شورائیت
علی محمد الصلابیشورائیت
اسلامی سلطنت کے اساسیات میں سے حکام و قائدینِ سلطنت کا مسلمانوں کے ساتھ شورائیت کا حتمی و ضروری ہونا، اور ان کی رضا و رائے کا پاس رکھنا، اور شورائیت کے ساتھ حکومت کو چلانا ہے۔
ارشادِ الہٰی ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (سورة آل عمران: آیت، 159)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں، اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں، اور ان کے لیے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں، پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
ارشادِ الہٰی ہے:
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ
(سورة الشوریٰ: آیت، 38)
ترجمہ: ’’اور جو اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ان کا ہر کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور جو ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہمارے نام پر) دیتے ہیں۔‘‘
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار اور اکبارینِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مشتمل ایک مجلسِ شوریٰ تشکیل دے رکھی تھی۔
(الإدارۃ العسکریۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ: جلد، 1 صفحہ، 277)
اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے قائدین اور عاملوں سے کہا تھا: تم اس پر ڈٹے رہو جس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تمہیں چھوڑ کر گئے ہیں۔ اس میں تبدیلی مت لانا، اور جو بھی اشکال تمہیں پیدا ہو ہماری طرف رجوع کرو، ہم امت کو جمع کر کے مشورہ کریں گے پھر تمہیں جواب دیں گے۔
(الإدارۃ العسکریۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ: جلد، 1 صفحہ، 277 منقول از تاریخ طبری)
چنانچہ آپؓ کے قائدین و سپہ سالار جب بھی حملہ کرنے اور اسلامی فتوحات میں پیش قدمی کرنے کا ارادہ کرتے تو آپؓ سے اجازت اور مشورہ طلب کرتے، اور ایسی حالت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کرتے، اور ان سے اس سلسلہ میں قرار داد پاس کرنے اور اس کی تیاری و تنفیذ اور مناسب منصوبہ وضع کرنے کے سلسلہ میں مشورہ کرتے، پھر اس کی روشنی میں سپہ سالارانِ خلافت کو اجازت دیتے۔
(فتوح مصر: صفحہ، 83)
سیدنا عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ نے خلیفۃ المسلمین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو خط ارسال کیا جس میں انہوں نے دربارِ خلافت سے افریقہ کے اطراف و جوانب پر حملہ آور ہونے کے سلسلہ میں اجازت طلب کی، کیوں کہ رومی جزیرے مسلمانوں سے قریب تھے جن سے خطرہ تھا۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں اولاً مشورہ کیا پھر اجازت دی اور مسلمانوں کو اس کے لیے تیار کیا۔
(فتوح مصر: صفحہ، 183)
اسی طرح سیدنا امیرِ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے جب جزیرہ قبرص اور روڈس پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا تو اولاً مرکزی قیادت سے مشورہ طلب کیا اور اس کی اجازت مانگی، اور ان کو بھی مرکزی قیادت سے مجلسِ مشاورت کے اجتماع اور اس موضوع پر بحث و نظر کے بعد ہی اجازت ملی۔
(الإدارۃ العسکریۃ: جلد، 1 صفحہ، 278)
اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سپہ سالار آپس میں جنگی مہمات کی تنفیذ اور انتظام و انصرام کے لیے مشورہ کیا کرتے تھے
(الإدارۃ العسکریۃ: جلد، 1 صفحہ، 278)
جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خود جمع قرآن سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا، سیدنا عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جب ہرمزان کو قتل کر دیا تو اس سلسلہ میں بھی آپؓ نے مشورہ طلب کیا، فتنہ کی سرکوبی کے لیے مفید تدابیر سے متعلق اور قضا وغیرہ سے متعلق آپؓ نے جو موقف اختیار کیا جس کی تفصیل اسی کتاب میں آپ مطالعہ کریں گے، اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ آپؓ کی خلافت شورائیت پر قائم تھے۔