سپاہِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا پیغام
مولانا محب اللہ قریشیسپاہِ صحابہؓ کا پیغام
غیرت مند سنی افسران کے نام!
ہر ادارے میں موجود شیعہ افسران اور شیعہ ملازمین پر کھڑی نظر رکھی جائیں،اس لیے کہ شیعہ افراد ایران کے وفادار پہلے اور پاکستان کے ملازم بعد میں ہوتےہیں:
میرے محترم غیرت مند سنی افسرو!
ایرانی انقلاب ملک میں لانے کیلیے شیعہ ورکر ہر ادارے میں گھس کر ملک پاکستان کے خفیہ رازوں کو ایران تک پہنچاتے ہیں، اور حساس اداروں میں گھس کر ان کو نا کام بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ جو ملک پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ اور ایرانی انقلاب کیلئے راہ ہموار کرنے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔
آج کل شیعوں کے افراد پاکستان کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں منظّم پلاننگ کے تحت چھائے ہوئے ہیں، پولیس، مسلح افواج ، ٹی وی، ریڈیو اور ملک پاکستان کے تمام حساس اداروں کے اہم عہدوں پر ایک بڑی تعد اد شیعوں کی ہے ، ان سب کا مطمع نظر دراصل پاکستان میں ایرانی (شیعہ) انقلاب لانا ہے۔
لہٰذا ہرادارے میں موجود شیعہ افسران اور شیعہ ملازمین پر کھڑی نظر رکھی جائے، اس لیے کہ شیعہ افراد ایران کے وفادار پہلے اور پاکستان کے ملا زم بعد میں ہوتے ہیں ۔
اس سلسلے میں چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں
¹-ہفتہ وار تکبیر کراچی نے (1,7,1998) کی اشاعت میں بتایا کہ:آئی ایس آئی کے میجر مکرم شاہ،جو اپنے کئی ساتھیوں کے ہمراہ ٹھوکر نیاز بیگ کے ناکے پر جدید ترین فوجی اسلحہ سمیت گرفتار ہوئے تھے، کے والد میجر(ر)اشرف شاہ ٹھوکر نیاز بیگ کی اہم شخصیت ہیں اور ان کا بھائی مشرف شاہ ایک اور جنگجو شیعہ تنظیم حسینی ٹائیگر ز کا ہیرو ہے۔
میجرمکرم شاہ کے گرفتار ہونے کے بعد اعلیٰ فوجی افسر اس کو پولیس کی حراست سے پُر اسرار طور پر نکال کر لے گئے اور بعد میں انہیں کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔( انا للّٰه وانا اليه راجعون)
پولیس افسر مروت شاہ بھی شیعہ مستقر (گڑھ) ٹھوکر نیاز بیگ، لاہور کا رہنے والا ہے اور وہاں کی اہم شیعہ شخصیت میجر (ر) اشرف شاہ،جو کالعدم شیعہ دہشت گرد تنظیم سپاہِ محمد کاسر پرست اعلیٰ تھا، کے فرزند ہے۔
(ایران اور عالمِ اسلامصفحہ نمبر106)
²-ایرانی نمائندوں کی ہدایت پر پاکستانی شیعہ افراد پاکستان کے مشہور اورفعال اداروں میں رسائی حاصل کر کے ان کو اندر سے ناکام بنانے کی سازش کرتے ہیں۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ مجرموں کو پکڑنے والے اور تفشیش کرنے والے ہمارے اداروں میں انہی منافقین کی اکثریت ہے جو اپنے ہم خیال لوگوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
پاکستان میں دو فیصد شیعہ اقلیت حکومت کے تقریباً ہر شعبہ اورادارے پر مسلط ہے اور ان کو پاکستان کے بیشتر ارباب اختیار جو صرف کہلانے کے مسلمان ہیں، کی مکمل پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
(ایران اور عالمِ اسلام صفحہ نمبر 83)
³-ملک کی پولیس میں اکثریت شیعہ افراد کی ہے۔ انہوں نے مختلف شہروں میں اسلامی تنظیموں کے فعال کارکنوں کی فہرستیں تیار کر رکھی ہیں۔ ان علاقوں میں جب کوئی بھی دہشت گردی کی واردات ہو جائے یا کوئی شیعہ قتل ہو جائے تو ان کارکنوں کو فوراً گرفتار کر کے اعلان کر دیا جاتا ہے کہ مجرم پکڑ لئے گئے ہیں اور بغیر کوئی مقدمہ چلائے ان کو جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔
(ایران اور عالمِ اسلام صفحہ نمبر108)
⁴ـ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ایرانی حکمرانوں کے اشارے پر مارنے اور مرنےوالے ان کے کئی لاکھ گماشتے ( تخریب کار اور دہشت گرد) ہمارے وطن میں پہلے سے ہی موجود ہیں اور حکومت کے ہر حساس اوراہم
بااختیار اداروں پر چھائے ہوئے ہیں۔
(ایران اور عالمِ اسلام صفحہ 23)
⁵- اگست 1997ء میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر غور کرنے کیلئے شیعہ اور مسلم رہنماؤں کا اجلاس از خود طلب کیا ۔ پتہ چلا کہ چیف جسٹس دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد شیعہ فرقے کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ کر چکے تھے۔اس فیصلہ کی بھنک جب نواز شریف کی حکومت میں شامل ان کے شیعہ حلیفوں،وزیروں اور مشیروں کے کانوں میں پڑی تو انہوں نے مختلف حربوں کےذریعے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو عہدے سے فارغ کر دیا۔
(ایران اور عالمِ اسلام صفحہ109)
⁶- 1980ء میں جب شیعوں نے پاکستان کے وفاقی دفتر کا زبردست گھیراؤ کر لیا اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے زکوٰۃ کی ادائیگی سے صاف انکار کر دیا۔ تو اس کے بعد جنرل ضیاءالحق نے بعض خفیہ ایجنسیوں کے تحت اس بات کا جائزہ لیا کہ پاکستان میں شیعوں سے کیسے نمٹا جائے تا کہ ان کا راستہ روکا جائے۔ پھر یہ طے ہوا کہ سب سے پہلے شیعوں کے شناختی کارڈوں کا رنگ تبدیل کر دیا جائے ۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ان کی شناخت آسان ہو جائے گی اور دوسری یہ کہ سنی افراد زکوٰۃ سے مستثنٰی ہونے کیلئے شیعہ مذہب نہ اپنا سکیں گے۔
یہ کام نہایت رازداری سے ہو رہا تھا لیکن جنرل ضیاء الحق اس بات سے بالکل بے خبر تھے کہ ان کو تقیہ کے ذریعے ایسے لوگوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور ان کا سوفیصد اعتماد حاصل کیا ہوا ہے جن کے متعلق یہ کاروائیاں ہو رہی تھیں۔ اور یہ کہ روزانہ کی کاروائی مسلسل ان کے دشمنوں تک پہنچ رہی ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ اس ڈرامے کے سب سے بڑے کرداران کے جی او سی جنرل رفاقت سید تھے جن کا پورا نام سید رفاقت حسین شاہ ہے۔ وہ ایوانِ صدر میں ان کے سب سے اہم معاون اور مشیر اعلیٰ تھے ۔ دوسرے برگیڈیر ذوالفقار تھے جو ڈائریکٹر جنرل کورڈی نیشن تھے جن کو ان کی ہر ہر حرکت کا علم رہتا تھا اور تیسرےآغا ذوالفقار تھے جوان کے چیف سیکورٹی افسر ہونے کی وجہ سے سائے کی طرح ان کے ہمراہ رہتے تھے۔ یہ سب کےسب تقیه باز شیعہ تھے اور سنی بن کر جنرل ضیاء الحق صاحب کے معتمد خاص بن گئے تھے۔
جولائی 1988ء میں جب تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سربراہ علامہ عارف اللّٰه حسینی قتل کر دیئے گئے تو ایرانی ذرائع ابلاغ میں ایک ہلچل مچ گئی اور پاکستان کے شیعہ لیڈروں اور ایرانی حکمرانوں نے کھل کر الزام لگایا کہ حسینی کے قتل کے ذمہ دار ضیاء الحق ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان تمام واقعات کے نتیجہ میں ضیاء الحق کو ختم کرنے کی کوششیں تیز تر کر دی گئیں ۔ یقیناً اس کیلئے منصوبہ بندی یا تو تہران میں یا اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانہ میں ہوئی ہوگی۔
خبروں کے مطابق جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو تباہ کرنے کی سازش دو ہفتے قبل تیار کر لی گئی تھی
اگرچہ ان کے بہاولپور کے دورہ کی خبر خفیہ رکھی گئی تھی،جس کا کمشنر بہاولپور کو بھی علم نہ تھا لیکن سازشی عناصر( شیعہ دہشت گرد) اس دورے سے دو ہفتہ قبل ہی باخبر ہوچکے تھے اوران کو باقاعدہ منصوبہ بندی کیلئے کافی وقت بھی مل گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق جہاز کے کپتان مشہور حسین نے طیارے میں سوار ہونے سے پہلے ٹیلیفون پر اپنے باپ سے گفتگو کی اور درخواست کی کہ وہ اس کی شہادت کے لئے دعا کریں۔
خبروں میں بتایا گیا کہ 17 اگست 1988ء کو صبح سے ہی بہاولپور میں بعض شیعہ یہ افواہیں پھیلا رہے تھے کہ آج کچھ ہونے والا ہے۔ پھر جب یہ بدقسمت طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا تو ان لوگوں نے خوشی منائی،مٹھائی بانٹی اور رات بھر رقص کرتے رہے خبروں میں یہ بھی بتایا گیا کہ جب صدر ضیاء الحق کی شہادت کی خبر اسلام آباد پہنچی تو پورا شہر دم بخود رہ گیا۔ لیکن ایک پڑوسی ملک(ایران) کے سفارتخانے کے افراد ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔ انہوں نے جشن منانے کا انتظام کیا،جس میں ہم خیال پاکستانیوں کو بھی مدعو کیا گیا،جہاں مہمانوں کی شراب و کباب سے تواضع کی گئی اور ناؤونوش کاسلسلہ صبح تین بجے تک جاری رہا۔
یہ خبر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ آغا ذوالفقار (جو طیارہ میں سوار تصور کئے گئےتھے ) کا نام بھی شروع میں مردہ لوگوں کی فہرست میں شامل تھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ شخص آخری وقت میں طیارے سے کھسک گیا تھا اور زندہ ہے۔
جون1991ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکومت امریکہ سے مطالبہ کرے گی کہ وہ ایک پاکستانی شیعہ کو ان کے حوالے کر دے۔ واضح رہے کہ یہ شیعہ،ضیاء الحق کے طیارہ کے جائے حادثہ کے نزدیک بستی لال خان سے گرفتار کیا گیا تھا،اس کے پاس بہاولپور ائیرپورٹ کے فضائی نقشے اور جہاز کے انجن کے خاکے موجود تھے،وہ کچھ عرصہ جیل میں رہا لیکن پھر پاکستان کی اُس وقت کی حکومت نے اسے آزاد کر کے امریکہ بھیج دیا۔
(ایران افکار و عزائم صفحہ نمبر 92 تا 95)
⁷- 1985ءمیں ایرانی صدرخامنہ ای کے لاہور آنے پر پاکستانی شیعوں نےجس سرکشی اور ملک دشمنی کا مظاہرہ کیا تھا وہ پوری قوم کے لئے باعث شرم ہے اور اس کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ اور اس مظاہرے سے صاف ظاہر ہوا ہے کہ پاکستانی شیعه، ملک دشمنی اورایران نوازی میں کسی حد تک آگے جاچکے ہیں۔
⁸- تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے پاس سرکاری اور
غیرسرکاری دفتروں میں شیعہ کارکنوں کی فہرستیں اور مکمل تفصیلات موجود ہیں۔یہ شیعہ کارکن حکومت کی ایسی باتوں اور فیصلوں سے جن کا تعلق شیعوں سے ہو تحریک کو مطلع کرتے رہتے ہیں اور تعلیمی اور مذہبی حکمت عملی مرتب کرتے وقت تحریک کے فیصلوں کی پیروی کرتے ہیں۔پاکستان میں فوجی اور غیر فوجی محکموں میں یہاں تک کہ پولیس اور خفیہ اداروں میں بھی تقریباً ہر حساس کلیدی عہدے پر شیعہ فائز اور قابض ہیں اور ان کو تمام شیعوں میں بالا دستی حاصل ہے۔اسی وجہ سے ایران کیلیئے پاکستان کی سیاست میں نہ صرف دخل اندازی ممکن ہو گئی ہے بلکہ ایران کیلیئے اس ملک میں تخریب کاری اور دہشت گردی بھی کروانا آسان ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ ان واقعات کی تحقیقات کو توڑنا مروڑنا اور بے نتیجہ بنانا بلکہ سرے سے دبانا بھی ممکن ہو گیا ہے۔اب پاکستان کا کوئی حساس منصوبہ اور سلامتی کا راز ایران سے پوشیدہ نہیں ہے اور بھارت سے ایران اس کی قربت کے پیشِ نظر پاکستان کیلئے یہ صورت حال بہت خطرناک ہے۔
(ایران افکار و عزائم صفحہ84)
⁹-معلوم ہوا ہے کہ ایران نے چند مخصوص پاکستانی شیعوں کو ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری کہوٹہ میں داخل کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ پاکستان کے ایٹمی راز حاصل کیے جاسکیں ، پتہ نہیں کیا نتیجہ نکلا،یقین ہے کہ اس وقت بھی کچھ تقیہ باز افراد وہاں اس مقصد کے لئے موجود ہو۔
(ایران افکار و عزائم صفحہ 5)