیروت
(شیعہ مکتبہ شاملہ: تفسير مجمع البيان - الطبرسي (3/ 359، بترقيم الشاملة آليا)
(شیعہ مکتبہ شاملہ: بحار الأنوار - العلامة المجلسي (18/ 412، بترقيم الشاملة آليا)
شیعوں کے محدث سید نعمت اللہ الجزائری (المتوفی 1112ھ) اور ابوعلی الفضل بن حسن طبرسی (المتوفی 548ھ) لکھتے ہیں:
وقد كان عثمان هاجر إلى الحبشة ومعه رقيّة. وأمّا اُم كلثوم فتزوّجها أيضاً عثمان بعد اُختها رقيّة وتوفيّت عنده.
بیشک حضرت عثمانؓ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، ان کے ساتھ حضرت رقیہؓ بھی تھیں اور رقیہؓ کی وفات کے بعد حضرت ام کلثومؓ سے بھی حضرت عثمانؓ نے نکاح کیا اور ان ہی کے نکاح میں ام کلثومؓ کی وفات ہوئی۔
¹- الانوار النعمانیہ جلد1 صفحہ 367، نور فی مولود النبیؐ طبع تبریزی ایران عکس صفحہ 240
²-اعلام الوریٰ صفحہ 140، ذکر ازواج النبی واولادہ مطبوعہ ایران عکس صفحہ227
(شیعہ مکتبہ شاملہ: اعلام الورى بأعلام الهدى (1/ 218)
(بحار الأنوار - العلامة المجلسي (22/ 202، بترقيم الشاملة آليا)
سیدنا عثمان غنیؓ کو ذُو النّورین کیوں کہتے ہیں؟
کُتبِ شیعہ سے وضاحت
شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید شیعی (المتوفی 656ھ) رقمطراز ہے:
قال شيخنا أبو عثمان و لما ماتت الابنتان تحت عثمان قال النبي ص لأصحابه ما تنتظرون بعثمان أ لا أبو أيم أ لا أخو أيم زوجته ابنتين و لو أن عندي ثالثة لفعلت قال و لذلك سمي ذا النورين
ہمارے شیخ ابو عثمان فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمانؓ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے آنے والی دونوں صاحبزادیوں کا انتقال ہوگیا تو حضرت رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ سے ارشاد فرمایا: ”کیا تم عثمان کو رنڈوا سمجھتے ہو؟ میں نے اپنی دو (2) بیٹیاں اس کے نکاح میں دیں۔ اگر میری تیسری بیٹی ہوتی، تو میں وہ بھی عثمانؓ کے نکاح میں دے دیتا“ راوی کہتا ہے کہ اِسی لئے حضرت عثمانؓ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے۔
(ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ 460، المفاضلۃ بین بنی عبدالشمس و بنو ہاشم)
(شیعہ مکتبہ شاملہ: شرح نهج البلاغة - ابن ابي الحديد (/ 2)
شیعوں کی مؤرخ شہیر مرزا محمد تقی سپہر (المتوفی 1297ھ) رقمطراز ہے:
رقیہ با عثمان بحبشہ ہجرت کرد وچوں درمدینہ آمدہ و داع جہان گفت عثمان بعد از او ام کلثوم را عقد بست و از این روئے عثمان را ذوالنورین گفتند
حضرت رقیہؓ نے حضرت عثمانؓ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور جب وہ مدینہ منورہ پہنچیں تو انتقال کرگئیں۔ اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے اُمِ کُلثومؓ کے ساتھ نکاح کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کو ذوالنورین کہتے ہیں۔
(ناسخ التوریخ جلد3 صفحہ 338، آمدن در سرائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ ایران۔
شیعوں کا رکن الاسلام شیخ محمد ہاشم خراسانی مشہدی (المتوفی 1352ھ) لکھتا ہے:
واما مخدرہ مکرمہ ام کلثوم اسم شریفش آمنہ بود و بعد از رقیہ بعثمان تزویج شد، لہٰذا عثمان را”ذوالنورین“ می گویند۔
اور یہ پردہ نشین مکرمہ اُمِ کلثومؓ جن کا اسمِ مبارک آمنہؓ تھا، رقیہ کی وفات کے بعد حضرت عثمانؓ کے نکاح میں آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ذوالنورین کہا جاتا ہے۔
(منتخب التواریخ صفحہ 29، حالات ازواج و اولاد پیغمبر مطبوعہ ایران)
سیدنا عثمانؓ کا نسبی تعلق نبی اکرم ﷺاور سیدنا علیؓ سے تیسری پشت میں عبد مناف سے ملتا ہے۔
حضورﷺ کا سلسلۂ نسب:
محمدﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم
بن عبد مناف الخ
سیدنا علیؓ کا سلسلۂ نسب:
علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف الخ
سیدنا عثمان بن عفانؓ کا سلسلۂ نسب:
عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیّہ بن عبدالشمس بن عبد مناف نسب اور بارسول خدای در عبد مناف پیوستہ شود۔
عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد الشمس بن عبد مناف ان کا نسب رسول اللہﷺ کے ساتھ عبد مناف سے ملتا ہے۔
¹-فیض الاسلام شرح نہج البلاغہ صفحہ 528، مطبوعہ ایران عکس صفحہ 157
²-ناسخ التواریخ جلد3، صفحہ 88، مطبوعہ ایران۔
دوسرا رشتہ
سیدنا عثمان غنیؓ کے بیٹے عبداللہ بن عثمان بن عفانؓ نے سیدنا حسینؓ کی بیٹی سکینہ سے شادی کی
شیعوں کا رُکنُ الاسلام شیخ محمد ہاشم خراسانی مشہدی (المتوفی 1352ھ) لکھتا ہے:
واز اغانی ابو الفرج نقل شد کہ شوہر اول سکینہ جناب عبداللہ بن الحسن المجتبیٰ (ع) بود قال فقتل عنہا ولم یلد لہٗ و بعد از آنکہ آن بزرگوار روزِ عاشورا شہید شد، مصعب بن زبیر بن عوام آن مخدرہ را تزویج نمود و در حبیب الیسر است کہ بعد از مصعب زوجۂ عبداللہ بن عثمان بن عفان شد۔
کتاب الاغانی سے نقل کیا گیا ہے کہ سکینہ کے پہلے شوہر حضرت عبداللہ بن حسن مجتبیٰ (ع) تھے۔ اس کے بعد لکھتا ہے کہ پس وہ شہید ہوگئے۔ بی بی سکینہ سے اُن کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ جب وہ بزرگ عاشورا کے دن شہید ہوئے تو مصعب بن زبیر بن عوام نے اس بی بی سے شادی کرلی۔ کتاب حبیب الیسر میں لکھا ہے کہ مصعب کے بعد یہ بی بی حضرت عبداللہ بن عثمان بن عفان کے نکاح میں آئیں۔
(منتخب التواریخ صفحہ 246، باب پنجم در ذکر اولاد سید الشہدآء دیکھیں عکس صفحہ 306)
تیسرا رشتہ
سیدنا عثمان غنیؓ کے پوتے عبداللہ بن عمر و بن عثمانؓ نے سیدنا حسینؓ کی بیٹی سیدہ فاطمہؓ سے شادی کی
ابن ابی الحدید شیعی (المتوفی 656ھ) شرح نہج البلاغہ جلد15صفحہ 195 مناکحات بنی ہاشم و بنی عبدالشمس مطبوعہ بیروت میں لکھتا ہے:
تزوج عبد الله بن عمرو بن عثمان فاطمة بنت الحسين بن علي بن أبي طالب
عبد اللہ بن عمرو بن عثمانؓ نے حضرت حسین بن علی بن ابی طالب کی صاحبزادی سیدہظ فاطمہ بنتِ حسینؓ سے شادی کی۔
(شیعہ مکتبہ شاملہ: شرح نهج البلاغة - ابن ابي الحديد 1)
شیعوں کا شہید ثانی زین الدین (المتوفی 977ھ) شرح شرائع الاسلام میں بعض نکاحوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
زوج النبي صلى الله عليه وآله وسلم ابنته عثمان، وزوج ابنته زينب بأبي العاص بن الربيع (3)، وليسا من بني هاشم. وكذلك زوج على عليه السلام ابنته ام كلثوم من عمر (4)، وتزوج عبد الله بن عمرو بن عثمان فاطمة بنت الحسين عليه السلام (5)، وتزوج مصعب بن الزبير أختها سكينة (6)، وكلهم من غير بني هاشم
نبی اکرم ﷺ نے اپنی بیٹی کا نکاح حضرت عثمانؓ سے کیا۔ اور ابو العاص بن الربیعؓ کو اپنی صاحبزادی زینب نکاح میں دی یہ دونوں بنوہاشم میں سے نہیں تھے۔ اور اسی طرح حضرت علیؓ نے اپنی صاحبزادی ام کلثوم کا نکاح حضرت عمرؓ سے کیا اور عبداللہ بن عمرو بن عثمانؓ نے حضرت فاطمہ بنت حسین سے شادی کی اور مصعب بن زبیرؓ نے اس کی بہن سکینہ بنتِ حسینؓ سے شادی کی۔ یہ سب بنوہاشم میں سے نہیں تھے۔
(مسالک الافہام فی شرح شرائع الاسلام صفحہ 398 ، فی الواحق العقد۔ ایران عکس صفحہ 340)
(مکتبہ شیعہ شامل: مسالك الأفهام الشهيد الثاني (8/ 407)
شیعوں کا معتبر عالم ابو الفرج اصفہانی (المتوفی 356ھ) لکھتا ہے:
وأمه فاطمة بنت الحسين كان عبدالله بن عمرو (بن عثمان) تزوجها بعد وفاة الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب.
(محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عثمان کی) والدہ فاطمہ بنتِ حسینؓ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عثمانؓ نے، حضرت حسن مثنیٰ بن حسن بن علی بن ابی طالب کی وفات کے بعد ان کے ساتھ شادی کی تھی۔
(مقاتل الطالبین صفحہ 138، ذکر محمد بن عبداللہ بن عمر و بن عثمان۔ دیکھیں عکس صفحہ 327)
(شیعہ مکتبہ شاملہ: مقاتل الطالبيين (51/1)
شیعوں کا مؤرخ شہیر مرزا محمد تقی سپہر (المتوفی 1297ھ) لکھتا ہے:
فاطمہ دختر امام حسین علیہ السلام بعد از فوت حسن مثنیٰ بحبالۂ نکاح عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان در آمد۔
حسن مثنیٰ کی وفات کے بعد فاطمہ بنتِ حسین عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان کے نکاح میں آئیں۔
¹- ناسخ التواریخ جلد2صفحہ 333، زندگانی امام حسن مطبوعہ ایران۔ عکس صفحہ 251
²-منتخب التواریخ صفحہ 245، در ذکر سید الشہداء تالیف محمد ہاشم خراسانی مطبوعہ ایران عکس صفحہ 305
چوتھا رشتہ
سیدنا عثمان غنیؓ کے پوتے مروان بن ابان نے سیدنا حسنؓ کی پوتی سے شادی کی
وَکَانَتِ اُمُّ الْقَاسِمِ بِنْتُ الْحَسَنِ بْنِ الْحَسَنِ عِنْدَ مَرْوَانَ بْنِ اَبانِ بْن عُثْماَنَ بْنِ عَفَّانَ فَوَلَدَتْ لَہٗ مُحَمَّدَ بْنَ مَرْوَانَ۔
حضرت حسن مثنیٰ بن امام حسنؓ کی بیٹی ام القاسم مروان بن ابان بن عثمان بن عفانؓ کے نکاح میں تھیں اور ان سے محمد بن مروان پیدا ہوئے۔
(کتاب نسب قریش جلد، 2 صفحہ 53، تذکرہ ام کلثوم بحوالہ جعفریہ جلد 2 صفحہ 208)
پانچواں رشتہ
سیدنا عثمان غنیؓ کے بیٹے ابان کی شادی اُمِ کُلثوم بنت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کے ساتھ ہوئی
وَکَانَتْ عِنْدَہٗ اُمُّ کُلْثُومِ بِنْتُ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ۔
اور (ابان بن عثمانؓ کے) نکاح میں اُمِ کُلثوم بنت عبداللہ بن جعفرؓ تھیں۔
(المعارف لابن قتیبہ صفحہ 210، دارلمعارف مصر، بحوالہ تحفہ جعفریہ جلد2 صفحہ 211)
چھٹا رشتہ
سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ سیدنا عثمان غنیؓ کے داماد تھے۔
شیعوں کا محدث ابن شہر آشوب (المتوفی 588ھ) لکھتا ہے:
فذكره الحسين علیہ السلام خطبة الحسن عائشة وفعله
حضرت حسینؓ نے عائشہ بنت عثمان کا رشتہ حضرت حسنؓ کے لئے مانگا تو وہ رشتہ ہوگیا۔
(مناقب آل ابی طالب جلد4صفحہ 39، مطبوعہ قم ایران)
ثم انہ کان الحسين تزوج بعائشة بنت عثمان
پھر (حضرت امام حسنؓ کی وفات کے بعد) حضرت سیدنا حسینؓ نے، حضرت عثمانؓ کی صاحبزادی عائشہؒ سے شادی کی۔
(مناقب آل ابی طالب جلد4صفحہ40، مطبوعہ قم ایران)
خلاصہ کلام
اس باب سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:
¹-سیدنا عثمان غنیؓ حضورﷺ کے داماد تھے۔ ان کے نکاح میں نبی کریمﷺ کی دو بیٹیاں تھیں۔
²-شیعوں کی کتابوں سے ثابت ہے کہ سیدنا عثمانؓ کا لقب ذُوالنُورین ہے۔
³-سیدنا عثمانؓ واحد شخص ہیں، جن کے نکاح میں رسول اللہﷺ کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آئیں۔ یہ سعادت سیدنا عثمانؓ کو ہی ملی۔ آپ کے سوا کوئی بھی دنیا میں ایسا شخص نہیں گذرا جس کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہو۔
⁴-سیدناعثمانؓ کا سلسلہ نسب رسول اللہﷺ اور سیدنا علیؓ کے ساتھ تیسری پشت میں عبد مناف پر ملتا ہے۔
⁵-سیدنا عثمانؓ کے پوتے عبداللہ بن عمرو بن عثمانؓ،سیدنا حسینؓ کے داماد ہیں۔
⁶-سیدنا عثمانؓ کے بیٹے سیّدنا عبداللہؓ نے سیدنا حسینؓ کی بیٹی سیدہ سکینہ سے شادی کی۔
⁷-سیدنا عثمان غنیؓ کے بیٹے سیدنا ابان نے اُمِ کُلثوم کلثوم بنت عبداللہ بن جعفر طیارؓ بن ابی طالب (یعنی سیدنا جعفر طیارؓ کی پوتی اور سیدنا علیؓ کے بھتیجے کی بیٹی،کے ساتھ نکاح کیا۔
⁸-سیدنا عثمان غنیؓ کے پوتے مروان بن ابان بن عثمان بن عفان نے سیدنا حسنؓ کی پوتی اُمِ القاسم سے شادی کی، جن سے محمد بن مروان بن ابان پیدا ہوئے۔
⁹-سیدناحسنؓ اور سیدنا حسینؓ سیدنا عثمانؓ کے داماد ہیں۔ اس سے ثابت ہو اکہ سیدنا عثمانؓ اور ان کی اولاد کے ساتھ اہلِ بیت کا رشتہ ہے اور یہ رشتے میں ایک دوسرے کے بالکل قریب ہیں اور ان کے باہمی قرابت کے بہترین تعلقات تھے۔ یہ سب باتیں ہم نے کتب شیعہ سے بدلائل ثابت کی ہیں۔ اس کے بعد انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب بھی اگر کوئی نہیں مانے تو وہ صرف ضد اور عناد کی وجہ سے انکار کرتا ہے۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔