Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہل سنت اور اہل تشیع کتب حدیث کے مخطوطات و نسخ(قسط 7)

  مولانا سمیع اللہ سعدی

اہل سنت اور اہل تشیع کتب حدیث کے مخطوطات و نسخ

اہل تشیع واہل سنت کے حدیثی ذخیرے کے فروق میں سے ایک بڑا فرق کتب حدیث کے مخطوطات و نسخ کی تعداد و قدامت کا فرق ہے، اہل تشیع کے اکثر کتب حدیث کے قدیم معتمد نسخ معدوم ہیں ، اس کمیابی کی وجہ سے ان میں بڑے پیمانے پر تحریفات بھی ہوئی ہیں ، ذیل میں اس حوالے سے چند جید اہل تشیع محققین و علماء کی آرا ذکر کی جاتی ہیں :

1۔معروف شیعہ پیشوا و معتبر عالم سید علی خامنائی اہل تشیع کے کتب رجال کے نسخ و مخطوطات پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"بناء على ما ذكر الكثير من خبراء هذا الفن ان نسخ كتاب الفهرست كاثر الكتب الرجالية القديمة المعتبرة الاخرى مثل كتاب الكشي النجاشي والبرقى والغضائري قد ابتليت جميعا بالتحريف و التصحيف ولحقت بها الاضرار الفادحة ،ولم تصل منها لابناء هذا العصر نسخة صحيحة"۔

(الاصول الاربعة في علم الر جال ، علی خامنائی ، دار الثقلین ، بیروت، ص50)

ترجمہ :اس فن کے بہت سے ماہرین نے یہ بات ذکر کی ہے کہ کتاب فہرست اور دیگر معتبر کتب رجالیہ جیسے کتاب کشی ، نجاشی ، برقی عضائری میں تحریف و تصحیف ہو چکی ہے ، اور حفاظت کے نقطہ نظر سے بعض سخت عوارض لاحق ہو چکے ہیں ، اور ہمارے زمانے تک ان کتب کا کوئی صحیح نسخہ نہیں پہنچ سکا۔

2۔ معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ ، جنہوں نے شیعہ علم حدیث پر بہترین کتب لکھی ہیں ، لکھتے ہیں :

"فقدت الاماميه اعدادا هائلة من الكتب التي سجل علماء التراجم و الرجال والفهارس اسماءها ،ولم نجد صعودا لهذ الموضوع عند الشيعه الا في العصر الصفوى، لان السلطة وفرت لهم الامن والامان والدعم المالي الكبير لاستنساخ كتبهم و ترويجها بنسخ كبيرة و كثيرة "۔

(المدخل الى موسعۃ الحدیث عند الامامیہ ، حیدر حب الله ، ص455)

ترجمہ :امامیہ کے ہاں کتب رجال ، تراجم ، فہارس کی بہت بڑی تعداد صفوی دور سے قبل پردہ خفا میں تھی ، اور صفوی دور میں حکومت ہونے ، مالی وسائل ہونے اور امن وامان میں ہونے کی وجہ سے امامیہ کو موقع ملا کہ وہ اپنی کتب تراث کے بڑے اور کثیر نسخے لکھیں اور انہیں ترویج دے۔

شیخ حیدر حب اللہ کی عبارت سے معلوم ہوا کہ شیعہ کتب تراث کے نسخوں کا اصل زمانہ صفوی دور (907ھ تا 1135ھ) تھا۔

یہی وجہ ہے کہ کتب اربعہ کے علاوہ بہت سی کتب شیعہ ایسی ہیں ، جن کا ظہور پہلی مرتبہ صفوی دور سلطنت میں ہوا، اور شیعہ کی ضخیم کتب بحار الانوار ، وسائل الشیعہ وغیرہ صفوی سلطنت کے بعد کی پیداوار ہیں ، شیخ حیدر حب اللہ لکھتے ہیں :

"نحن نقبل ان الكثير من الكتب التي ظهرت نسخها في العصر الصفوى ،ولا نملک طريقا اليها يصحح نسختها الواصلة الينا الاان تحتاج الى تدقيق، و بعض هذه الكتب لم يثبت له طريق معتبر"۔

(المدخل الى موسعۃ الحدیث عند الامامیہ ، حیدر حب الله ، ص461)

ترجمہ : ہم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ بہت سی ایسی کتب ، جن کے نسخے صفوی دور میں پردہ ظہور میں آئے، ہم ایسا کوئی راستہ نہیں پاتے ، جو ہم تک پہنچے اس کتاب کے نسخوں کی تصحیح کر سکیں ، یہ کام مزید تحقیق وتدقیق کا محتاج ہے ،ان میں سے بعض کتب کا کوئی معتبر طریق ثابت نہیں ہے ۔ یہاں بجا طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ کی آخری تین مراجع حدیث ، وسائل الشیعہ ، بحار الانوار اور مستدرک الوسائل کا بڑا حصہ انہی کتب پر مبنی ہیں ، جن کا ظہور صفوی دور میں ہوا، تو یہ مراجع کیسے معتبر مراجع میں شامل ہیں؟

3۔ شیعہ کی معتبر ترین کتاب کافی کا بھی معتمد نسخہ وہی ہے ، جو صفوی دور میں لکھا گیا ، خاص طور پر وہ نسخہ جو صفوی دور کے معروف شیعہ محدث باقر مجلسی کے سامنے پڑھا گیا ،اس نسخے کے علاوہ صفوی دور کے دیگر مکمل مخطوطات کو سامنے رکھ کر کافی کی موجودہ طبعات تیار ہوئی ہیں ، ( صفوی دور میں عالم ظہور میں آنے والے نسخوں کا حال ابھی حیدر حب اللہ کی زبانی آپ پڑھ چکے ہیں) صفوی دور سے پہلے کافی کا مکمل اور تصحیح شدہ نسخہ موجود نہیں ہے، اگرچہ صفوی دور سے پہلے الکافی کے نامکمل مخطوطات ہیں ، معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ الکافی پر مخالفین کے اعتراضات کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

لا نجد لهذا الكتاب نسخة قديمة ترقى الى ما قبل القرن السابع الهجرى، حتى بحسب اعتراف آخر الطبعات المحققة المصححة عند الاماميه، وهي طبعة دار الحديث في ايران، والتي استقصت نسخه ولم تعثر في اقدم النسخ الا على القرن السابع الهجري في نسخة غير كاملة ايضا "۔

(المدخل الى موسعۃ الحدیث عند الامامیہ ، حیدر حب الله ، ص439)

ترجمہ : اس کتاب الکافی کا کوئی ایسا قدیم نسخہ نہیں ہے ، جو ساتویں صدی ہجری سے پہلے کا ہو ، یہاں تک کہ امامیہ کے ہاں الکافی کی سب سے آخری محقق و مصح طبع دار الحدیث ایران کے محققین کا بھی یہی اعتراف ہے ، جنہوں نے الکافی کے نسخوں کا احاطہ کرنے کی کو شش کی ، تو انہیں الکافی کا ساتویں صدی ہجری سے پہلے کا کوئی قدیم نسخہ نہ مل سکا، اور ساتویں صدی ہجری کا نسخہ بھی نامکمل نسخہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ الکافی کی سب سے معروف اشاعت ، جو معروف محقق علی اکبر الغفاری کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے ، اس میں مخطوطات کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلا نسخہ یوں بیان کیا ہے :

نسخة مصححة مخطوطة في سنة 1067ه۔

 (الکافی للکلینی، تحقیق علی اکبر غفاری ، دار الکتب الاسلامیہ طہران ،ج 1،ص44)

مصنف نے تقریبا سات کے قریب مخطوطات و نسخ بیان کئے ہیں ، وہ سب دسویں صدی کے بعد یعنی صفوی دور کے نسخے و مخطوطات ہیں۔

الکافی کی یہ سب سے پہلی محقق اشاعت ہے ، حال ہی میں قم ایران سے الکافی کی ایک محقق اشاعت سامنے آئی ہے ، جو بیس سے زیادہ محققین اور سو کے قریب مخطوطات کو سامنے رکھ کر تیار کی گئی ہے ، اس اشاعت میں بھی اصل اصیل علی اکبر غفاری کی اشاعت کو قرار دیا گیا ہے ، چنانچہ کتاب کے محققین لکھتے ہیں :

"عاملنا متن الكافي المطبوع بتحقيق المرحوم الغفاري و طبع دار الكتب الاسلاميه معاملة نسخة معتبرة "۔

(الکافی للکلینی، تحقیق قسم احیاء التراث، قم، ج 1، ص120)

ترجمہ : ہم نے مرحوم غفاری کی تحقیق سے طبع شدہ متن کافی کو ایک نسخہ معتبرہ کے طور پر لیا۔

اس کے برعکس اگر ہم صحیح بخاری کے نسخوں کو دیکھیں ، تو ان میں انتخاب مشکل ہو جاتا ہے کہ کس نسخہ کا ذکر کیا جائے؟ کیونکہ سب ہی اتقان و صحت میں ایک دوسرے سے بڑھے ہوۓ ہیں ، بطور مثال صرف ایک نسحے کا ذکر کرنا چاہوں گا، کہ صحیح بخاری کا ایک معروف نسخہ حافظ یونینی کا نسخہ ہے ، یہ نسخہ چار جید محدثین ابو محمد الاصیلی، ابوذر الہروی ،ابوالوقت السجزی ، ابوالقاسم ابن عساکر کے سامنے پڑھے گئے نسخہ جات کے ساتھ تقابل کر کے تیار کیا گیا، یہ چاروں حضرات صحیح بخاری کے معروف رواة سے روایت کرنے والے ہیں، مثلا ابو ذر الہروی نے صحیح بخاری کے تین براہ راست رواۃ المستملی ،الحموی اور الکشمیھنی سے صحیح بخاری کو روایت کیا ہے ۔ (دیکھیں مقدمہ ، صحیح بخاری ، دار طوق النجاة، بیروت ) یہ صرف ایک نسخہ ہے ، ورنہ صحیح بخاری کو صرف امام بخاری سے نوے ہزار سے زائد شاگردوں نے براہ راست پڑھا ہے ۔

معروف شیعہ محقق شیخ حیدر حب اللہ الکافی و دیگر کتب حدیث کے نسخ و مخطوطات کی کمیابی کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"و اذا كان الذين سمعوا من الامام البخاري كما يقول الفربري تسعين الف رجل، وان أخر من سمع من ببغداد حسين المحاملي ،فان عدد الامامية كلهم في ذلك الزمان قد لايجاوزون عدد من سمع من البخاري من طلاب العلم "۔

(المدخل الى موسوعۃ الحدیث، حیدر حب الله ، ص455)

ترجمہ :فربری کے بقول امام بخاری سے بخاری شریف نوے ہزار شاگردوں نے براہ راست پڑھی ہے، اور امام بخاری سے آخر میں سماع کرنے والے حسین محاملی ہیں ، جبکہ اس زمانے میں اہل تشیع کی کل تعداد صحیح بخاری کا سماع کرنے والوں کے بمشکل برابر تھی۔

وجہ جو بھی ہو ، اہلسنت واہل تشیع کی کتب حدیث کے نسخہ جات و مخطوطات کا جب تقابل کیا جائے تو اہلسنت کی کتب کے نسخے و مخطوطات اہل تشیع کی تراث حدیث کے نسخہ جات و مخطوطات سے کئی درجے زیادہ نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ تراث حدیث کی استنادی حیثیت کو ثابت کرنے والے معروف شامی محقق حیدر حب اللہ نے شیعہ تراث حدیث میں تشکیک کی جن وجوہات پر بحث کی ہے ، ان میں نسخ و مخطوطات کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے۔ (دیکھیے:المدخلی الی موسوعۃ الحدیث، حیدر حب الله ، ص 453تا460)

ایک اشکال اور اس کا جواب

اہل تشیع کی تراث حدیث کے مخطوطات و نسخ کی کمیابی چونکہ شیعہ ذخیرہ حدیث کو مشکوک بنانے کے لئے اہم ترین عامل ہے ، اس لئے بعض اہل تشیع اہل علم نے بجواب آن غزل صحیح بخاری کی قدیم مخطوطات کو زیر بحث لانے کی کوشش کی ، چنانچہ معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ لکھتے ہیں :

"فلو نظرنا في كتاب البخاري الذي اشتغل عليه اهل السنة بشكل هائل عبر التاريخ، وبلغت مواضع نسخه في العالم ما بين نسخة كاملة واجزاء او قطع زماء 2327 موضعا، وعلمنا ان مكتبة الملك عبد العزيز بالمدينة المنورة لوحدها على 226 نسخة اصلية من هذا الكتاب، بعضها كاملة واخرى اجزاء، تعود لفترات مختلفة و عليها خطوط مشاهير العلماء، لتوقعنا ان نملك نسخة بخط المولف او الذي املى عليه المولف كالفريري، لكن اقدم نسخة مخطوطة في العالم لهذا لكتاب هي على ما يبدو القطعة التي نشرها المستشرق منجانا في كمبردج 1936، وقد كتب عام 370 براوية المروزي عن الفريرى، اى بعد حوالي 115 عاما من وفاة البخاري، واما سائر النسخ الهامة والمعتمدة لهذا الكتاب فتعود الى نسخة الحافظ ابي على الصدفي (514ھ) ونسخة الحافظ ابن سعادة الاندلسي (566هـ ) و نسخة عبد الله بن سالم البصري المكي (1134ھ) وأمثالها من النسخ والمخطوطات القديمة التي يقع اختلاف بينها وبعضها ناقص وبعضها كامل، وهذا هو حال النسخ في العادة، فلا يضر أن تتوفرأقدم نسخة لكتاب الكافي في القرن السابع الهجري۔

(المدخل الى موسوعۃ الحدیث ، حیدر حب الله ، ص454)

ترجمہ : اگر ہم صحیح بخاری کو دیکھیں ، جس کے ساتھ اہلسنت کی بڑی تعداد کا مسلسل علمی اشتغال رہا ، دنیا میں صحیح بخاری کے کامل ، ناقص ، مخطوطات 2327 کے قریب ہیں ، صرف مکتبۃ الملک عبد العزیز میں اس کتاب کے کامل ناقص 226 مخطوطات ہیں ، جو مختلف زمانوں کے ہیں ، اور ان پر مختلف مشاہیر کے دستخط ہیں۔ ہم یہ توقع رکھتے تھے کہ ہمیں مولف کا براہ راست مخطوطہ یا مولف نے جن تلامذہ پر کتاب کی املاء کرائی، جیسے فربری ، ان کا براہ راست مخطوطہ مل جائے گا، لیکن اس کتاب کا دنیا میں قدیم ترین نسخہ ، جو ایک مستشرق نے کیمبرج میں نشر کیا ، وہ امام بخاری کی وفات کے 115 سال بعد کا نسخہ ہے ،جو 370 میں امام مروزی نے فربری سے نقل کیا، جبکہ باقی نسخوں کا مرجع چھٹی صدی ہجری کے ابو علی صدفی ، چھٹی صدی ہجری کے ابن سعادۃ اور بارہویں صدی ہجری کے ابن سالم المکی اور دیگر اہل علم کے کامل و ناقص مخطوطات ہیں ، جن میں اختلافات بھی ہیں ، اور نسخوں کا حال یہی ہوتا ہے ، لھذا اگر الکافی کا ساتویں صدی ہجری سے پہلے کوئی نسخہ نہیں ہے ، تو اسے اس کی استنادی حیثیت کو کوئی ضرور لاحق نہیں ہوتا۔

شیعہ محقق نے صحیح بخاری کے نسخوں پر اعتراض کر کے الکافی کی مشکوک استنادی حیثیت کو ڈھانپنے کی کوشش کی ہے ، لیکن علمی میزان میں یہ اعتراض کوئی خاص وزن نہیں رکھتا، ہم چند نکات کی شکل میں اس مغالطے کا جواب دیتے ہیں :

1۔اگر اس اعتراض کو جوں کا توں مانا جائے، تب بھی صحیح بخاری نسخ و مخطوطات کے حوالے سے الکافی سے کہیں زیادہ فائق نظر آتی ہے ، کیونکہ صحیح بخاری کا قدیم ترین نسخہ امام بخاری کی وفات کے صرف 115 سال بعد کا ہے ،اور یہ نسخہ بھی کسی غیر معروف ناسخ کا نہیں ، بلکہ ایک معروف محدث امام مروزی نے امام بخاری کے براہ راست شاگرد اور صحیح بخاری کی کتابت کے مرکزی راوی امام فربری سے نقل کیا ہے ، کیا شیعہ محققین الکافی کا کوئی ایسا نسخہ دکھا سکتے ہیں ، جو امام کلمینی کے براہ راست شاگرد سے نقل کیا گیا ہو ؟ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ امام کلینی کے چار سو سال بعد ساتویں صدی ہجری کا جو نسخہ ہے ، اس کی بھی کوئی سند نہیں ہے کہ ناسخ نے یہ نسخہ کس نسخے سے نقل کیا ، اور منقول عنہ نسخہ کس درجے کا تھا؟

2۔ مخطوطات و نسخ کے محققین جانتے ہیں کہ کسی کتاب کی استنادی حیثیت کو قوی ثابت کرنے کے لئے اس کتاب کے مخطوطے کی قدامت زیادہ اہم عامل نہیں ، بلکہ مخطوطے کی سند ، مخطوطے کو لکھنے والا ، اور اس مخطوطے کو کہاں سے لیا گیا ہے ؟ یہ عوامل زیادہ اہم ہوتے ہیں ، صحیح بخاری کے جو بھی اہم نسخے ہیں ،اس میں مذکورہ امور کی وضاحت بالتفصیل ہوتی ہے ، اوپر حافظ یونینی کے نسخے کے حوالے سے تفصیل آچکی ہے کہ کس طرح چار جید محدثین کے سامنے پڑھے گئے نسخہ جات سے نقل کیا گیا ، اور وہ محدثین براہ راست صحیح بخاری کی کتابت والے راویوں سے ناقل ہیں ، اسی طرح ابو علی الصدفی کے جس نسخے کا ذکر شیعہ محقق نے کیا ہے ، وہ بظاہر تو چھٹی صدی ہجری کا ہے ، لیکن اس پر جو عبارت لکھی ہے ، اس سے اس مخطوطے کی استنادی حیثیت خوب واضح ہوتی ہے ، اس مخطوطہ پر درجہ ذیل عبارت لکھی ہے :

"كتبه حسين بن محمد الصدفي من نسخة بخط محمد بن علی بن محمود مقروءة على ابی ذر رحمه الله وعليها  

(روایات ونسخ الجامع الصح، محمد بن عبد الکریم بن عبید ، دار امام الدعوة ،ریاض ، ص 43)

ترجمہ : یہ نسخہ حسین بن محمد صدفی نے محمد بن علی بن محمود کے لکھے گئے نسخے سے نقل کیا ، جو ابوذر پر پڑھا گیا تھا ، اور اس نسخے پر ابوذر کی کتابت بھی ہے ۔

یہ ابوذر الھروی وہی محدث ہیں ، جنہوں نے صحیح بخاری کے تین معروف رواۃ ، المستملی، الحموی اور الکشمیھنی سے براہ راست صحیح بخاری کو نقل کیا ہے ۔

اسی طرح جس نسخے کو شیعہ محقق امام بخاری کے 115 سال والا نسخہ کہہ کر بظاہر عدم قدامت سے اس کی استنادی حیثیت کو مشکوک بنارہے ہیں ، یہ نسخہ امام مروزی نے براہ راست صحیح بخاری کے کاتب و راوی امام فربری سے نقل کیا ہے ۔

الکافی پر بنیادی اعتراض اس کے مخطوطات کی قدامت کا نہیں ، بلکہ موجود نسخوں کی استنادی حیثیت ، موجود نسخوں کا ماخذ نسخہ اور ان ماخذ نسخوں کی مصنف یا مصنف کے براہ راست تلامذہ تک سند متصل جیسے امور کا فقدان ہے۔

شاید مکمل و معتمد نسخہ جات کے فقدان کی وجہ ہے کہ الکافی کی موجودہ شروحات سب نویں صدی ہجری ( دور صفوی ) اور اس کے بعد کے ادورا کی ہیں ، یعنی ان ادوار کی ہیں ، جب الکافی کے مکمل نسخنے منظر عام پر آنا شروع ہوئے ، الکافی کی کوئی ایسی شرح اب تک سامنے نہیں آئی ہے ، جو موجود ہو اور وہ ساتویں صدی ہجری سے پہلے لکھی گئی ہو۔ چنانچہ الکافی کے معروف محقق شیخ عبد المحسن عبد الغفار نے اپنی تفصیلی کتاب "الکلینی و الکافی " میں الکافی کے ستر کے قریب شروح و حواشی کا ذکر کیا ہے ،ان میں سب سے قدیم ترین شرح (جس کا بھی وجود نہیں ، صرف فہارس کی کتب میں ہے) ساتویں صدی ہجری کے عالم نصیر الدین طوسی کی شرح ہے ۔

(الکلینی والکافی، عبد المحسن عبد الغفار، موسی النشر الاسلامی، قم، ص 443) 

باقی سب شروحات و تعلیقات ساتویں صدی کے بعد کے ادوار کی ہیں ۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ الکافی کا قدیم ترین نامکمل نسخہ ساتویں صدی ہجری کا ہے اور اس کی اولین شرح بھی اسی زمانے کی ہے ۔

( جاری ہے )