انبیاء کا ذکر عبادت ، صالحین کا ذکر کفارہ اور موت کا ذکر صدقہ (تحقیق)
خادم الحدیث سید محمد عاقب حسینانبیاء کا ذکر عبادت، صالحین کا ذکر کفارہ اور موت کا ذکر صدقہ (تحقیق)
مشہور روایت انبیاء علیہم السلام کا ذکر عبادت صالحین کا ذکر کفارہ اور موت کا ذکر صدقہ ہے کی تحقیق۔
اس روایت کو امام دیلمیؒ نے مسند الفردوس میں روایت کیا اور امام دیلمیؒ سے اس کو باسند شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ اور امام سیوطیؒ نے نقل کیا:
قال: أنا حمد بن نصر أنا الميدانی نا محمد بن يحيى العاصمی نا أحمد بن إبراهيم البعولی نا أبو علی بن الأشعث، نا سريج بن عبد الكريم، نا جعفر بن محمد بن جعفر بن محمد الحسينی أبو الفضل فی كتاب العروس نا الوليد بن مسلم، نا محمد بن راشد، عن مكحول عن معاذ بن جبلؓ قال: قال رسول اللهﷺ ذكر الأنبياء من العبادة وذكر الصالحين كفارة الذنوب وذكر الموت صدقة، و ذكر النار من الجهاد و ذكر القبر يقربكم من الجنة وذكر القيامة يباعدكم من النار، وأفضل العبادة ترك الحيل، و رأس مال العالم ترك الكبر، وثمن الجنة ترك الحسد، والندامة من الذنوب التوبة الصادقة۔
(كتاب زھر الفردوس: جلد، 4 صفحہ، 538 حدیث، 39)
(كتاب الزيادات على الموضوعات:جلد، 2 صفحہ، 762)
ترجمہ: سیدنا معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر عبادت ہے صالحین کا ذکر گناہوں کا کفارہ ہے موت کا ذکر صدقہ ہے اور جہنم کا ذکر جہاد میں سے ہے اور قبر کا ذکر تمہیں جنت کے قریب کر دیتا ہے اور قیامت کا ذکر تمہیں جہنم سے دور کر دیتا ہے بہترین عبادت چالوں حیلے بہانوں کا ترک کرنا ہے، دنیا کا سرمایہ تکبر کو ترک کرنا ہے اور جنت کی قیمت حسد کا ترک کرنا ہے اور گناہوں پر ندامت سچی توبہ ہے۔
یہ روایت اور کسی کتاب میں باسند مذکور نہیں ہماری تحقیق کے مطابق۔
1: جعفر بن محمد بن جعفر بن محمد الحسينی أبو الفضل متھم بالوضع ہے۔
اس کے بارے میں امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوریؒ فرماتے ہیں:
وضع الحديث على الثقات۔
ترجمہ: یہ ثقہ راویوں پر احادیث گھڑتا ہے۔
(المدخل إلى الصحیح: صفحہ، 31)
امام ابو عبداللہ الجوزقانیؒ نے بھی اس راوی کو مجروح قرار دیا:
(كتاب لسان الميزان أبی غدة: جلد، 2 صفحہ، 471)
2: محمد بن محمد بن الأشعث أبو الحسن الكوفی
یہ رافضی احادیث گھڑنے والا راوی ہے۔
امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں اس نے کتاب العلویات کو گھڑا ہے۔
(سںوالات السهمی: صفحہ، 52)
امام ابنِ عدیؒ اس کے بارے میں فرماتے ہیں میں نے اس سے ایک نسخہ لکھا جو تقریباً ایک ہزار روایات پر مشتمل تھا اور وہ ساری مناکیر یعنی باطل ہیں پھر آگے فرماتے ہیں اور اس پر اس نسخہ کو گھڑنے کا الزام ہے پھر فرماتے ہیں مجھے اس نسخے میں موجود روایات کی کوئی اصل نہیں ملی اور پھر اس کی بیان کردہ موضوع روایات نقل کیں۔
(الكامل لابنِ عدی: جلد، 6 صفحہ، 351)
لہٰذا ثابت ہوا یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے۔
اس روایت کو امام جلال الدین سیوطیؒ نے بھی موضوع قرار دیا کیونکہ آپ اس کو اپنی کتاب الزیادات علی الموضوعات میں لائے جس کے مقدمہ میں آپ نے شرط لگائی ہے کہ آپ اس میں وہ موضوع روایات لائیں گے جو ابنُ الجوزیؒ کتاب الموضوعات میں نہیں لائے
(كتاب الزيادات على الموضوعات: جلد، 2 صفحہ، 762 موضوع كما فی مقدمة الكتاب: صفحہ، 31)
البتہ یہ امام سیوطیؒ کے عجائب میں سے ایک ہے کہ آپ اسی روایت کو مسند الفردوس ہی کے حوالے سے اپنی کتاب الجامع الصغیر میں بھی لے آئے جس کے مقدمہ میں آپ نے شرط لگائی ہے کہ اس میں کوئی موضوع نہیں لائیں گے۔
رفع الله درجتك فی أعلى عليين
اس روایت کو امام ابنِ عراق الکنانیؒ نے بھی موضوع قرار دیا۔
(كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة: جلد، 2 صفحہ، 396)
لہٰذا اس روایت کی نسبت نبیﷺ کی طرف کرنا حلال نہیں۔
فقط واللہ و رسولہٗ اعلم باالصواب۔
خادم الحدیث النبویﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی۔