Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مقدمہ

  علی محمد الصلابی

مقدمہ

اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ، وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا، مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ، وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ، وَاَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔

يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

(سورة آل عمران: آیت، 102)

ترجمہ: اے ایمان والو ! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے، اور خبردار ! تمہیں کسی اور حالت میں موت نہ آئے، بلکہ اسی حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا

(سورة النساء: آیت، 1) 

ترجمہ: اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیئے۔ اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو، اور رشتہ داریوں (کی حق تلفی سے) ڈرو۔ یقین رکھو کہ اللہ تمہاری نگرانی کررہا ہے۔

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا 

(سورة الاحزاب: آیت،70)

ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو، اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔

 يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا

(سورة الاحزاب: آیت، 71)

ترجمہ: اللہ تمہارے فائدے کے لیے تمہارے کام سنوار دے گا، اور تمہارے گناہوں کی مغفرت کردے گا۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، اس نے وہ کامیابی حاصل کرلی جو زبردست کامیابی ہے۔

اما بعد!

یہ کتاب جس کا نام ’’الفاروق عمر بن الخطاب شخصیتہ وعصرہ‘‘ ہے، اس کی تالیف میں سب سے بڑا فضل و احسان اللہ تعالیٰ کا ہے، پھر ان علماء، افاضل اور مبلغین کا جنہوں نے خلفائے راشدینؓ کی سیرت اور ان کے ادوار پر خامہ فرسائی کے لیے میری ہمت افزائی کی، یہاں تک کہ ایک عالم نے مجھ سے کہا: ’’موجودہ دور کے مسلمانوں اور خلفائے راشدینؓ کے دور میں ایک لمبا فاصلہ ہو گیا ہے، اوّلیات (پہلے و بعد) کی ترتیب اور تقدیم و تاخیر میں بگاڑ واقع ہو گیا ہے۔ بہت سے مسلمان بھائی خلفائے راشدینؓ کی سیرت و کارناموں کے مقابلہ میں دوسرے علماء، مصلحین اور مبلغین کی سیرت و کارناموں کا زیادہ اہتمام کرتے ہیں، حالانکہ خلفائے راشدینؓ کا دور سیاسی، تربیتی، نشریاتی، اخلاقی، اقتصادی، فکری، جہادی اور فقہی ہر اعتبار سے دوسروں سے بے نیاز ہے اور اس کی ہمیں ضرورت ہے، ہم اس بات کے محتاج ہیں کہ اسلامی مملکت کے اداروں کا ہمیں علم ہو اور یہ کہ وہ ادارے زمانے کے دوش بدوش کیسے چلتے رہے، مثلاً عدلیہ کا نظام، مالیات کا نظام، خلافت کا نظام، ملکی دفاع کا نظام، امراء اور گورنروں کی تعیین کا نظام اور جب امتِ مسلمہ نے روم و فارس کی تہذیبوں کے ساتھ بودوباش اختیار کی تو اس زمانے میں جو اجتہادات پیش ہوئے اور اسلامی فتوحات کا مزاج کیا تھا؟ ان تمام باتوں کا جاننا ضروری ہے۔

دراصل اس کتاب کی تالیف کا میں نے ایک ذہنی خاکہ تیار کیا تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے وجود کا جامہ پہنانا چاہا اور پھر اس نے مجھے توفیق دی، میرے لیے معاملات کو آسان کر دیا اور مشکلات کو دور کر دیا اور میری مدد فرمائی کہ میرے لیے موضوع سے متعلق مراجع و مصادر میسر آئے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے جس نے میری ایسی مدد فرمائی۔

خلفائے راشدینؓ کے دور کی تاریخ عبرت و موعظت سے لبریز ہے اور مراجع و مصادر کی کتابوں میں خواہ وہ تاریخی ہوں، فقہی ہوں، ادبی ہوں، یا حدیث، تفسیر، تراجم اور جرح و تعدیل کی کتابیں ہوں سب میں دروس و عبر کے موتی بکھیرے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنی طاقت و کوشش کے مطابق ان کتابوں کو کھنگالا ہے اور دوران تالیف مجھے کئی طرح کی ان تاریخی روایات سے سابقہ پڑا جن کی تہ تک پہنچنا اور اس کی حقیقت کا جاننا معروف و متد اول تاریخی کتابوں میں بہرحال ایک مشکل چیز ہے۔ اسی لیے میں نے ان روایتوں کو اکٹھا کیا، پھر ترتیب دیا، اصل حوالہ جات سے موازنہ کیا اور پھر تحقیق و تنقیح کے میزان پر اسے تولا۔ اس طرح پہلی کتاب سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں منظر عام پر آئی جس کا نام میں نے ’’ابوبکر الصدیقؓ شخصیتہ وعصرہ‘‘(اللہ کے فضل سے ادارہ کی طرف سے اس کا اردو ترجمہ ’’سیدنا ابوبکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے" کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ (مترجم)رکھا ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے یہ کتاب عربی کتب خانوں اور عالمی کتابی میلوں و نمائشوں میں خوب پھیلی، بہت سے قارئین، مبلغین، علماء اور طلبہ وعوام کے ہاتھوں میں پہنچی، انہوں نے اپنے تاثرات سے مجھے نوازا اور اس طرح میری ہمت افزائی کی کہ میں خلفائے راشدینؓ کے دور کا یہ تحقیقی سفر جاری رکھوں اور اس دور کی خصوصیات کو خوب وضاحت کے ساتھ امتِ مسلمہ کے سامنے اس انداز میں پیش کروں جو آج کے دور کے موافق ہو۔ 

خلفائے راشدینؓ کے دور کی تاریخ درس و عبرت سے بھری پڑی ہے۔ اگر اس تاریخ کو ضعیف و موضوع روایات، مستشرقین اور ان کے دم چھلوں یعنی سیکولر ازم کے پرستاروں اور روافض وغیرہ کے نظریات سے ہٹ کر ہم اس کو بحسن و خوبی پیش کر لیں گے اور اس میں اہلِ سنت کے طریقہ عمل پر اعتماد کیا تو گویا اہلِ سنت کے نقطۂ نظر سے اس کو پیش کرنے میں ہمیں کامیابی مل جائے گی اور ان پاکباز شخصیتوں کی زندگی اور ان کے دور کی خوبیوں کو ہم اچھی طرح پہچان لیں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

(سورة التوبۃ: آیت، 100)

ترجمہ: اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘

اور ارشاد فرمایا:

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا

(سورة الفتح: آیت، 29)

ترجمہ:’’محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدہ کر رہے ہیں۔‘‘

اور ان کے بارے میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

خَیْرُ اُمَّتِیْ الْقَرْنُ الَّذِیْ بُعِثْتُ فِیْہِمْ

(صحیح مسلم: جلد، 4 صفحہ، 2534)

ترجمہ:"میری امت کا بہترین دور وہ صدی ہے جس میں میں بھیجا گیا ہوں۔‘‘

اور سیّدنا عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جسے کسی طریقہ کی تلاش ہو وہ اپنے سے پہلے وفات پانے والوں (صحابہؓ) کے طریقہ پر چلے۔ کیونکہ زندہ فتنوں سے محفوظ نہیں ہے۔ وہ (جن کے طریقے پر چلنا چاہیے)محمدﷺ کے صحابہؓ ہیں۔ اللہ کی قسم! وہ اس امت کے سب سے افضل افراد(لوگ) تھے، اس امت میں دل کے سب سے نیک، علم میں سب سے پختہ، تکلّفات سے سب سے زیادہ دور رہنے والے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی کی صحبت اور اپنے دین کی اقامت کے لیے منتخب کیا تھا، پس تم ان کی فضیلت کو پہچانو، ان کے نقش قدم پر چلو، ان کے دین اور اخلاق کو اپنے لیے حرز جان بناؤ، اس لیے کہ وہ سیدھے راستے پر تھے۔

‘‘(شرح السنۃ: صفحہ، 214 ، 215 البغوی ) 

چناچہ صحابہ کرامؓ نے اسلامی احکامات پر عمل کر دکھایا اور اس کو پوری روئے زمین پر عام کیا، ان کا دور سب سے بہترین دور تھا۔ انہوں نے امتِ محمدیہ کو قرآن کی تعلیم دی، نبی کریمﷺ کی سنتوں اور آثار کو ان تک پہنچایا، گویا ان کی تاریخ وہ دفینہ ہے جس نے امت کے فکری، ثقافتی، علمی اور جہادی خزانوں، اسلامی فتوحات کی تحریکوں اور دیگر قوموں کے ساتھ ان کے معاملات اور رواداریوں کو محفوظ کر رکھا ہے۔ آپ اس عظیم المرتبت تاریخ کو تاریخ ساز جولانیوں میں محسوس کریں گے کہ کوئی چیز ہے جو صحیح رخ اور ہدایت کی طرف ان کی زندگی کا سفر جاری رکھنے والوں میں ان کی معاون ہے اور اس دور کا مطالعہ کرتے ہوئے آپ محسوس کریں گے کہ اس کا پیغام کیا تھا اور انسانوں کی اس بستی میں اس کا کیا کردار رہا۔ اس دور کی تاریخ سے آپ وہ ذوق پائیں گے جو روح کو غذا دے گا، دلوں کی صفائی کرے گا، عقل و فہم کو روشن اور ہمتوں کو صیقل کرے گا۔وہ دور نتائج اور نصیحتوں کو پیش کرتا ہے، عبرتوں کو آسان کرتا ہے اور افکار میں پختگی لاتا ہے، مبلغین، علماء، مشائخ اور امت کے دیگر افراد اس تاریخ میں حکمت کی وہ باتیں پائیں گے جو نبوت کے طرز پر نئی مسلمان نسل کو تیار کرنے اور ان کی تربیت کرنے پر کافی معاون ثابت ہوں گی اور پھر سب کے سب خلافتِ راشدہ کے نشانِ راہ اور اس کے قائدین اور نوجوانوں کی صفات و خصوصیات اور اس کے زوال کے اسباب کو جان لیں گے۔ آپ کے ہاتھوں میں خلفائے راشدینؓ کی سیرتِ طیبہ سے متعلق یہ دوسری کتاب ہے جو سیّدنا عمر بن خطابؓ کے حیات و کارناموں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ آپؓ دوسرے خلیفۂ راشد ہیں۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے بعد صحابہ میں سب سے افضل تھے۔ نبی کریمﷺ نے ہمیں رغبت دلائی ہے اور حکم دیا ہے کہ ہم ان کے طریقوں کی پیروی کریں اور ان کے راستہ پر چلیں،

آپﷺ نے فرمایا:

عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِیْ

(سنن ابی داؤد: جلد، 4 صفحہ، 201 الترمذی: جلد، 4 صفحہ، 44 حسن صحیح)

ترجمہ:’’میری اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدینؓ کی سنت کو لازم پکڑو۔"

پس سیّدنا عمرؓ انبیاء و مرسلین اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بعد نیکوں میں سب سے بہتر ہیں اور ان دونوں کے بارے میں آپﷺ کا ارشاد ہے:

اِقْتَدُوْا بِاللَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِیْ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ۔

(صحیح سنن الترمذی: جلد، 3 صفحہ 200: البانی)’

ترجمہ: میرے بعد ابوبکرؓ و عمرؓ کی اقتداء کرنا۔‘‘

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْمَنْ قَبْلَکُمْ مِّنَ الْاُمَمِ ، مُحَدَّثُوْنَ فَإِنَّ یَّکُنْ فِیْ أُمَّتِیْ أَحَدٌ فَإِنَّہُ عُمَرُ

(البخاری: صفحہ، 3679 ، مسلم: صفحہ، 2398)

ترجمہ:’’تم سے پہلے کی تمام امتوں میں الہام یافتہ شخصیتیں ہوتی تھیں، پس اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہیں۔‘‘

بے شمار احادیث اور مشہور روایات سیدنا عمر فاروقؓ کے فضائل میں وارد ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

رَأَیْتُ کَأَنِّیْ أَنْزِعُ بِدَلْوٍ بَکْرَۃٍ عَلٰی قَلِیْبٍ فَجَائَ أَبُوْبَکْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوْبًا أَوْ ذَنُوْبَیْنِ نَزْعًا ضَعِیْفًا وَاللّٰہُ یَغْفِرُلَہُ ثُمَّ جَائَ عُمَرُ فَاسْتَسْقٰی فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا، فَلَمْأَرَعَبْقَرِیًّا یَفْرِیْ فَرْیَہٗ حَتّٰی رَوِیَ النَّاسُ وَضَرَبُوْا الْعَطَنَ۔

(صحیح مسلم: حدیث: 2393)

ترجمہ: ’’میں نے (خواب میں) دیکھا کہ ایک کنویں پر پڑے ہوئے ڈول سے پانی کھینچ رہا ہوں۔ پھر سیدنا ابوبکرؓ آئے اور انہوں نے بھی ایک یا دو ڈول (پانی) ناتوانی کے ساتھ نکالے، اللہ ان کی بخشش کرے، پھر عمر بن خطابؓ آئے اور انہوں نے پانی کھینچا تو وہ ڈول بھر کر بڑا ہو گیا۔ میں نے ایسا زبردست کام کرنے والا نہیں دیکھا، یہاں تک کہ لوگ سیراب ہو گئے اور اپنے اونٹوں کو پانی پلا کر آرام کی جگہ میں بٹھایا۔‘‘

سیّدنا عمرو بن عاصؓ کا قول ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: عائشہؓ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! مردوں میں سے(کون ہے)؟ آپ نے فرمایا: ان کے والد۔ میں نے کہا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: عمر بن خطابؓ۔ پھر آپﷺ نے اور لوگوں کا بھی نام لیا۔

(الإحسان فی صحیح ابن حبان: جلد، 15 صفحہ، 309)

سیّدنا عمر بن خطابؓ کی زندگی اسلامی تاریخ میں ایک درخشندہ اور تابندہ باب ہے جو ہر تاریخ سے افضل اور برتر ہے۔ ایسی روشن زندگی کہ جس کی شرافت، بزرگی، اخلاص، جہاد اور دعوت الی اللہ کا معمولی حصہ بھی دوسری تمام قوموں کی تاریخ نہیں سمیٹ سکی۔ اسی لیے میں نے آپ کی سیرت اور آپ کے دور کی خصوصیات کو مصادر و مراجع میں خوب تلاش کیا اور اسے نادر علمی ذخیروں سے ڈھونڈ نکالا، اس کی ترتیب و تنسیق کی اور پھر اس کی تحقیق و تجزیہ کیا، تاکہ یہ چیز کتابی شکل میں دعاۃ و مبلغین، خطباء و مقررین، علماء و سیاسی قائدین، دانشوروں، فوجی کمانڈروں، حکمرانوں حتیٰ کہ طلبہ اور عوام کے ہاتھوں میں موجود ہو تاکہ وہ اس سے اپنی زندگی میں فائدہ اٹھائیں اور اپنی منصوبہ بندی اور عزائم میں اسے سامنے رکھیں، اس طرح اللہ تعالیٰ انہیں دنیا و آخرت میں عزت سے نوازے۔میں نے آپ کی حیاتِ مبارکہ کو بچپن سے لے کر شہادت پانے تک تحریر کیا ہے۔ چنانچہ آپؓ کے نسب، خاندان، زمانہ جاہلیت کی زندگی، اسلامی زندگی، ہجرت، آپؓ کی زندگی پر قرآن کی تاثیر اور نبی کریمﷺ کے ساتھ آپ کی وابستگی و مصاحبت نیز نبوی تربیت کے نتیجے میں آپ کی عظیم اسلامی شخصیت کے نکھرنے کا ذکر کیا۔

غزوات اور مدنی معاشرہ میں نبی کریمﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ کے ساتھ آپ کے رجحانات اور مخصوص نقطۂ نظر پر گفتگو کی ہے اور آپ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے واقعہ کو بیان کیا ہے۔ آپ کے نظام حکومت کی اساسیات مثلاً شورائیت، عدل و انصاف، لوگوں میں مساوات اور آزادی فکر و نظر کو واضح کیا ہے۔ آپ کی اہم صفات و خصوصیات، آپ کی خاندانی زندگی، اہلِ بیت کا خصوصی احترام اور منصب خلافت پر فائز ہوجانے کے بعد آپ کی معاشرتی زندگی مثلاً معاشرہ کی خواتین کی دیکھ بھال، اپنی رعایا کے صلحاء و مصلحین کی حفاظت،لوگوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے اہتمام اور سماج کے سرکردہ افراد کی تربیت، بعض نامناسب اور بے جا تصرفات پر نکیر، صحتِ عامہ اور نظام احتساب کا اہتمام، تجارت اور بازاروں کی اصلاح، نیز معاشرہ میں شریعت کے اہم مقاصد کے لازمی وجود کی طرف آپ کی خاص توجہ، مثلاً توحید کی مکمل حمایت، بدعتوں اور گمراہیوں کا سدّباب ، امور عبادت کا اہتمام اور مجاہدین کی عزت و ناموس کی مکمل حفاظت وغیرہ تمام چیزوں کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔

میں نے آپ کے اہتمام علم اور مدینہ میں اپنی رعایا کی تعلیم اور صحیح رہنمائی کے بارے میں گفتگو کی ہے نیز یہ کہ آپ نے مدینہ کو فقہ و فتاویٰ کا مرکز اور ایسا مدرسہ بنا دیا جس سے علماء، مبلغین، گورنر اور قاضی حضرات فارغ ہوئے اور دوسرے شہروں کی علمی درسگاہوں مثلاً مکہ، مدینہ، بصرہ، کوفہ، شام اور مصر کے مدارس میں آپ کے نمایاں کردار و نقوش کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے۔

سیّدنا عمر فاروقؓ نے متخصص علماء پر مشتمل ایک علمی گروہ تیار کیا اور اسے شہروں میں بھیجا۔ فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ امراء اور قائدین (کمانڈروں) کو حکم دیا کہ وہ مفتوحہ علاقوں میں مساجد قائم کرتے جائیں تاکہ وہ دعوت، تعلیم، تربیت اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی نشر و اشاعت کا مرکز بن جائیں۔ مسجدیں ہی اسلام کی اوّلین علمی درسگاہیں تھیں، وہیں سے علمائے صحابہؓ بخوشی مسلمان ہونے والی جماعت کو دین سکھانے جاتے تھے، آپ کے دورِ خلافت میں تقریباً 12 ہزار مسجدوں میں نماز جمعہ ادا کی جاتی تھی۔ ان علمی مراکز کا قیام ان عسکری مراکز کے بعد ہوا جنہوں نے عراق، ایران، شام، مصر اور مغرب کے شہروں کو فتح کیا، ان علمی، فقہی اور دعوتی مراکز کی قیادت ان ہاتھوں میں تھی جن کی تربیت مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپﷺ کے ہاتھوں سے ہوئی تھی۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے ان باصلاحیت افراد سے فائدہ اٹھایا، ان کی بہترین رہنمائی کی اور مناسب مقام پر ان کو استعمال کیا، پھر ان صلاحیتوں نے ایسی علمی اور فقہی تحریک والی جماعت تیار کی جو فتوحات کے درپے تھی۔

میں نے اس کتاب میں سیدنا عمر فاروقؓ کے شعر و شعراء سے لگاؤ کا ذکر کیا ہے، آپ خلفائے راشدینؓ میں سب سے زیادہ شعر سننے اور اس کی اصلاح کے شوقین تھے اور خود ان میں سب سے زیادہ شعر کہنے والے بھی تھے۔ یہاں تک کہ بیان کیا جاتا ہے کہ سیّدنا عمر بن خطابؓ کو جب کوئی معاملہ پیش آتا تو اس پر کوئی شعر ضرور کہتے۔ آپ کو ادبی تنقید میں مہارت حاصل تھی۔ آپ کے پاس کچھ ایسے ادبی معیار تھے کہ جب کسی شعری نص کو دوسری نص پر ترجیح یا کسی شاعر کو کسی شاعر پر مقدم کرنا ہوتا تو ان خوبیوں کو معیار بناتے، تاکہ عربی زبان میں عربیت کا نکھار ہو، الفاظ عام فہم ہوں، کلمات میں ربط ہو، عبارت میں پیچیدگی نہ ہو، کلام بالکل واضح ہو، بقدر ضرورت ہی الفاظ کا استعمال ہو، نیز یہ کہ صحیح جگہ پر الفاظ کے استعمال ہی میں اس کی خوبصورتی ہے۔

آپ شعراء کو ہجو کہنے یا ہر وہ کلام جو اسلامی شریعت کے مزاج کے خلاف ہو اس سے منع کرتے تھے اور خلاف ورزی کی صورت میں ان کی سرزنش کے لیے کئی طریقے اپناتے تھے، مثلاً یہ کہ آپ نے حطیئہ سے اس کا وہ کلام تین ہزار درہم میں خرید لیا جو مسلمانوں کی ہتک عزت پر مشتمل تھا۔ یہاں تک کہ وہ شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوگیا:

وأخذت أطراف الکلام فلم تدع شتمًا یضر ولا مدیحًا ینفع

ترجمہ: ’’آپ نے (میرے شاعرانہ) کلام کی نوک پلک تک کو خرید لیا، آپ نے تکلیف دینے والی کوئی گالی نہیں چھوڑی اور نہ کوئی مدح سرائی کہ جو کسی کو نفع پہنچائے۔‘‘

ومنعتنی عرض البخیل فلم یخف شتمی فأصبح آمنا لا یفزع

ترجمہ: ’’آپ نے مجھ سے بخیل کی عزت کو محفوظ کر لیا، لہٰذا اب اسے میری ہجو کا کوئی خوف نہیں وہ تو اب بڑے امن میں ہے، ذرا بھی گھبراتا نہیں۔‘‘

اسی طرح اس کتاب میں میں نے آپ کے دور کی آبادیاتی ترقی اور وقتی بحران سے نمٹنے کا تذکرہ کیا ہے۔ گزرگاہوں اور خشکی و سمندری وسائل، نقل اور سڑکوں اور راستوں نیز فوجی چھاؤنیوں اور تمدنی مراکز کے قیام کے سلسلہ میں آپ کے شدت اہتمام کو ذکر کیا ہے۔ میں نے اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ آپ کے زمانے میں بصرہ، کوفہ، فسطاط اور سیرت جیسے بڑے بڑے شہر کیسے آباد ہوئے اور جب آپ نے ان شہروں کو بسایا تو کن عسکری اور اقتصادی پہلوؤں کو مدنظر رکھا،’’ عام الرمادۃ‘‘(قحط کا یہ سال سیّدنا عمر فاروقؓ کے دور میں 18 ہجری میں آیا تھا اور اس میں بہت ہلاکت اور تباہی ہوئی تھی) میں ’’قحط سالی" کے بحران سے نمٹنے کے لیے آپ نے کون سا اسلوب اختیار کیا اور کیسے آپ نے خود کو لوگوں کے سامنے ایک نمونہ کی شکل میں پیش کیا۔ اس سال پناہ گزینوں کے لیے آپ نے کیسے خیمے تیار کرائے، اللہ تعالیٰ سے اور پھر مختلف صوبوں سے کیسے مدد طلب کی، نماز استسقاء کا اہتمام اور اس سال کے بعض فقہی اجتہادات، مثلاً چوری پر حد نافذ نہ کرنا اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر کو قبول کر لینا وغیرہ مباحث کو میں نے حتیٰ الامکان واضح کیا ہے۔

اس سال کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جس میں شام کے اندر طاعون کی بیماری پھیلی اور اس وباء کے متعلق آپ کا کیا نظریہ تھا جس کی زد میں آ کر شام میں اسلامی فوج کے کبار جرنیل صحابہ وفات پاگئے۔ اس بیماری کی وجہ سے بیس ہزار سے زائد صحابہؓ جاں بحق ہوئے، پیمانے گڈمڈ ہو گئے، میراثیں ضائع ہوگئیں، ان حالات میں آپ شام گئے، وہاں آپ نے لوگوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا اور موسم سرما و گرما کے وظیفوں کی تحدید فرمائی، شام کی سرحدوں اور فوجی چھاؤنیوں کو محفوظ کیا، گورنروں کو متعین کیا، جرنیلوں، فوجیوں اور عوام کو ذمہ داریاں سونپیں، فوت شدگان کا مال ان کے ورثاء میں تقسیم کیا۔

میں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ مالیاتی اور عدالتی نظام کو ترقی دینے میں آپ کا کتنا اہم کردار ہے اور یہ کہ آپ کے دور میں ملکی آمدنی کے ذرائع کیا تھے، مثلاً زکوٰۃ، جزیہ، خراج، عشر، فے، مال غنیمت وغیرہ۔ آپ نے مسلمانوں کے لیے بیت المال قائم کیا اور مردم شماری وغیرہ کے دفتر تیار کروائے، نیز یہ کہ آپ کے دور میں اسلامی مملکت کے کون کون سے اخراجات تھے اور خراج کی زمین میں آپ کا اجتہاد اور اسلامی نقود (سکوں) کی ایجاد میں آپ کا کیا کردار رہا ، وغیرہ وغیرہ۔عدالتی نظام کو ترقی دینے میں آپ کا کتنا عظیم کردار ہے۔ قاضیوں اور ججوں کے پاس آپ نے کون سے اہم خطوط بھیجے، قاضیوں کو کہاں اور کیسے متعین کیا، ان کے درجات اور اوصاف کے ساتھ ان کی ذمہ داریاں کیا ہوں، منصفانہ احکامات میں کن بنیادوں اور کن دلائل پر اعتماد کیا جائے، ان تمام گوشوں کو میں نے خوب واضح کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ عدالتی نظام میں آپ کا کیا اجتہاد رہا، مثلاً اگر کوئی شخص ملک اور اسٹیٹ کی جعلی مہریں بنوا لے یا بیت المال سے چوری کر لے، یا ایک آدمی زنا کی حرمت سے ناواقف ہے اور زنا کر بیٹھا یا اس طرح کے دیگر فقہی اور عدالتی احکامات ہیں تو ان میں آپ نے کیسے اجتہاد کیا۔

گورنروں کے ساتھ برتاؤ اور تعامل میں فاروقی فقہ کو بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ آپ کے دور میں اسلامی مملکت میں کتنی ریاستیں بنیں، کون کہاں کا گورنر ہوا، گورنروں کی تقرری میں آپ کے اصول و ضوابط اور شرائط کیا تھیں، آپ کے گورنروں کی کیا صفات تھیں، ان کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں کیا تھیں، آپ نے گورنروں کا کیسے احتساب و نگرانی کی، گورنروں کے بارے میں عوام کی شکایتوں سے متعلق آپ کا کیا برتاؤ رہا۔ سیدنا خالد بن ولیدؓ کو آپ کے معزول کیے جانے کا واقعہ بیان کیا اور پہلی و دوسری معزولی کو واضح کیا۔ معزولی کے اسباب کیا تھے، ان کی آخری معزولی کی خبر سن کر اسلامی معاشرہ نے اس فیصلہ پر کیا رخ اختیار کیا اور معزولی کی قرار داد پا کر خود سیّدنا خالد بن ولیدؓ نے کس اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا اور بستر مرگ پر سیدنا عمر فاروقؓ کے بارے میں آپ نے کیا کہا، ان تمام چیزوں کو میں نے ضبط کیا ہے۔

آپ کے دور کی فتوحات، مثلاً فتح عراق، ایران ، شام، مصر اور لیبیا وغیرہ کی تاریخی حیثیت میں نے واضح کی ہے، ان فتوحات میں درس و عبرت کی باتوں اور فوائد و سننِ الٰہی کا تذکرہ کیا ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ اور آپ کے جرنیلوں کے درمیان جن خطوط کا تبادلہ ہوا اس پر بھی روشنی ڈالی ہے اور پھر اس کی روشنی میں قوموں کی قیادت، مملکتوں کے قیام، معاشروں کی تربیت، قائدین کی صحیح رہنمائی اور جنگی فنون کے اصول و ضوابط کو مرتب کیا ہے۔

آپ کی طرف سے گورنروں کو بھیجے جانے والے خطوط کو سامنے رکھ کر اللہ کے حقوق کی نشاندہی کی ہے، جیسے دشمن کے غالب آ جانے پر صبر سے کام لیں، جہاد کا مقصد صرف اللہ کے دین کی تائید ہو، امانت داری کا پورا پاس و لحاظ ہو، اللہ کے دین کی مدد میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو اور جرنیلوں و گورنروں کے حقوق کی بھی نشاندہی کی ہے، جیسے ان پر اپنے حکام کی اطاعت اور ان کی تابع داری ضروری ہے، نیز فوجیوں کے حقوق ہیں، وہ یہ کہ ایک ایک کر کے ان کی خبر گیری کرنا، ان کی ضرورتوں کو محسوس کرنا، ان کے ساتھ نرمی کرنا اور ان کو پامردی کے ساتھ جنگ پر ابھارنا… الخ۔

میں نے یہ بحث چھیڑی ہے کہ آپ کا سلاطین و ملوک کے ساتھ کیسا تعلق تھا، آپ کے دور کی فتوحات کے کیا نتائج رہے، نیز یہ کہ آپ کی زندگی کے آخری ایام کیسے تھے اور آپ نے اپنی موت کی قربت کو کیسے بھانپ لیا تھا، جس کے لیے آپ ہمہ تن تیار تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعد سے شہادت کا درجہ پانے تک آپ کے دل میں یہ جذبہ (اللہ کی ملاقات کا) موجزن تھا۔

اس کتاب میں میں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ سیّدنا عمر فاروقؓ نے اسلام کو کیسے سمجھا اور لوگوں کے ساتھ کس طرح زندگی گزارتے رہے اور اپنے دور خلافت میں آپ نے تمام تر معاملات کے دھارے میں کیسے اسے مؤثر بنایا۔ میں نے آپ کی شخصیت کو سیاسی، عسکری، اداری اور عدالتی جیسے متعدد گوشوں سے نکھارنے کی کوشش کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ جب آپ رعایا کی حیثیت سے تھے اس وقت کی آپ کی معاشرتی زندگی اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بعد خلافت سنبھالنے کے بعد کی معاشرتی زندگی دونوں میں آپ کیسے رہے۔ آپ کے اس سنہری دور کو واضح کرنے پر میں نے زور دیا ہے جس میں مالیاتی، عدالتی، اداری اور عسکری نظاموں کو ترقی ملی۔

یہ کتاب عظمتِ فاروق کی ایک دلیل ہے، جو ہر پڑھنے والے کو احساس دلاتی ہے کہ آپ ایمان، علم، فکر، گفتگو، اخلاق اور نقوش کے پہاڑ تھے۔ آپ نے عظمت و برتری کو ہر طرف سے سمیٹ لیا تھا اور یہ عظمت آپ کو گہری بصیرت، اسلام کو عملاً کر دکھانے، اللہ کے ساتھ مکمل تعلق رکھنے اور نبی کریمﷺ کے نقش قدم پر چلنے کے نتیجے میں میسر آئی تھی۔ سیّدنا عمر فاروقؓ ان اماموں میں سے ہیں جنہوں نے لوگوں کے لیے نشانِ راہ متعین کیا اور جن کے اقوال و افعال پر اس دنیا میں عمل کرتے ہوئے لوگ فخر محسوس کرتے ہیں۔ درحقیقت آپ کی سیرت ایمان کے طاقتور سر چشموں میں سے ایک ہے اور صحیح اسلامی جذبہ کی علامت اور اس دین کی صحیح سمجھ کے لیے ایک منارہ ہے۔ امت مسلمہ کو ان باصلاحیت ہستیوں کو پڑھنے کی سخت ضرورت ہے جو صحابہ کرامؓ کی پیروی کرتے ہیں اور سر تاپا بلند کردار کا نمونہ ہیں۔ یہ بلند ہستیاں قربانیاں پیش کر کے ان بلند معانی و کردار کو زندہ کرتی ہیں جسے لوگ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ بے شک خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کی تاریخ ہر دور میں امت مسلمہ کے لیے ایک یادگار ہے، اس سے فائدہ اٹھانا اسی طرح ممکن ہے کہ ان بزرگوں کے طرز زندگی کو سامنے رکھیں اور ان سر کردہ شخصیتوں کے پاک نظریات کو امت کے افراد موجودہ دور کے احوال و ظروف میں عملاً ثابت کر دکھائیں، تاکہ کسی کا یہ خیال نہ ہو کہ یہ نظریات اور دروس و عبرت کی باتیں صرف اس زمانے کے موافق تھیں، اب دوبارہ اس پر عمل کرنے کے لیے اسی طرح کا زندہ ماحول وجود میں لانا ضروری ہے۔ حالانکہ حقیقت و واقعات اس بات پر گواہ ہیں کہ جب جب ایمانی قوت میں حرارت رہی اور اللہ کی طرف بڑھنے (شہادت کا درجہ پانے) کا جذبہ موجزن رہا اور مسلمان اللہ کی طرف پیش رفت کرنے پر قائم رہے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے وقت میں اپنے اولیاء اور پیاروں کی مدد کی ذمہ داری لی اور زندگی کے ناخوشگوار ماحول کو ان کے موافق کردیا۔

میں نے سیدنا عمر فاروقؓ کی شخصیت، کارناموں اور آپ کے دور کی تحقیق میں اپنی وسعت کے مطابق محنت کی ہے، غلطیوں سے پاکی اور لغزشوں کے عدم امکان کا میرا دعویٰ نہیں ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا مندی مطلوب ہے۔ مجھے اس سے ثواب کی اُمید ہے اور وہی میرا مددگار ہے۔ اس کے نام بہترین ہیں اور وہ دعاؤں کا سننے والا ہے۔اس طرح میں اس کتاب کی تالیف سے بروز بدھ صبح سات بج کر پانچ منٹ پر بتاریخ 13 رمضان المبارک 1422ھ مطابق 28 نومبر 2001ء فارغ ہوا۔ اوّل و آخر ہمیشہ صرف اللہ ہی کا فضل و کرم ہے، اس سے دعا ہے کہ اس عمل کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور کتاب سے استفادہ کرنے کے لیے اپنے بندوں کے سینوں کو کشادہ کر دے، اپنے احسان، کرم اور سخاوت سے اس میں برکت عطا فرمائے۔ اس کا فرمان ہے:

مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

(سورة فاطر: آیت، 2)

ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ جو رحمت لوگوں کے لیے کھول دے سو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کر دے سو اس کے بعد اس کو کوئی جاری کرنے والا نہیں اور وہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘

اس مقدمہ کے آخر میں خشیت و انابت سے لبریز دل کے ساتھ اللہ عزوجل کے سامنے اس کے فضل و کرم کا اعتراف کرتے ہوئے کھڑا ہوں، وہ کرم نواز، معین اور توفیق دینے والا ہے۔ اوّل و آخر اس کے جو بھی مجھ پر احسانات ہیں میں اس پر اس کا شکر گزار ہوں اور اس سے دعاگو ہوں کہ الٰہی میرے عمل کو خالص اپنی رضامندی کے ذریعہ سے اور اپنے بندوں کے حق میں نفع بخش بنا، ہر حرف کے بدلے جسے میں نے تحریر کیا ہے ثواب عطا کر دے اور اسے میری نیکیوں کے میزان میں رکھ دے اور میرے ان تمام بھائیوں کو اجر سے نواز دے جنھوں نے میری اس ادنیٰ سی کوشش کو منزل تک پہنچانے میں اپنی بھرپور مدد کی ہے۔ میری ہر اس مسلمان بھائی سے درخواست ہے جو اس کتاب کو پڑھے کہ اس بندۂ عاجز کو دعاؤں میں نہ بھولے۔

ارشاد الٰہی ہے:

رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ

(سورة النمل: آیت، 19)

ترجمہ: ’’اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک عمل کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے، مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے۔‘‘

سبحانک اللّٰه وبحمدک أشہد أن لا الٰہ الا أنت أستغفرک وأتوب الیک

وآخر دعوانا أن الحمد للّٰه رب العالمین