اِسلام میں رشوت کی بنیاد مغیرہ بن شعبہ نے ڈالی۔ (المعارف) عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو رشوت دینے کی پیشکش کی (حلیۃ الاولیاء)
مولانا ابوالحسن ہزارویاِسلام میں رشوت کی بنیاد مغیرہ بن شعبہ نے ڈالی۔
(المعارف)
عمرو بن العاصؓ نے ابن عمر رضی اللّٰهُ تعالٰی عنہ کو رشوت دینے کی پیشکش کی (حلیۃ الاولیاء)
الجواب اہلسنّت
رشوت کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا شخص یا صاحبِ اختیار حاکم وغیرہ جِس سے مطلب ہو اور مال دیے بغیر مطلب براری نہ ہو سکتی ہو تو اپنا مقصد حاصل کرنے کی غرض سے مال دیا جائے۔ جِس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔
1۔ ابطال حق...
2۔ احقاق باطل...
3۔ اپنا مفاد پورا کرنا...
عکسی صفحہ قابل ملاحظہ چیزیں درج ذیل ہیں..
1_عکسی صفحے کی متنازعہ عبارت یہ ہے:
اول من رشاء فی الاسلام مغیرة بن شعبة
اس کا معنٰی رشوت کیا گیا حالانکہ رشوت کا مفہوم ادا کرنے کے لیے لفظ الرشوة آتا ہے جِس کا معنیٰ ہے رشوت۔
الاِرتِشآء رشوت خوری، المرتشی رشوت خور، ارتشی منہ رشوت لینا۔ (قاموس صفحہ 629)
لہٰذا رشوت کا مفہوم ادا کرنے والے الفاظ ہم نے ذکر کر دیے ہیں۔ مذکورہ لفظ ان رشوت کے مفہوم کو ادا کرنے والے الفاظ میں سے نہیں ہے۔
2_رشوت یا احقاق باطل کے لیے دی جاتی ہے یا ابطال حق کے لیے یا ذاتی مفاد کے لیے جبکہ ان تینوں صورتوں میں سے کوئی صورت یہاں ہرگز نہیں پائی جاتی نہ ایسی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ ان صورتوں میں سے کسی صورت کا وجود پایا گیا ہے۔
3_ابن عمرؓ نہ حاکم تھے اور نہ ہی صاحبِ اختیار جبکہ مفاد حاصل کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کو رشوت دی جاتی ہے کہ اس سے مطلب حاصل ہو سکے۔ یہاں پر وہ صورت نہیں پائی جا رہی۔
4_یہ قول بلا سند یہاں مذکور ہے اور صحابہ کرام رضی اللّٰهُ تعالٰی عنھم جِن کے ایمان پر کلام اللّٰه اور فرمانِ نبوت شاہد ہے ان کے بارے میں بلا سند بات ہرگز قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔
5_ یہ قصہ رافضی شیعہ روایات کی فیکٹری میں تیار کیا گیا ہے، دلیل اس کی...
1۔ یہ ہے کہ یہ روایت بلا سند منقول ہے۔
2۔ ابن قتیبہ خود شیعہ ہے اور شیعہ کی روایت وہ بھی بلا سند اور پھر صحابہ کرام رضوان اللّٰه تعالٰی علیھم اجمعین کے خلاف۔۔۔ لہٰذا روایت کے پلے جو کُچھ بچتا ہے وہ ہر ذی نظر پر عیاں ہے۔
6_ ابن قتیبہ خود متکلم فیہ ہے۔ بعض حضرات نے اسے اہلِ سنت سے خارج مشتبہ،اہلِ بیت سے منحرف وغیرہ کہا ہے۔ چنانچہ میزان الاعتدال کی دوسرے جلد صفحہ 387 پر علامہ ذہبی نے تفصیلی گفتگو فرمائی ہے اور اربابِ علم کے اس کے بارے میں مختلف اقوال نقل فرمائے ہیں جِس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ابن قتیبہ کی ہر بات آنکھیں بند کرکے قبول کر لینا درست نہیں۔