حدیث عشرہ مبشرہ پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ
ابو روافض وقاص علی حیدریحدیث عشرہ مبشرہ پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ
حصہ اول: حدیث عشرہ مبشرہ پر پہلا اعتراض یہ کیا گیا کہ چونکہ اس میں شامل سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کو اس کا علم نہیں تھا اس لیے حدیث غلط ہے۔
1: جب کہ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ رسول اللہﷺ سے اپنے سننے کی سیدنا عبداللہ بن سلامؓ کے جنتی ہونے کے علاوہ نفی فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سیدنا عبداللہ بن سلامؓ کے علاوہ جنتی ہونے کے بارے میں کسی اور کا نہیں سنا۔
اس کا یہ کیسے مطلب ہوگیا کہ رسول اللہﷺ سے کسی نے بھی عشرہ مبشرہ کے جنتی ہونے کی نہیں سنی کسی ایک صحابی رسولﷺ کو کسی ایک بات کا علم ہونا اور دوسرے کو نہ ہونا پہلے والے کے علم کی نفی نہیں ہوتی۔
2: اگر سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ یہ فرماتے کہ رسول اللہﷺ نے کسی بھی صحابی کے جنتی ہونے کی بشارت نہیں دی سوائے سیدنا عبداللہ بن سلامؓ کے پھر معترض کا اعتراض ٹھیک تھا مثال کے طور پر سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ نے فرمایا حسنؓ اور حسینؓ میرے دنیا کے پھول ہیں جامع ترمذی جلد دوم ابواب المناقب۔
اب اگر سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ یہ کہہ دیں کہ یہ فرمان ہم نے نہیں سنا اور سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہہ دیں میں نے سنا نہ تو اس سے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کی طرف سے رسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے اس حدیث کی سماعت کی نفی ہوسکتی، اور نہ حضراتِ حسنین کریمینؓ کی بات غلط ہے۔
دونوں باتیں اپنی جگہ پر حق ہیں صرف سوچ کا اینگل درست ہونا چاہیے ورنہ امامیہ مذہب کے مصادر سے ہر درست روایت کو غلط رنگ دے کر بات کا پتنگڑ بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ درست روایات ہوں۔
3: بنیادی طور پر یہ حدیث عشرہ مبشرہ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ نے حضورﷺ سے نہیں سنی جن کی روایت کا معترض غلط مطلب بیان کر رہا ہے۔
بلکہ یہ حدیث سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ، سیدنا سعید بن زیدؓ نے حضورﷺ سے روایت کی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ابوبکرؓ جنت میں، عمرؓ جنت میں، عثمانؓ جنت میں، علیؓ جنت میں، طلحہٰؓ جنت میں، زبیرؓ جنت میں، عبدالرحمٰن بن عوفؓ جنت میں، سعد بن ابی وقاصؓ جنت میں، سعید بن زیدؓ جنت میں اور ابو عبیدہ بن الجراحؓ جنت میں جائیں گے۔
جامع ترمذی جلد دوم باب المناقب
حصہ دوم:
تاریخ طبری کے حوالے سے حدیث عشرہ مبشرہ پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اس حدیث میں شامل جنتی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سیدنا عمر فاروقؓ نے مسئلہ خلافت کے خلاف کرنے کی وجہ سے قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا۔
جبکہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے اس کا ایک راوی لوط بن یحییٰ ابی مخنف ہے جو پرلے درجے کا جھوٹا کذاب اور ضعیف راوی تھا جمہور محدثین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہےاس روایت کا دوسرا راوی محمد بن عبداللہ انصاری ہے جس کو امام عقیلیؒ نے منکر الحدیث کہا ہے امام ابنِ حبانؒ نے منکر حدیث کہا ہے اور امام ابنِ طاہرؒ نے جھوٹا کہا ہے۔ اس روایت کا تیسرا راوی جناب اعمش ہیں جو تدلیس کی وجہ سے مشہور ہیں اگر وہ سماع کی تصریح راوی سے نہ کریں تو ان کی روایت حجت نہیں ہوتی اور یہاں سماع کی تصریح نہیں ہے بلکہ ابراہیم سے جناب اعمش سماع کی تصریح کے بغیر روایت کرتے ہیں۔
ان علتوں کی وجہ سے معترض کی یہ طبری کی روایت حجت نہیں۔
ملاحظہ ہو میزان الاعتدال: جلد پنجم صفحہ، 508 میزان الاعتدال ترجمہ: محمد بن عبداللہ انصاری تاریخ طبری جلد دوم صفحہ 687۔
حصہ سوم:
اس حدیث مبارکہ میں شامل سیدنا طلحہٰؓ اور سیدنا زبیؓر پر معترض نے یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ دونوں شخصیات سیدنا عثمانؓ کی شہادت میں شریک تھے اور جو حوالہ جات پیش کیے گئے ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں کہ ان دو شخصیات نے سیدنا عثمانؓ کو شہید کیا تفصیل اس کی درج ذیل ہے:
1. تاریخِ طبری کے اندر جو روایت ہے اس میں بھی قتل کا ذکر نہیں اور باقی راویوں پر بحث کے علاوہ بھی محمد بن عمر واقدی بھی اس روایت میں موجود ہے اور اس کی روایت پیش ہی نہیں کی جا سکتی محدثین نے اس پر سخت جرح نقل کی ہے امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں یہ کذاب ہے امام ابنِ معینؒ فرماتے ہیں یہ ثقہ نہیں ہے امام بخاریؒ کہتے ہیں یہ متروک ہے امام ابو حاتمؒ کہتے ہیں یہ روایت گھڑتا تھا، امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں یہ ضعیف ہے ملاحظہ ہو میزان الاعتدال: جلد، 7 صفحہ، 273 میم۔
کامل ابنِ اثیر میں علیحدہ سند نہیں وہ بھی تاریخ طبری کا ہی چربہ ہے اس لئے اس کا جواب کی ضرورت ہی نہیں۔
2. الاستیعاب جلد دوم کی جو روایت پیش کی گئی ہے اس میں جناب امام عبد الرحمٰن بن مہدی ہیں جن سے علامہ ابنِ عبد البر نقل کرتے ہیں جبکہ امام عبد الرحمٰن بن مہدی سے علامہ ابنِ عبد البر کی ملاقات ہی ثابت نہیں اس لیے یہ روایت ہی منقطع ہے امام امام عبد الرحمٰن 198 میں وفات پا گئے تھے اور علامہ ابنِ عبد البر ان کے سو سال سے زائد عرصہ بعد پیدا ہوئے ملاحظہ ہو الاستیعاب جلد اول مقدمہ۔
دوسری بات یہ ہے کہ علامہ ابنِ عبد البر نے خود لکھا ہے کہ مروان کا یہ وہم تھا کہ سیدنا طلحہٰؓ امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفانؓ کی شہادت میں ملوث ہیں۔چنانچہ علامہ ابنِ عبدالبر لکھتے ہیں
فیما زعموا یہ مروان کا وہم ہے ملاحظہ ہو الاستیعاب جلد دوم صفحہ 318۔
تیسری بات یہ ہے کہ مروان والی روایت میں یہ ساری گفتگو علامہ ابنِ عبدالبر نے ویقال سے شروع کی۔سکین لگا دوں گا اس میں دیکھ لیں اس کا مطلب ہے کہا گیا ہے کیا پتا کس نے کہا کون تھا کیسا آدمی تھا ثقہ تھا جھوٹا تھا اس علت کی وجہ سے بھی یہ روایت نہیں پیش کی جا سکتی۔
چوتھی بات یہ ہے کہ سیدنا طلحہٰؓ نے اپنے آپ کو ہرگز یہ نہیں کہا کہ میں نے امیر المؤمنین سیدنا عثمانؓ کو شہید کیا بلکہ آپؓ نے ندامت کا اظہار اس وجہ سےکیا آپؓ ان کی مدد نہ کرسکے اس لیے آپؓ نے اللہ سے دعا کی کی کیا اللہ آپ ان کا بدلہ مجھ سے لے کر راضی ہو جائیں اور یہ روایت ہے ہی منقطع جس کی تفصیل بتا دی گئی ہے۔
3. طبقات ابنِ سعد کی جو روایت معترض نے پیش کی ہے وہ بھی قابلِ حجت نہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ:
اول: اس میں ایک راوی عوف ہے اس کے بارے میں میزان الاعتدال میں موجود ہے کہ یہ قدری، رافصی شیطان تھا اور ایسا راوی اگر ثقہ بھی ثابت ہو جائے تو بھی اس کی وہ روایت جو اس کے مذہب اور نظریہ کی تائید کرتی ہو وہ رد کر دی جائے گی ۔
دوم: دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں بلغنیی ان مروان کے الفاظ عوف کہتا ہے کہ مجھے مروان بن الحکم کی طرف سے یہ بات پہنچی ہے مگر یہ بات پہنچانے والا کون ہے ہے اس کا علم روایت کے اندر نہیں پس اس لحاظ سے ایک راوی کے مجہول ہونے کی وجہ سے بھی حجت نہیں ہے ملاحظہ ہو طبقات ابنِ سعد جلد سوم صفحہ 119۔
سوم: عوف کی مروان بن الحکم سے ملاقات بھی ثابت نہیں۔
4. امامت و سیاست۔اس کتاب کا بھی حوالا معترض نے دیا ہے یہ جس مصنف کی طرف منسوب ہے اس کی یہ کتاب ثابت ہی نہیں۔
اس کے علاوہ اس کی روایت کی سند ثابت ہی نہیں۔
تیسرا یہ کہ خود امامت و سیاست کے مصنف کے بارے میں بشرطیکہ وہ اس کتاب کا مصنف ثابت بھی ہو امام حاکم فرماتے ہیں کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قتیبہ کذاب ہے ملاحظہ ہو میزان الاعتدال۔
5. ممکن ہےتاریخ میں ڈھونڈنے سے ایسے حوالے مل جائیں گے جن میں امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفانؓ کے قاتلین میں سیدنا علیؓ کانام بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ لوگوں نے لیا کیونکہ کہ ہر شخص کو مکمل حالات کا پتہ نہیں تھا قاتلینِ امیرالمومنین سیدنا عثمانؓ سیدنا علیؓ کے لشکر میں چلے گئے اور دوسرا قرینہ عام لوگوں کے پاس یہ تھا کہ سیدنا علیؓ فوراً خلیفہ بھی بن گئے شک تو جاتا تھا۔
لیکن یہ ثابت نہیں کہ سیدنا علیؓ نے یہ کام کیا اور آپؓ نے اس فعل سے برات کا اعلان بھی فرمایا تھا۔
اس لئے ہم اہلِ سنت و الجماعت سیدنا علیؓ سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی پر بھی خلیفتہ المومنین مظلوم مدینہ سیدنا عثمان بن عفانؓ کی شہادت کا الزام نہیں لگاتے
کسی کے بارے میں جرم ثابت ہونا اور ہے اور ایسا مشہور ہونا اور ہے مثال کے طور پر حضرت موسی علیہ السلام جب کوہِ طور سے واپس آئے تو سارا غصہ قوم کے بگڑنے کا حضرت ہارون علیہ السلام پر اتارا لیکن ان کا کوئی قصور نہیں تھا یہ حالات دیکھ کر انہوں نے ایسا کیا۔
حصہ چہارم:
1. سیدنا علیؓ کا قتل امیرالمومنین کا الزام لگانے کے لیے معترض نے نہج البلاغہ کا حوالہ دیا تھا پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کتاب ہمارے نزدیک غیر معتبر ہے دوسری بات یہ ہے کہ نہج البلاغہ کے اندر اس روایت کی سند ہی موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کو نہ تحقیقی جواب کے زمرے میں پیش کیا جا سکتا ہے نہ الزامی۔
اول: خود سیدنا علیؓ نے سیدنا طلحہٰؓ و سیدنا زبیرؓ کے لیے جنت کی خوشخبری امام الانبیاء خاتم المعصومین حضرت محمد عربیﷺ سے سنی تھی چنانچہ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے خود رسول اللہﷺ سے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ طلحہٰؓ و زبیرؓ جنت میں میرے پڑوسی ہوں گے۔
ملاحظہ ہو جامع ترمذی جلد دوم ابواب المناقب: صفحہ، 719۔
دوم: خود امامیہ کتاب میں موجود ہے کہ سیدنا علیؓ کو جب سیدنا عثمانؓ کے شہادت کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کی طلحہٰؓ میری بیعت کے بغیر ہی جنت میں چلا جائے۔
ملاحظہ ہو روضۃ الصفاء جلد دوم صفحہ 487۔
سوم: اسی طرح جب سیدنا علیؓ کے سامنے سیدنا زبیرؓ کا قاتل آیا تو اس کو آپؓ نے فرمایا: بشر وہ بالنار۔
ترجمہ: اسے جہنم کی بشارت دے دو۔
ملاحظہ ہو المستدرک: جلد، سوم رقم، 5578 مسند ابی داؤد الطیالسی: جلد، اول صفحہ، 137 رقم، 158 مسند احمد: جلد دوم، صفحہ، 185۔
اس کے علاوہ یہ روایت شیعہ کتب میں بھی موجود ہے ملاحظہ ہو اخبار الطوال: صفحہ، 49 مروج الذہب: صفحہ، 364 روضتہ الصفا: جلد دوم، صفحہ، 487۔
اور اسی طرح سیدنا علیؓ نے سیدنا عثمانؓ کے قتل شہادت کے بعد بعد قرآنِ مجید کی سورۃ الحجر کی آیت 47 سے استدلال کر کے جنتی تسلیم کیا چنانچہ آپؓ نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرمایا کہ میں اور طلحہٰؓ انہی لوگوں میں سے ہوں گے یہ سن کر پاس بیٹھے دو سبائیوں نے سیدنا علیؓ پر اعتراض کیا کہ خود ان کو قتل بھی کرتے ہو اور ان کو جنتی بھی کہ کر بھائی بھی مانتے ہو؟ اس پر سیدنا علیؓ کو غصہ آ گیا اور آپؓ نے اتنی آواز سے فرمایا کہ پورا محل گونج گیا آپؓ نے فرمایا جاؤ اس زمین سے دور ہو جاؤ اگر اس آیت کے تحت جنت میں جانے والے میں اور سیدنا طلحہٰؓ نہیں تو بتاؤ اور کون ہے؟
ملاحظہ ہو طبقات ابن سعد جلد سوم 119,120
اگر اسی طرح آپ تاریخی کتب سےقاتل تلاش کرنے ہی ہیں تو لیجیئے شوق پورا کیجیئے یہ لیں یہ سارے قاتل سیدنا علیؓ کے لشکر میں تھے جب ان لوگوں نے صدیقہ کائنات سیدنا علیؓ علی کی روحانی ماں سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ صلح دیکھی اور سیدنا علیؓ نے اپنے لشکر کو مخاطب کر کے فرمایا جن لوگوں نے سیدنا عثمانؓ کی قتل میں کسی قسم کی بھی مدد کی وہ میرے ساتھ نہ آئے سیدنا علیؓ کا یہ فرمانا تھا کہ ان کے لشکر میں شامل ان باغیوں نے سر جوڑ لیے جنہوں نے امیر المؤمنین کو شہید کیا تھا اور ان میں جو سب سے بڑے سرغنہ ماسٹر مائنڈ باغی تھے ان میں عبداللہ بن سبا اشتر شریح بن اوفیٰ، سالم بن ثعلبہ۔
اور کہنے لگی کہ ہمیں اطلاع اور سیدنا زبیرؓ کی رائے تو پہلے سے معلوم تھی آئیے آج سے پہلے ہم نہیں جانتے تھے اگر ان دونوں نے صلح کرلی تو یہ ہمارے خون پر صلح عبد اللہ بن سباء نے یہ بھی کہا کہ ہم پچیس سو ہیں اور طلحہٰؓ اور زبیرؓ ر اور ان کے ساتھی 5000 ہیں۔
ملاحظہ ہو البدایہ والنہایہ: جلد، سوم صفحہ، 1484
ثابت ہوا کہ سیدنا علیؓ کے مطابق قاتل ان کے اپنے لشکر میں تھے اور عبداللہ بن سبا اور ان کے ساتھیوں کے بیانات سے بھی پتہ چلا کہ قاتل وہ خود ہی تھے اور سیدنا طلحہٰؓ اور سیدنا زبیرؓ تو مسلم بین الفریقین سیدہ عائشہؓ کے لشکر میں تھے۔
معترض نے حدیثِ عشرہ مبشرہ پر یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ سیدنا عثمانؓ کو آگر رسول اللہﷺ نے جنت کی بشارت دی تھی تو جب آپؓ کے گھر کا محاصرہ ہوا تو آپؓ نے بلوائیوں، باغیوں کو یہ حدیث کیوں نہ سنائی۔
جواب: کسی جگہ کسی حدیث کا نہ بیان کرنا اس کی عدم ثبوت پر دلالت نہیں کرتا جیسے سیدنا حسینؓ کو جب شہید کیا گیا اس وقت آپؓ نے اپنے جنتی ہونے کی احادیث مبارکہ اپنے قاتلین کو نہیں سنائیں اس کے علاوہ امامیہ حضرات کے بارہ اماموں میں سے جن کو شہید کیا گیا انہوں نے بھی اپنے قاتلین کو ایسی کوئی دلیل نہیں دی جن سے ان کا جنتی ہونا ثابت ہوتا تھا۔
1. معترض نے یہ بھی کہا ہے کے امام اول خلیفہ بلا فصل امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سقیفہ میں اپنے جنتی ہونے کی حدیث پیش کیوں نہ کی اس کا جواب ایک تو اوپر والے حصہ چہارم میں دے دیا گیا ہے دوسرا جواب یہ ہے کہ جب خلیفہ بلا فصل کے ہاتھ پر سب لوگوں نے بیعت کر لی تو اس حدیث کے پیش کرنے کی ضرورت ہی نہ رہی۔
2. معترض نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ کے بارے میں یہ لکھا کہ اگر ان کو جنت کی بشارت دی گئی تھی تو وہ آخرت کے حساب کتاب سے کیوں ڈرتے تھے اس کا جواب: ملاحظہ ہو
اول: اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اختیار کرنا اور اس کا اظہار کرنا اور اللہ کے سامنے پیش ہونے کے بارے میں فکر کرنا کوئی عیب کی بات نہیں اور اس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے ملنے والی فضیلتوں کی نفی نہیں ہوتی۔
خود امامیہ مذہب کے معتبر عالم محمد شریف مرتضیٰ علم الہدی نے کہا کے انبیاء کرام کے بارے میں قرآن مجید میں ایسے الفاظ آئے ہیں جو بظاہر ان کی عصمت کی نفی کرتے ہیں ان کی تاویل جناب نے اپنی کتاب میں کی اور اس کتاب کے مترجمین اور حاشیہ نگار نے بھی حضرت آدم علیہ السلام کا اللہ سے مغفرت طلب کرنے والی آیات کی تاویل میں لکھا کہ
حضرت آدم علیہ السلام کا ادنیٰ لغزش سے طلب مغفرت کرنا بغرضِ اظہار عبدیت و خشوع و خضوع تھا۔ ملاحظہ کتاب تنزیہ الانبیاء ولآئمہ: صفحہ، 36۔
دوم: جب سیدنا فاروقِ اعظمؓ کا جنازہ رکھا گیا تو سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ آپؓ نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا کہ اس جیسے اعمال کے ساتھ اللہ سے ملنے کی آرزو کروں اور اللہ کی قسم مجھے پہلے ہی سے یہ خیال تھا کہ آپؓ کو اللہ تعالیٰ آپؓ کے صاحبین یعنی رسول اللہﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ علیہ السلام کے ساتھ کر دے گا کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے بکثرت یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں گیا اور ابوبکرؓ و عمرؓ گئے میں داخل ہوا اور ابوبکرؓ اور عمرؓ داخل ہوئے اور ابوبکرؓ اور عمرؓ نکلے۔
ملاحظہ ہو صحیح بخاری جلد دوم کتاب المناقب، مسند احمد: جلد اول، مسانید علیؓ ابن ابی طالب :جلد اول، مستدرک حاکم: جلد، سوم۔
اس کے علاوہ اعمال فاروقؓ والی روایت امامیہ کی کتب میں بھی موجود ہے۔
ملاحظہ ہو معانی الاخبار: صفحہ،117 باب، 245 کتاب الشافی: صفحہ، 171، تلخیص شافی: صفحہ، 428 میں بھی موجود ہے۔
نوٹ: اس روایت میں سیدنا علیؓ نے آرزو کی تھی میں سیدنا فاروقِ اعظمؓ والے اعمال لے کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش ہوں۔جس ہستی کے اعمال حاصل کرنے کی آرزو سیدنا علیؓ کریں وہ جنتی نہیں ہے تو دنیا میں جنتی اور کون ہو سکتا ہے۔
اور دوسرا اس سے ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو بھی آپؓ جنتی مانتے تھے اسی وجہ سے آپ نے ان کا ذکر رسول اللہﷺ کے ساتھ فرمایا آپ کے الفاظ ساتھ کر دے گا کا یہی مطلب ہے۔
سوم: امام الانبیاء علیہ السلام کنفرم جنتی ہیں اس کے باوجود آپﷺ فرماتے ہیں مجھے کیسے خوشی آئے حالانکہ صور والے فرشتے نے صور لیا اور وہ کان لگائے اس انتظار میں ہیں کہ کب اسے پھونکنے کا حکم ہوتا ہےملاحظہ ہو۔
جامع ترمذی: جلد دوم ابواب صفۃ القیامۃ، صفحہ، 139 رئیس۔
چہارم: دنیا میں اللہ کے خوف سے رونا کوئی عیب نہیں بلکہ یہ فضیلت کا باعث ہے مذہب امامیہ کی معتبر کتاب خصال میں موجود ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا قیامت کے دن تین آدمیوں کے علاوہ ہر شخص روتا ہوگا ایک وہ جو دنیا میں اللہ کے خوف سے رویا ہو۔ ملاحظہ ہو کتاب الخصال جلد اول صفحہ 185
پنجم: سیدنا علیؓ نے وقت شہادت سیدنا حسنؓ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا حسنؓ میں تمہیں اس طرح وصیت کرتا ہوں جس طرح مجھے رسول خداﷺ نے وصیت کی ہے اے فرزند جب میں دنیا سے مفارقت کروں اور میرے اصحاب تم سے موافق نہ رہیں اس وقت اپنے گناہوں پر رونا اور دنیا کو مقصور بزرگ نہ قرار دینا اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ خداوند جبار سے پنہاں و آشکار خائف رہنا۔
ملاحظہ ہو امامیہ مذہب کی کتاب جلاء العیون جلد اول صفحہ نمبر 296، 297
نوٹ: جس معترض نے سیدنا صدیقِ اکبرؓ سیدنا عمر فاروقؓ کے وقتِ وفات پر جو باتیں نقل کرکے ان کے جنتی ہونے کی نفی کرنے کی ناکام کوشش کی تھی اس کے اصول سے ان کے اپنے پہلے اور دوسرے امام جنت سے فارغ ہوگئے۔
امامیہ مذہب کی معتبر کتاب صحیفہ سجادیہ میں موجود ہیں کہ سیدنا زین العابدینؓ نے فرمایا
انا الذی افنت الذنب عمرہ۔
میں وہ شخص ہو جس کی عمر گناہوں میں تمام ہوئی۔
اس کے علاوہ سیدنا زین العابدینؓ نے اپنے گناہوں کی مغفرت کی دعا بھی اللہ سے کی اور آخرت کے انجام کی فکر بھی کی۔
اس صورت میں بقول معترض کے اصول کے سیدنا زین العابدینؓ کنفرم جنتی ہیں تو یہ سوال ان کے جنتی ہونے پر بھی ہو سکتا ہے کہ جس کو جنت کی بشارت ملی ہو کنفرم جنتی ہوں جو وارث جنت ہو وہ بھلا کیسے اپنے گناہوں کی بخشش اور آخرت کی فکر کر سکتا ہے۔
ملاحظہ ہو صحیفہ سجادیہ
سیدنا حسنؓ نے وقت وفات روتے ہوئے فرمایا میں دو باتوں کے لیے روتا ہوں ایک وہ جو حالت آنے والی ہے یعنی برزخ اور دوسرا دوستوں کی جدائی سے۔
امامیہ مذہب کی معتبر کتاب اصولِ کافی جلد اول۔
یہ جاہلانہ سوال ہے کہ اس کی ترتیب خلافت کی وجہ سے ہونے کی وجہ سے یہ حدیث غلط ہے جب کہ زبان نبویﷺ سے بھی کئی اور احادیث مبارکہ میں بھی خلفائے ثلاثہؓ کے نام مبارک اسی ترتیب سے آپؓ نے کئی دفعہ بتائے۔
ملاحظہ فرمائیں جامع ترمذی: جلد دوم، ریاض النضرہ جلد اول۔
علاوہ ازیں خود سیدنا علیؓ نے کئی دفعہ اسی ترتیب سے ان ہستیوں کا اپنے سے افضل اور خلافت میں اولیت کو بیان فرمایا۔
ملاحظہ فرمائیں فضائلِ صحابہ امام احمد بن حنبلؒ، نہج البلاغہ، واقعہ صفین، شرح نہج البلاغہ ابنِ میثم۔
چھ ماہ بعد بھی بیعت کرنے سے عشرہ مبشرہ والی حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا جب بعد میں بھی بیعت کر لی تو اور ہر شخص کے اعمال کا دار و مدار مدار خاتمہ پر ہوتا ہے ملاحظہ ہو صحیح بخاری: جلد، دوم۔
اور یہ چھ ماہ والا قول راوی کا تفرد ہے جب کہ اول خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت پر سیدنا علیؓ کی بیعت اسی وقت ہی ہوگئی تھی جب بیعت عام لینے کے لیے ان کو طلب کیا گیا تھا۔
ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری: جلد دوم، مستدرک حاکم، اعتقاد بیہقی۔
جہاں تک سیدہ فاطمہؓ کی ناراضگی کا تعلق ہے یہ بشری تقاضے سے تھی جس کا کوئی اثر شیخینؓ کی ذوات پر نہیں پڑتا اور بعد میں رضا مندی بھی ثابت ہے۔
طبقات ابنِ سعد: جلد ہشتم۔
سیدہ فاطمہؓ خود سیدنا علیؓ پر بھی کئی دفعہ غضبناک ہوئیں اور ایسے کاموں سے ناراض ہو جاتی تھیں جن میں سیدنا علیؓ کا کوئی قصور نہیں ہوتا تھا۔
ملاحظہ فرمائیں علل الشرایع: جلد اول، امالی شیخ صدوق، تفسیر عیاشی، بشارت مصطفیٰ، احتجاج طبرسی جلد اول، جلا العیون: جلد اول، حق الیقین۔
اگر ان کے ناراض ہونے سے سیدنا علیؓ کی جنت مشکوک نہیں ہوتی جن سے کئی دفعہ ناراض ہوئیں تو شیخینؓ کی جنت کو بھی کوئی نقصان نہیں۔
رہی جنازہ میں شامل نہ ہونے کی بات یہ بھی لچر قسم کا جاہلانہ اعتراض ہے کسی درست سند کی روایت میں یہ نہیں کہ سیدہ فاطمہؓ نے کسی کا بھی نام لے کر جنازہ سے منع کیا ہو۔ بلکہ اکثر روایات میں مطلق نہی ہے کہ کسی کو اطلاع نہ دی جائے اور یہ سب پردہ کی وجہ سے تھا جیسے جس پر رات کو جنازہ کی وصیت اور جنازہ کو پردہ میں رکھنے کے قرائن اس پر دلالت کرتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں الاستیعاب۔
کسی کو غصہ میں کہے گئے الفاظ عقیدہ نہیں ہوتے اور نہ ان الفاظ کا قانونی طور پر لاگو ہونے کا کوئی جواز ہوتا ہے جیسے سیدنا حاطبؓ کو غصہ میں سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے منافق کہہ دیا لیکن وہ جنتی ہیں اور زبانِ نبوت نے اسی وقت سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے سامنے اس کی تصدیق فرمائی۔
اسی طرح نہج البلاغہ کے اندر سیدنا علیؓ نے غصہ میں آ کر سیدنا امیرِ معاویہؓ کو کیا کچھ نہیں فرما دیا لیکن اس کا کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ جب کہ انہی سیدنا امیرِ معاویہؓ کے اسلام اور ایمان کو سیدنا علیؓ نے اپنے جیسا فرمایا اور ان کو سبِ وشتم کرنے اپنے نالائق سبائیوں کو منع کیا۔ اگر ایسے الفاظ کا اثر پڑتا ہے تو سیدنا علیؓ کی جنت بھی فریقِ ثانی کی جمع پونجی سے مشکوک ہو جائے گی شرح اس کی یہ ہے کہ سیدنا عباسؓ جو اہلِ بیتِ رسول ہیں انہوں نے سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے سامنے سیدنا علیؓ کو خائن، دھوکے باز، آثم اور جھوٹا کہا۔
ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری: جلد دوم، صحیح مسلم: جلد دوم، نہج البلاغہ۔
سیدنا طلحہؓ و سیدنا زبیرؓ نے سیدنا علیؓ پر جنگ مسلط نہیں کی اس کا ثبوت دینا کہ کسی کتاب سے نہیں دیا جا سکتا۔ ان کا صرف قصاص کا مطالبہ تھا جس کے حوالے سے مذاکرات کامیاب ہوگئے تھے لیکن ان پر آج کے اعتراض کرنے والے سبائیوں کے آباؤ اجداد نے اندھیرے سے فایدہ اٹھا کر دونوں گروہوں کو آپس میں لڑا دیا۔
سیدنا علیؓ سے جنگ والی روایت کی صحت مشکوک ہے جو مطلب سبائیوں نے اپنی رزیل فکر سے نکالا وہ سیدنا علیؓ کو سمجھ نہ آیا اور وہ اس نام نہاد جنگ کے اختتام پر اہلِ بیت کی سرخیل سیدہ عائشہؓ کو عزت سے رخصت کرے ہیں اور ان کو کہتے ہیں کہ آپ کی وہی حرمت ہے جو اس سے پہلے تھی۔
اس کے علاؤہ سیدنا زبیرؓ و سیدنا طلحہؓ کے قاتلین کو خود جہنمی سیدنا علیؓ نے ڈکلیئر کیا۔
ملاحظہ فرمائیں نہج البلاغہ، طبری جلد سوم، البدایہ والنہایہ جلد سوم۔
اگر ان مقتولین کی وجہ سے کسی زبان نبوت سے جنتی شخصیت مشکوک ہوسکتی ہے تو اس کی زد سب سے پہلے سیدنا علیؓ پر پڑے گی کیونکہ کہ صفین میں خود ان کی طرف سے جنگ مسلط کی گئی جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شرعی حق مانگ رہے تھے اس جنگ میں ہزاروں کے مقتولین کی جواب دہی خلیفہ وقت کے سر جائے گی یہاں جس آیت کو پیش کیا گیا ہے یہ صرف سبائی نہیں خارجیوں کی رزیل فکر پر یہ اعتراض تیار کیا گیا ہے جو سیدنا علیؓ کے باطل پر ہونے کے ثبوت میں خارجی بھی پیش کرتے ہیں۔
دامادِ رسول مظلومِ مدینہ سیدنا عثمانؓ کی تائید اور آپ کو مظلوم اور حق پر سمجھنے والوں میں بقیہ اصحاب کے ساتھ سیدہ عائشہؓ بھی تھیں۔
زیرِ بحث روایت جھوٹی کذاب راویوں کی ہے جس میں مظلومِ مدینہ کے بارے میں قتل کا فتویٰ تھا۔
ملاحظہ فرمائیں طبری جلد سوم، طبقات ابنِ سعد جلد سوم میزان الاعتدال۔
رہی سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ کے صاحبزادے کی روایت پر اعتراض اس کا حوالہ اجہل کبیر صاحب نے نہیں دیا ورنہ اس پر بھی تفصیلی جواب دیا جاتا۔ سیدنا حمیدؒ کے بارے میں یہاں اعتراض کہ ایک سال کا بچہ کیسے روایت کر سکتا ہے اس کے لیے ایک پھکی حاضر خدمت ہے کہ یہ عقلی ڈھکوسلہ اس وقت آپ کے مصنفین کو کیوں یاد نہیں آتا جب سیدنا علیؓ کے بچپن کے واقعات سنائے جاتے ہیں پھر جہالت یہ کہ جن سیدنا حمیدؒ کو سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ کا بیٹا بتایا جا رہا ہے وہ خود اپنے والد سے روایت کر رہے ہیں یہ حمیدؒ نامی راوی سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ کے صاحبزادے ہیں ہی نہیں ان کے والد دوسرے ہیں اور وہ سیدنا عبد الرحمٰنؓ سے روایت کر رہے تھے۔
عن عبد الرحمٰن بن حمیدؒ عنہ ابیہ عن عبد الرحمٰن بن عوفؓ قال رسول اللہﷺ
یعنی سیدنا عبد الرحمٰن بن حمیدؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور وہ سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
جامع ترمذی جلد دوم۔
عشرہ مبشرہ والی حدیث کی سند صرف یہی نہیں اور بھی کئی اسنادہ سے مروی ہے چنانچہ امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِی، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِی الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ آثَمْ، قِيلَ: وَكَيْفَ ذَلِكَ ؟ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِﷺ بِحِرَاءَ، فَقَالَ: اثْبُتْ حِرَاءُ فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِی، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ قِيلَ: وَمَنْ هُمْ ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ وَأَبُو بَكْرٍؓ، وَ عُمَرُؓ، وَ عُثْمَانُؓ، وَ عَلِیؓ، وَطَلْحَةُؓ، وَالزُّبَيْرُؓ، وَسَعْدٌؓ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍؓ، قِيلَ: فَمَنِ الْعَاشِرُ؟ قَالَ: أَنَا قَالَ أَبُو عِيسَىٰ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِی مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِیﷺ۔
ترجمہ: میں نو اشخاص کے سلسلے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ یہ لوگ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں کے سلسلے میں گواہی دوں تو بھی گنہگار نہیں ہوں گا، آپؓ سے کہا گیا: یہ کیسے ہے؟ ذرا اس کی وضاحت کیجیئے تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حرا پہاڑ پر تھے تو آپﷺ نے فرمایا: ٹھہرا رہ اے حرا تیرے اوپر ایک نبی، یا صدیق، یا شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں عرض کیا گیا: وہ کون لوگ ہیں جنہیں آپﷺ نے صدیق یا شہید فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہیں پوچھا گیا: دسویں شخص کون ہیں؟ تو سیدنا سعیدؓ نے کہا: وہ میں ہوں۔ امام ترمذیؒ کہتے ہیں:
1: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
2: یہ حدیث کئی سندوں سے سیدنا سعید بن زیدؓ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے آئی ہے۔
جامع ترمذی: جلد دوم، رقم حدیث نمبر: 3757، سنن ابنِ ماجہ۔
اللہ کے خوف سے رونا عیب نہیں ہے بلکہ فضیلت کا باعث ہے۔ امامیہ مذہب کی معتبر کتاب الخصال سیدنا علیؓ کا اپنے بیٹے کو اپنے بعد گناہوں کی مغفرت مانگنے کی اور اللہ سے خوف کرنے کی وصیت۔
امامیہ علماء کا انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں تاویل کرنا:
سیدنا زین العابدینؓ کو اپنے انجام کی فکر امامیہ کتاب صحیفہ کاملہ۔
سیدنا زین العابدینؓ کا اپنے گناہوں پر نادم ہونا۔ امامیہ کتاب صحیفہ سجادیہ۔
سیدنا زین العابدینؓ کا اپنے گناہوں پر رونا اور اللہ کے عذاب سے ڈرنا امامیہ کی کتاب مجمع الفضائل المعروف مناقب آلِ ابی طالب جلد ششم
سیدنا حسنؓ کا فضائل کی تسلیاں سننے کے باوجود وقت وفات حساب کتاب کے ڈر سے رونا۔
سیدنا موسیٰ کاظمیؒ کا موت کی سختی کے دور ہونے اور اللہ کے سامنے حساب کے وقت بخشش کا سوال۔