نواسہ رسول سیدنا حسین رضی اللہ عنہ
نقیہ کاظمینواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ
نام مبارک: حسینؓ،
کنیت: ابو عبداللہ، ریحانۃ الرسول۔
نسب نامہ: حسین بن علیؓ بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف قرشی ہاشمی۔
ولادت باسعادت: 4 شعبان المعظم سن 4 ہجری، بمقامِ مدینہ منورہ۔
شہادت: 10 محرمُ الحرام سن 61 ہجری بروز جمعہ سر زمین عراق میں کربلا کے مقام پر اسلام کی تحفظ کی خاطر دین کے دشمن اہلِ کوفہ کے دھوکہ مکر و فریب سے جام شہادت نوش فرمایا۔
عمر مبارک: اس وقت آپ کی عمر مبارک 54 سال کی تھی۔
ازواج:
1: شہر بانوؓ
2: امِ ربابؓ
3: امِ لیلیؓ
4: امِ اسحاقؓ
اولاد:
1: علی اکبرؒ
2: علی،جو زین العابدینؒ سے مشہور ہیں
3: علی اصغرؒ
4: ام کلثومؒ
5: سکینہؒ
6: فاطمہؒ
فضائل و مناقب:
سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
حسنؓ اور حسینؓ جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
(جامع تر مذی،کتاب المناقب،باب مناقب الحسنؓ والحسینؓ حدیث: 3768)
حضرت یعلی بن مرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں اللہ اس سے محبت کرے جو حسینؓ سے محبت کرتا ہے حسینؓ میری اولاد میں سے ایک فرزند ہیں۔
(جامع ترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب الحسنؓ والحسینؓ، حدیث: 3775)
سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے محبت کیا اس نے مجھ سے محبت کیا اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی۔
(ابنِ ماجہ، فضل الحسنؓ و الحسینؓ ابنی علیؓ بن ابی طالب، حدیث: 143)
سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ:
نبی کریمﷺ سے پوچھا گیا کہ آپﷺ کے اہلِ بیتؓ میں آپﷺ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: حسنؓ اور حسینؓ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ سیدنا فاطمہؓ سے کہتے میرے دونوں بیٹے کو بلاؤ جب سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ کو لایا جاتا تو آپﷺ دونوں صاحبزادوں کو سونگھتے اور اپنے ساتھ چمٹا لیتے۔
(جامع تر مذی، کتاب المناقب، باب مناقب الحسنؓ والحسینؓ، حدیث: 3775)
سیدنا یعلی بن مرہؓ بیان کرتے ہیں کہ:
ہم لوگ حضور اکرمﷺ کے ساتھ ایک دعوت کھانے نکلے۔ حضورﷺ نے گلی میں سیدنا حسینؓ کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو آپﷺ لوگوں سے آگے بڑھ گئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا دیا سیدنا حسینؓ اِدھر اُدھر بھاگنے لگے اور نبی کریمﷺ اُن کو ہنساتے رہے یہاں تک کہ آپﷺ نے اُن کو پکڑ لیا پھر آپﷺ نےاپنا ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر پر رکھ کر ان کو بوسہ دیا اور ارشاد فرمایا: حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے، اللہ اس سے محبت کرے جو حسینؓ سے محبت کرتا ہے۔
(ابنِ ماجہ، فضل الحسنؓ و الحسینؓ ابنی علیں بن ابی طالب حدیث: 144)
سیدہ ام الفضل بنتِ حارثؓ بیان کرتی ہیں کہ:
میں رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور میں نے حضورﷺ سے عر ض کیا کہ یارسول اللہﷺ میں نے رات کو ایک بہت ہی غلط خواب دیکھا ہے۔آپﷺ نے فرمایا: کیا دیکھا ہے؟ سیدہ امُ الفضلؓ بنتِ حارث کہتی ہیں کہ: میں نے کہا: یا رسول اللہﷺ وہ بہت ہی خطرناک خواب تھا ،تو آپﷺ نے فرمایا: تم نے دیکھا کیا ہے؟ میں نے کہا: یار سول اللہﷺ میں نے دیکھا کہ آپﷺ کے جسم مبارک کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا آپﷺ نے فرمایا: تم نے اچھا خواب دیکھا ہے ان شاء اللہ ،فاطمہؓ کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو تمہاری گود میں رکھا جائے گا پھر حضورﷺ کے فرمانے کے مطابق سیدنا حسینؓ پیدا ہوئے اور وہ میری گود میں رکھے گئے۔پھر میں ایک دن حضورﷺ کے پاس گئی تو حضورﷺ ان کو اپنے گود میں رکھے ہوئے تھے۔ میں تھوڑی دیر کے لئے دوسری طرف متوجہ ہوگئی ،پھر دیکھا تو حضورﷺ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں، یا رسول اللہﷺ آپ کو کیا ہوا؟ حضورﷺ نے فر مایا: میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور مجھے بتایا کہ:میری امت کے لوگ میرے اس بیٹے کو قتل کر دیں گے میں نے پوچھا: اِس بیٹے کو، حضورﷺ نے فرمایا: ہاں اِس بیٹے کو اور مجھے اس کی شہادت کی جگہ کی سرخ مٹی بھی لا کر دی۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، اول فضائل ابی عبداللہ الحسینؓ بن علی الشھید ،حدیث: 4818)
سیدنا ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ:
ہمیں اور اہلِ بیتِ کرامؓ کو اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ: سیدنا حسین بن علیؓ ارض طف یعنی کربلا میں شہید کئے جائیں گے۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابہ،اول فضائل ابی عبد اللہ الحسین بن علیؓ الشھید حدیث: 4826)
سیدنا عبید اللہ بن ابی رافعؓ بیان کرتے ہیں کہ:
جب سیدنا حسینؓ پیدا ہوئے تو میں نے حضورﷺ کو ان کے کان میں اذان دیتے ہو دیکھا۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابہ،اول فضائل ابی عبد اللہ الحسین بن علیؓ الشھید حدیث: 4827)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
جب سیدنا حسنؓ کی پیدائش ہوئی تو حضور اکرمﷺ تشریف لائے اور فرمایا: مجھے میرا بیٹا دیکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے کہا حرب حضورﷺ نے فرمایا: نہیں وہ حسنؓ ہے پھر جب حسینؓ پیدا ہوئے تو حضورﷺ تشریف لائے اور فرمایا: مجھے میرا بیٹا دیکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے کہا حرب حضورﷺ نے فرمایا: نہیں وہ حسینؓ ہے سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں کہ: پھر جب تیسرے لڑکے کی پیدائش ہوئی تو حضورﷺ تشریف لائے اور فرمایا: مجھے میرا بیٹا دیکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے کہا حرب حضورﷺ نے فرمایا: نہیں وہ محسن ہے۔ اس کے بعد آپﷺ نے ارشاد فر مایا: میں نے اپنے بیٹوں کا نام ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام ”شبّر، شبّیر، مبشّر، پر رکھا ہے۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، ومن مناقب الحسنؓ و الحسینؓ ابنی بنت رسولﷺ حدیث: 4773)
سیدنا عبداللہ بن شداد الہاد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ:
ظہر یا عصر کے وقت حضورﷺ ہمارے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ اپنے دونوں صاحبزادے حسنؓ یا حسینؓ میں سے کسی ایک کو اپنی گود میں لئے ہوئے تھے، آپﷺ جب نماز پڑ ھانے کے لئے آگے بڑھے تو ان کو اپنے داہنے پیر کے پاس رکھ دیا پھر جب آپﷺ سجدے میں گئے بڑا لمبا سجدہ فرمایا۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے کہا کہ میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ حضورﷺ سجدے میں ہیں اور صاحبزادہ حضورﷺ کی پشت انور پر ہیں، تو میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا۔ پھر جب حضورﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے کہا: یارسول اللہﷺ آج آپ نے نماز میں جیسا سجدہ کیا ایسا کبھی نہ کرتے تھے، آپ کو اس کا حکم دیا گیا یا آپﷺ کی طرف وحی کی جار ہی تھی؟ حضورﷺ نے فرمایا: ایسی کوئی بات نہیں ہے،
ولکن ارتحلنی ابنی فکر ھت ان عجلہ حتیٰ یقضی حاجتہ۔
ترجمہ: بات یہ ہے کہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار تھا تو میں نے جلدی کرنا ناپسند کیا یہاں تک کہ وہ اپنا جی بھر لے۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، ومن مناقب الحسنؓ و الحسینؓ ابنی بنت رسول اللہﷺ حدیث: 4775)
سیدنا ابو بریدہؓ بیان کرتے ہیں کہ:
نبی کریمﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ آگئے وہ دونوں چل رہے تھے اور گر رہے تھے تو حضورﷺ منبر سے اُترے اور ان دونوں کو اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھا دئیے۔ پھر آپﷺ نے فر مایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ بے شک تمہارے مال اور اولاد تمہارے لئے آزمائش ہیں۔
(سورہ تغابن: آیت، 150) میں نے ان دونوں بچوں کو چلتے اور گرتے دیکھا تو صبر نہ کر سکا اور اپنی بات کو کاٹ کر دونوں کو اٹھا لیا۔
(ترمذی،کتاب المناقب ، باب مناقب الحسنؓ و الحسینؓ)