Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ کا قرآن سے انکار

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

شیعہ کا قرآن سے انکار

  آج کل کے اہلِ تشیع حضرات یا تو اپنی مذہبی کتابوں سے مکمل ناواقفی کی وجہ سے یا کسی ماحول کے باعث بطورِ تقیہ قرآنِ کریم کو خدا کا کلام کہتے ہیں مگر بانیانِ مذہبِ تشیع اور رازدارانِ مذہبِ تشیع کا ایمان قرآنِ کریم پر نہیں۔ اس قرآنِ کریم کو اسی وجہ سے ہر صریح جھوٹ بولتے وقت پھٹ سے سر پر رکھ دیتے ہیں اور ایسی حالت میں جھوٹ بولنے میں ذرہ برابر تامل نہیں کرتے۔ جیسے کوئی مسلمان جھوٹ بولتے ہوئے ہندوؤں کی پوتھی وغیرہ سر پر رکھ لے۔ شیعوں کے مذہبی پیشواء مطلقاً قرآن کا انکار ظاہر کرتے ہیں بلکہ جو قرآن کریم امیرالمؤمنین سیدنا عثمان بن عفانؓ نے تمام حفاظِ صحابہؓ کو طلب فرما کر جمع فرمایا جو آج ہمارے سینوں میں ہے اور مسلمانوں کی ہر مسجد میں جس کو بچے سے لے کر بوڑھے تک پڑھتے ہیں اور جو مسلمانوں کے سات سال عمر کے بچوں کو یاد ہے، جس کو رمضان المبارک میں تراویح میں ختم کیا جاتا ہے، جس کے تیس پارے ہیں، جو سورة فاتحہ سے شروع ہوتا اور سورة الناس پر ختم ہوتا ہے۔ بانیانِ مذہبِ شیعہ نے اس کا انکار کیا اور جب بھی اپنا ایمان قرآن پر ثابت کرتے ہیں تو اپنا موہوم قرآن (ستر گز والا جس نے قیامت سے پہلے لوگوں کو ہدایت کے لیئے منہ نہیں دکھانا، حلال و حرام کی تعلیم صرف قیامت کو دے گا) ہی مراد لیتے ہیں۔ تو پھر جس قرآن پر ان کا ایمان نہیں اس کو ہزار دفعہ جھوٹ بولتے وقت سر پر رکھیں۔ ان کے مذہب کو کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ قرآنِ کریم پر مدعیانِ تولی کے ایمان کا نمونہ اصل عبارت میں پیش کرتا ہوں۔ تاکہ اہلِ علم لوگ تصدیق کر سکیں۔ 

فقال ابو عبداللہ علیہ السلام(الیٰ ان قال) اخرجہ علی علیہ السلام الی الناس حین فرغ منه وکتبه فقال لھم ھٰذا کتاب اللہ عزوجل کما انزله اللہ علی محمد(ﷺ) من اللوحین فقالوا ھو ذا عندنا مصحف جامع فیه القرآن 

لاحاجة لنا فیه فقال اما واللہ ما ترونه بعد یومکم ھٰذا ابدا انما کان علی ان اخبرکم حین جمعته لتقرؤه۔

 (اصول کافی صفحہ نمبر671)

ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ (کی طرف منسوب کر کے) کہتے ہیں کہ جب سیدنا علیؓ قرآنِ کریم کے جمع کرنے اور اس کی کتابت سے فارغ ہوئے تو لوگوں سے کہا کہ یہ اللہ عزوجل کی کتاب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت محمدﷺ پر اس کو نازل فرمایا ہے اور میں نے دو لوحوں سے اس کو اکٹھا کیا ہے۔ جس پر لوگوں نے کہا کہ یہ ملاحظہ فرما لو کہ ہمارے پاس مصحف مبارک جامع موجود ہے جس میں قرآن ہی ہے۔

 ہمیں آپ کے لائے ہوئے قرآن کی ضرورت نہیں اس

 پر سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی کی قسم آج کے بعد تم اس کو کبھی نہ دیکھو گے میرے لیے ضروری تھا کہ جب میں نے اس کو جمع کیا تو تمہیں اس کی خبر دوں تاکہ تم اس کو پڑھتے۔

اب حسبِ روایت اصول کافی سیدنا جعفر صادقؒ کی طرف منسوب حدیث اور سیدنا سیدنا علیؓ کا قسم اٹھانا کہ آج کے دن کے بعد کبھی تم اس کو نہ دیکھو گے۔ تو اس کے باوجود جو قرآن اہلِ تشیع دیکھتے ہیں اور اہلِ سنت سے سنتے ہیں جس کو اہلِ سنت یاد کرتے ہیں۔ تراویح میں ختم کرتے ہیں جس کو امیرالمؤمنین سیدنا عثمان بن عفانؓ نے جمع کیا۔ یہ تو بہر صورت وہ قرآن نہیں ہو سکتا جو قیامت سے پہلے آہی نہیں سکتا۔ اسی اصول کافی صفحہ 670 سیدنا موسیٰ کاظمؒ سے روایت ہے کہ آپ کے ایک شیعہ صاحب بنام احمد بن محمد کہتے ہیں کہ مجھے امام موسیٰ کاظمؒ نے مصحف مبارک عطا فرمایا اور فرمایا کہ اسے کھول کر مت دیکھنا۔ میں نے کھولا اور دیکھا اور سورة لم یکن الذین الخ پڑھی تو میں نے اس سورة میں قریش کے 70 آدمیوں کے نام بمع ان کے آباء کے نام لکھے ہوئے موجود پائے تو امام موسیٰ کاظمؒ نے میری یہ شان تعمیل حکم دیکھ کر میری طرف آدمی بھیجا کہ میرا قرآن مجھے واپس کر دو۔ یہ واپسی کا قصہ تو اس ضرورت کے ماتحت گھڑنا پڑا کہ کوئی کہ دے کہ امام صاحب کا لکھا ہوا قرآن ہمیں بھی دکھاؤ تو فصاحت و بلاغت قرآن سے ملتی جلتی عبارت کہاں سے پیدا کی جاتی۔ بہرحال وہ قرآن جس کی سورة لم یکن الذین میں قریش کے 70 آدمیوں کے نام ہوں اور ان کے آباء کے نام ہوں وہ کوئی اور ہی ہے جس پر اہلِ تشیع کا ایمان ہے۔ یہ قرآن نہیں۔ اہلِ تشیع کے مجتہد اعظم نے اپنی کتاب فصل الخطاب میں تو ایمان بالقرآن کا قصہ ہی ختم کر دیا ہے۔ 

اصول کافی صفحہ671 کی ایک اور روایت بھی ملاحظہ کریں جس کے لفظ بلفظ ترجمہ پر اکتفاء کرتا ہوں۔

اہلِ علم حضرات منطبق فرمالیں امام جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ جو قرآن حضور اکرمﷺ کی طرف جبرائیل علیہ السلام لائے تھے اس کی سترہ ہزار آیتیں تھیں اور اہلِ سنت والجماعت غریبوں کے پاس تو صرف 6666 آیات پر مشتمل قرآن حکیم ہے۔ اگر کسی قدر تفصیل کے ساتھ اہلِ تشیع کا قرآن کریم سے انکار دیکھنا چاہیں تو اصولِ کافی صفحہ261 تا صفحہ268 اور صفحہ270، 271 کا مطالعہ فرمائیں اور ایمان بالقرآن کی داد دیں کہ ایک سے دوسری روایت بڑھ چڑھ کر انکارِ قرآن میں وارد ہے اور کتاب ناسخ التواریخ جلد2 صفحہ 493، 494 پر تو اس قرآنِ کریم کے انکار پر شیعوں کا اجماع ثابت ہے اور اس قرآنِ کریم میں ردّ و بدل اور اس کی تنقیص میں تو ایک سے بڑھ کر ایک روایتوں کے انبار لگائے گئے ہیں کہ تفسیر صافی جلد1 صفحہ14 میں قرآن کی تحریف اور اس میں ردّ و بدل ثابت کرنے کے کمال دکھائے گئے ہیں اور مصنف کافی یعقوب کلینی اور ان کے استاد علی بن ابراہیم قمی کا اس بارے میں غلو ثابت کیا گیا ہے۔ لاحول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم۔

یہ چند روایتیں بطورِ نمونہ ہیں ورنہ اہلِ علم شاہد ہیں کہ اہلِ تشیع کی معتبر کتابوں میں جس کثرت کے ساتھ قرآنِ کریم کے انکار پر مشتمل روایات ہیں ان کا نصف بھی یکجا(جمع) کیا جائے۔ تو شرح کبیر لابن میثم کے لگ بھگ ایک مستقل ہوگی۔ مگر اندک دلیل بیسا رومشت نمونہ ازخروار ہوتا ہے جو پیش ہے یہ بات نظر انداز کرنے کے قابل نہیں کہ جب ان لوگوں کو قرآن بھی قیامت سے پہلے دیکھنا نصیب نہیں اور آئمہ طاہرین معصومین کے متعلق قطعی یقین حاصل ہے

 کہ وہ تقیہ نہ کرنا بے ایمانی اور بے دینی یقین فرماتے تھے۔ ان کے بغیر باقی تمام لوگ ان کے نزدیک اس قابل ہی نہیں کہ ان سے کوئی حدیث بھی قابلِ تسلیم مانی جا سکے تو پھر یہ مذہب اہلِ تشیع اور اس کی سچائی اور اس کے عقیدے اور اس کے حلال و حرام کس صداقت پر مبنی اور کس بناء پر قائم ہیں؟ بھائی جب آئمہ کرام خود فرماویں: من اذاع علینا حدیثاً اذلہ اللہ ومن کتمہ اعزہ اللہ یعنی جو شخص ہماری کسی بات کو ظاہر کرے گا تو اللہ اسکو ذلیل کرے گا اور جس نے ہماری حدیثیں چھپائی اور ظاہر نہ کیں اسکو اللہ عزت دے گا اور جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے۔ (حوالے گزر چکے ہیں) تو اماموں سے کسی حدیث کو ظاہر کرنا یا ان کی کسی بات یا کسی تعلیم کو صحیح طور پر بیان کرنا صراحتاً بے ایمانی، بے دینی، دارین میں ذلت اور قطعی طور پر جہنمی ہونا ہے۔ (دیکھو کافی باب التقیہ) 

اپنوں کی مخالفت کیوں:

 تو اب اہلِ تشیع کی تمام کتابیں جو آئمہ صادقین سے روایتوں پر مشتمل نظر آرہی ہیں، خلافت بلا فصل کا عقیدہ سبّ و شتم کا عقیدہ، باقی متعہ ہو یا تقیہ، وضو کی ترکیب، نماز کے انداز، باقی کھانے پینے کے حلال و حرام اگر فی الواقع آئمہ طاہرین کی حدیثیں ہیں اور ان کو چھپانے کی بجائے ان کو شائع کیا گیا جلسوں میں لاؤڈ سپیکروں کے ذریعہ لوگوں کو سنائی گئیں تو حسبِ فرمان امام یہ لوگ سخت بے ایمان بے دین اور دنیا و آخرت میں آئمہ کی نظر میں ذلیل اور جہنمی ہیں۔ اور اگر آئمہ کے تاکیدی ارشادات اور حکم کی تعمیل میں اصل حدیثیں اور اصل احکام نہیں لکھے گئے۔ نہ ہی ان کو شائع کیا گیا اور نہ ہی وہ لوگوں کو سنائے جاتے ہیں۔ بلکہ وہ تو بہر صورت چھپائے ہی جاتے ہیں۔ یہ تمام تر کتابیں اور تقریریں ان کے اصل احکام کے خلاف اور مغائر ہیں۔ یہ تمام اعمال، نماز ہو یا روزہ، وضو ہو یا نماز کی ترکیب اور خاصانِ بارگاہ خدا رسولﷺ کے حق میں سبّ و شتم، من گھڑت اور خود ساختہ روایات کی بناء پر ہیں۔ تو اس صورت میں اہلِ تشیع حق بجانب معلوم ہوتے ہیں اور عقلِ سلیم بھی اسی صورت کو صحیح سمجھتی ہے۔ کیونکہ آئمہ طاہرین کی ایک حدیث اور ایک روایت بھی کوئی مخلص محبّ شیعہ تو ظاہر کرنے کی جرأت کر نہیں سکتا۔ تو ان محبوں نے اصل کو چھپانے کیلئے غلط اور غیر صحیح بیان کرنے پر اکتفاء کیا۔