Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ابتداء شیعت

  توقیر احمد

  ابتداء شیعت

 فہرست

 ابتدایہ

  پہلادعوی 

 بطلان دعوی

 ابتداشیعت دوسرادعوی

 بطلان دعوی 

 ابتداءشیعت تیسرادعوی

 بطلان دعوی

 ابتداءشیعت چوتھادعوی

 بطلان دعوی

 ابتداء شیعت میں غیر شیعہ لوگوں کی آرا

 پہلاقول

 تبصرہ

 دوسراقول

 تیسراقول

 چوتھاقول

 عبداللہ ابن سباء کا تعارف شیعہ کتب سے

  ابتداءشیعت میں راجح ترین قول 

ابتدایہ۔۔۔۔

شیعہ مذہب کی بنیادی طور پر نشوونما کے مختلف حالات ہیں اور عقائد میں بھی تدریجی تغیر کے مختلف مراحل سے مربوط ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ شیعی عقائد و افکار ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں چنانچہ عصراول میں تشیع کا مفہوم اور تھا اور اس کے بعد تشیع کا مطلب کچھ اور ہو گیا 

مثلا۔ اولین زمانے میں شیعہ صرف اس شخص کو کہتے تھے جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل کہتا ہے اس لئے کسی کو شیعان عثمان رضی اللہ عنہ   کہتے تھے اور کسی کو شیعان علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے 

 الحورالعین صفحہ 179 

 المنیۃ والامل صفحہ 81  

اس بنیاد پر عہد اول میں شیعہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو محض علی رضی اللہ تعالی عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ  پر مقدم کرتے ہیں 

یہ لوگ اگرچہ شیعہ نام سے موسوم تھے لیکن پھر بھی وہ اہل سنت میں شامل تھے کیونکہ عثمان و علی رضی اللہ عنہما کو ایک دوسرے پر فضیلت و فوقیت دینا کوئی ایسا اصولی مسئلہ نہیں جس کی بنیاد پر دوسرے کو گمراہ کہا جا سکےالبتہ مسئلہ خلافت کی بنا پر ضرور مخالف کو گمراہ کہا جائے گا  اہل سنت کے درمیان ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو متفقہ طور پر مقدم کرنے کے بعد عثمان و علی رضی اللہ عنہما کی بابت اختلاف تھا کہ دونوں میں کون افضل ہےکسی نے عثمان رضی اللہ عنہ کو افضل کہا اور اس مسئلے میں سکوت اختیار کیا یا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو چوتھے نمبر پر رکھا اور کسی گروہ نے علی رضی اللہ عنہ کو افضل کہا اور ایک گروہ نے اس مسئلے میں توقف اختیار کیا لیکن پھر اہل سنت کے ہاں یہ بات طے ہوگی کہ عثمان رضی اللہ عنہ افضل ہیں 

 مجموع الفتاوی لا بن تیمیہ جلد 3 صفحہ 153 

 فتح الباری جلد 7 صفحہ 34 

 ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلے شیعہ جو علی رضی اللہ عنہ کی زندگی میں تھے وہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو افضل قرار دیتے تھے 

 منہاج السنہ جلد 2 صفحہ 60 

شریک بن عبداللہ نے ایسے شخص کو شیعہ کہنے سے منع کیا تھا جو علی رضی اللہ عنہ کو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دیتا ہےکیوں کہ یہ بات علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اس بارے میں تواتر سے منقول امر کے خلاف ہےان کے نزدیک شیعہ سے مراد معاونت اور متابعات ہے نہ کہ مخالفت اور کسی سے نفرت و عداوت کی بنا پر ترک تعلق کرنا 

 التنبیہ والرد صفحہ 18   

 الفرق بین الفرق صفحہ 21 

 التبصیر فی الدین صفحہ 16 

 البرھان ص 36 

 رسالة  فی بیان مزاہب بعض الفرق الضالة ۔الورقة ٢مخطوط

امام ابن البط رحمۃ اللہ علیہ عبد اللہ بن زیاد بن جدیر سے نقل کرتے ہیں کہ جب ابو اسحاق شیعی کوفہ تشریف لائے تو شمر بن عطیہ نے ہمیں کہا کہ ان کے پاس جاؤ چنانچہ ہم ان کے پاس بیٹھے تو لوگوں کی گفتگو کے دوران میں امام ابو اسحاق فرمانے لگے جب میں کوفہ سے نکلا تھا تو کوئی ایک شخص بھی اس بارے میں متردد نہیں تھا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما دوسرے تمام صحابہ کرام سے افضل اور مقدم ہیں لیکن اب جب میں آیا ہوں تو وہ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں 

 المنتقیٰ صفحہ 36 

علامہ محب الدین خطیب فرماتے ہیں

یہ بڑی اہم صریح تاریخی عبارت ہے جو شیعت کے مختلف مراحل کی تحدید کرتی ہے ابو اسحاق شیعی کوفہ شہر کے بہت بڑے عالم تھے یہ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کے خلافت کے دوران میں ان کی شہادت سے تین سال پہلے پیدا ہوئے اور طویل عمر پا کر 127 ہجری کو فوت ہوئے چنانچہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت ابھی بچے ہی تھے حتیٰ کہ وہ خود اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے اوپر اٹھایا تو میں نے علی رضی اللہ عنہ کو خطبہ ارشاد فرماتے سنا اس وقت ان کی داڑھی اور سر کے بال سفید تھے اگرچہ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کوفہ سے کب نکلے لیکن یہ بات طے ہے کہ جب کوفہ کے شیعہ لوگ حقیقتا علی رضی اللہ عنہ کے پیروکار اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی تفضیل سے متعلق اپنے امام علی رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق ابوبکر و عمر اللہ عنہماکی افضلیت کا اعتقاد رکھتے تھے وہ کب ان سے الگ ہونا شروع ہوئے اور ان کے اس راسخ عقیدے کے خلاف جانے لگے جو ان کے ایمان میں داخل تھا جس کا وہ کوفہ کے ممبر پر اعلان کرتے تھے یعنی یہ کہ وہ ان کے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاءاور وزیر اور بہترین زمانے میں امت کے معاملے میں ان کے افضل ترین جانشین تھے

  المنتقی صفحہ 360 361 حاشیہ 

لیث بن ابی سلیم فرماتے ہیں 

میں نے اولین شیعہ کو دیکھا ہے وہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما پر کسی بھی شخص کو فضیلت و فوقیت نہیں دیتے تھے 

 المنتقی صفحہ 360 361

سیدنا علی کے زمانہ خلافت میں جتنے بھی مہاجر و انصار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین اور ان کی پیروی کرنے والے تھے وہ سب ان کی قدر اور منزلت کو پہچانتے اور انہیں ان کے شایان شان مقام فضیلت پر فائز رکھتے تھے اور یہ سب لوگ کسی صحابی رسول کی تنقیص کو روا نہیں سمجھتے تھےچہجائکہ ان کی تنقیص کرتے یا انہیں سب و شتم کا نشانہ بناتے 

 تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 3 

لیکن شیعہ مذہب ہمیشہ اس پاکیزگی اور سلامتی پر قائم نہ رہا بلکہ شیعت کا نقطہ نظر بدل گیا تو یہ مختلف گروہ بن گئے اور شیعت ایسی آڑ بن گئی جس کے پیچھے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے والے دشمن باآسانی چھپ جاتے تھےاسی لیے  ائمہ دین سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہما پر طعن و تشنیع کرنے والے کو شیعہ نہیں بلکہ رافضہ کہا کرتے تھے کیونکہ وہ شیعہ لقب کے حقدار نہیں تھے جو شخص بھی شیعہ مذہب کے عقائد میں رونما ہونے والے تدریجی تغیر سے آگاہ ہے تو اس کے نزدیک ائمہ محدثین اور دیگر علماء امت پر جو اہل سنت میں شامل تھے شیعہ کے لقب کا اطلاق کوئی تعجب انگیز عمل نہیں ہے کیونکہ سلف امت کے زمانے میں شیعیت کا مفہوم بعد میں پیدا ہونے والے شیعہ مذہب کے مفہوم سے یکسر مختلف تھا اسی لئے امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ محدثین پر بدعت تشیع کے الزام سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں 

بدعت کی دو قسمیں ہیں بدعت صغری جیسے تشیع میں غلو کرنا یا جیسے غلو کے بغیر ہی شیعت کو اختیار کرنایہ تابعین اور ان کے اتباع میں تدین ورع اور صدق کے باوجود بہت زیادہ تھی اگر اس جماعت کی احادیث کو رد کیا جائے تو احادیث نبوی کا بہت بڑا ذخیرہ ضائع ہوجائے گا اور اس میں واضح خرابی ہے 

بدعت کبریٰ جیسے رفض کامل اور اس میں غلو ابوبکر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر زبان درازی اور اس مذہب کی تبلیغ اس قسم کے لوگوں کی روایات سے احتجاج استدلال نہیں کیا جاسکتا بلکہ تائید کے طور پر بھی ان کی روایات ذکر نہیں کی جاسکتی نیز اس قماش کے لوگوں میں سے میں ایک آدمی بھی نہیں جانتا جو صادق اور امانت دار ہوں بلکہ جھوٹ تقیہ اور نفاق ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ایسے لوگوں کی نقل کردہ بات کو قبول کرنا کس طرح درست ہوسکتا ہے قطعا نہیں بلکہ زمانہ سلف میں ان کی اصطلاح میں غالی شیعہ وہ ہوا کرتا تھا جو عثمان زبیر طلحہ معاویہ اور علی رضی اللہ عنہم سے لڑنے والے دوسرے لوگوں پر حرف گیری اور ان کو سب وشتم کرنے کے در پے ہوتا تھا لیکن ہمارے زمانے اور معاشرے میں غالی شیعوں وہ شخص ہے جو ان سادات دین کی تکفیر کرتا اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے برات کا اظہار کرتا ہے ایسا شخص یقینا گمراہ اور افتراء پرداز ہے 

 الذھبی میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 5 ۔ 6  

 لسان المیزان جلد 1 صفحہ 9 ۔10    

 اب اس بحث سے ہمارے سامنے تین موضوع آئے 

١۔۔۔مذہب اہل بیت و اولین اہل تشیع 

٢۔ ۔اولین اہل تشیع اور متاخرین اہل تشیع یعنی رافضہ میں فرق۔

٣۔ ۔اہل تشیع کا فکری اور نظریاتی طور پر  مختلف بےشمار فرقوں میں تقسیم ہونا۔  

ان تینوں موضوعات سے صرف نظر کرتے ہوے ہم بحث کرتے ہیں ابتداء شیعت پر کہ شیعت کی ابتداء کب ہوئی ۔ 

 شیعت کی ابتداء کا پہلا دعوی

شیعہ مذہب قدیم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے بھی قبل معرض وجود میں آیا اور ہر نبی کو ولایت علی پر ایمان لانے کی تلقین کی گئی

شیعہ نے اس چیز کو ثابت کرنے کے لئے بڑے بڑے افسانے تراشے ہیں  کتاب الکافی۔

١۔ ۔بعث الله فيهم النبيين يدعونهم إلى الاقرار بالله وهو قوله: " ولئن سألتهم من خلقهم ليقولون

الله  ثم دعاهم إلا الإقرار بالنبيين، فأقر بعضهم وأنكر بعضهم، ثم دعاهم إلى

ولايتنا فأقر بها والله من أحب وأنكرها من أبغض وهو قوله: " فما كانوا ليؤمنوا بما كذبوا به من قبل  " ثم قال أبو جعفر عليه السلام: كان التكذيب ثم.

اس کے ہم معنی ٩ روایات موجود ہیں 

  ابو الحسن سے مروی ہے کہ ولایت علی رضی اللہ انبیاءؑ کے تمام آسمانی صحیفوں میں مکتوب ہے اور اللہ تعالی کوئی ایسا رسول مبعوث نہیں فرمائے گا جس کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی اور علی رضی اللہ تعالی عنہ کے وصی ہونے کا پیغام نہ ہو 

الکافی جلد 1 صفحہ36۔ 437

٢۔ ۔ابو جعفر سے اللہ تعالی کے اس فرمان Surat No 20 : Ayat No 115 

وَ لَقَدۡ عَہِدۡنَاۤ  اِلٰۤی اٰدَمَ مِنۡ قَبۡلُ فَنَسِیَ  وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا ﴿۱۱۵﴾                 

سے متعلق مروی ہے یعنی ہم نے اس آدم سے محمد اور ان کے بعد والے ائمہ سے متعلق عہدلیا لیکن اس نے وہ توڑ دیا اور وہ اپنے ارادے میں مضبوط نہ تھا اور جن انبیاء کو اولولعزم کہا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان سے محمد اور ان کے بعد اوصیاہ اور  مہدی اور اس کی سیرت و صفات سے متعلق عہد لیا تھا اور انہوں نے اس پر عزم کیا اور اس کا اقرار کیا تھا 

 الکافی جلد 1 صفحہ 416 

 علل الشرائع صفحہ 122 

 الصافی جلد 2 صفحہ 80 

 القمی جلد 2 صفحہ 65 

 المحجة صفحہ 635 

 بحار الانوار 11/35۔26/278

 بصائر الدرجات صفحہ 21

٣۔ ۔یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے علی اللہ تعالی نے جو نبی بھیجا ہے بےشک اسے تمہاری ولایت کی دعوت دی ہے خواہ وہ خوش ہو یا ناخوش 

 بحار الانوار جلد 11 صفحہ 60 

 المعالم الزلفی صفحہ 303 

 بصائر الدرجات  للصفاءاورالاختصاص للمفید میں بھی موجود ہے 

۴۔ ۔ابو جعفر سے ایک دوسری روایت میں مروی ہے ۔یقینا اللہ تعالی نے تمام انبیاء سے ولایت علی کاپختہ عہد لیا ہے

 المعالم الزلفی صفحہ 303 

۵۔ ۔ابو عبد اللہ کہتے ہیں ۔۔ہماری ولایت دراصل اللہ تعالی کے ولایت ہے ہر نبی اس کے ساتھ مبعوث ہوا ہے  

 مستدرک الوسائل جلد 2 صفحہ192

 المعالم الزلفی صص303

٦۔ ۔۔شیعہ عالم بحرانی نے تو اس مسلےکے لیے ان الفاظ میں باب قائم کیا ہے 

 باب ان الأنبیاء بعثوا الی ولایة الائمة

 المعالم الزلفی ص303

 ٧۔ ۔۔شیعہ نے کہا ہے کہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اللہ تعالی کے تمام انبیاء و رسول اور تمام مومنین علی بن ابی طالب کی دعوت قبول کرنے والے تھے اور یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ انبیاء و رسول اور تمام مومنین کی مخالفت کرنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور ان سے محبت کرنے والوں سے بغض و عداوت رکھنے والے ہیں چنانچہ اولین و آخرین میں سے جنت میں صرف وہی داخل ہو گا جو ان سے محبت کرتا ہوگا چنانچے وہی جنت اور جہنم کی تقسیم کرنے والے ہیں 

 تفسیر صافی جلد 1 صفحہ 16 

٨۔ ہم معنی روایات

 الکافی جلد 2 صفحہ 8 

 الوافی جلد 2 صفحہ 155 جلد3 صفحہ 10 

 بحارالانوار جلد 35 صفحہ 151 

 سفینۃ البحار جلد 1 صفحہ 729 

 مستدرک الوسائل جلد 2 صفحہ 195 

 الخصال جلد 1 صفحہ 270 

 علل الشرائع۔ صفحہ 122 ۔۔136-144-174135   

 الفصول المھمة صفحہ 159 

 فرات الکوفی صص11۔13

 الصافی جلد 2 صفحہ 80 

 البرھان جلد 1 صفحہ 86 

 ۔٩۔۔وسائل الشیعة۔ الحرالعاملی کہتا ہے کہ وہ روایات جن میں مروی ہے کہ اللہ تعالی نے مخلوقات کی پیدائش کے وقت تمام انبیاء سے ولایت علی کا عہد و میثاق لیا تھا ایک ہزار سے زیادہ ہیں 

 الفصول المھمة ص 159

١٠۔ ۔۔النوری کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے  ہماری ولایت کو آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں اور تمام شہروں پر پیش کیا تھا 

 مستدرک الوسائل 2/195

١١۔۔۔ہادی الطہرانی کہتے ہیں 

بعض روایات دلالت کرتی ہیں کہ ہر نبی کو ولایت علی کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ اس ولایت کو ہر چیز پر پیش کیا گیا تھا چنانچہ جس نے اسے قبول کرلیا وہ صالح بن گئی اور جس نے اس کو رد کر دیا وہ فاسد بن گئی

 ودایع النبوة ص115

 بطلان دعوی

بعض عقائد و افکار ایسے ہوتے ہیں جن کا ذکر کردینا ہی ان کا فساد و بطلان بیان کرنے کے لیے کافی ہوتا ہےمذکورہ بالا شیعہ نظریہ بھی اس قبیل سے ہے کیونکہ اس کا بطلان بداہتا معلوم ومفہوم ہے اس لئے کہ قرآن مجید ہمارے سامنے موجود ہے جو ایسے ہر قسم کے دعوؤں سے مبرا ہے تمام انبیاء نے صرف توحید کی دعوت دی ہے نہ کہ جس طرح یہ لوگ افتراء پردازی کرتے ہیں کہ ان کی دعوت کا محور علی رضی اللہ عنہ اور آئمہ شیعہ کی ولایت کی دعوت دینا تھا

١۔ ۔۔۔Surat No 21 : Ayat No 25 

وَ مَاۤ  اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ  اِلَّا نُوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ  اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدُوۡنِ ﴿۲۵﴾

 تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو ۔  

قرآن نے انبیاء کی دعوت کی تفصیل زکر کی ہے لیکن کوئی دعوی ولایت نہیں ہے 

٢۔ ۔ Surat No 16 : Ayat No 36 

وَ لَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ  رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ ہَدَی اللّٰہُ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ حَقَّتۡ عَلَیۡہِ  الضَّلٰلَۃُ ؕ فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۳۶﴾

 ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ  ( لوگو ) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو ۔  پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالٰی نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی  پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟ 

  مذکورہ آیت میں بھی ولایت کا کوئی ذکر نہیں ہے 

٣۔ ۔۔Surat No 7 : Ayat No 59 

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَقَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا  لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۵۹﴾

ہم نے نوح  ( علیہ السلام )  کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ۔  

Surat No 7 : Ayat No 65 

وَ اِلٰی عَادٍ  اَخَاہُمۡ ہُوۡدًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا  لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۶۵﴾

 اور ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود  ( علیہ السلام ) کو بھیجا ۔ انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں سو کیا تم نہیں ڈرتے ۔  

  Surat No 7 : Ayat No 73 

وَ  اِلٰی ثَمُوۡدَ  اَخَاہُمۡ صٰلِحًا ۘ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ  مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ  بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمۡ اٰیَۃً فَذَرُوۡہَا تَاۡکُلۡ فِیۡۤ  اَرۡضِ اللّٰہِ وَ لَا تَمَسُّوۡہَا بِسُوۡٓءٍ فَیَاۡخُذَکُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۷۳﴾

 اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح  ( علیہ السلام ) کو بھیجا انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ۔  تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے دلیل ہے سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ تعالٰی کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسکو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کہ کہیں تم کو دردناک عذاب آ پکڑے ۔  

Surat No 7 : Ayat No 85 

وَ اِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا  لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ فَاَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَ الۡمِیۡزَانَ وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ  اِصۡلَاحِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۸۵﴾

 اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب  ( علیہ اسلام ) کو بھیجا انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا  کوئی تمہارا معبود نہیں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے پس تم ناپ اور تول پورا پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے مت  دو اور روئے زمین میں اس کے بعد اس کی درستی کر دی گئی فساد مت پھیلاؤ یہ تمھارے لئے نافع ہے اگر تم تصدیق کرو ۔  

۴۔ ۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا تم اہل کتاب کے ایک گروہ کے پاس جا رہے ہو لہذا تم سب سے پہلے انہیں ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دینا 

 البخاری جلد 2 صفحہ 108 

 المسلم جلد 1 صفحہ 50 ۔ 51 

۵۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس وقت تک لوگوں سے قتال کرو جب تک کہ وہ یہ گواہی نہیں دیتے کہ اللہ صرف ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں 

 البخاری جلد 1 صفحہ 11 

 المسلم جلد 1 صفحہ ۔51 52 

٦۔ ۔ائمہ سلف کا بھی اتفاق ہے کہ بندے کو سب سے پہلے شہادتین کا حکم دیا جائے گا 

 شرح العقیدۃ الطحاویة ص75

٧۔ ۔ولایت علی کے لزوم کا شیعہ دعوی کہاں سے ثابت ہوتا ہے؟؟؟ اگر ولایت علی کا حکم تمام انبیاء کے تمام صحیفوں میں موجود ہے تو پھر اکیلے شیعہ ہی اسے کیوں نقل کرتے ہیں ؟؟اسی طرح دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اس کا علم کیوں نہیں ہوسکا؟؟؟

بلہ یہ مزعومہ ولایت قرآن مجید میں کیوں درج نہیں کی گئی حالانکہ وہ تمام سابقہ کتب پر نگران اور اللہ تعالی کی توفیق سے ابدی طور پر محفوظ ہےجبکہ شیعہ کے امام فقیہ 

آل کاشف الغطاء(ولكن الشيعة الإمامية زادوا (ركناً خامساً) وهو: الإعتقاد بالإمامة. يعني أن يعتقد: أن الإمامة منصب إلهي كالنبوة، فكما أن الله سبحانه يختار من يشاء من عباده للنبوة والرسالة، ويؤيده بالمعجزة التي هي كنص من الله عليه (وربك يخلق ما يشاء ويختار ما كان لهم الخيرةفكذلك يختار

للإمامة من يشاء، ويأمر نبيه بالنص عليه، وأن ينصبه إماماً للناس من بعده للقيام بالوضائف التي كان على النبي أن يقوم بها، سوى أن الإمام لا يوحى إليه كالنبي وإنما يتلقى الأحكام منه مع تسديد إلهي. فالنبي مبلغ عن الله والإمام مبلغ عن النبي.

والإمامة متسلسلة في اثني عشر، كل سابق ينص على اللاحق. ويشترطون أن يكون معصوماً كالنبي عن الخطأ والخطيئة، والإ لزالت الثقة به، وكريمة قوله تعالى: (إني جاعلك للناس إماماً قال ومن ذريتي قال لا ينال عهدي الظالمين) صريحة في لزوم العصمة في الإمام لمن 

تدبرها جيداً.

وأن يكون أفضل أهل زمانه في كل فضيلة، وأعلمهم بكل علم، لأن الغرض منه تكميل البشر، وتزكية النفوس وتهذيبها بالعلم والعمل الصالح

فمن اعتقد بالإمامة بالمعنى الذي ذكرناه فهو عندهم مؤمن بالمعنى الأخص،

والغرض: إن أهم ما امتازت به الشيعة عن سائر فرق المسلمين هو: القول بإمامة الأئمة الأثني عشر، وبه سميت هذه الطائفة (إمامية)

فقد تتجاوز 

طوائف الشيعة المائة أو أكثر، ببعض الاعتبارات والفوارق، ولكن يختص 

اسم الشيعة اليوم ـ على إطلاقه ـ بالإمامية التي تمثل أكبر طائفة في المسلمين بعد طائفة السنة.

 اصل الشیعة واصولھا ص62۔63۔64۔65

 ترجمہ۔ ۔لیکن شیعہ امامیہ نے ایک رکن بڑھا کر پانچ رکن بنا دیے اور وہ عقیدہ امامت ہے یعنی شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امامت نبوت کی طرح منصب الٰہی ہے جس طرح اللہ تعالی نبوت اور رسالت کے لیے کسی کو منتخب کرکے اس کی معجزات سے تائید کرتا ہے اسی طرح امامت کے لئے کسی کو منتخب کرکے نبی کو حکم کرتا ہے کہ وہ لوگوں پر اس کو امام مقرر کریں 

فرق صرف یہ ہے کہ نبی اللہ کی طرف سے مبلغ ہوتا ہے اور امام نبی کی طرف سے مبلغ ہوتا ہے (پیغام پہنچاتا ہے )

اور شیعوں نے امام کے لیے یہ بھی شرط لگائی ہے کہ وہ نبی کی طرح معصوم عن الخطا ہو ۔۔بس جو شخص اس طرح امامت کا عقیدہ رکھے جس طرح ہم نے ذکر کیا (امام منصوص من اللہ اور معصوم عن الخطا ہو )تو وہ شیعوں کے نزدیک خاص مومن ہے

الغرض عام مسلمانوں میں شیعوں کو جو امتیازی حیثیت حاصل ہے وہ اس وجہ سے کہ وہ ائمہ اثنا عشریہ کی امامت کے معتقد ہیں اور اسی بنا پر اس فرقہ کو امامیہ کہتے ہیں خیال رہے کہ تمام شیعہ امامیہ نہیں ہیں کیونکہ لفظ شیعہ کا اطلاق زیدیہ و اسماعیلیہ وغیرہ پر بھی ہوتا ہے اس طرح ایک ١٠٠

بلکہ( بلکہ الخطط میں تین سو) سے بھی کچھ زیادہ شیعہ فرقوں کی فہرست تیار ہو جائے گی لیکن موجودہ زمانے میں شیعہ کا نام امامیہ فرقہ کے ساتھ مختص ہو چکا ہے جو سنیوں کے بعد سب سے بڑی تنظیم ہے 

 اصل الشیعه و اصولها اردو ص62۔63۔64۔65۔عربی ۔58۔59۔60

 معلوم ہوا کہ یہ محض ایک دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے دعوئوں میں مبالغہ کرنے سے انسان تبہی رک سکتا ہے جب اس کے پاس دین عقل یاحیا کی شکل میں کوئی محافظ موجود ہو 

٨۔ ۔۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں 

گزشتہ انبیاء کی کتب میں جہاں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر موجود تھا لوگوں نے اسے نکال کر بیان کر دیا ہے لیکن اس میں کہیں بھی علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر موجود نہیں  ہے اسی طرح جو اہل کتاب مسلمان ہوئے ان میں سے کسی نے بھی یہ ذکر نہیں کیا کہ ان کے ہاں علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر موجود تھا لہذا یہ کہنا کس طرح درست ہے کہ تمام انبیاء کو ولایت علی رضی اللہ عنہ کا اقرار کروا کر مبعوث کیاگیا تھا؟؟؟لیکن کسی نے بھی  اپنی امت کے سامنے اس کا ذکر کیانا ان میں سے کسی نے ایسی کوئی بات کی ہے 

 منہاج آلسنہ  جلد 4 صفحہ ،46

 (ان من گھڑت کہانیوں میں تمام انبیاء پر کتنا بڑا الزام عائد کیا گیا ہے جو یہ بیان کرتی ہیں کہ اوالعزم رسولوں کے سوا آدم علیہ الصلاۃ والسلام اور دیگر تمام انبیاء اور رسل نےولایت علی سے متعلق امر الہی سے روگردانی کی ہےیہ صریحاً بہتان ہے ایسی ولایت بھی باطل ہے اور انبیاء کرام سے متعلق ایسا افتراء جرم عظیم ہے یہ عجیب تضاد ہے کہ عصمت ائمہ سے متعلق تو اتنا غلو کیا جاتا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں جبکہ دوسری طرف پاکیزہ ترین مخلوق انبیاء کرام کے حق میں اتنا ظلم اور زیادتی روا رکھی جاتی ہے کہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ایسی کہانیاں بنانے والوں کے دل و دماغ علم اور ایمان سے تہی دامن اور اخیار امت اور مصلحین کے خلاف بغض اور سازشوں سے بھرے ہوئے تھے ایک طرف تو انبیاء کو معصوم بتاتے ہیں اور ان کے نائبین یعنی ائمہ کرام کو بھی معصوم بتانا ہے اور جبکہ دوسری طرف وہ رسولوں پر بہتان باندھتے ہیں یقینا اسی افتراء پردازی کی جرات کوئی زندیق ہی کرسکتا ہے گویا یہ لوگ ایسی باتوں کے ذریعے اپنے ائمہ کے پیروکاروں کو الغرض رسولوں و انبیاء سے افضل ثابت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے پیروکاروں نے تو ولایت علی وغیرہ سے متعلق تعلیمات کی پیروی کی ہے نیز کیا اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ لوگ شیعت کی راہ سے لوگوں میں داخل ہوکر ان کا دین اور عقائد تباہ کرنا چاہتے ہیں یقینا ایسی بات صریحا گمراہی ہے 

اللہ تعالی نے تو تمام انبیاء سے یہ میثاق لیا تھا کہ اگر ان کی زندگی میں محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوگئے تو وہ ضرور ایمان لا کر ان کی نصرت و تائید کریں گے جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے فرمایا ہے ارشاد باری تعالی ہے 

Surat No 3 : Ayat No 81 

وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ  الشّٰہِدِیۡنَ ﴿۸۱﴾

 جب اللہ تعالٰی نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت سے دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے ۔   فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمّہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے ، فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔  

 گویا یہ لوگ حسب عادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی خوبیاں اور خصائص سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں ڈال دینا چاہتے ہیں مزید برآں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تفصیلی ہدایات و تعلیمات دے کر بھیجا گیا تھا جب ان سب پر ایمان لانے کا تمام انبیاء سے عہد نہیں لیا گیا تھا تو تمام مومنوں کو چھوڑ کر صرف انکے ایک صحابی کی محبت و ولایت کا عہد ان سے کیوں کر لیا جا سکتا ھے۔؟؟؟

 ٩۔۔تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا پھر ان کی اطاعت کی اور ان کی زندگی ہی میں ابوبکر و عمر عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے وجود سے بھی بے خبر رہ کر وفات پا گیا تو اسے قطعاً کوئی نقصان نہیں ہوگا اور یہ چیز اسے دخول جنت سے نہیں روک سکتی جب امت محمدیہ کے ایک فرد کی حالت ہے تو یہ کہنا کس طرح رواہے کہ تمام انبیاء کے لئے ایک صحابی پر ایمان لانا ضروری تھا 

 منہاج سنہ جلد 4 صفحہ 46 

١٠۔ ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہی لوگ کر سکتے ہیں جو عقل سے تہی دامن ہوتے ہیں یہ لوگ تو علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش سے قبل ہی وفات پا چکے تھے پھر  علی رضی اللہ عنہ انبیاء پر کس طرح امیر بن سکتے ہیں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اہلخانہ کے امیر ہوں لیکن یہ بات کہ وہ اپنے سے پہلے اور بعد میں پیدا ہونے والے تمام لوگوں کے امیر تھے تو یہ ایسا جھوٹ صرف وہی شخص بول سکتا ہے جو خود اپنی بات سمجھتا ہے نہ کچھ کہنے سے حیا اسے روکتی ہےیہ بات ابن عربی اور ان جیسے دیگر ملحد صوفیوں کی ان باتوں کی طرح ہے کہ تمام انبیاء خاتم الاولیاء کے نورانی طاقچہ سے علم الہی حاصل کرتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ سو سال بعد عالم وجود میں آیا ان دونوں کی اساس محض کذب غلو شرک باطل دعوے اور کتاب وسنت اور سلف امت کے اجماع کی مخالفت پر استوار ہے

 منہاج سنہ جلد 4 صفحہ 78      

  ایسی بات کی غرض وغایت کیا ہو سکتی ہے جس کا کذب کسی پر مخفی نہیں کیا اس سے مقصود لوگوں کو دین الہی سے محض روکنا تو نہیں ہے ؟؟؟؟

کیونکہ ایسی باتوں کا بطلان ہر ایک کو بداہتا معلوم ہوتا ہے جب یہ لوگ اعلانیہ ایسے دعوے اور نظریات اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں تو دوسرے مزہب کے ماننے والے ایسی باتوں پر مطلع ہو کر اور عقل و نقل کی رو سے ان کا بطلان جان کر سرے سے اسلام ہی میں شک کرنے لگتے ہیں  

مزید برآں جمادات نباتات اور مایعات کے فساد و صلح کی ایسی عجیب و غریب تو جیہ سے متعلق اصحاب علم اور اہل خرد کیا فرمائیں گے کہ یہ سب کچھ ولایت علی کے بارے میں ان کے اختیار کردہ عقیدے کے سبب وقوع پذیر ہوتا ہے 

کوئی علم سے بہراور شخص اس بارے میں کیا کہے گا کیا یہی وہ دین ہے جسے وہ لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں یا اس سے مقصود اسلام کے خدوخال کو بگاڑنا اور لوگوں کو اس سے روکنا ہے بہرحال شیعہ سے ایسی حیرت انگیز آرا کا صدور کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ ایسے عجیب و غریب مبالغہ آمیز دعویٰ جات کرنے کے خوگر ہے جو واضح حقائق اور متواتر اخبار کو جھٹلاتے اور عقل و نقل کے نزدیک جھوٹی اشیاء کی تصدیق کرتے ہیں 

مثال کے طور پر یہ لوگ خلفاءراشدین سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروق کے بارے میں کہتے ہیں 

حدیث میں مروی ہے کہ جب قائم امام منتظر ظاہر ہوگا تو انہیں( ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما)زندہ کرے گا اور انہیں دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے ہر گناہ اور فساد کا سزاوار ٹھہرائے گا حتی کہ قابیل کا ہابیل کو قتل کرنا یوسف کے بھائیوں کا انہیں کنوئیں میں پھینکنا اور ابراہیم کا آگ میں پھینکا جانا وغیرہ ان تمام گناہوں کا بار بھی انہی پر ہوگا اسی طرح جعفر صادق سے مروی ہے اگر روئے زمین پر کوئی پتھر بھی اپنی جگہ سے سرکایا  گیا ہے اور کوئی خون کا قطرہ بھی بہایا گیا ہے تو وہ ان دونوں (یہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما )کے گردن میں ہے

 درةنجفیة صفحہ 30 

 رجال الکشی صفحہ 205۔ 206  

 انوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 82 

شیعت کی ابتداء کا دوسرا دعوی 

بعض رافضی  قدیم و جدید ہر دور میں یہ دعوی کرتے رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود شیعہ کا بیج بویا اور یہ مذہب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں معرض وجود میں آیا تھا چنانچہ بعض صحابہ کرام حیات نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ہی میں علی رضی اللہ عنہ سے تشیع اور خصوصی محبت کا تعلق رکھتے تھے 

 شیعہ عالم قمی رقمطراز ہے 

“تمام فرقوں میں سب سے پہلے شیعہ فرقہ نمودار ہوا جس سے مراد علی ابن ابی طالب کا گروہ ہے انہیں زمانہ رسالت اور بعد میں شیعان علی کہا جاتا تھا یہ لوگ انہی کی پیروی اور ان کی امامت کے قائلین کے طور پر معروف و مشہور تھے ان میں مقداد بن اسود کندی سلمان فارسی ابو جندب بن جنادہ غفاری عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم شامل ہیں یہی لوگ ہیں جنہیں اس امت میں سب سے پہلے شیعہ لقب سے موسوم کیا گیا تھا 

 المقالات والفرق صفحہ-15 

 نوبختی۔ ۔فرق الشیعة ص 17

 رازی۔ ۔الزینة۔ ص 206

 محمد حسین آل کاشف الغطاء

لکھتے ہیں ۔اسلام کے کھیت میں سب سے پہلے خود صاحب شریعت صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے شیعہ مذہب کا بیج بویا تھا یعنی شیعہ مذہب کی بنیاد دین اسلام کی بنیاد کے پہلو بہ پہلو رکھی گئی تھی 

(مؤلف اعتراف کر رہا ہے کہ شیعت کی بنیاد اسلام کی بنیاد سے الگ رکھی گئی تھی )

پھر اس کو کاشت کرنے والا خود ہی اس کو اپنی نگہداشت میں پروان چڑھتا رہا حتی کہ یہ ان کی زندگی ہی میں تنومند درخت بن گیا اور ان کی وفات کے بعد پھل آور بن گیا 

 اصل الشیعِة واصولھا ص 43

 اعیان الشیعہ جلد 1 صفحہ۔13۔ 16 

 اثنا عشریہ واہل بیت صفحہ 29

 تاریخ الفقہ الجعفری صفحہ 105 

 ھویة التشیع ص 27

 ھکذا الشیعة ص 4

 فی ظلال التشیع صفحہ 50 51 

 الشیعۃ فی  التاریخ صفحہ 29 30 

 تاریخ الشیعة صفحہ 18 

 بحث حول الولایت صفحہ 63 

 اصول الدین صفحہ 18 19

 بطلان دعوی

١۔ ۔۔۔غور کریں کہ اس رائے کا اظہار سب سے پہلے قمی نے المقالات و الفرق میں اور نوبختی نے فرق الشیعہ میں کیا ہے ۔یہ رائے کیوں معرض وجود میں آئی ؟؟؟؟

کیونکہ شیعہ ایمانیات ۔قرآن کی بیان کی ہوئی ایمانیات کے متضاد ہیں اصول دین اہل تشیع میں

توحید 

 نبوت

 امامت

عدل

قیامت

 جبکہ قرآنی ایمانیات

اللہ پر ایمان

رسولوں پر ایمان 

 کتابوں پر ایمان 

 فرشتوں پر ایمان

تقدیر پر ایمان 

 قیامت پر ایمان

 قرآن میں کہیں امامت پر ایمان اور عدل پر ایمان کا ذکر نہیں ہے جو کہ انہوں نے خود گھڑا ہے اسی طرح دوسرے عقائد و نظریات اور فروعی مسائل امت مسلمہ سے متصادم ہیں  جن کو دیکھتے ہوئے علماء اسلام نے شیعہ مذہب کے آغاز کا سبب غیر اسلامی اصول و عقائد کو ٹھہرایا ہے اور اس کا ثبوت خود شیعہ کتابوں میں موجود ہے ۔اسی بنا پر شیعہ نے اپنے مخالفین کے اس دعوے کی تردید کرنے کے لئے اسے شرعی قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی اور ایسے دعوے کئے پھر انہیں ہر طریقے سے ثابت کرنے کی کوشش کی چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں کثرت سے روایات گھڑ کر ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ احادیث اہل سنت کے ترک واسانید سے مروی ہیں حالانکہ ان روایات کو ائمہ اہل سنت اور ناقلین شریعت میں سے کوئی بھی نہیں جانتا بلکہ یہ روایات موضوع ہیں یا ان کی اسانید میں طعن بیان کیا گیا ہے یا یہ روایات شیعہ کی فاسد تاویلات سے بالکل کوئی تعلق نہیں رکھتی 

دیکھیے۔ ۔۔

 ابن جوزی الموضوعات جلد 1 صفحہ 338 

 الشوکانی فی الفوائد المجموعۃ صفحہ 342 

 الکتانی تنزیہ الشریعہ جلد 1 صفحہ 351 

 فکرة التقریب صفحہ 51 

 ابن خلدون المقدمہ جلد 2 صفحہ 526 

٢ ۔۔۔کتاب وسنت میں اس رائے کی قطعا کوئی دلیل ہے نہ اس کی کوئی تاریخی سند ہی موجود ہے بلکہ یہ رائے اصول دین سے بعید اور محکم تاریخی حقائق کے منافی ہے کیونکہ دین اسلام اس امت کو مساوی طور پر ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے آیا تھا نہ کہ اسے گروہوں اور جماعتوں کی شکل میں بانٹنے کے لیے معرض وجود میں آیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی شیعہ سنی  قطعا ایسی کوئی تقسیم نہ تھی 

ارشاد باری تعالی ہے ۔۔۔

Surat No 3 : Ayat No 85 

١۔ ۔۔وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۸۵﴾

جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا ۔ 

  ٢۔ ۔يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِھٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ٢؁وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا  ۠

'' اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ، اور نہ تمہیں موت نہ آئے مگر یہ کہ تم مسلم ہو ۔اور تم سب اللہ کی رسی  کو مضبوطی سے تھا م لو اور فرقہ فرقہ نہ ہوجاؤ ۔'' (آل ِ عمران : 102-103)

  ٣۔ ۔۔هُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ ڏ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَاۭ

'' اس (اللہ تعالیٰ ) نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے ، اس سے پہلے اورا س ( قرآن) میں بھی ۔'' (الحج :78)

٣۔ ۔۔وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ  ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ        

'' اور نہ ہو جانا ان لوگوں کی طرح جنہوں نے روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا اور فرقہ فرقہ ہو گئے ، اور ان کےلئے بڑا عذاب تیارہے۔'' (آل ِ عمران :105)

 ۴۔ ۔اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ  ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ    

'' بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں فرقے بنائے اور گروہوں میں بٹ گئے آپ (ﷺ) کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کا معاملہ اللہ کے سپر د ہے پھر وہ ان کو بتا دے کہ وہ کیا کرتے رہے ۔'' ( الانعام :159)

 ۵۔ ۔۔مُنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ وَاتَّقُوْهُ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ    31؀ۙمِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا ۭكُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ   

'' اللہ کی طرف رجوع کرتے رہو اور اسی سے ڈرو اور صلوٰۃ قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جانا۔ ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین میں فرقے بنالئے اور گروہوں میں بٹ گئے ، ہر گروہ ااسی چیز میں مگن ہے جو اس کے پاس ہے۔'' ( الروم :31-32)

 ٦۔ ۔وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّي لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْرِثُوا الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ  

'' یہ فرقہ فرقہ نہیں ہوئے لیکن اس کے بعد کہ ان کے پاس ( ان کے رب کی طرف سے)علم آچکا تھا ، آپس میں بغض و عناد کے سبب ، اور اگر (اے نبی ﷺ) آپ کے رب کی(فیصلے کی) بات مقررہ وقت تک کے لئے پہلے طے نہ ہوچکی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ۔'' ( الشوریٰ :14)

 ٧۔ ۔قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ۭ اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُوْنَ   

'' کہہ دو کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ تم کو کوئی عذاب اوپر سے بھیج دے ، یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے ، یا تم کو گروہوں میں تقسیم کر دے اور تمہیں ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے دیکھو ہم کیسے کھول کھول کر اپنی آیات پیش کرتے ہیں تاکہ  یہ سمجھ جائیں۔'' (الانعام :65)

 احادیث۔ 

١ ۔۔حذيفة بن اليمان يقول کان الناس يسألون رسول الله صلی الله عليه وسلم عن الخير وکنت أسأله عن الشر مخافة أن يدرکني فقلت يا رسول الله إنا کنا في جاهلية وشر فجائنا الله بهذا الخير فهل بعد هذا الخير من شر قال نعم قلت وهل بعد ذلک الشر من خير قال نعم وفيه دخن قلت وما دخنه قال قوم يهدون بغير هديي تعرف منهم وتنکر قلت فهل بعد ذلک الخير من شر قال نعم دعاة علی أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها قلت يا رسول الله صفهم لنا قال هم من جلدتنا ويتکلمون بألسنتنا قلت فما تأمرني إن أدرکني ذلک قال تلزم جماعة المسلمين وإمامهم قلت فإن لم يکن لهم جماعة ولا إمام قال فاعتزل تلک الفرق کلها ولو أن تعض بأصل شجرة حتی يدرکک الموت وأنت علی ذلک

''۔ ۔۔  ۔۔ ۔ ۔۔۔۔ میں (حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے (نبی ﷺسے )پوچھا کیا اس کے بعد بھی شر آئے گا ؟ فرمایا : ہاں ، جہنم کے دروازے پر بلانے والے ہوں گے ، جو ان کی بات مان لے گا وہ انہیں اس میں داخل کر دیں گے ۔ میں نے عرض کیا : رسول اللہ ﷺ ان کی کچھ نشانیاں بیان فرمائیں ۔ فرمایا : وہ ہمارے ہی جیسے ( یعنی اسلام کے دعویدار)ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔ میں نے پوچھا : پھر اگر  میں نے وہ زمانہ پا لیا تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں : فرمایا : مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ وا بستہ رہنا ۔ میں نے پوچھا : اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ کوئی امام ، فرمایا : پھر ان فرقوں سے علیحدہ رہناخواہ تم کو درخت کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ اسی حالت میں تم کوموت آجائے۔'' ( بخاری ۔ کتاب الفتن ، باب الامر اذالم تکن جماعۃ )

٢ ۔حدثنا سعيد بن أبي مريم حدثنا أبو غسان قال حدثني زيد بن أسلم عن عطائ بن يسار عن أبي سعيد رضي الله عنه أن النبي صلی الله عليه وسلم قال لتتبعن سنن من قبلکم شبرا بشبر وذراعا بذراع حتی لو سلکوا جحر ضب لسلکتموه قلنا يا رسول الله اليهود والنصاری قال فمن

'' تم پہلی امتوں کی ضرور بالضرور پیروی کروگے ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز۔ یہاں تک کہ اگروہ لوگ گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے ۔ہم (صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے عرض کیا : اے رسول اللہ ﷺ کیا یہود و نصاریٰ ( مراد ہیں )، فرمایا :اور کون؟  (بخاری ۔ کتاب الانبیا: باب : نبی اسرائیل کے واقعات)

 ٣۔۔۔۔معاوية بن أبي سفيان أنه قام فينا فقال ألا إن رسول الله صلی الله عليه وسلم قام فينا فقال ألا إن من قبلکم من أهل الکتاب افترقوا علی ثنتين وسبعين ملة وإن هذه الملة ستفترق علی ثلاث وسبعين ثنتان وسبعون في النار وواحدة في الجنة وهي الجماعة زاد ابن يحيی وعمرو في حديثيهما وإنه سيخرج من أمتي أقوام تجاری بهم تلک الأهوا کما يتجاری الکلب لصاحبه وقال عمرو الکلب بصاحبه لا يبقی منه عرق ولا مفصل إلا دخله

’’ صفوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی طرح مروی ہے کہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابوسفیان فرماتے ہیں کہ وہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ آگاہ رہو بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم

ایک مرتبہ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم سے پہلے جو لوگ تھے اہل کتاب میں سے وہ بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور بیشک یہ امت عنقریب 73 فرقوں میں منتشر ہوجائے گی ان میں سے 72 آگ میں داخل ہوں گے اور ایک جنت میں جائے گا اور وہ فرقہ جماعت کا ہوگا۔ محمد بن یحیی اور عمرو بن عثمان نے اپنی روایتوں میں یہ اضافہ کیا کہ آپ نے فرمایا کہ عنقریب میری امت میں ایسی قومیں ہوں گی کہ گمراہیاں اور نفسانی خواہشات ان میں اس طرح دوڑیں گی جس طرح کتے کے کاٹنے سے بیماری دوڑ جاتی ہے کہ کوئی رگ اور جوڑ باقی نہیں رہتا مگر وہ اس میں داخل ہوجاتی ہے۔‘‘ ( ابو داؤد ، سنت کا بیان ، باب:سنت کی تشریح)

  ۔۴۔حدثنا محمود بن غيلان حدثنا أبو داود الحفري عن سفيان الثوري عن عبد الرحمن بن زياد الأفريقي عن عبد الله بن يزيد عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل حتى إن کان منهم من أتى أمه علانية لکان في أمتي من يصنع ذلک وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة کلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما أنا عليه وأصحابي قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب مفسر لا نعرفه مثل هذا إلا من هذا الوجه

'' میری امت پر ایک زمانہ ضرور آئے گا جیسا کہ نبی اسرائیل پر آیا تھا ، جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے ، یہاں تک کہ اگر نبی اسرائیل  میں سے کسنی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا تھا تو میری امت میں بھی کوئی ہو گا ، اور بے شک بنی اسرائیل 72 فرقوں میں تقسیم ہوئے تو میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگی وہ سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک جماعت کے ۔ (صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم )نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ وہ جماعت کون سے ہوگی ؟ فرمایا: جو میرے ﷺ اور میرے اصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے طریقے پر ہوں گے ۔''( ترمذی : باب الاعتصام بالکتاب و سنتہ)۔

 کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے برخلاف اہل تشیع تفرقہ بازی کا دعوی کر رہیے ہیں جو کہ عقلا بھی اور نقلا دونوں صورتوں میں باطل ہے 

ایسے متواتر تاریخی حقائق موجود ہیں جو اس بے ہودہ رائے کی لغویت کو آشکار کرتے اور اور اسے خلاف حقیقت ثابت کرتے ہیں جیسے یہ حقیقت ہے کہ ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانہ خلافت میں شیعہ مذہب کا کوئی وجود نہیں تھا 

منہاج سنہ جلد 2 صفحہ 64 

یہ ایسی حقیقت ہے جس کا اقرار مجبوراشیعہ علماء نے بھی کیا ہے 

جبکہ یہ لوگ متواتر حقائق کا انکار کرنے کے عادی ہیں 

 محمد حسین آل کاشف الغطاء کہتا ہے شیعہ اور شیعت کے لیے عہدابوبکر و عمر رضی اللہ عنہمامیں ظاہر ہونے کے قطعا کوئی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ اس وقت اسلام اپنے مضبوط اصول و مناہج کے مطابق رواں دواں تھا 

اصل الشیعة واصولھا صفحہ 48

 اسی طرح ایک اور شیعہ عالم محمد حسین املی اعتراف کرتا ہے 

جب خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو لفظ شیعہ بے معنی ہو کر رہ گیا اور خلیفہ ثالث کے آخری ایام تک تمام مسلمان ایک ہی جماعت بنے رہے 

 الشیعة فی التاریخ صفحہ 39 40 

 جبکہ ہم نے ماقبل میں ثابت کیا ہے کہ  عہد رسالت میں ایسے کسی فرقے کا وجود ہی نہیں تھا 

اگر اس دعوے کو تسلیم کیا جاتا ہے تو حضور علیہ صلاۃ و سلام کی قرآنی آیات کی نافرمانی ثابت آتی ہے

جبکہ تفرقہ بازی کے بارے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے خود فرامین موجود ہیں تو یہ دعوی ہی باطل ہے 

٣ ۔۔۔ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ شیعہ مذہب عمار بن یاسر ابوذر اور مقداد رضی اللہ عنہم کے مجموعہ کا نام تھا تو کیا یہ لوگ دعوی وصیت ابوبکر و عمر اور اکثر صحابہ کی تکفیر یا ان سے اظہار برات اور انہیں سب و شتم کرنا یا ان سے نفرت کرنا وغیرہ جیسے شیعہ عقائد کے قائل تھے ؟؟؟؟؟؟قطعا نہیں ایسی کسی بات کا کوئی وجود نہیں شیعہ نے ایسے جتنے بھی دعوے کیے اور ان سے اپنی کتابوں کے اوراق سیاہ کیے ہیں وہ صرف ان کے اوہام و وساوس ہیں جنہیں اعدائے دین اور حاسدین اسلام کی خواہشات نے تراشا ہے 

مثلا۔ ۔۔۔رجال الکشی ص 133

زبیر مقداد اور سلمان رضی اللہ عنہم نے ابوبکر سے قتال کرنے کے لئے اپنے سروں کو منڈھوا لیا تھا اس روایت میں غور کریں کہ شیعہ نے اس میں زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی ذکر کیا ہے حالانکہ زبیر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی تھی علاوہ ازیں یہ لوگ اس سلسلے میں ابوذر عمار اور اہلبیت کا ذکر کرنا بھول گئے ۔

ایک شیعہ عالم ابن مرتضی لکھتا ہے 

اگر یہ لوگ دعوی کریں کہ ہمارا ابوزرغفاری مقداد بن اسود اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم امامت علی رضی اللہ عنہ کے قائل ہونے کی بنا پر ان کے سلف تھے تو انہی  صحابہ کرام کا طرز عمل انہیں جھٹلانے کے لیے کافی ہے کیونکہ ان میں سے کسی نے شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے کبھی برات کا اظہار نہیں کیا نہ انہیں کبھی سب و شتم کا نشانہ بنایا مزید دیکھیں کہ عمار کوفہ پر اور سلمان فارسی مدائن پر عمر ابن خطاب کے گورنر بنے ہوئے تھے

 اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 46 

 الاصابہ جلد 2 صفحہ 506 

 الستیعاب جلد 2 صفحہ 473  

 المنیة  والامل صفحہ 124۔ 125 

 طبقات ابن سعد جلد 4 صفحہ 88 

یہ تمام محکم تاریخی حقائق گزشتہ صدیوں میں شیعہ دعوے کی تعمیر کردہ عمارت کو ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں 

۴  ۔۔۔علامہ موسی جاراللہ شیعہ کی اس رائے پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ شیعہ دعویٰ ایک بے ہودہ مغالطہ ہے جو ہر طرح کے ادب و حیا سے عاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا اور الفاظ سے کھلواڑ ہے پھر اس شیعی قول کہ "

خود صاحب شریعت نے اسلام کے کھیت میں شیعہ مذہب کا بیج بویا تھا پر تعجب کرتے ہوئے فرماتے ہیں 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیسا بیج بویا تھا جس سے طعن و تشنیع اور خیار امت اور صحابہ کرام کی تکفیر کی شاخیں نمودار ہوئی ؟؟؟پھر نظریہ کی شاخیں پھوٹی کے منافق صحابہ کے ہاتھوں قرآن میں تحریف ہوئی ہے اور امت کا اتفاق گمراہی جبکہ روشدوہدایت اس کے خلاف چلنے پر موقوف ہیں حتی کہ یہ عقیدہ شیعہ ضلالت کی گہری تاریکی میں روپوش ہوگیا 

 الوشیعة ص 30

شیعہ مذہب کی ابتداء کا تیسرادعوی   

بعض نے شیعہ مزہب کی پیدائش کا دعوی دعوت ذوالعشیرہ کا بھی کیا ہے

نبوت کے تیسرے سال دوعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر حضرت علیؓ کے خلیفہ وصی اور ولی ہونے کا اعلان ۔

 وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (214)

ترجمہ اور تو اپنے سب سے قریبی قبیلے والوں کو ڈرا

 الشعراء 214

 تفسیر قمی ج2/124

 صافی ج4/56

مجمع البیان ج8/355

 ترجمہ مقبول 748

 تفسیر نمونہ ج8/591اردو

 تفسیر المیزان ج15/475۔476

 علل الشرائع ج 1/170

 شیعت کا مقدمہ ص 149

لیکن اس دعوے کو خود اپنی 

ہی روایات غدیر خم سے باطل کر دیا ہے 

اور بعض غدیر خم کوبھی ابتداء شیعت سمجھتے ہیں 

موقف اہل تشیع۔غدیر خم کے موقع پر سب سے آخری اہم اور پہلی دفعہ جو نازل ہوا وہ حکم خلافت علی ؓ ہے ۔

 حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

 تفسیر نور الثقلین ج1/۔591۔587 

 تفسیر عیاشی ج1/331۔332

 البرھان ج1/487۔491

 فرات الکوفی ص117۔121

 تفسیر الصافی ج1/10

 تفسیر انوارالنجف ص139تا144

 تفسیر المتقین ص153

 ترجمہ وتفسیر مقبول احمد ص188

 تفسیر التبیان ج3 /588

 تفسیر کبیر منہج الصادقین فی الزام المخالفین

ج3 /273تا275

جب کہ یہ دونوں دعوے امامت وخلافت بلافصل علیؓ کے ہیں جن کو خود شیعہ مفسرین ومحقین نے اپنے تیسرے دعوے سے باطل کر دیا ہے 

 ائمہ معصومین نے بتایا ہے کہ اللہ نے رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کو انکار کیا ہے اپنے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ بنانے کا جب کہ رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا ارادہ حضرت علی ؓکو اپنے بعد خلیفہ بنانے کا تھا

1 ۔۔۔العنکبوت

أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ۔2

2 ۔۔۔آل عمران 

لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ (128)

 تفسیر الصافی ج 1/379

 تفسیر العیاشی ج1/179

 تفسیر فرات الکوفی ص93

 تفسیر الآصفی ج 1/179

 العیاشی ج1/198

 الکافی ج2/288

 البیضاوی ج2/43

 مجمع البیان ج1/500۔501

 تفسیر نورالثقلین ج1/288

 کنز الدقائق ج2/222

اس کے علاوہ اسی معنی کی روایات

 البرھان فی تفسیر القران ج1 /314 

 مستدرک سفینة البحار ج1/324

 تاویل آیت الظاہرہ ج1/199 ۔362

 تاویل مانزل من القران فی النبی وآلہ ج14/7

 غایة المرام وحجِةالخصام ج4/13

 تاویل الآیات ج2/235

 اصلا یہ دعوے خلافت وامامت بلافصل کے ہیں لیکن بعض لوگ اسی کو ابتداء شیعت سمجھتے ہیں تو اسی لیے مختصرا ہم نے ان کو زکر کر دیا ہے 

شیعت کی پیدائش کا چوتھا دعوی

بعض لوگ شیعہ مذہب کے ظہور کی ابتدائی تاریخ یوم الجمل کو بتاتے ہیں محمد بن اسحاق بن محمدبن ابی یعقوب الندیم  کہتا ہے 

"علی نے طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم سے لڑائی کرنے کا قصد کیاحتی کہ وہ دونوں امر الہی کی طرف لوٹ آئے تو اس وقت علی نے اپنے ساتھ آنے والوں کا نام شیعہ رکھا اور انہیں اپنا شیعہ کہا تھا آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کے علاوہ ان کے اور نام الاصفیاء ۔الاولیاء ۔شرطۃ الخمیس اور الاصحاب بھی رکھے تھے 

 ابن ندیم الفہرست صفحہ 175 

 بطلان دعوی 

١۔ ۔۔بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیعہ لفظ کے لغوی معنی اتباع انصار اور علی رضی اللہ عنہ کے معاونین و متبعین پر لفظ شیعہ کے اطلاق کی ابتدائی تاریخ کا تذکرہ کر رہا ہے نیز یہ کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہی انہیں اپنا شیعہ کہہ کر اس لقب سے ملقب  کیا تھالیکن اس دعوے سے شیعہ مذہب کے فکری و نظریاتی اصولوں کے آغاز سے متعلق کوئی رہنمائی نہیں ملتی کیونکہ یہاں انہوں نے شیعہ کو اس کے لغوی معنی انصار و معاونین میں استعمال کیا ہے اس لیے اس کے ساتھیوں کے لیے دیگر القاب اصحاب اور اولیاء وغیرہ بھی استعمال کیے جو اس معنی پر دلالت کرتے ہیں جبکہ تاریخی منابع اس طرف دلالت کرتے ہیں کہ شیعہ لقب جیسےعلی رضی اللہ عنہ نے استعمال کیا تھا ویسے ہی معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اپنے اتباع کے حق میں یہ لفظ بولا تھا 

ایک معاصر شیعہ عالم ڈاکٹر مصطفی کامل شیبی ابن الندیم کی اس رائے کو علی رضی اللہ عنہ نے بذات خود اپنے ساتھیوں کے لیے شیعہ لفظ استعمال کیا تھا تعجب خیز قرار دیتے ہیں 

 الصلة بین التصوف والتشیع  ص 18

اسی طرح ایک اور شیعہ عالم ڈاکٹر نشار ابن تیم کے کلام میں قدرے غلو کی آمیزش بتاتے ہیں 

 نشاةالفکر الفلسفی ص 2/32

 ابتداء شیعت میں غیر شیعہ لوگوں کی آرا

 پہلا قول۔۔

 شیعہ مذہب وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ظہور پذیر ہوا جب کچھ لوگوں نے حضرت علیؓ کو امامت و خلافت کا سب سے زیادہ حقدار خیال کیا 

 العبر ص170۔171

 فجر الاسلام ص 622

 ضحی الاسلام ص 3/209

 الاسلام والخلافة ص 62

 تاریخ الجمیعات السریة ص 13

 (مستشرقین) دائرة المعارف الاسلامیہ ص 58

تبصرہ ۔۔

اس رائے کے قائلین کی دلیل یہ ہے کہ وفات نبوی کے بعد یہ رائے موجود تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابتدار امامت و خلافت کے زیادہ حقدار ہیں اگر اس وقت یہ رائے موجود تھی کہ علی رضی اللہ عنہ قرابتدار امامت و خلافت کا زیادہ حق رکھتے ہیں تو اسی عہد میں یہ رائے بھی موجود تھی کے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا جائے اور امامت وخلافت انصار میں ہونی چاہیے

اس لیے یہ اختلاف کسی معین جماعت یا مخصوص فرقہ کے معرض وجود میں آنے پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ اختلاف ایک فطری چیز ہے جو اسلام کے شورائی نظام کا ایک اہم تقاضہ ہے وہ لوگ ایک ہی مجلس میں اکھٹے تھے جہاں ان میں باہم دیگر اراکین کا اختلاف ہوا اور وہاں سے جدا ہونے سے پہلے پہلے ان کا اتفاق ہو گیا ایسی صورتحال کو قطعا نزاع شمار نہیں کیا جاتا 

 منہاج السنہ جلد 1 صفحہ 36 

 صحابہ کرام ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی اطاعت گزاری میں داخل ہوگئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان کی اطاعت کرنے والوں میں شامل تھے آپ رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کے سامنے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور بنو حنیفہ سے جہاد کرنے کے لئے نکلے وہ اسی الفت اور اتفاق کے ساتھ اپنے ائمہ و خلفاء کے اطاعت میں اپنی جانوں اور بہترین اموال کی قربانیاں دیتے رہےجیسے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتے تھے 

 الارشاد صفحہ 428 

 مسائل الامامة صفحہ 15 

اگر اس رائے کا وجود کہ قرابت دارہی خلافت کے زیادہ حقدار ہیں شیعہ مذہب کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے تو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی ضرور بلضرور  اس مذہب کا ظہور اور موجود ہونا چاہیے تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح سقیفہ کے اجتماع میں دیگر آراءکا اظہار کیا گیا وہیں بفرض ضرورت یہ رائے بھی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے دار خلافت کا زیادہ حق رکھتے ہیں لیکن جب بیعت ہوئی اور سب کا اس پر اتفاق ہوگیا تو فورا ہی دیگر آراکی طرح یہ رائے بھی ختم ہوگئی سب ایک ہی رائے پر متفق ہوگئے مزید برآں امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کا اپنا کردار بھی صحابہ کرام کے درمیان ایسی رائے کے استمرار یا اس کے دوام کی نفی کرتا ہے کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ طرق سے مروی ہے کہ انہوں نے کوفہ میں ممبر پر کھڑے ہوکر ارشاد فرمایا تھا 

 "خیر ھذہ الامة بعد نبیھا ابوبکر ثم عمر" 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کی بہترین شخصیت ابوبکر پھر عمر ہیں 

امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ بات علی رضی اللہ عنہ سے 80 یا اس سے بھی زیادہ طرق سے مروی ہے۔ 

 صحیح بخاری مع فتح الباری جلد 7 صفحہ 20 

 الفتاوی جلد 4 صفحہ  407

 منہاج السنہ جلد 4 صفحہ 137۔ 131

لہذا دیگر صحابہ کرام کے بارے میں ایسی رائے کس طرح قائم کرسکتے ہیں جو خود ان کی اپنے بارے میں نہیں تھی اسی بنا پر جب ابوبکر عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں شیعہ کا کوئی تذکرہ اور وجود تک نہیں تھا تو یہ کہنا کس طرح درست ہے کہ یہ فرقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد معرض وجود میں آیا اسی بنا پر شیعہ علماء نے بھی اس حقیقت کا اقرار کیاہے جیسا کہ گزر چکا ہے 

(اس سلسلے میں بعض لوگوں نے جو ایک جماعت کے ظہور کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کو امامت کا زیادہ حقدار خیال کرتی تھی تو اس کی کوئی پائیدار تاریخی دلیل نہیں ہے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اساس تاریخ یعقوبی کی ایک روایت ہے جس میں منقول ہے کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت جن میں سلمان فارسی ابوذر عمار اور مقداد رضی اللہ عنہم شامل تھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے رہے اور علی رضی اللہ عنہ 

 کی طرف مائل ہوگئے

 تاریخ یعقوبی جلد 2 صفحہ 124 

 اسی طرح مسعودی میں موجود ہے۔

 دوسرا قول 

شیعہ مذہب کی ایجاد 37 ہجری کو ہوئی اس کے قائلین میں مشہور ترین 

 مختصر التحفة الاثنی عشریة کے مولف

 مختصر التحفة الاثنی عشریة ص5

Montgomery watt:Islam and intregration of Society p.104

 تیسراقول ۔

شیعہ مذہب شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے فورا بعد معرض وجود میں آیا ایک مستشرق سٹروٹمین کہتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خون ایک نظریے کے طور پر شیعہ مذہب کی اولین بنیاد تھی 

 دائرة المعارف الاسماعیلیہ 14/59

 چوتھاقول ۔۔۔

ابن حزم فرماتے ہیں پھر عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور انہوں نے بارہ سال حکومت کی پھر ان کی شہادت کے ساتھ اختلاف شروع ہوا اور روافض  کی ابتداء ہوئی

 الفصل لابن حزم جلد 2 صفحہ 8 

شیعہ مذہب کا بیج بونے والا شخص عبداللہ بن سبا یہودی تھا اس نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز عہد عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں کیا تھا 

متقدمین اور معاصر علماء و محققین کی ایک جماعت نے ثابت کیا ہے کہ شیعہ مذہب کی اولین بنیاد اسی شخص ابن سبا نے رکھی تھی جس کا ذکر اہل سنت اور شیعہ کتب دونوں ہی میں تواتر کے ساتھ منقول ہے 

 التنبیہ الرد صفحہ 18  

 مقالات الاسلامیین جلد 1 صفحہ 86 

 الفرق بین الفرق صفحہ 233 

 الملل والنحل جلد 1 صفحہ 173 

 التبصیر فی الدین صفحہ 81 82 

 اعتقادات فرق المسلمین صفحہ86

 المنیۃ والامل صفحہ-29  

 لسان المیزان جلد 3 صفحہ 279 

 تہذیب تاریخ دمشق جلد7/831

 الانساب جلد 7 صفحہ 46 

 اللباب جلد 1 صفحہ 527 

 البداء تاریخ جلد 5 صفحہ 129 

 تاریخ طبری جلد 4 صفحہ 340 

 الکامل جلد 3 صفحہ 77 

 البدایہ و النہایہ جلد 7 صفحہ 168 

 العبر جلد 2صفحہ 160 

 تبصیر اولی النہی الورقة 14

 مجموع الفتاوی جلد 4 صفحہ 518

 تاریخ المذاہب الاسلامیہ جلد 1 صفحہ 31 

 عائشة والسیاسة صفحہ 60 

 قصیمی فی الصراع جلد 1 صفحہ 41 

 المنیۃ والامل صفحہ 125 

 مسائل الامامة صفحہ 22 23 

 المقالات والفرق صفحہ-20 

 فرق الشیعۃ  صفحہ22 

 رجال الکشی صفحہ 106 ۔108 

الروایات۔ 170 171 173 172

 ابن ابی الحدید نہج البلاغہ جلد 2 صفحہ 361 

 نوٹ۔ ۔۔عصر حاضر میں شیعہ میں ایک نیا گروہ نمودار ہوا ہے جو کسی حقیقی ثبوت اور دلیل کے بغیر محض قلم کے زور پر ابن سبا کے وجود سے انکار کے ساۓ میں مگن ہے 

 مرتضی عسکری عبداللہ بن سبا صفحہ 35 

بلکہ ان میں سے بعض نے تو یہ دعوی کیا ہے کہ عبداللہ بن سبا سے مراد عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ہیں 

 غاط السلاطین صفحہ 274

 الصلة بین التصوف والتشیع صفحہ ۔40 ۔41  

اس دعوے کا مقصد صرف یہ دھوکا دینا ہے کہ یہود مسلمانوں کے خلاف کسی سازش میں شریک نہیں اسی طرح ایسے دعووں سے مقصود رافضیت کو شریعت میں ڈالنا اور اپنے مخالفین کے اس دعوے کی تردید کرنا ہے کہ شیعت کی اساس یہودیت پر استوار ہے 

اہل سنت اور شیعہ دونوں کے علماءسابقین ابن سبا کو ایک حقیقی شخصیت قرار دینے پر متفق ہیں تو پھر کچھ لوگ فریقین کے درمیان ایک اتفاقی امر کی کس طرح نفی کر سکتے ہیں یہ کہنا کہ ابن سبا سے مراد درحقیقت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ہی عقل و نقل اور تاریخ کی روشنی میں یہ بات قطعا پایا ثبوت کو نہیں پہنچتی پھر جن عقائد کا اظہار ابن سبا نے کیا ہے انہیں کس طرح عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ذمہ لگایا جا سکتا ہے کیا یہ محض صحابہ کرام کو ناکردہ گناہوں کا الزام دینا اور ان پر طعن نہیں ہے ؟؟؟ہمیں اس مسئلہ کی مزید بحث و تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کے متعلق مستقل کتب و تحقیقات شائع ہو چکے ہیں جن میں اس مسئلے کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے 

١ ۔۔ڈاکٹر سلمان عودہ۔ ۔۔عبداللہ ابن سبا واثرہ فی احداث الفتنة

٢ ۔ڈاکٹر عمار طالبی ۔۔آرا الخوارج 

٣ ۔۔۔عزت عطیہ ۔۔البدعہ 

  ۔۴ ۔۔ابن سبا حقیقتا لا خیال

 نوٹ ۔۔علمی بحث و تحقیق کا اصولی تقاضا یہ ہے کہ خود انکے اصولی مصادر پر اعتماد کیا جائے 

چونکہ ابن سبا کے شخصی وجود کے انکار کی صدا ئے بازگشت بھی شیعہ کی طرف سے سنائی دیتی ہے لہذا جب ان کے خلاف ان ہی کی معتبر کتب سے احتجاج و استدلال کیا جائے تو اس سے خود بخود ان کا یہ دعوی ساقط ہو جائے گا 

کتب شیعہ سے ابن سبا کی آراء اور نظریات کی تفصیل ذکر کرنے سے شیعہ مذہب کے اصولوں کی تصویر کشی ہوتی ہے اور خود شیعہ کے اپنے کلام سے ان کی بنیادوں پر روشنی پڑتی ہے اور یہی ہمارا اصول وموضوع ہے تو آئیے دیکھتے ہیں شیعہ کتب ابن سبا کے بارے میں کیا کہتی ہیں 

 شیعہ کتب کی روشنی میں عبداللہ بن سباء کے  عقائد 

شیعہ مذہب کا نامور عالم اور فقیہ سعد بن عبداللہ القمی  ابن سبا کے وجود کا اعتراف اور اس کے چند ساتھیوں کا نام تک ذکر کرتا ہے جو اس کے ساتھ مل کر سازشیں کرتے تھے پھر اسکے فرقہ کو سبائیہ نام سے ملقب کرتا اور کہتا ہے کہ دین اسلام میں سب سے پہلے غلو کا اظہار کرنے والا یہی فرق تھا اور بعدازاں ابن سبا کو وہ پہلا شخص قرار دیتا ہے جس نے ابو بکر عمر عثمان اور صحابہ رضی اللہ عنہم پر اعلانیہ طعن وتشنیع کا اظہار کیا اور ان سے برات ظاہر کی اور دعوی کیا کہ علی رضی اللہ عنہ  نے اسے اس کام کاحکم دیا ہے پھر سعد قمی ذکر کرتا ہے کہ جب علی رضی اللہ عنہ کو اس کے عقائد کی خبر ہوئی تو انہوں نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا لیکن پھر چھوڑ دیا اور صرف اسے مدائن کی طرف جلاوطن کرنے پر اکتفا کیا جس طرح اہل علم کی ایک جماعت سے منقول ہے 

 المقالات والفرق ص20

عبداللہ ابن سبا یہودی تھا پھر اس نے اسلام قبول کیا اور علی سے محبت کا اظہار کیا جب وہ یہودی تھا یوشع بن نون سے متعلق یہی کہتا تھا کہ وہ موسی علیہ السلام کے وصی ہیں پھر وفات نبوی کے بعد اسلام قبول کرکے یہی بات علی رضی اللہ عنہ کے حق میں کہنے لگا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں اس شخص نے سب سے پہلے علی بن ابی طالب کی امامت کے لزوم کا قول ذکر کیا اور ان کے دشمنوں سے براة ظاہر کی اور انہیں کافر قرار دیااور حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد ان کی رجعت کا سب سے پہلا قائل ہوا اسی بنیاد پر شیعہ کے مخالفین نے کہا ہے کہ رافضی مذہب دراصل یہودیت سے ماخوذ ہے 

 المقالات والفرق صفحہ-20 

پھر قمی ذکر کرتا ہے کہ جب ابن سبا کو علی رضی اللہ عنہ کی وفات کی اطلاع ملی تو اس نے دعوی کیا کہ وہ فوت نہیں ہوئے بلکہ دوبارہ دنیا میں واپس آکر اپنے دشمنوں سے لڑیں گےپھر وہ اس عقیدہ و نظریہ میں غلو کرنے لگا 

 المقالات والفرق صفحہ-21 

یہ ہےوہ حقیقت جووہ ابن سبا سے متعلق بیان کرتا ہے یہ قمی شیعہ کے نزدیک ثقہ اور معرفت روایات میں وسیع النظر ہے 

 الفہرست صفحہ 105 

جامع روایات جلد 1 صفحہ 352 

ان کے نزدیک اس کی معلومات نہایت اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ایک تو وہ زمانے کے اعتبار سے متقدم ہے اور دوسرا  جیسا کہ شیعہ المصدوق بیان کرتا ہے کہ یہ شیعہ کے امام معصوم حسن عسکری سے ملا اور اس نے اس سے سماع کیا ہے 

 اکمال الدین صفحہ 425 435 

اسی طرح ایک اور شیعہ عالم نوبختی ابن سبا سے متعلق گفتگو کرتا ہے اور اس کے بارے میں قمی کے الفاظ سے حرف بحرف اتفاق کرتا ہے

 فرق الشیعۃ صفحہ 22 23 

نوبختی بھی شیعہ کے نزدیک ثقہ اور معتبر عالم ہے  

 الفہرست صفحہ 75 

 جامع روایات جلد 1 صفحہ 228 

 الکنی والالقاب جلد1 صفحہ 141 

 مقتبس الاثر جلد 16 صفحہ 125 

ایک تیسرا علم شیعہ الکشی اپنی معروف کتاب رجال الکشی میں جوشیعہ کی قدیم ترین اور علم رجال میں مواقع المدد کتاب ہے ابن سباءکے ذکر میں چھ روایات نقل کرتا ہے 

 رجال الکشی صفحہ 106 ۔108 ۔305

الروایات۔ 170۔ 171۔ 172۔ 173 174۔ 

یہ شیعہ کے نزدیک ثقہ اور اخبار و رجال شیعہ پر بہترین نظر رکھنے والا عالم ہے 

 الفرق صفحہ 171 

یہ روایات بیان کرتے ہیں کہ ابن سبا نے نبوت کا دعوی کیا اور یہ نظریہ اپنایا کہ امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ہی خدا ہیں نیز ان روایات میں منقول ہے کہ علی رضی اللہ  نے ابن سبا کو ان عقائد سے توبہ کرنے کا حکم دیا لیکن وہ تائب نہ ہوا تو انہوں نے اس کو آگ میں جلا دیا اسی طرح الکشی نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ وہ ائمہ و خلفاء پر لعنت کرتا اور علی رضی اللہ عنہ  پر جھوٹ بولا کرتا تھا 

جیسے علی بن حسین فرماتے ہیں ہم پر جھوٹ گھڑنے والے پر اللہ کی لعنت ہو جب مجھے عبداللہ ابن سبا کا خیال آیا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے کیونکہ اس نے بہت خطرناک دعویٰ کیا ہے نہ جانے کیوں اس نے ایسا کہا ہے اس پر اللہ کی لعنت اللہ کی قسم علی رضی اللہ عنہٗ تو محض ایک اللہ کے نیک بندے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی تھے انہیں اللہ تعالی کی طرف سے جتنی بھی عزت و کرامت ملی ہے وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزاری کی  بدولت نصیب ہوئی ہے 

 رجال کشی صفحہ 108 

پھر الکشی ان روایات کو ذکر کرنے کے بعد کہتا ہے 

اہل علم نے ذکر کیاہے کہ عبداللہ بن سبا یہودی تھا پھر مسلمان ہوا اور علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا اظہار کرنے لگا جب وہ یہودی تھا تو یوشع بن نون کے حق میں غلو کرتے ہوئے کہتا تھا کہ موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے وصی ہیں پھر وفات نبوی کے بعد مسلمان ہوکر علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہی بات کہنے لگا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں اسی نے سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے لزوم کی بات کی ان کے دشمنوں سے براة کااظہار کیا ان کے مخالفین سے دشمنی کا اظہار کیااور انہیں کافر کہا اسی بنا پر شیعہ کے مخالفین نے کہا ہے کہ رفض و تشیع دراصل یہودیت سے ماخوذ ہے

 رجال کشی صفحہ 108

  رجال الکشی کی تصحیح وتشریح طوسی نے کی ہے جو شیعہ کے نزدیک صحاح اربع میں سے دو کتابوں کا مصنف ہے اور ایسے ہی شیعہ کی کتب رجال میں ںسے بھی دو کتابوں کا مولف ہے  

 مقدمہ رجال الکشی صفحہ 18 صفحہ 17 

 لوءلوء البحرین صفحہ 403 

اس کے علاوہ اور شیعہ کتب رجال کی کتابوں میں عبداللہ بن سبا کا ذکر موجود ہے 

 مسائل الامامة صفحہ22 ۔23

 وفیات الاعیان ص 91۔92

 انباءالرواة 2/128/129

 منتھی المقال 

 منہج المقال فی تحقیق احوال الرجال

 جامع الرواة 1/476

 الحلی ۔الرجال ص 2/71

 قاموس الرجال ص 5/461

 رجال الطوسی ص 51

 من لایحضرالفقیہ 1/213

 الخصال ص628

 تہزیب الاحکام 2/322

 بحار الانوار 25/286

 تنقیح المقال 2/183

 مقتبس الاثر 21/230

 الشیعة فی التاریخ ص 213

  ابتداء شیعت میں راجح قول

ماقبل ہم نے شیعہ مذہب کے آغاز کے متعلق اہم آراء ذکر کی ہیں اور ان پر حسب ضرورت نقد و تبصرہ بھی کیا ہے شیعہ مذہب ایک نظریہ اور عقیدہ بن کر اچانک ہی نمودار نہیں ہوا بلکہ یہ کئی وقتی تبدیلیوں سے دوچار ہوا اور مختلف مراحل سے گزرا ہے البتہ شیعہ مذہب کے ابتدائی افعال اور اس کے بنیادی اصول فرقہ سبائیہ کے ہاتھ پر ظہور پذیر ہوئے تھےجیسا کہ کتب شیعہ بھی اس حقیقت کا اعتراف و اقرار کرتی ہیں کہ عبداللہ ابن سباءنے سب سے پہلے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت ضروری ہےاور یہ کہ علی رضی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں جیساکہ گزرچکا ہے بعینہ یہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی منصوص منصوص من اللہ امامت  کا عقیدہ ہے جو شیعہ مذہب کی اساس ہے جیسا کہ شیعہ مذہب کی تعریف کے زمن میں ہم شیعہ علماء کا نظریہ ذکر کر چکے ہیں پھرسب کو یہ بھی معلوم ہوچکا کہ ابن سبا اور اس کی جماعت نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور سسر نسبی رشتے دار خلفاء اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے قریبی ساتھیوں ابوبکر و عمر عثمان اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر زبان طعن دراز کی تھی اور شیعہ بھی صحابہ کرام کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتے ہیں جیسا کہ ان کی کتب میں مرقوم ہے نیز ابن سباء ہی سب سے پہلے رجعت علی رضی اللہ عنہ کا قائل تھا اور اب یہی رجعت شیعہ مذہب کا بنیادی اصول ہے مزید برآں ابن سبا ہی نے یہ بات کہی تھی کہ علی اور اہل بیت کے پاس چند مخصوص مخفی علوم ہے جیسا کہ حسن بن محمد بن حنفیہ نے رسالہ الارجاء میں کہاں ہے اب یہ مسئلہ شیعہ کے بنیادی عقیدے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے 

 مقالات والفرق صفحہ 21 

 فرق الشیعۃ  صفحہ 23 

 مسائل امامة صفحہ 22 23 

 مقالہ الاسلامیین جلد 1 صفحہ 86 

 التمبیہ والرد صفحہ 18 

 الفرق بین الفرق صفحہ 234 

 التبصیر فی الدین  صفحہ 76 

 محصل افکار المتقدمین والمتاخرین صفحہ 242 

 المواقف صفحہ 419 

 تہذیب التہذیب جلد 2 صفحہ 32 

 رسالة الارجاء ص 249۔250

 صحیح بخاری میں بھی ایک اثر مروی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ بہت پہلے ظاہر ہوگیا تھا اور علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس کے متعلق سوال کیا گیا تھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو قرآن میں یا لوگوں کے پاس نہیں ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مکمل طور پر اس کی حتمی تردید کی تھی 

  بخاری کتاب العلم جلد 1 صفحہ 204 

باب حرم المدینہ۔باب فکاک الاسیر۔باب ذمة المسلمین و جوار ہم  ۔باب اثم من عاھد ثم عذر ۔باب اثم من تبرا من موالیہ ۔باب العاقلہ۔ باب لایقتل مسلم بکافر ۔باب من یکرہ من التعمیق والتنازع والغلو

مسلم مع النووی 9/143/144/13/141

 نسائی المجتبی ،8/19

 ترمذی 4/668

 امام احمد 1/100

یہی شیعہ مذہب کا اہم دینی اصول ہیں جو یقینا شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں معرض وجود میں آئے تھے لیکن لوگوں میں ایک مخصوص فرقے کی صورت میں متعارف نہیں ہوئے تھے بلکہ فرقہ سبائیہ نے جیسے ہی اپنا سر نکالا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسےنابود کردیالیکن اس کے متصل بعد رونما ہونے والے واقعات معرکہ صفین واقعہ تحکیم اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت وغیرہ نے ان عقائد کے ظہور اور انہیں جماعتی قالب میں ڈھالنے کے لئے مناسب فضا مہیا کر دیں  

 مجموع الفتاوی لابن تیمیہ جلد 20 صفحہ 466 

 منہاج السنہ جلد 1 صفحہ 219 

 فتح الباری جلد 2 صفحہ 270 

 التنبیہ والرد صفحہ 18 

 التبصیر فی الدین صفحہ 70 

 منہاج السنہ جلد 1 صفحہ 219 220