Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مقدمہ

  علی محمد الصلابی

مقدمہ

اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ ، نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ ، وَنَسْتَغْفِرُہٗ ، وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا ، مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَـلَا مُضِلَّ لَہُ ، وَمَنْ یُّضْلِلْ فَـلَا ہَادِیَ لَہٗ ، وَأَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ۔ (سورۃ آل عمران: آیت، 102)

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِی خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِی تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّٰه كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا۔ (سورۃ النسآء: آیت،1)

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا۔ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ االلّٰه وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا۔ (سورۃ الأحزاب: آیت، 70۔ 71)

اما بعد!

اس کتاب میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور کارناموں کا تذکرہ ہے۔ یہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس سے قبل سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی شخصیات اور کارناموں کا تذکرہ ہمارے سامنے آ چکا ہے۔ اس سلسلہ میں ہم نے یہ اہتمام کیا ہے کہ ان کی سیرتوں سے دروس و عبر کو اخذ کریں، اور معاشروں کی تحریر اور ملکوں کی تعمیر اور اقوام کی ترقی، قائدین اور لوگوں کے درمیان اللہ کے دین کی نشر و اشاعت کرنے والے افراد کی تربیت میں سنن و قوانینِ الٰہی کا استیعاب کریں۔ بشریت کی قیادت میں اپنے ماضی کی طرف لوٹنے کے لیے ضروری ہے کہ امت، نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے نقشِ قدم پر چلے۔ ہمارے حبیب محمد مصطفیٰﷺ نے ان تاریخی مراحل کی خبر دی ہے جس سے امت گزرے گی۔ ارشاد نبوی ہے:

(تکون النبوۃ فیکم ما شاء اللّٰه ان تکون، ثم یرفعہا للّٰه اذا شاء ان یرفعہا، ثم تکون خلافۃ علی منہاج، فتکون النبوۃ ما شاء الله ان تکون، ثم یرفعہا اذا شاء اللّٰه ان یرفعہا، ثم تکون ملکا عاضا فیکون ما شاء اللّٰه ان تکون، ثم یرفعہا اذا شاء اللہ ان یرفعہا، ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوۃ۔)

(المسند: جلد، 4 صفحہ، 273 البزار 1588 رجالہ ثقات)

ترجمہ: ’’تم میں نبوت جب تک اللہ چاہے گا رہے گی پھر جب اس کو اٹھانا چاہے گا اٹھا لے گا، پھر منہاج نبوت پر خلافت ہو گی جب تک اللہ چاہے گا اور پھر جب اس کو اٹھانا چاہے گا اٹھا لے گا، پھر سخت گیر ملوکیت ہو گی، جب تک اللہ چاہے گا رہے گی اور جب اللہ اس کو اٹھانا چاہے گا اٹھا لے گا، پھر منہاج نبوت پر خلافت ہو گی۔‘‘

امت اسلامیہ اس زندگی میں جن عزائم و مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے کوشاں ہے اس کے لیے منہاج نبوت اور خلافت کے دور کی معرفت انتہائی ضروری اقدام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین من بعدی

 (سنن ابی داؤد: جلد، 4 صفحہ، 201 الترمذی: جلد، 5 صفحہ، 44 حسن صحیح)

ترجمہ: ’’تم میرے طریقہ کو اور میرے بعد ہدایت یاب خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقہ کو لازم پکڑو۔‘‘

خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور کی تاریخ دروس و عبر سے پر ہے۔ یہ کتابوں اور مصادر و مراجع میں بکھرے ہوئے ہیں، خواہ یہ تاریخی ہوں یا حدیثی، فقہی، ادبی یا تفسیری ہوں۔ اس کی جمع و ترتیب اور توثیق و تحلیل کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ خلافت راشدہ کی تاریخ کو اگر اچھی طرح پیش کیا جائے تو یہ ارواح کو غذا پہنچاتی ہے، نفوس کو مہذب بناتی ہے اور دلوں کو منور کرتی ہے، عقلوں کو مستحکم اور ہمتوں اور عزائم کو پختہ کرتی ہے، دروس و اسباق پیش کرتی ہے، عبرتوں کو آسان اور فکر کو روح رواں بخشتی ہے اور اس خلافت کے نقوش، قائدین کے صفات، نظام محکم، اسلامی نسلوں کے اخلاف، ازدہار و ترقی کے عوامل اور زوال کے اسباب کو واضح کرتی ہے۔ اس سے ہم منہاجِ نبوت اور فقہ خلافتِ راشدہ پر مسلم نسل کی تربیت میں استفادہ کر سکتے ہیں، اور ان نفوس کی زندگیوں کا تعارف حاصل کر سکتے ہیں جن کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے:

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔ (سورة التوبہ: آیت، 100)

ترجمہ: ’’اور جو مہاجرین و انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے، اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے،یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰه وَرِضْوَانًا۔ (سورة الفتح: آیت، 29)

ترجمہ: ’’محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں، آپس میں رحم دل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع و سجدے کر رہے ہیں، اللہ کے فضل اور رضا مندی کی جستجو میں ہیں۔‘‘

اور ان سے متعلق رسول اللہﷺ نے فرمایا:

خیر امتی القرن الذی بعثت فیہم… (مسلم: جلد، 4 صفحہ، 1963۔ 1964)

ترجمہ: ’’میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے درمیان میں بھیجا گیا ہوں۔‘‘

اور ان کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

من کانا مستنا فلیستن بمن قد مات ، فان الحی لا تؤمن علیہ الفتنۃ، اولئک اصحاب محمد صلی اللّٰه عليه وسلم، کانوا و اللّٰہ افضل ہذا الامۃ و ابرہا قلوبا ، و اعمقہا علما، واقلہا تکلفا، قوم اختار ہم اللّٰه لصحبۃ نبیہ و اقامۃ دینہ فاعرفوا لہم فضلہم، و اتبعوہم فی اثارہم و تمسکوا بما استطعتم من اخلاقہم و دینہم ، فانہم کانوا علی الہدی المستقیم (شرح السنۃ؍ البعوی: جلد، 1 صفحہ، 214۔ 215) 

ترجمہ: ’’جس کو اقتداء کرنی ہے وہ گزرے ہوئے لوگوں کی اقتداء کرے کیوں کہ زندہ فتنہ سے مامون نہیں۔ اور وہ محمدﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ اللہ کی قسم وہ اس امت کے سب سے افضل لوگ تھے ان کے دل سب سے نیک، ان کا علم سب سے گہرا، سب سے کم تکلف کرنے والے، ان کو اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی صحبت اور اقامت دین کے لیے چن لیا تھا، لہٰذا تم ان کی فضیلت کو پہچانو، ان کے آثار کا اتباع کرو اور جس قدر ہو سکے ان کے اخلاق و دین کو تھام لو وہ لوگ سیدھی ہدایت پر قائم تھے۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسلامی احکام کو نافذ کیا اور مشرق و مغرب میں اس کی نشر و اشاعت کی۔ ان کا دور سب سے بہتر دور ہے۔ انہوں نے ہی امت کو قرآن سکھایا، رسول اللہﷺ سے سنن و آثار کو روایت کیا، ان کی تاریخ وہ خزانہ ہے جس نے فکر و ثقافت، علم و جہاد، فتوحات کی تحریک اور اقوام و امم کے ساتھ تعامل کے سلسلہ میں امت کے سرمایہ کو محفوظ کر رکھا ہے۔ صحیح منہج اور رشد و ہدایت پر زندگی کا سفر جاری رکھنے والی نسلوں کے لیے یہ تاریخ معاون ثابت ہو گی اور اس کی روشنی میں انہیں اپنے پیغام اور دور کی معرفت حاصل ہو گی۔

اعدائے اسلام نے اسلامی تاریخ کو نشانہ بنا رکھا ہے وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اسلام اور اس کی روشن تاریخ کے درمیان خلا پیدا کر دیں تاکہ نسلوں کو اسلام اور اس کے عقیدۂ شریعت، اخلاق و اقدار اور علمی میراث سے دُور کر دیں، اس کے لیے وہ اسلامی معاشرہ میں پوری کوشش سے زہر پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔

مستشرقین اور ان سے قبل روافض نے بھرپور کوشش کی کہ ان باطل روایات کو عام کریں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کرتی ہوں، اور امت کی عظیم تاریخ کو مطعون قرار دیتی ہوں، اور ان کی تاریخ کی ایسی تصویر پیش کرتی ہوں کہ جس میں قیادت و حکومت اور بالا دستی کے لیے جنگ جاری ہو، اس لیے ہر کاذب رافضی اور حاقد مستشرق اور جاہل سیکولر سے ہوشیار رہنا ضروری ہے اور اسی طرح ہر اس شخص سے بھی ہوشیار رہنا ضروری ہے، جو ان کے منہج پر قائم ہو اور ضروری ہے کہ ہم اپنی لازوال تاریخ کا پر زور دفاع کریں، کذاب اور منحرف لوگوں کے مناہج پر پُر جوش حملے کریں، اور یہ مبارک حملے، روشن حقائق، قطعی دلائل اور نا قابل ابطال براہین سے پُر، حق کے علمی ایٹم بم سے ہو۔ امت کے سپوتوں پر اہلِ سنت و الجماعت کے منہج پر تاریخ اسلام کی ترتیب اور تدوین ضروری ہے۔ اس منہج پر تاریخ کی تدوین و ترتیب پر مؤلفین و محققین کے قلم اٹھ چکے ہیں۔ انہوں نے اس کام کو بے فائدہ شروع نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کو اس دین اور امت کی حفاظت کرنا ہے اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تاریخ کے لیے ایسے لوگوں کو تیار کیا ہے جو اس کے وقائع و حوادث تحقیق کریں، اخبار و روایات کی تصحیح کریں، اور روایات گھڑنے والے وضاع و کذاب راویوں کا پردہ فاش کریں۔ یہ عظیم جدوجہد اللہ کا فضل ہے اور پھر اہلِ سنت ائمہ فقہاء و محدثین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جن کی کتابیں ایسے بہت سے اشارات اور صحیح روایات سے بھری ہیں جو گھڑنے والوں کی وضعی روایات کی قلعی کھولتی ہیں۔ (المنہج الاسلامی لکتابۃ التاریخ د، محمد محزون: صفحہ، 4)

اہلِ سنت والجماعت کے منہج کے اصول کو میں نے اختیار کیا اور قدیم و جدید مراجع و مصادر میں لگ گیا اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور کے سلسلہ میں صرف تواریخ طبری، ابنِ اثیر، ذہبی اور مشہور کتب تاریخ پر ہی اعتماد نہیں کیا بلکہ تفسیر و حدیث، شروحات حدیث، عقائد و فرق، تراجم و سیر، جرح و تعدیل اور فقہ کی کتابوں کو کھنگالا، مجھے ان میں ایسے کثیر تاریخی مواد ملے جن کا متداول و معروف کتب تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ اس کتاب میں میں نے خلیفہ راشد سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے متعلق گفتگو شروع کی ہے جن کے بارے میں رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

اصدقہا حیاء عثمان (فضائل الصحابۃ لابی عبداللہ احمد بن حنبل: جلد،1 صفحہ، 604 إسنادہ صحیح)

ترجمہ: ’’عثمان حیا میں سب سے سچے ہیں۔‘‘

اور غزوہ تبوک کے موقع پر جب آپ نے بے دریغ خرچ کیا تو رسول اللہﷺ نے آپؓ سے متعلق فرمایا:

ما ضر عثمان بعد الیوم، ما ضر عثمان بعد الیوم (سنن الترمذی: 3785)

ترجمہ: ’’آج کے بعد سیدنا عثمانؓ کو کوئی عمل نقصان نہیں پہنچا سکتا، آج کے بعد سیدنا عثمانؓ کو کوئی عمل نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘

اور رسول اللہﷺ نے آپ کو مصیبت لاحق ہونے کے ساتھ جنت کی بشارت سنائی، (صحیح البخاری: 3695)

اور لوگوں کو فتنہ رونما ہونے کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ رہنے پر ابھارا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

انکم تلقون بعدی فتنۃ و اختلافا او اختلافا وفتنۃ۔ فقال لہ قائل من الناس: فمن لنا یا رسول الله؟ قال: علیکم بالأمین وأصحابہ وھو یشیر إلی عثمان

(فضائل الصحابۃ: جلد، 1 صفحہ، 550 إسنادہ صحیح)

ترجمہ: ’’میرے بعد تم فتنہ و اختلاف یا اختلاف و فتنہ دیکھو گے۔ لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ہمارے لیے کون ہو گا؟ تو آپ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امین اور اس کا ساتھی۔‘‘صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، رسول اللہﷺ کے دور میں ہی پہلا مقام سیدنا ابوبکرؓ کو پھر سیدنا عمرؓ کو پھر سیدنا عثمانؓ کو دیتے تھے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

کنا فی زمن النبی صلی الله عليه وسلم لا نعدل بأبی بکر أحدا، ثم عمر، ثم عثمان، ثم نترک اصحاب النبی صلی الله عليه وسلم لا نفاضل بینہم۔

(صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبیﷺ : 3698)

ترجمہ: ’’نبی کریمﷺ کے عہد میں ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں قرار دیتے تھے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو، اس کے بعد آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ہم کوئی بحث نہیں کرتے تھے اور نہ کسی کو ایک دوسرے پر فضیلت دیتے تھے۔‘‘

شاعر نمیری نے کہا:

عشیۃ ید خلون بغیر إذن

علی متوکل اوفی و طابا

ترجمہ: ’’اس شام کو (یاد کرو) جب لوگ عمدہ، وفادار اور اللہ پر بھروسہ کرنے والے (سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ) کے گھر میں زبردستی داخل ہو رہے تھے۔‘‘

خلیل محمد و وزیر صدق

و رابع خیر من وطیء الترابا

(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 7 صفحہ، 206)

ترجمہ: ’’وہ محمدﷺ کے پکے دوست، سچے معاون، اور روئے زمین کے چوتھے سب سے اچھے آدمی تھے۔‘‘

ان کے بارے میں ابو محمد قحطانی نے کہا:

لما قضی صدیق احمد نحبہ

دفع الخلافۃ للامام الثانی

ترجمہ: ’’جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ انتقال کرنے لگے تو خلافت امام ثانی کو سونپ دی۔‘‘

اعنی بہ الفاروق فرق عنوۃ

بالسیف بین الکفر و الإیمان

ترجمہ: ’’یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جنہوں نے کفر و ایمان کے مابین بذریعہ تلوار فرق کر دیا۔‘‘

ھو اظہر الاسلام بعد خفاءہ

و محا الظلام و باح بالکتمان

ترجمہ: ’’انہوں نے اسلام کا بر ملا اظہار کیا، تاریکی کو مٹایا، چھپی چیز کو واضح کر دیا۔‘‘

ومضی و خلی الأمر شوری بینہم

فی الامر فاجتمعوا علی عثمان

ترجمہ: ’’خلافت کا معاملہ شوریٰ کے حوالے کر کے چلے گئے، چنانچہ لوگوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اتفاق کیا۔‘‘

من کان یسہر لیلۃ رکعۃ

وترا فیکمل ختمۃ القرآن

ترجمہ: ’’جو ایک رکعت وتر میں پوری رات گزار دیتے اور قرآن کو ختم کر دیتے تھے۔‘‘

یہاں تک کہ کہا:

والویل للرکب الذین سعوا إلی

عثمان فاجتمعوا علی العصیان

(نونیۃ القحطانی: صفحہ، 21۔ 25)

ترجمہ: ’’تباہی ہے اس قافلہ کے لیے جو سیدنا عثمانؓ تک پہنچا اور گناہ کے لیے اکٹھا ہوا۔‘‘

سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی زندگی، تاریخ امت کا روشن باب ہے۔ میں نے آپ کی تاریخ، زندگی اور روشن دور کو تلاش کر کے اس کی ترتیب، تنسیق اور توثیق و تحلیل کی ہے تاکہ امت کے مختلف طبقات علماء، داعیان، خطباء، سیاست داں، مفکرین، جرنیل، حکام، طلبہ اور عام لوگوں کے دسترس میں ہو، شاید اپنی زندگی میں اس سے استفادہ کریں، اور اپنے اعمال میں اس کی اقتداء کریں اور پھر اللہ تعالیٰ، دارین میں انہیں فوز و فلاح سے ہمکنار فرمائے۔

اس کتاب کے اندر میں نے سیدنا ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے نام و نسب، کنیت و القاب، خاندان، جاہلیت و اسلام میں آپ کا مقام، رسول اللہﷺ کی بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا سے آپ کی شادی، ابتلاء و آزمائش، حبشہ کی طرف ہجرت، قرآن کے ساتھ آپ کی زندگی، اور حکومت کی تعمیر میں اقتصادی تعاون کو بیان کیا ہے۔ میں نے ان احادیث کو تلاش کیا ہے جس میں دوسروں کے ساتھ آپ کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ اور ان احادیث کو بھی، جن میں صرف آپ کے فضائل مذکور ہیں۔ جس فتنہ میں آپ نے جامِ شہادت نوش کیا اس فتنہ سے متعلق رسول اللہﷺ سے جو کچھ وارد ہوا ہے اور آپ کے استخلاف کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے شوریٰ کو چلانے میں جو عظیم کارنامہ انجام دیا ہے اس کو واضح کیا ہے۔ اس سلسلہ میں جو رافضی اباطیل گھس آئی ہیں ان کی تردید کی ہے۔ قوی ترین علمی براہین اور منطقی دلائل سے ان کے بطلان اور کھوٹے پن کو ثابت کیا ہے۔ اور آپ کی خلافت پر اجماع کے انعقاد اور استحقاق خلافت سے متعلق علماء کے اقوال کو پیش کیا ہے۔ گورنروں، جرنیلوں اور عام لوگوں کے نام سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خطوط کی روشنی میں نظامِ حکم میں آپ کے منہج اور زندگی میں آپ کے مواقف کی شرح کی ہے۔ آپ نے حکومت کو اعلیٰ مراجعیت، خلیفہ کے محاکمہ میں امت کا حق، شورائیت، عدل، مساوات، حریت و آزادی اور معاشرتی زندگی میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بعض قائدانہ صفات کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔ اور آپ کی صفات میں انیس (19) صفات کو آپ کے ان مواقف کے ساتھ ذکر کیا ہے جو ان بلند صفات اور اخلاقِ حمیدہ پر دلالت کرتے ہیں۔ اور مالی شعبہ (وزارتِ خزانہ) پر گفتگو کرتے ہوئے ان مالی سیاست کے نقوش کو بیان کیا ہے جو خلافت سنبھالتے ہوئے آپ نے اعلان کیا تھا۔ اور آپ کے دور میں عام اخراجات مثلاً گورنروں اور افواج کو تنخواہیں، حج کے اخراجات، مسجدِ نبوی کی تعمیر و ترمیم کی تحویل، مسجدِ حرام کی توسیع، پہلے اسلامی بحری بیڑے کی تیاری، شعیبہ سے جدہ کی طرف ساحل کی تحویل، کنویں کھودنا، مؤذنوں کی تنخواہیں وغیرہ کو بیان کیا ہے۔ اجتماعی اور اقتصادی زندگی پر مال کے ریل پیل کے اثر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور آپ کے اقارب کے مابین تعلق اور بیت المال سے عطیہ دینے کی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور شعبہ قضا (وزارتِ عدل) اور حضرت عثمانؓ کے بعض فقہی اجتہادات پر گفتگو کی ہے جو بعد میں فقہی مدارس میں اثر انداز ہوئے ہیں۔ میں نے کتب تاریخ میں بکھری ہوئی عثمانی فتوحات کو جمع کیا اور مشرق و شام، مصر اور شمالی افریقہ میں لشکر اسلام کی نقل و حرکت کے مطابق اس کی ترتیب و تنظیم کی ہے۔ اور فتوحات کی تحریک سے دروس و عبر اور فوائد کا استخراج کیا ہے مثلاً اہلِ ایمان کے لیے وعدۀ الٰہی کی تکمیل، حربی و سیاسی فنون کی ترقی، سرحدوں کی حفاظت، دشمن کے مقابلہ میں اتحاد کا اہتمام، اعداء سے متعلق معلومات جمع کرنا وغیرہ۔ موقع بموقع بعض فاتح قائدین کی سیرت پیش کی ہے جیسے احنف بن قیس، عبدالرحمٰن بن ربیعہ باہلی، سلیمان بن ربیعہ، حبیب بن مسلمہ فہری، اور مصحف عثمانی پر امت کو متحدہ کرنے کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عظیم ترین مفاخر میں شمار کیا ہے اور جمع قرآن و سبب اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ، ان مصاحف کی تعداد جو صوبوں کو بھیجے گئے، اختلاف سے ممانعت سے متعلق آیات کے سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فہم، گورنروں کا شعبہ، آپ کے دور میں سلطنت کے صوبے، گورنروں کے ساتھ آپ کی سیاست اور ان کے حقوق و واجبات، گورنروں کی نگرانی اور جائزہ لینے اور ان کی خبروں پر مطلع ہونے کے اسالیب، اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنروں کی حقیقت اور ان کے مثبت و منفی پہلو، سیدنا ابوذر، سیدنا ابنِ مسعود اور سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کے ساتھ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے تعلق کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ قتلِ سیدنا عثمانؓ کے فتنہ کے اسباب و وقائع کو تفصیل سے پیش کیا ہے اور ہر سبب کو مستقل فقرہ میں بیان کیا ہے جیسے خوش حالی اور معاشرہ پر اس کا اثر، اجتماعی تبدیلی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بعد آنا، اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مدینہ سے منتقل ہو جانا، جاہلی عصبیت، فتوحات میں توقف، جاہلی زہد و ورع، جاہ طلبی، حاقدین کی سازش، مظلوم خلیفہ راشد کے خلاف اعتراضات بھڑکانے کی منظم تدبیر، لوگوں کو برانگیختہ کرنے والے وسائل و اسالیب کو اختیار کرنا، فتنہ برپا کرنے میں سبائیوں کا اثر، اس کے علاج کے لیے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جو اقدامات کیے مثلاً جانچ و تحقیق کی کمیٹیاں تشکیل دے کر روانہ کرنا، ہر صوبہ کو تمام مسلمانوں کے لیے اعلان کے طور پر خط ارسال کرنا، گورنروں سے مشورہ طلب کرنا، باغیوں پر حجت قائم کرنا، ان کے بعض مطالبات کو منظور کرنا، اور فقہ عثمانی کی روشنی میں فتنوں کے ساتھ تعامل کے ضوابط بیان کیے ہیں۔ جیسے تحقیق، عدل و انصاف، حلم و سنجیدگی کو لازم پکڑنا، جمع کرنے والی چیزوں کا اہتمام اور اختلاف ڈالنے والی چیزوں سے اجتناب، خاموشی کو لازم پکڑنا، کثرت کلام سے اجتناب، ربانی علماء سے مشورے، فتن سے متعلق احادیث، رسول اللہﷺ سے رہنمائی اور مدینہ پر باغیوں کا قبضہ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا آپ کی طرف سے دفاع اور اس سے آپ کے انکار کو بیان کیا ہے۔ قتلِ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے موقف اور فتنہ قتل سے متعلق ان کے وارد شدہ اقوال کو ذکر کیا ہے۔ 

یہ کتاب سیدنا ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی عظمت کو مدلل کرتی ہے، اور قارئین کرام کے سامنے یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ ایمان و علم، اخلاق و آثار کے ساتھ انتہائی عظیم تھے۔ آپ کی عظمت اسلام کے فہم و تطبیق، اللہ کے ساتھ عظیم تعلق اور رسول اللہﷺ کے طریقہ کی اتباع کا نتیجہ تھی۔ 

یقیناً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ائمہ میں سے ہیں جن کے طرزِ عمل، اور اقوال و افعال کی لوگ اقتداء کرتے ہیں آپ کی سیرت، ایمان، صحیح اسلامی جذبہ اور دین اسلام کے فہم سلیم کے قوی مصادر میں سے ہیں اسی لیے میں نے آپ کی شخصیت اور کارناموں سے متعلق بحث و تحقیق کی اپنی طاقت و وسعت بھر کوشش کی، نہ مجھے عصمت کا دعویٰ ہے اور نہ میں لغزشوں سے بری ہوں۔ میں نے اللہ کی رضا اور اس کا ثواب چاہا ہے۔ اسی سے سوال ہے کہ الٰہی میری مدد فرما اور اس کو نفع بخش بنا، اس کا نام پاکیزہ ہے اور وہ دعاؤں کو سنتا ہے۔ 

اس کتاب کی تصنیف سے میں چہار شنبہ بوقت 2 بجے فجر بتاریخ 8 ربیع الثانی سن 1423ھ موافق 18۔ 6۔ 2002ء کو فارغ ہوا۔ اول و آخر اللہ کا فضل ہے میں اللہ تعالیٰ سے اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ عالیہ کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ اس ناچیز کی کوشش کو اپنے لیے خالص کر لے اور اپنے بندوں کے لیے نفع بخش بنا دے اور جو حرف بھی میں نے لکھا ہے اس پر مجھے اجر عطا فرمائے اور اسے میری نیکیوں کے پلڑے میں رکھے اور اس حقیر کوشش کے اتمام میں میرے جن بھائیوں اپنی وسعت بھر کوشش کی ہے ان کو اس کا ثواب و صلہ عطا فرمائے اور ہر مسلمان سے جو اس کتاب کو پڑھیں میری گزارش ہے کہ اپنی دعاؤں میں اس بندۀ فقیر کو نہ بھولیں:

رَبِّ أَوْزِعْنِی أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِی أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَى وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِكَ فِی عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ(سورة النمل: آیت، 19)

ترجمہ: ’’اے میرے رب تو مجھے توفیق دے کہ میں تیرے ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھے پر انعام کی ہیں، اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے، مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر دے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (سورة فاطر: آیت، 2)

ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ جو رحمت لوگوں کے لیے کھول دے سو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کر دے اس کے بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں اور وہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘

وصلی الله علی سیدنا محمد و علی آلہ و صحبہ أجمعین سبحانک اللهم و بحمدک أشہد ان لا إلہ إلا انت استغفرک و اتوب إلیک و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین۔ 

الفقیر الی عفو ربہ و مغفرتہ ورحمتہ ورضوانہ