Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام پر دو سورتوں معوذتین کے حوالے سے امامیہ کے الزام کا تحقیقی محاسبہ ۔

  وقاص علی

 جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام پر دو سورتوں معوذتین کے حوالے سے امامیہ کے الزام کا تحقیقی محاسبہ ۔

♦️ امامیہ  کی طرف سے جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام کے حوالے سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ قرآن کی آخری دو سورتوں کے منکر تھے اس بنیاد پر امامیہ   اہل سنت کو کہتے ہیں کہ امامیہ پر اعتراض کرنے سے پہلے اہل سنت اپنے گھر کی خبر لیں۔


 جواب اول اسنادی بحث ۔

سب سے پہلے ہم اس کی سند پر بحث کرتے ہیں۔اسکی بنیادی سند کچھ اس طرح ہے

عبداللہ بن احمد من حدیث الاعمش عن ابی اسحاق عنہ عبد الرحمن بن یزید قال کان عبداللہ بن مسعود یخک معوزتان من مصاحفتہ ویقول انھما لیستا من کتاب اللہ ۔

  طبرانی کبیر رقم روایت نمبر 1950۔

 مسند بزاز رقم روایت نمبر 1586۔

1.اس روایت میں بنیادی الفاظ جن کی وجہ سے سبائیوں کی طرف سے اعتراض ہے وہ یہ ہیں

" لیستنا من کتاب اللہ"

یہ الفاظ جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام اور صرف راوی عبد الرحمن بن یزید نخی نے بیان کئے ہیں اور ان الفاظ میں وہ منفرد ہیں جبکہ جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام سے روایت کرنے والے جناب علقمہ رحمت اللہ علیہ اور جناب زر بن جیش رحمۃ اللہ علیہ کی روایات میں یہ الفاظ نہیں ۔

2.جناب عبدالرحمان بن یزید سے نقل کرنے والے راوی ابو اسحاق ہیں جن کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ تعالی عنہ لکھتے ہیں کہ

ابن مبارک یقول:انکا افسد حدیث اھل کوفہ ابو اسحاق ۔

اہل کوفہ سے ابو اسحاق نے روایات کو فاسد کر دیا ہے

 میزان الاعتدال جلد سوم رقم 3520

اور جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام کی زیر بحث روایت اہل کوفہ یعنی جناب سلیمان بن مہران اعمش کوفی سے ہے ۔لہاذا اس علت کی وجہِ سے بھی حجت نہ رہی۔

2.ابو اسحاق کے بعد دوسرے راوی جناب اعمش ہیں ان کے بارے میں امام ذہبی امام ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہوئے رقم ہیں کہ

انما افسد حدیث اھل کوفہ ابو اسحاق ،الاعمش لکم ۔۔۔

حدیث اعمش اضطراب کثیر

قلت وھویدلس وربما دلس ون ضعیف ولا یدری بہ ۔

جناب اعمش اور ابو اسحاق اہل کوفہ کی روایات کو فاسد کر دیتے ہیں (یعنی یہ کسی کام کی نہیں رہتیں ۔۔حیدری)

ان کی روایات میں بہت زیادہ اضطراب ہوتا ہے،اور تدلیس بھی کرتے ہیں،اور اکثر ضعیف راویوں سے روایت کرتے ہیں،

  میزان الاعتدال جلد سوم رقم3520۔

اس زیر بحث روایت میں جناب اعمش عن سے روایت کر رہے ہیں اور مدلس راوی ثقہ بھی ہو تو اس کے "عن" والی روایت حجت نہیں ہوتی۔

3.اس کی ایک روایت کی سند جو جناب علقمہ رحمت اللہ علیہ کی ہے

 معجم کبیر طبرانی جلد ہشتم رقم روایت نمبر 9152۔

یہ بھی حجت نہیں

اس میں ایک راوی حسان  بن ابراہیم ہیں گو کہ ثقہ ہیں لیکن  غریب روایات نقل کرتے ہیں جس کی وجہ سے صحاحِ ستہ کے مصنفین نے ان سے روایات نہیں لی ہیں ۔ان کے بارے میں امام نسائی فرماتے ہیں کہ

" لیس بقوی"

امام ابن عدی ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

حدیث بافرادات کثیرہ وجود من اھل صدق آلا انہ یغلط۔

یہ حدیث کو روایت کرنے میں غلطی کرتے ہیں،اور ایسی روایات بیان کرتے ہیں جو کسی سے نہیں ہوتیں۔

 میزان الاعتدال جلد سوم ۔

اس روایت میں دوسرے راوی صلہت بن بہرام ہے امام ابو زرعہ نے ان کے بارے میں جرح فرمائی ہے ۔

 میزان الاعتدال جلد سوم۔

اس روایت میں ایک اور راوی ازرق بن علی ہے جس روایت میں ازرق بن علی ،حسان بن ابراہیم اور صلہت بن بہرام یہ تینوں موجود ہوں وہ روایت معلل ہوتی ہے جو کسی صورت میں قبول نہیں کی جا سکتا ہے ۔

ارزق بن علی کی میری تحقیق کے مطابق امام ابن حبان کے علاؤہ کسی نے توثیق نہیں کی اور امام ابنِ حبان توثیق میں متساہل ہیں

امام نووی رحمہ اللہ تعالی، امام ابن حزم رحمہ اللہ تعالی شامل جمہور علماء نے ان روایات کی وجہ سے جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام پر معوذتین کے انکار والی روایت کی وجہ سے اس نسبت کو باطل کہا ہے ملاحظہ فرمائیں۔

  محلی جلد اول صفحہ نمبر 123۔

 فواتح الرحموت جلد دوم صفحہ نمبر 12, مقالات کوثری صفحہ نمبر 16۔

  تاریخ قرآن صفحہ نمبر 102۔

پھر یہ روایت معلل بھی ہے جو سند درست ہونے کے باوجود بھی حجت نہیں۔

  مقدمہ فتح الملہم صفحہ نمبر54۔

خصوصی طور پر ایسی صورت میں یہ حجت نہیں جب دوسری حسن درجہ کی روایات اور اجماع صحابہ و جملہ امت مسلمہ اس روایت کے خلاف ہوں

 جواب دوم متن سے استدلال کا رد 

امامیہ کی طرف سے جن روایات کو اہل سنت پر الزام دینے کے لیے پیش کیا گیا اگر اس کی سند کو درست بھی مان لیا جاے تو اس صورت میں بھی نہ  تو اس سے اہل سنت پر قرآن مجید میں تحریف کا الزام لازم آتا ہے اور نہ امامیہ کو اپنے تحریف قرآن کی روایات سے اس روایت سے کوئی سہارا ملتا ہے اور نہ جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام کی طرف سے جملہ صحابہ کرام علیہم السلام پر تحریف قرآن کا الزام لازم آتا ہے شرح اس کی یہ کہ 

1.اس میں یہ کہیں نہیں کہ جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام نے ان  سورتوں کو انسانی کلام مانتے تھے جس کی وجہِ سے تحریف لازم اے آپ علیہ السلام تو اس کے معتقد ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے کہ چناچہ ان ہی روایات کے ایک متن میں اس پر دلالت موجود ہے روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ

"ان عبد اللہ یحک معوذتین من المصاحف ویقول انما امر رسول اللہ صلی علیہ وآلہ السلام ان یتعوذ بھما ولم یکن یقرا بھما "

جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام مصاحف سے معوذتین کو ہٹا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان سورتوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعوز کرنے کا حکم فرمایا ہے اور قرآت کرنے کا نہیں فرمایا۔

 معجم کبیر طبرانی جلد ہشتم رقم روایت نمبر9152۔

دنیا کی کسی کتاب میں اللہ کے کلام کو تسلیم کرنے کے بعد صرف مصحف قرآن مجید میں کسی چیز کو صرف نہ لکھنے کے موقف کو تحریف قرآن کو کبھی ثابت نہیں کیا جا سکتا ۔

اور اسی موقف کا اقرار امامیہ مذہب کی معتبر کتاب فقہ الرضا میں موجود ہے ملاحظہ فرمائیں عربی عبارت

وأن (المعوذتين) من الرقية، ليستا من القرآن دخلوها في القرآن و قيل: أن جبرئيل عليه السلام علمها رسول الله صلى الله عليه وآله. فإن أردت قراءة بعض هذه السور الأربع فاقرأ (والضحى) و (ألم نشرح) ولا تفصل بينهما وكذلك (ألم تر كيف) و (لايلاف). وأما (المعوذتان) فلا تقرأهما في الفرائض، ولا بأس في النوافل

 فقہ الرضا صفحہ نمبر 113

جواب سوم ۔ عبداللہ بن مسعود علیہ السلام معوذتین کے کلام اللہ ہونے کے معتقد تھے۔

1.جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام معوذتین کے کلام اللہ ہونے کے معتقد تھے اس کا ثبوت حسن سند سے ملاحظہ فرمائیں

جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود نقل کرتے ہیں کہ

النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لقد انزل علی آیات کم ینزل علی مثلھن الموذتین۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر چند آیات ایسی نازل کی گئی ہیں جس کے  کو اپنی مثال آپ ہیں وہ معوذتین کی آیات ہیں۔

 طبرانی اوسط جلد دوم رقم حدیث نمبر 2658۔

در منثور جلد خامس عشرہ تفسیر سورہ فلق صفحہ نمبر 786.

اسی طرح جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام گھر والوں کو نفع اٹھانے کے لیے یہ دو سورتیں معوذتین دم کرنے کا حکم فرماتے تھے

طبرانی کبیر جلد ہشتم رقم روایت نمبر 8863۔

 در منثور جلد خامس عشرہ صفحہ نمبر 792

2.دوسرا ثبوت یہ ہے کہ جناب ابوبکر صدیق علیہ السلام اور جناب عثمان غنی علیہ السلام نے جب قرآن مجید جمع و قرآت پر کام فرمایا تو ان کے مصاحف پر جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام نے یہ اعتراض کبھی  نہیں کیا کہ ان حضرات نے معوذتین جو کلام اللہ نہیں اس کو داخل قرآن کر دیا ۔

3.تیسرا شاہد جو اس  بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام  معوذتین کو قرآن مجید کا حصہ جانتے تھے،شرح اس کی یہ ہے کہ جو متواتر قراتیں منقول ہیں ان میں معوذتین شامل ہیں قرآت عشرہ میں سے جناب عاصم رحمۃ اللہ علیہ کی قرات حضرت ابو عبدالرحمان سلمی ، زر بن جیش اور حضرت ابو عمرو الشیبانی سے منقول  ہیں یہ تینوں حضرات جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں،اسی طرح حضرت حمزہ کی قرآت جناب علقمہ،جناب اسود بن وہب ،مسروق،عاصم بن ضمرہ اور جناب حارث سے منقول ہیں یہ سب حضرات جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔اس کے علاؤہ قرآت عشرہ میں سے جناب کسانی اور جناب حلف  کی قراتین بھی  بالآخر  جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام  پر ختم ہوتی ہیں  اور اس میں معوذتین شامل ہیں ۔

 کتاب النشر محمد بن جزری جلد اول 156,166صفحہ نمبر

 کشف النظر شرحِ جلد اول صفحہ نمبر 84 ۔

خلاصہ یہ کہ

1.جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام سے منسوب روایات جن میں معوذتین کے قرآن نہ ہونے کا تزکرہ ہے وہ اسنادی حیثیت سے اس قابل نہیں کہ ان کے بنیاد پر اہل سنت کے قرآن کو ناقص یا اصحاب رسول کو تحریف کرنے والا دیکھایا ثابت کیا جا سکے ۔

2.ان روایات کا متن اس پر دلالت نہیں کرتا کہ معوذتین کو قرآن میں داخل کرنے والا غیر اللہ کے کلام کو قرآن مجید میں لکھنے والا تحریف قرآن کا مرتکب گردانا جائے جبکہ تحریف قرآن تب ثابت ہوتی ہے کہ کسی انسانی کلام کو قرآن بنا کر مصحفی میں نقل کر دیا جائے ۔

3.جناب عبداللہ مسعود علیہ السلام کی مرجوع  روایت میں جو مضمون ہے اس کی تائید امامیہ کتب میں بھی نقل ہوئی ہے جس کو کسی شیعہ مجتہدین جو تحریف قرآن کے قائل ہیں ،نے بھی تحریف قرآن کے ثبوت میں پیش نہیں کیا کیونکہ کہ اس کا متن تحریف قرآن  پر دلالت ہی نہیں کرتا

4۔معوزتین کا کلام الٰہی ہونا جناب عبداللہ بن مسعود علیہ السلام کی اپنی روایت سے ثابت  اور ان سے نقل کرنے والے دوسرے تابعین نے بھی معوذتین کو ان سے نقل کیا نقل کیا ہے۔


مصنف کا یوٹیوب چینل 

لنکmail