فقہ جعفری کی بجائے فقہ حنفی کیوں ؟
نقیہ کاظمیفقہ جعفری کی بجائے فقہ حنفی کیوں؟
ایک دوست نے سوال اٹھایا کہ آپ فقہ جعفری کے مقابلے میں فقہ حنفی پر کیوں چلتے ہیں جب کہ سیدنا جعفر صادقؒ امام ابوحنیفہؒ کے استاد اور اہلِ بیتؓ سے تعلق رکھتے ہیں پھر ان کو چھوڑ کر فقہ حنفی کی اقتداء کیسے درست ہوسکتی ہے۔
شیعہ حضرات کے ہاں فقہ کا وجود سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ فنقہ قیاس اور اجتہاد سے وجود میں آتی ہے جس میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے اسی بناء پر ائمہ مجتہدین سے اختلاف کرنے کی بھرپور گنجائش ہے لیکن اس شخص کے لئے جو اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہو یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام کے شاگردوں نے ان سے اختلاف کیا اور ایک امام کے بعد دوسرے امام کی گنجائش کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے اسی وجہ سے چار مشہور فقہی ائمہ ہیں۔
لیکن شیعہ کے ہاں جب امام معصوم ہوتا ہے تو اس کی سمجھ بوجھ سے وجود میں آنے والے مسائل و احکام کو فقہ تو نہیں دین ہی کہا جاسکتا ہے جس سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ دین تو ہم نے حضرت محمد رسول اللہﷺ کا قبول کر لیا ہے اس کے بعد کسی اور سے نہیں لے سکتے ہیں ہاں ہر دور کے حالات و واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دین کی تفہیم اور بہتر طریقے سے اطلاق کی ضرورت ہے۔
اگر ائمہ اہلِ بیتؓ بھی صرف دین کی تفہیم و توضیح اور زمانی تبدیلیوں کے مطابق احکام کا استنباط کرتے رہے انہوں نے کوئی نیا دین نہیں دیا اور ان کی سمجھ سے اخذ کردہ مسائل میں غلطی کا احتمال ہے تو کسی اور امام کی گنجائش کیوں نہیں؟ اگر اجتہادی بصیرت استنباط مسائل کی صلاحیت اور فقہ کی تدوین و تنظیم میں کوئی ان سے بہتر دکھائی دیتا ہے تو اس کی فقہ کو کیوں نہ لیا جائے؟
ہم دیگر فقہوں کے مقابلے میں امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کو کیوں لیتے ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ شورائی فقہ ہے، اس کو ایک شخص نے مرتب نہیں کیا ہے بلکہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کی مجلس میں اپنے زمانے کے مختلف فنون میں امام سمجھے جانے والے لوگوں میں سے چالیس لوگ تدوین فقہ میں شریک ہوتے تھے ہر مسئلے پر کئی کئی دن بحث و مباحثہ ہوتا تھا۔
امام ابوحنیفہؒ کی رائے حتمی اور قطعی نہیں ہوتی تھی بحث مباحثے کے بعد اگر کسی متفقہ بات تک پہنچ جاتے تو اس کو لکھ لیتے تھے ورنہ ایک سے زائد مختلف اقوال کو ہی لکھ لیا جاتا تھا ایک ایسے شخص کی فقہ جس کی تدوین میں اپنے زمانے میں امام سمجھے جانے والے لوگوں میں سے کم و بیش چالیس شریک ہوں زیادہ اولیٰ اور بہتر ہوگی یا جس فقہ میں ایک آدمی کی سمجھ پر انحصار کیا گیا ہو اس بڑی خصوصیت کے علاوہ فقہ حنفی میں توسع اور عملیت زیادہ ہے، اس میں قرآن و حدیث کی نصوص میں سے کسی ایک کی طرف میلان کی بجائے سبھی کو ملا کر نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے یہ عقل اور اصول دونوں کے مطابق ہوتی ہے اس پر عمل کرنا سہل اور آسان ہے یہ عالمِ اسلام کی سب سے پہلی مدون فقہ ہے اور سب سے زیادہ رائج ہے حضرت امام ابوحنیفہؒ کو اپنے دور میں انتہائی سخت اور نامساعد حالات سے گزرنا پڑا اس کے باوجود آپ کی فقہ بہت تھوڑے عرصے میں ہرجگہ پھیل گئی اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ نے پیش آمدہ مسائل کے ایسے قابلِ عمل اور عمدہ حل تجویز کیے کہ لو گ حکومتی سطح پر آپؒ کی سخت مخالفت کے باوجود آپؒ کی فقہ کی طرف کھنچتے چلے گئے بہت تھوڑے عرصے میں آپؒ کی فقہ کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو کسی اور امام کی فقہ کو حاصل نہ ہوسکی آپؒ کی فقہ ایک طویل عرصہ مختلف حکومتوں میں قانون کی حیثیت سے رائج رہی اور آج بھی عالم اسلام کی سب سے بڑی فقہ ہونے کا اعزاز اسی کو حاصل ہے۔ اب ایک سہل، مقبول، مدون، مرتب اور عملی فقہ کو چھوڑ کر کسی اور فقہ کو کیسے لیا جا سکتا ہے۔
حیرت تو ان لوگوں پر ہے جو ایک شورائی فقہ کے مقابلے میں شخصی فقہ کو ترجیح دیتے ہیں ایک ایسی فقہ جس کا وجود اس کے بانی کی زندگی کے بعد دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتا ہے سیدنا جعفر صادقؒ کی فقہ کا وجود خیر القرون میں کہیں تھا؟ بعض احادیث کی روایت میں تو ان کا نام ملتا ہے لیکن فقہ جعفری کا وجود چوتھی صدی ہجری کے بعد اس وقت سامنے آیا جب بویہی شیعہ حکومت نے سیدنا جعفر صادقؒ کی طرف منسوب کر کے کچھ قوانین کو فقہ کے نام پر جاری کیا۔
رہا استاد اور اہلِ بیتؓ میں سے ہونے کا معاملہ کہ اس کی وجہ سے ان کی فقہ کو ترجیح ہونی چاہیئے اول تو اس بات کا ثابت ہونا ہی محل نظر ہے کہ امام ابوحنیفہؒ سیدنا جعفر صادقؒ کے شاگرد تھے کیونکہ دونوں حضرات تقریباً ہم عمر تھے اور امام ابوحنیفہؒ سیدنا جعفر صادقؒ کے والد محترم سیدنا باقرؒ کے دور میں بھی فقہ اجتہاد اور فتویٰ کی مسند پر فائز تھے اکثر مؤرخین نے ان کے شاگرد ہونے کی تردید کی ہے اس کے مقابلے میں اگر کوئی ایک، دو مؤرخین ان کی شاگردی تسلیم کر بھی لیں تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس کو ثابت مان بھی لیا جائے تب بھی شاگرد ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں فقہی بصیر ت نہیں ہوسکتی ہے یا وہ مجتہد نہیں ہوسکتا۔
اگر سیدنا جعفر صادقؒ نے اپنے دور کے بہترین اہلِ علم اور اہلِ بیتؓ کے بزرگوں سے علم حاصل کیا تو امام ابوحنیفہؒ نے بھی سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سیدنا علیؓ سیدہ عائشہؓ اور سیدنا عمرؓ جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو کہ علم و فقہ میں دیگر سے ممتاز تھے کے شاگردوں سے علم حاصل کیا یہاں بھی ترجیح امام ابوحنیفہؒ کو ہی حاصل ہوگی، کیونکہ سیدنا جعفر صادقؒ کے پاس علم صرف ایک ہی راستے اور ذریعے سے آیا۔
کیونکہ شیعہ کا اصول روایت یہی ہے کہ وہ صرف اہلِ بیتؓ کی سند سے مروی روایت کو قبول کرتے ہیں اور ان کی کتابیں بھی گواہ ہیں کہ سیدنا جعفر صادقؒ سے مروی روایات صرف ایک ہی ایک ہی ذریعے اور واسطے سے ہیں اس میں اہلِ بیتؓ کے چند ایک بزرگوں کے علاوہ دیگر تمام بزرگ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غائب ہیں۔
امام ابو حنیفہؒ کی اگر بات کی جائے تو ان کے پاس اہلِ بیتؓ کا علم بھی تھا اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا علم بھی تھا کیونکہ انہوں نے سبھی کے شاگردوں سے استفادہ کیا تھا اب زیادہ مکمل تصویر اسی کے پاس ہوگی جس نے حضور اکرمﷺ سے علم حاصل کرنے والے شاگردوں میں سے سبھی کے شاگردوں سے علم حاصل کیا ہو۔ اس لئے اس اعتبار سے بھی ترجیح امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کو ہی حاصل ہوگی۔
سیدنا جعفر صادقؒ اہلِ بیتؓ میں سے تھے اس لئے ان کو ترجیح ہونی چاہیئے توصرف اہلِ بیتؓ سے ہونا ترجیح کا باعث نہیں بن سکتا ہے یہ اسلام کے بنیادی اصولِ مساوات کے خلاف ہے، اسلام میں کسی کو رنگ نسل، حسب نسب کی وجہ سے کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔
حضور اکرمﷺ سے استفادہ کرنے والے لوگ ایک لاکھ چوالیس ہزار تھے ان میں سے علم و حکمت، اجتہاد و استنباط میں باکمال شخصیات بہت سی تھیں، ان ہستیوں کے شاگردوں اور فیض یافتہ لوگوں میں سے جن کو امتیازی مقام حاصل ہوا وہ بھی بہت سے ہیں اس لئے اسلام کو ایک نہایت تنگ دائرے میں بند کرنا اس کی عالمیت و آفاقیت کو متاثر کرنے والی بات ہے۔