ایمان بالقرآن
مولانا اللہ یار خانؒایمان بالقرآن
مقدمہ
بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام على سيد الانبياء والمرسلين و رحمة للعالمين من قال انانبي وآدم بين الماء والطين.
دنیا میں دو قسم کے مذاہب پائے جاتے ہیں الہامی اور غیر الہامی الہامی مذاہب کی بنیاد الہامی کتاب پر ہوتی ہے حقیقت میں الہامی مذہب تو صرف ایک ہی ہے جس کا نام اسلام ہے مگر جب اس پر نسلی رنگ چڑھا تو اس پر یہودیت اور عیسائیت کے لیبل لگائے گئے۔
در حقیقت اپنے دور میں اسلام ہی تھا جس کی تعلیم حضرت موسیٰ علیہ السلام نے الہامی کتاب تورات کے ذریعہ بنی اسرائیل کو دی اسی طرح یہ اسلام ہی تھا جس کی تعلیم حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے الہامی کتاب انجیل کے ذریعہ بنی اسرائیل کو دی۔ ان دو کتابوں کے علاوہ زبور صحف ابراہیم ، دیگر انبیاء کرام کے صحف بھی الہامی تعلیمات ہی کے مجموعے تھے۔ مگر ان میں سے کوئی کتاب اپنی اصل متن سے محفوظ نہ رہ سکی جس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ہر کتاب کسی خاص قوم یا کسی خاص دور کے لیے رہنمائی کی خاطر نازل کی گئی تھی۔ جب کہ اللہ کی آخری کتاب یعنی قرآن کریم پوری انسانیت کے لیے نازل کی گئی تو اس کی حفاظت کی ضمانت بھی ساتھ ہی دی گئی کہ وانا لہ لحافظون پہلی کتابوں کے متعلق اس قسم کی کسی ضمانت کا ثبوت نہیں ملتا۔ لہذا ان میں ردو بدل اور تحریف ہو تو کوئی تعجب کی بات نہیں، مگر قرآن مجید کا معاملہ ان سے مختلف ہے۔
اس لیے اس اعلان الٰہی کے بعد اس کی حفاظت اس طرح کی جاتی رہی کہ اسے سینوں اور سفینوں میں محفوظ رکھنے کا خصوصی اہتمام ہوتا رہا اور انشاء اللہ قیامت تک ہوتا رہے گا۔
علمی اور سیاسی میدان میں جب اسلام کی برتری کا انکار ناممکن ہو گیا اور نزول قرآن سے پہلے یہود و نصارٰی کو ان دونوں میدانوں میں جو برتری حاصل تھی ۔ وہ بالفعل ختم ہو گئی ۔ اور ان دونوں قوموں نے یہ محسوس کر لیا کہ امت محمدیہ کو بگاڑنا یا نیچا دکھانا ممکن نہیں تو ایک سازش کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ سازشی یہود کے ذہن کی پیدا وار تھی ۔ اور اس کی ابتداء یوں کی گئی کہ اس آخری کتاب ہدایت کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کا دعویٰ کرنے والے ایک گروہ نے عقیدہ تحریف قرآن کو ضروریات دین میں شامل کر لیا اور اس عقیدے کا انکار کفر قرار دیا لیکن ان کی مجبوری یہ تھی کہ موجودہ قرآن کو محرف اور مبدل قرار دینے کے بعد اس کا بدل پیش کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی کتاب موجود نہیں تھی لہٰذا اپنے عقیدہ تقیہ سے کام لیتے ہوئے مجبوراً انہیں یہ کہنا پڑا کہ موجودہ قرآن پر ہمارا ایمان ہے اس بناء پر ان سے دلیل طلب کی گئی کہ اپنے عقائد کے اس تضاد کو رفع کیجئے ، اس مطالبہ کی چند وجوہ ہیں ۔
وجہ اول :
مذہب شیعہ کی بنیاد اور عقیدہ کی بناء اس امر پر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو قرآن نازل ہوا۔ اور جو دین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا اس کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے والے ناقلین قرآن اور راویان دین اسلام کی سب سے پہلی جماعت بغیر کسی استثناء کے ساری کی ساری جھوٹی تھی۔ البتہ اس جھوٹ کے لیے دو اصطلاحیں استعمال کی گئیں کیونکہ شیعہ نے اس مقدس جماعت کو دو گروہوں میں منقسم تسلیم کیا، ایک گروہ خلفائے ثلاثہ اور ان کے ساتھیوں کا تھا یہ سب سے بڑا گروہ تھا دوسرا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے چار ساتھیوں کا تھا۔ شیعہ نے پہلے گروہ کے جھوٹ کا نام نفاق رکھا ہے اور دوسرے گروہ کے جھوٹ کا نام تقیہ رکھا ہے۔ جھوٹ ہونے کے اعتبار سے تو وہ ایک ہی چیز تھی۔ مگر اتنا فرق ضرور تھا کہ پہلا گروہ جھوٹ تو بولتا تھا مگر جھوٹ کو عبادت نہیں سمجھتا تھا ۔ مگر دوسرے گروہ نے جھوٹ کو اتنی بڑی عبادت قرار دیا کہ وہ 9/10 حصہ دین ہے اور جھوٹ نہ بولنے والے کو یہ بشارت دی کہ
لا دين لمن لا تقية له یعنی جو جھوٹ نہ بولے دین شیعہ سے خارج ہے۔
شیعہ کا عقیدہ ہے کہ پہلا گروہ اپنے اندر ایک مافوق الفطرت قوت رکھتا تھا جس سے مختلف طبائع مختلف مذاہب اور مختلف اقوام کے لوگوں کو جن کی کثرت تواتر کو پہنچی ہوئی تھی بڑی آسانی سے جھوٹ پر متفق اور متحد کر لیتا تھا۔حالانکہ یہ عقلًا محال ہے اور دوسرا گروہ ایسا کمزور تھا کہ وہ اپنے دل کی بات اپنے ساتھیوں کو بھی نہیں بتا سکتے تھے۔
اس صورت حال پر اگر غور کیا جائے تو اس کے بغیر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا کہ شیعہ کا ایمان قرآن پر، نبی کریم ﷺ کی نبوت پر ، آپ کے معجزات پر ، آپ کی تعلیمات پر ، بلکہ دین کی کسی چیز پر بھی نہیں ثابت ہوتا کیونکہ صحابہ کی جماعت وہ گروہ ہے جو آنے والی نسلوں اور نبی کریم ﷺ کے درمیان واسطہ اور حضور کی نبوت کے عینی گواہ ہیں اور شیعہ عقیدہ کے مطابق یہ سارے کے سارے جھوٹے ہیں۔ لہٰذا جھوٹے گواہوں کی شہادت سے کوئی دعویٰ ثابت نہیں ہو سکتا۔
وجہ دوم :
شیعہ کا اقرار ہے اور اس پر ان کا اتفاق ہے کہ موجودہ قرآن خلفائے ثلاثہ کے اہتمام سے جمع ہوا ۔ ان ہی کے ذریعے دنیا میں پھیلا اور چونکہ یہ غیر معصوم ہیں اور شیعہ آئمہ معصومین سے اس کی تصدیق شیعہ کی کتابوں میں کہیں نہیں ملتی لہٰذا قرآن کیونکر صحیح تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
دشمن دین کے ہاتھ سے جو چیز ملے اور دشمن بھی وہ جو خائن ہو ، کاذب ہو اور تخریب دین کے در پے بھی ہو اور صاحب اقتدار بھی ہو اور ایسی قوت کا مالک ہو کہ بے بنیاد چیز کو مستحکم اور باطل کو حق بنا سکے۔ وہ چیز کیونکر قابل اعتماد ہو سکتی ہے چنانچہ شیعہ کا دعوی ہے کہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت جھوٹی اور بے بنیاد تھی۔ مگر انہوں نے اپنی قوت سے سب کو اس جھوٹ پر متفق کر لیا تھا۔ حضرت علی کی بیعت غدیر خم متواتر تھی اس کو بے بنیاد بنا دیا۔ لہٰذا ان کا جمع کیا ہوا قرآن کیونکر صحیح تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
وجہ سوم:
در شیعہ کی مستند اور معتبر ترین کتابیں اس مضمون کی روایتوں سے بھری پڑی ہیں کہ شیعہ کے ائمہ معصومین و مفترض الطاعہ نے فرمایا کہ اس موجودہ قرآن میں سے بے شمار آیتیں اور سورتیں نکال دی گئی ہیں، الفاظ و حروف بدل دیئے گئے ہیں۔ قابل نفرت اور خلاف فصاحت و بلاغت عبارتیں داخل کردی گئی ہیں اور اس کی ترتیب خبط و بے ربط بنادی گئی ہیں اور یہ قرآن بجائے دین کے بے دینی کی تعلیم دیتا ہے۔ اور اس میں کفر کے ستون قائم کئے گئے ہیں اس میں رسول اکرمﷺکی سخت توہین کی گئی ہے۔ لہذا یہ قرآن قابل اعتبار نہیں۔
شیعہ کتب میں قرآن کی تحریف کے سلسلہ میں جو روایات بیان کی گئی ہیں ان کے متعلق اکابر علمائے شیعہ کا اقرار ہے کہ
① یہ روایات تحریف قرآن مذہب شیعہ کی ایسی معتبر کتب میں موجود ہیں جن پر شیعہ
مذہب کا مدار ہے۔
②یہ روایات کثیر التعداد ہیں۔ زائد از دو ہزار ہیں اور روایات امامت سے کم نہیں ہیں۔
③ یہ روایات تحریف قرآن پر ایسی صاف اور صریح دلالت کرتی ہیں کہ ان میں کسی قسم
کی تاویل کی گنجائش نہیں رہتی ۔
④یہ روایات صحیح مستفیض اور متواتر ہیں۔
⑤ان روایات تحریف کے مطابق شیعہ کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ قر آن محرف ہے۔
⑥تحریف قرآن کا عقیدہ ضروریات مذہب شیعہ سے ہے اور ضروریات دین کا انکار کرنا بھی کفر ہے۔
⑦شیعہ کا یہ اقرار بھی ہے کہ تحریف قرآن کا عقیدہ جس طرح مطابق نقل ہے اس طرح مطابق عقل بھی ہے۔
یہاں یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ اگر اہل سنت کی کتابوں میں سے کوئی روایت
جو اختلاف قراءت یا نسخ کے متعلق ہو اسے آڑ بنا کر شیعہ یہ کہیں کہ دیکھو اہل سنت بھی تحریف کے قائل ہیں تو شیعہ کی یہ بات صرف اس صورت میں قابل تسلیم ہے کہ اکابر علماء اہل سنت کی طرف سے یہ سات اقرار پیش کئے جائیں ۔
دونوں طرف کے علماء سے درخواست ہے کہ چھوٹے چھوٹے اور فروعی مسائل پر جھگڑنا اور مناظرہ کی دعوت دنیا مناسب نہیں بلکہ سب سے بڑی اور اصولی بات یہ کہ شیعہ کو یہ دعوت دی جائے کہ وہ اپنی کتب سے اور اپنے آئمہ کی واضح اور صریح متواتر اور کثیر روایات سے یہ ثابت کریں کہ موجودہ قرآن محرف نہیں اور شیعہ کا اس پر ایمان ہے کہ موجوده قرآن صحیح ، غیر محرف اور محفوظ ہے اور یہ ثابت کرنا شیعہ کے بس کی بات نہیں کیونکہ نزول قرآن کے اور نبوت کے عینی گواہ یعنی صحابہ کرام کو شیعہ حضرات امین تو کیا صاحب ایمان بھی نہیں سمجھتے۔
یہ کتاب پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی لکھی گئی تھی ۔ اس سے پہلے تین بار طبع ہو چکی ہے ، پہلی دفعہ اس کتاب کے معرض وجود میں آنے کے بعد جون ۱۹۵۵ء میں مولوی اسمعیل شیعہ سے کالو وال کے مقام پر ایک مناظرہ کے دوران میں نے مطالبہ کیا تھا کہ ان چھ اقراروں کے ساتھ آپ قرآن پر ایمان ثابت کریں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ شیخین بالخصوص اور صحابہؓ بالعموم کو مسلمان نہ تسلیم کرنے کے بعد قرآن کو اللہ کی کتاب ثابت کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ثابت کرنا ۔ اور حضرت علی کی خلافت کو خلافت حقہ ثابت کرنا ممکن ہی نہیں ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہےکہ بھولے بھالے مسلمان قرآن کے مقام اور منصب کو پہچانیں اور قرآن کے خلاف یهودی سازش کے ہتھکنڈوں سے با خبر ہو کر اپنے ایمان کی حفاظت کرنے کی اہمیت سے آشنا ہوں ۔
...….....…........……………………………................
اقرارنمبر①
روایات کا کثیر ہونا۔ اس امر کا اعتراف ہے کہ اگر چند روایات ہوتیں تو تردید ہوسکتی تھی ۔ اب تو یا امامت کو چھوڑنا پڑے گا یا قرآن کو تو شیعہ نے قرآن سے دستبردار ہونا قبول کیا ۔
اقرار نمبر ②
صریح دلالت کی قید سے ظاہر ہے کہ ان روایات کی تاویل نہیں ہو سکتی ۔
اقرار نمبر ③
متواتر سے ظاہر ہے کہ قرآن تواتر سے ثابت ہے اگر روایات غیر متواتر ہوں تو تحریف قرآن ثابت نہیں ہو سکتی۔
اقرار نمبر④
مطابق عقل ہونے کا اعتراف یہ ثابت کرتا ہے کہ مرتدین کے ہاتھوں جمع کیا ہوا اقرار کا صحیح ہونا عقلاً محال ہے۔
اقرار نمبر ⑤
عقیدہ کہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ تحریف قرآن کوئی محض علمی مسئلہ نہیں کہ اس میں اختلاف رائے کی گنجاش ہو بلکہ یہ تو شیعہ کا اجتماعی عقیدہ ہے۔
اقرار نمبر⑥
ضروریات دین میں سے ہونا اگر کوئی شیعہ عالم تحریف قرآن کو اپنا عقیدہ قرار نہ دے تو ضروریات دین کا منکر ہو گا اور ضروریات دین کا انکار کفر ہے ۔
بعثت نبوی اور مقصد نزولِ قرآن
تحریف قرآن کی ذد میں
ابتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو زمین پر جینے کا ڈھنگ سکھانے اور نیابت الہٰی کا فریضہ ادا کرنے کے لیے یہ مثردہ سنایا تھا کہ فاما یا تینکم منی هدی فمن تبع هداى فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون -
یعنی تمہاری رہنمائی تو میں کرتا رہوں گا۔ البتہ تمہارا کام یہ ہے کہ جب میری طرف سے تمہیں ہدایات پہنچیں تو اس کی اتباع کرنا، ہاں جو میری دی ہوئی ہدایات کی اتباع کرے گا۔ اس کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا نہ غم ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالٰی نے یہ وعدہ پورا فرمایا اور مختلف زمانوں مختلف قوموں اور ملکوں میں اپنی طرف سے ہدایت دے کر انبیاء مبعوث فرمائے، وہ موجودہ ہدایت آسمانی کتابوں اور صحائف کی صورت میں انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل فرماتا رہا حتیٰ کہ جب انسانیت ذہنی اور تمدنی اعتبار سے سن بلوغ کو پہنچی تواللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی بنا کر نوع انسانی کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔ اور حضور ﷺسے یہ اعلان کرایا کہ
قل يا ایها الناس اِنی رسول الله اليكم جميعا
یعنی آپ اعلان کر دیں کہ اے بنی نوع انسان میں تم سب کے لیے اللہ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
اس عظیم الشان فریضہ رسالت کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جو دستور العمل عطا فرمایا اس کا نام قران کریم ہے اور اس کی حیثیت متعین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ هُدًى وَرَحْمَة وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ
اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حکم دیا کہ اس قران کے ذریعے تمام اہل دنیا کو ہدایت کا راستہ دکھائیں۔ پھر فرمایا:
تبارك الذي نزل الفرقان على عبدہ ليكون للعالمين نذيرا
اور حضورﷺنے مخاطبین اولین کو اور ان کے ذریعے آنے والی نسلوں کو یہ فریضہ سونپا کہ
اتبعوا ما انزل اليكم من ربکم
جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل ہوا اس کی اتباع کرو۔
ان حقائق کا خلاصہ یہ ہے کہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اللہ تعالی نے یہ ذمہ داری سونپی کہ ہر شخص تک میرا پیغام اور میرا کلام نہ صرف پہنچائیں بلکہ اس پر عمل کرنے کا طریقہ بھی سکھائیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سلسلے میں جتنا کام کیا اس کے ساتھ یہ اعلان بھی فرماتے گئے کہ ان اتبع الا ما یو حی الی میں تو صرف اسی کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر نازل ہوا۔
☆۔۔۔حضور اکرم ﷺنے یہ کتاب ہدایت سب کو پڑھ پڑھ کے سنائی اور اس کی حفاظت کا انتظام دو طرح کیا کہ حفظ بھی ہو اور کتابت بھی ہو اور یہ قدرتی عمل تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو فریضہ رسالت کی کماحقہ ادائیگی ممکن ہی نہیں تھی۔
☆۔۔۔۔ان ابدی اور تاریکی صداقتوں کے باوجود ایک گروہ جو مسلمان ہونے کا مدعی ہے اس معاملے میں بالکل مختلف نظریہ اور عقیدہ رکھتا ہے چنانچہ اصول کافی( ۴۴۱ طبع جدید۔)
باب کا عنوان ہے:
انہ لم يجمع القرآن كله الا الائمة عليهم السلام.
(یعنی پورا قرآن اماموں کے بغیر کسی نے جمع نہیں کیا)
عن جابر قال سمعت ابا جعفر عليه السلام يقول ما أدعی اخذ من الناس أنه جمع القرآن كله كما انزل الاکذاب وما جمعہ و حفظه كما أنزل الله تعالى الاعلى بن ابی طالب۔
حضرت جابر فرماتے ہیں میں نے امام باقر علیہ السلام سے سنا کہ جو شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے پورا قران جمع کیا وہ جھوٹا ہے کیونکہ پورا قران سوائے علی بن ابی طالب کے کسی نے جمع نہیں کیااور نہ ہی یاد کیا ہے۔
عن ابى جعفرانه قال ما يستطيع احد ان يدعى ان عنده جميع القرآن كله ظاهره وباطنه غير الاوصياء۔
روایت ظاہر ہے امام جعفر علیہ السلام سے
کوئی یہ دعویٰ کرنے کی قوت نہیں رکھتا کہ اسکے پاس سارا قرآن موجود ہے ۔ظاہر و باطن سواۓ اماموں کے۔
روائت سے ظاہر ہوتا ہے کہ
① نبی کریمﷺ نے قران کے جمع کرنے اور حفاظت کرنے کو کوئی ایسا اہم کام نہیں سمجھا کہ اس کا اہتمام فرماتے.
② یہ کام حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہا نے ازخود کیا۔
③ قرآن صرف حضرت علی کی ہدایت کے لیے مخصوص تھا اس لیے صرف انہیں ہی سنایا گیا۔
روایت نمبر دو سے ظاہر ہوتا ہے کہ:
① قرآن صرف ائمہ کے پاس موجود ہے۔
② یعنی پہلے امام حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی قرآن کو عام مسلمانوں کی ضرورت کی چیز تصور نہیں کیا اس لیے اسی پر اکتفا کیا کہ دوسرے امام کے سپرد کر دیں اور اسی طرح پوری رازداری سے یکے بعد دیگرے اماموں کے سپرد کیا جاتا رہے۔
③ کسی امام نے بھی قرآن اللہ کے بندوں تک پہنچانا مناسب نہ سمجھا۔
یہ دو روایتیں ان حقائق کی تردید کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے کیونکہ آپ نے قران کے پھیلانے سنانے لکھوانے کا کوئی اہتمام نہیں کیا (بقول اصول کافی )اور اس بات کی تردید ہوتی ہے کہ قران پوری انسانیت کے لیے ہدایت ہے ہاں یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ کے مقرر کردہ آئمہ کے کام کی کوئی چیز ضرور ہے اس لیے ہر امام نے دوسرے امام تک پہنچانے کا اہتمام کیا.
☆۔۔۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس قرآن کے متعلق اعلان باری ہے:
ان ھو الا ذکری للعالمین
، وہ صرف اللہ کی ذات تک کیوں محدود رہا تو اس عقدے کا حل بتایا گیا۔
احتجاج طبرسی طبع قدیم ، (78)
فصل الخطاب من تفسیر صافی (27)
تفسیر مراة الانوار صفحہ (37)
ومشكوة الاسرار یہ سب شیعہ کی مستند کتابیں ہیں۔
لما توفى رسول اللہ ﷺجمع علی علیه السلام القرآن وجاء به الى مهاجرین والانصار وعرضه عليهم لما قداوصاہ بذالك رسول الله ﷺفلما فتحه ابو بكر خرج في اول صفحته فتحها فضائح القوم فوثب عمر وقال على اردده فلا حاجة لنا فيه فاخذ على وانصرف
فلما استخلف عمر سئل علیا ان یدفع عليهم القرآن ان يحرفوه فيما بينهم فقال يا ابا الحسن ان جئت بالقران الذي جئت به الى ابي بكر حتى نجتمع عليه
جب نبی کریم فوت ہوئے تو حضرت علی نے قرآن جمع کیا اور مہاجرین و انصار کے پاس لائے اور ان کے پاس پیش کیا کیونکہ حضور نے حضرت علی کو اس کی وصیت فرمائی تھی جب حضرت ابوبکر نے قرآن کو کھولا تو پہلے ہی صفحے پر قوم کی برائیاں نکل آئیں یعنی مہاجرین وانصار کی پس حضرت عمر نے کہا اے علی رضی اللہ عنہ یہ قرآن واپس لے لے ہمیں اس کی ضرورت نہیں حضرت علی قرآن لے کر چلے گئے۔
جب حضرت عمر خلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے حضرت علی سے وہ قرآن طلب کیا تاکہ اس میں رد و بدل کر دیں چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا اے ابوالحسن! اگر آپ وہ قرآن لے آئیں جو آپ نے ابوبکر کو دکھایا تھا تو ہم اس پر متفق ہو جائیں۔
قال على عليه السلام هيهات ليس الى ذالك سبيل انما جئت به الى ابى بكر لتقوم الحجته و تقولوا يوم القيامة انا كنا عن هذا غافلين و تقولوا ما جئتنا به ان القرآن الذي عندي لا يمسه الا المطهرون والاوصياء من ولدي، فقال عمر هل وقت لأظهاره فقال على عليه السلام نعم اذا قام القائم من ولدي يظهره ويحمل الناس عليه .
حضرت علی نے فرمایا بات دور چلی گئی اب تو اس قرآن تک پہنچنا ممکن نہیں۔میں ابوبکر کے پاس صرف اس لیے لایا تھا کہ حجت پوری ہو جائے اور قیامت کو تم یہ نہ کہو کہ ہم قرآن سے غافل رہے یا یہ کہو کہ علی ہمارے پاس قرآن لایا ہی نہ تھا اور فرمایا کہ وہ قرآن تو ہمارے پاس ہے۔مگر اسے پاک لوگوں اور میری اولاد کے بغیر کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا پھر حضرت عمر نے پوچھا تو اس قرآن کے ظاہر ہونے کا بھی کوئی وقت ہے حضرت علی نے فرمایا ہاں میری اولاد سے جب امام مہدی ظاہر ہوگا تو وہ قرآن لائے گا اور لوگوں سے اس پر عمل کرائے گا۔
☆۔۔۔یہ روایت بڑی طویل ہے بقدر ضرورت حصہ یہاں نقل کیا گیا ہے۔پوری روایت اپنے مقام پر آئے گی بہرحال یہ حصہ بھی بہت معلومات افزاء ہے۔مثلًا
حضرت علی نے اکیلے یہ قرآن جمع کیا اور حضور اکرم کی وفات کے بعد جمع کیا۔مگر جو قرآن اس وقت امت کے پاس ہے وہ تمام صحابہ کے سینوں اور سفینوں کی مدد سے جمع کیا گیا ہے مگر پھر بھی وہ تو نقلی قرآن ہے اور حضرت علی اکیلے نے جو جمع کیا وہ اصلی قرآن ہوا۔
②۔ حضرت علی اپنا قرآن مہاجرین و انصار کے پاس لے گئے جونہی کھولا گیا اس میں مہاجرین و انصار کی برائیاں سامنے آگئیں یہاں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً
۱... مہاجرین و انصار وہ جماعت تھی جو حضور اکرمﷺ نے ۲۳ برس کی محنت شاقہ سے تیار کی تھی. اس قرآن میں ایسی جماعت کی برائیاں درج تھی مگر یہ نہیں بتایا کہ خوبیاں کس جماعت کی درج تھیں ظاہر ہے مہاجرین وانصار کو چھوڑ کر باقی تو صرف مشرکین اور یہود و نصاری ہی رہ جاتے ہیں تو کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قرآن میں ان لوگوں کے فضائل اور خوبیاں درج تھیں.
۲... اگر اس میں مہاجرین و انصار کی برائیاں درج تھی تو یہ جماعت تیار کس نے کی تھی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت علی کے قرآن نے حضورﷺ کی محنت کو قابل مذمت قرار دیا.
③۔۔۔اگر یہ برائیاں مہاجرین و انصار نے آج پہلی دفعہ دیکھی تھی تو جب یہ نازل ہوئیں۔کیا حضور اکرم ﷺنے مہاجرین و انصار کو یہ برائیاں والی آیات پڑھ کر نہیں سنائی تھیں اگر سنائی تھیں تو مہاجین وانصار کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی پھر تعجب کرنے کی کیا وجہ ہے پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مہاجرین انصار کی برائی حضورﷺ نے سنا دی کیا ان کی اصلاح کرنا حضور کے ذمے نہیں تھا۔ جو قرآن امت کے پاس ہے اس میں تو مہاجرین و انصار کے اوصاف و فضائل شروع سے اخر تک بھرے پڑے ہیں بلکہ مہاجرین انصار کے ایمان کو یہ قرآن تو معیار قرار دیتا ہے.
فان امنوا بمثل ما امنتم به فقد اهتدوا
اے میرے نبی کے صحابہ اگر لوگ اسی طرح ایمان لائیں جیسے تم لائے ہو تب ہدایت یافتہ ہوں گے۔
یہ سب کمالات مہاجرین و انصار میں
نبی کریم ﷺ کی تربیت کے ذریعے ہی پیدا ہوئے اور اگر حضورﷺ نے یہ آیات مہاجرین و انصار کو سنائی ہی نہیں تو گویا حضور نے خود یہ اہتمام کیا تھا کہ قرآن کو چھپائے رکھیں اس سے بڑھ کر منصب نبوت اور حضورﷺ کی توہین اور کیا ہو سکتی ہے۔
④۔۔۔حضرت عمر کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگ قرآن کو پڑھیں یا اس پر عمل کریں بلکہ اتمام حجت مقصد تھا۔ لہذا ایک دفعہ دکھا دینا کافی سمجھا پھر کوئی لاکھ کوشش کرے قرآن کسی کو دکھایا نہیں جائے گا یعنی قرآن چھپا کر رکھنے کے لیے نازل کیا گیا بنی نوع انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل نہیں ہوا تھا۔
⑤۔۔۔قرآن کے اظہار کے لیے جو وقت حضرت علی نے بتایا یہ بھی ایک راز سر بستہ معلوم ہوتا ہے سوال یہ ہے کہ گیارہ امام قران کی ضرورت سے واقف نہیں تھے یا ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اللہ کی بات اللہ کے بندوں کے سامنے کہہ سکیں اور یہ اخری امام کوئی بڑا باہمت ہوگا کہ آخر قرآن کو ظاہر کر کے رہے گا۔
⑥۔۔۔پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بارھویں امام کے ظہور تک امت محمدیہ کس کتاب سے رہنمائی حاصل کرے جب امت کے پاس کتاب ہدایت سرے سے موجود نہیں تو ظاہر ہے کہ نہ اس پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے نہ وہ مکلف ہے۔
مختصر یہ کہ اس روایت سے ظاہر ہے کہ نبی کریمﷺ
کا کام صرف یہ تھا کہ اللہ کی طرف سے جو وحی ائے چپکے سے حضرت علی کے کان میں کہہ دیں اور مہاجرین و انصار میں سے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو کیا نبی کی بعثت کی یہی غرض ہوتی ہے اور کیا کتاب کے نزول کا یہی مقصد ہوتا ہے۔