قصہ قرطاس
مولانا مہرمحمد میانوالیاگر حسبنا کتاب اللہ ایک امتحان کا جواب تھا جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے درست دیا تو اسی واقعہ قرطاس میں اس بزرگ نے کس سیاست کے تحت ارشاد فرمایا کہ اس مرد کو ہذبان ہو گیا دیکھو
(بخاری شريف الفاروق: صفحہ، 112)
الجواب: شیعہ کا انتہائی گندہ اور معرکۃ الآرا طعن ہے پہلے پوری حدیث ملاحظہ کریں تاکر شیعی دھوکہ سامنے آجائے۔
قال ابن عباسؓ اشتد برسول اللهﷺ وجعه يوم الخميس فقال أیتونی بكتاب اكتب لكم كتابا لن تضلوا بعدها ابدا فتنازعوا ولا ينبغی عند نبی تنازع فقالوا اهجر رسول اللهﷺ قال دعونی فالذی انا فيه خير مما تدعوننی اليه واوصىٰ عند موته بثلاث اخرجوا المشركين من جزيرة العرب واجيزوا الوفد بنحو ما كنت اجيزهم ونسيت الثالثة۔(بخاری: جلد، 1 صفحہ، 32)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباسؓ راوی ہیں کہ جمعرات کو مرضِ وفات میں حضورﷺ کو تکلیف سخت ہوگئی تو آپﷺ نے فرمایا ایک کاغذ لادیں تم کو تحریر لکھ دوں تو ہرگز میرے بعد بھی گمراہ نہ ہو گئے پس حاضرین آپس میں بحث کرنے لگے حالانکہ بنیﷺ کے پاس جھگڑا مناسب نہ تھا توکہنے لگے کیا آنحضرتﷺ چھوڑ کر جانے والے ہیں ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ سے پوچھ لو تو آپﷺ نے فرمایا میرا خیال چھوڑو جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جدہر تم
بلاتے ہو یعنی کتابت پھر آپﷺ نے وفات سے پہلے یہ وصیت کی کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو وفود کو ٹھرایا کرو جیسے میں ٹھہرایا کرتا تھا حضرت ابنِ عباسؓ کہتے ہیں میں تیسری بات بھول گیا۔
یہ حدیث جلد، 1 صفحہ، 449 اور جلد، 2 صفحہ، 638 پر تو انہی الفاظ کے ساتھ ہے مگر جلد، 2 صفحہ، 846 اور جلد، 2 صفحہ، 1095 پر یہ الفاظ ہیں
قال عمرؓ ان النَّبِیﷺ قد غلبه الوجع وعندكم القرآن حسبنا کتاب الله فاختلف أهل البيت واختصموا فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول اللهﷺ كتابا لن تضلوا بعده ومنهم من يقول ما قال عمرؓ فلما اكثر وا اللغط والاختلاف عند النَّبِیﷺ قال قوموا عنی وفج رواية أهجر استفهموه۔
ترجمہ: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضورﷺ کو سخت تکلیف ہے اور ہمارے پاس قرآن جو اصولاً ہدایت میں ہمیں کافی ہے اس میں اہلبیت نے اختلاف کیا اور جھگڑنے لگے کچھ کہتے تھے کہ حضورﷺ کو قلم دوات لا کر دو تا کہ آپﷺ نوشتہ لکھ دیں تو اس کے بعد گمراہ نہ ہوگے اور کچھ حضرت عمرؓ کی بات دہراتے تھے جب شور اور اختلاف زیادہ کیا حضورﷺ کے پاس تو آپﷺ نےفرمایا مجھ سے اٹھ جاؤ اور ایک روایت میں ہے کیا آپ دنیا سے ہجرت کرنے والے ہیں پوچھ لو۔
روایت کا مفہوم صرف اس قدر ہے کہ حضورﷺ نے سخت بیماری کی حالت میں ایک وصیت لکھوانے کے لیے قلم دوات مانگی سیدنا عمرؓ نے حضورﷺ کی تکلیف اور درد کے پیشِ نظر حاضرین سے بطورِ ادب و مشورہ کہا کہ چونکہ ہمارے پاس کتاب اللہ قرآنِ کریم کافی ہے حضورﷺ کو لکھوانے کی تکلیف نہ دی جائے حاضرین میں دو گروہ ہو گئے ایک نے لانے پراصرار کیا دوسرے نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تائید کی جب شور اور اختلاف بڑھ گیا قلم دوات کسی نے نہ لا کردی تو آپﷺ نے اٹھ جانے کا حکم دیا پھر لکھوانے کا تقاضہ کرنے والوں سے کہا مجھے اپنے حال پر رہنے دو پھر آپﷺ نے تین باتوں کی زبانی وصیت فرما دی کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو باہر سے آنے والے وفود کی میری طرح تنظیم اور خاطرداری کرو تیسری راوی بھول گیا۔
یہ ارشاد آپﷺ نے بطورِ امتحان فرمایا تھا سیدنا عمر فاروقؓ نے اس کا صحیح جواب دیا چنانچہ تائیدِ حضرت عمر فاروقؓ میں آپﷺ نے لکھوانے کا ارادہ ترک کر دیا یا شفقت و ہمدردی کے تحت تھا مگر حاضرین کے شور کے پیشِ نظر اس پر عمل نہیں کروایا وہ وحی نہ تھا اور نا حکمِ ضروری تھا ورنہ سیدنا عمرؓ کا رد کر کے ضرور لکھواتے اور حاضرین کے شور کی بھی پرواہ نہ کرتے ہمارے ہاں تو خاص اشکال نہیں اتفاق سے محفل میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا مگر یہ شیعہ جو جانِ نثارانِ نبویﷺ پر اعتراض کرنے میں نہایت حریص و ہوشیار ہوتے ہیں اور ایسے مواقع میں پر کا کوا اڑاتے ہیں اس واقعہ میں خوب مسخ و تحریف کر کے سیدنا عمرؓ کو نشانہ بنا کر کہتے ہیں:
1: حضرت عمر فاروقؓ نے فرمانِ نبوﷺ کو رد کر کے گویا وحی الہٰی کو رد کر دیا۔
2: حضورﷺکی طرف العیاذ باللہ ہذیان نیند یا بیماری میں بے اراد دنکلنے والی بات کی نسبت کی۔
3: تحریر میں رکاوٹ ڈال کر امت کو گمراہی پر ڈال دیا۔
اب ان تینوں باتوں کی الگ الگ حقیقت ملاحظہ ہو:
امر اول: نہ وحی تھی نہ خاص حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مخاطب تھے:
ائتونی جمع حاضر کا صیغہ ہے سب حاضرین کو قلم دوات لانے کا حکم تھا جس میں اہلِ بیتؓ بھی شامل تھے بلکہ مسند احمد: جلد، 1 صفحہ، 90 اور البدایہ: جلد، 5 صفحہ، 238 پر یہ تصریح موجود ہے کہ سیدنا علیؓ فرماتے ہیں مجھے حضورﷺ نے حکم دیا کہ میں آپﷺ کے پاس کوئی چیز لاؤں جس میں آپﷺ وہ ارشاد لکھوائیں کہ امت ان کے بعد گمراہ نہ ہو فرماتے ہیں مجھے اندیشہ ہوا کہ حضورﷺ میرے جاتے ہی فوت نہ ہو جائیں تو میں نے کہا کہ آپ زبانی بتا دیں میں محفوظ کر کے یاد رکھوں گا پھر آپ نے نماز زکوٰۃ اور غلاموں کے حقوق کے متعلق وصیت کی واقعہ قرطاس کی اس میں ایک گونہ توضیح ہوگئی اور قرین قیاس یہی ہے کہ کاغذ قلم لانے کا حکم اپنے افرادِ خانہ اور قرابت داروں کو ہو نہ دوسروں کو کہا جاتا ہے کہ حضرت علیؓ اس موقعہ پر موجود نہ تھے تو کیا حضرات حسنینؓ، حضرت عباسؓ اور کوئی بھی ہاشمی نہ تھا، جب تھے تو انہوں نے قلم دوات لا کر کیوں نہ دی۔
2: آپﷺ نے یہ صرف اجتہاد سے فرمایا تھا وحی نہ تھی اگر وحی ہوتی یا ضروری تحریر ہوتی تو آپﷺ جمعرات کے بعد پیر تک چار دن زندہ رہے اس وقت یا بعد میں ضرور لکھوا دیتے قولِ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ یا اہلِ خانہ کے شور کی پرواہ نہ کرتے کیونکہ وحی الہٰی کا سنانا حاضرین کی مرضی پر موقوف نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ وحی تو تھی لیکن پھر بحکمِ وحی آپﷺ نے لکھوانے کا ارادہ ترک کر دیا اس سے تو سیدنا عمرؓ کی تائید وحی الہٰی سے ہوگئی جو منقبت کی دلیل ہے جیسے معراج کے وقت پانچ نمازوں کا حکم پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اصرار سے بار بار کمی پھروحیِ الہیٰ سے پانچ پر فیصلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تفقہ کی دلیل ہے اور نسخ قبل الحکم کی ہی ایک مثال ہے فکذا مانحن فیہ سنی۔
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تحریر لکھوانے کا ارادہ نبوی یا وحی سے تھا یا اجتہاد سے تو اسی طرح نہ لکھوانے کا ارادہ بھی یا دوبارہ وحی سے ہو یا اجتہاد سے ہوا۔ (فتح الباری: جلد، 8 صفحہ، 101)
شیعہ علماء بھی ارادہ ترک کو وحی کے ذریعے مانتے ہیں۔
چنانچہ فلک النبات: جلد، 1 صفحہ، 237 پر ہے:
واما سكوته عليه السلام بعد التنازع ما كان من عندہ بل كان بوحی کما بین فی مقامہ۔
ترجمہ: اور حضورﷺ کا حاضرین کے اختلاف کے بعد خاموش رہنا یعنی تحریر نہ لکھوانا اپنی طرف سے نہ تھا بلکہ وحی خداوندی کے تحت تھا جیسا کہ اپنے مقام پر واضح ہے۔
یہ حضرت عمرؓ کی کرامت ہے کہ کٹر شیعی عالم نے یہ بات لکھ کر سیدنا عمرؓ سے تمام الزامات کا صفایا کر دیا بلکہ یہ رائے خدا اور رسول کو پسند آکر موافقات عمریہؓ میں شامل ہوگئی جیسے ازواجِ مطہرات کے لیے پردہ کا مشورہ مقامِ ابراہیم پر نماز پڑ ھنے کا مشورہ اور اساریٰ بدر کو قتل کرنے کا مشورہ خدا کو اتنا پسند آیا کہ اس کا باقاعدہ حکم قرآن میں اتارا گیا اور شانِ فاروقیؓ نمایاں کی۔
کسی خاص داعیہ کے پیشِ نظر ظاہر الفاظ پر عمل نہ کرنا نافرمانی اور منافی ایمان نہیں ہوتا حدیبیہ کے موقعہ پر صراحتاً حضرت علیؓ کو حضورﷺ نے لفظ رسول اللہ مٹانے کا حکم دیا تھا مگر آپؓ نے قسمیہ انکار کیا پھر حضورﷺ نے وہ لفظ خود مٹایا یہاں شخصی حکم ہے آپؓ نے فرمان نبویﷺ کی تعمیل سے قسمیہ انکار کیا حضورﷺ نے اسے قبول نہ کر کے وہ لفظ خود مٹایا اگر یہاں حضرت علیؓ کی شخصیت کے پیشِ نظر محبتِ رسولﷺ کے جذبہ سے اس کی تعبیر کی جاتی ہے اور حضرت علیؓ کو نافران اور منافق نہیں کہا جا سکتا تو پھر واقعہ قرطاس میں قد غلبہ الوجع آپ کو سخت تکلیف ہے سیدنا ابنِ عباسؓ بھی اشتد برسول اللہ۔ حضورﷺ کی بیماری سخت ہوگئی سے اسی کو بیان کر رہے ہیں سے حضرت عمرؓ کی محبتِ نبویﷺ پر استدلال کیوں نہ کیا جائے۔ (دلائل النبوۃ بیہقی)
جب کہ آپ کو شخصی حکم نہیں اور نہ پھر آپ نے اس حکم کو ضروری سمجھ کر عمل کرایا کہا جاتا ہے کہ اہلِ سنت بھی حضرت امیرِ معاویہؓ کے انکار کو ادب سے تعبیر کرتے ہیں مگر ہم تو اس سے کم تر واقعہ ہذا میں بھی ادب کا لحاظ کرتے ہیں شیعہ ایک بزرگ سے محبت اور دوسرے سے دشمنی کی بناء پر تفریق کریں تو اس ضد کا تو کوئی علاج نہیں ہمارے یہاں دونوں بزرگوں کا رد عمل ایک ہی جذبہ سے ہے کشف الغمہ: صفحہ، 453 پر ہے کہ جب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی کھڑکی کے سوا اور سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کھڑکیاں مسجد کی طرف سے حضورﷺ نے بند کرنے کا حکم دیا تو سیدنا حمزہؓ نے غصہ میں حضورﷺ سے فرمایا اے محمدﷺ آپ ہم کو نکالتے ہیں بنی مطلب کے لڑکوں کو ٹھہراتے ہیں؟ کیا شیعہ حضرت حمزہؓ پر بھی فتویٰ لگائیں گے
قوموا عنی میرا خیال چھوڑو کا نزلہ بھی سیدنا عمر فاروقؓ پر گرایا جاتا ہے حالانکہ مفصل روایت میں اسی مطلب کو حضورﷺ نے یوں واضح فرمایا ہے دعونی فالذی انا فيه خير مما تدعونتی الیہ۔
ترجمہ: مجھے چھوڑو میں مراقبہ الہیٰ کی حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم بلاتے ہو یعنی تحریر بظاہر یہ خطاب ان ہی لوگوں سے ہے جو قلم دوات تو نہ لائے مگر تحریر چاہتے تھے تو آپﷺ نے فرمایا اس بات کو جانے دو یہ قوموا عنی ایسا ہی ہے جیسے آپﷺ نے فرمایا قرآن کی اس وقت تک تلاوت کرو جب تک دل تمہارا خوش ہو اور فاذا اختلفتم فقوموا عنه۔
ترجمہ: اور جب زبان و دل میں اختلاف ہو تو تلاوت چھوڑ دو۔ (بخاری: جلد، 2 صفحہ، 1095)
اس حقیقت کے باوجود بھی یہ کام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا سیدنا عمر فاروقؓ کو طریدِ رسول کہنا انتہائی خباثت ہے۔
امر دوم: نسبت بزیان کی حقیقت، صحاح ستہ وغیرہ حدیث کی جو اصولی کتابیں ہیں ان میں اس واقعہ کی بعض روایتوں میں حضرت عمرؓ کا قول اسی قدر ہے کہ آپ کو سخت تکلیف ہے اصولی طور پہ ہمیں قرآن کافی ہے لفظ اھجر، قالوا کے بعد آیا ہے یعنی اور لوگوں نے یوں کہا اور بعض محدثین نے اسے مقولہ عمرؓ قرار دیا ہے روایات صحیحہ کے مقابل ان کا قول معتبر نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں: کہ کسی روایت میں یہ نہیں کہ یہ لفظ سیدنا عمرؓ کا
مقولہ ہے۔
شاہ عبدالعزیز صاحب رحمہ اللہ نے بھی تحفہ اثناء عشریہ میں یہی لکھا ہے۔ (طبقات: صفحہ، 373)
لغت و استعمال میں ہجر کے معنیٰ فراق ضد وصال چھوڑنا اور ترک کرنا آتا ہے کبھی قید اور مرض میں بغیر ارادہ کلام پر بھی بولا جاتا ہے۔
مصباح اللغات: صفحہ، 977 میں ہے ہجرہ (ن) ہجروا ہجرانا قطع تعلق کرنا، چھوڑنا، ہجر الشیئی ترک کرنا، اعراض کرنا، زوجہ، بغیر طلاق دیئے ہوئے الگ ہونا اور فیروز و الغات: جلد، 2 صفحہ، 553 میں ہے ہجر جدائی کرنا کسی سے قطع تعلق کرنا ہذیان کا معنیٰ تب ہوتا ہے کہ مصدر ہجرا، ہجیراً ہجیراً مصدر سے استعمال ہو حوالہ مذکورہ ورنہ ترک و جدائی کے معنوں میں آتا ہے کبھی مفعول ذکر ہوتا ہے کبھی نہیں جیسے: سٰمِرًا تَهۡجُرُوۡنَ ۞(سورۃ المؤمنون: آیت، 67) کی قرآنی مثال آ رہی ہے جو لوگ کتبِ لغت سے صرف ہذیان والے معنیٰ پر زور دیتے ہیں یہ ان کی بد دیانتی محض تعصب اور حضرت عمرؓ سے دشمنی پر مبنی ہے ورنہ لفظ مشترک کے معنیٰ سیاق و سباق قائل اور مفعول فیہ کے مناسب حال متعین ہوتے ہیں اپنے باطل مقصد کے پیشِ نظر لغت سے محض مطلوبہ معنیٰ چن لیے جائیں تو شریعتِ اسلامیہ کا کوئی عقیدہ اور عمل ثابت نہ ہو سکے گا اسی تکنیک کے پیشِ نظر قادیانی ختمِ نبوت کے اور منکرینِ حدیث حدیثِ نبوی اور نماز کی متفقہ ہیت کے بھی منکر ہیں کیونکہ صلوٰۃ کا معنیٰ چوتڑ بلانا لغت میں لکھا ہے۔
ہجر کے معنیٰ چھوڑنا اور ترکِ کلام لغت کے علاوہ قرآن و حدیث میں مستعمل ہے صحیح حدیث میں ہے۔ لا یحل المسلم ان یھجر اخاہ فوق ثلاثة اخاہ۔
ترجمہ: مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ اپنے دینی بھائی سے تین دن سے زیادہ گفتگو ترک کرے۔
اور حدیث سوالِ فاطمہ رضی اللہ عنہا میں ہے فھجرت ابابکرؓ
ترجمہ: پس سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا ابوبکرؓ سے اس مسئلے میں گفتگو چھوڑ دی۔
حدیث عائشہؓ میں ہے ما اهجر الا اسمك۔ (بخاری)
ترجمہ: حضورﷺ صرف آپ کا نام لینا چھوڑتی ہوں دلی محبت بدستور ہے۔
نیز فرماتی ہیں: ولقد هجر فی القريب والبعید۔
ترجمہ: مجھے قریب و بعید سب نے چھوڑ دیا۔
کیا یہاں بکواس اور ہذیان کے معنیٰ ہوں گے کہ کسی مسلمان کو تین دن سے زیادہ گالی بکنا جائز نہیں اور حضرت فاطمہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو گالیاں دیں یا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضورﷺ کے نام کو گالی دی یا ان کو قریب و بعید نے گالی دی؟ تو حدیث میں زیرِ بحث یہ معنیٰ کیوں درست نہیں؟ کیا حضورﷺ نے زبانی ارشاد فرمانا چھوڑ دیا ہے کہ لکھوانے کا حکم دیتے ہیں یا لغت و استعمال کے لحاظ سے اس میں کیا خرابی ہے؟ چھوڑ نے اور جدائی کے معنوں میں کئی جگہ قرآنِ کریم میں بھی یہ صیغہ استعمال ہوا ہے۔
1: مُسۡتَكۡبِرِيۡنَ بِهٖ سٰمِرًا تَهۡجُرُوۡنَ۞(سورۃ المؤمنون: آیت، 67)
ترجمہ: اور تکبر کر کے اس ہمارے رسول ﷺ کو مثلِ کہانی کہنے والے کے چھوڑ بیٹھا کرتے تھے۔
2: اِنَّ قَوۡمِى اتَّخَذُوۡا هٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَهۡجُوۡرًا ۞ (سورۃ الفرقان: آیت، 30)
ترجمہ: میری قوم نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا تھا۔ 3: وَاهۡجُرۡهُمۡ هَجۡرًا جَمِيۡلًا ۞(سورۃ المزمل آیت، 10)
ترجمہ: اور ان کو خوبی کے ساتھ چھوڑ بیٹھو۔
4: وَالرُّجۡزَ فَاهۡجُرۡ ۞(سورۃ المدثر: آیت، 5)
ترجمہ: اور میل کچیل کو دھو ڈال۔
5: وَاهۡجُرُوۡهُنَّ فِى الۡمَضَاجِعِ الخ۔(سورۃ النساء: آیت، 34)
ترجمہ: اور ان کے بستروں پر ان کو چھوڑ دو۔
( پارہ 5آیت 36)
وَاهۡجُرۡنِىۡ مَلِيًّا ۞(سورۃ مریم: آیت، 46)
ترجمہ: اور ایک عرصہ کے لیے مجھ سے جدا ہوجا۔(متراجم مقبول)
تو کیا ہجحر کا معنیٰ ہذیان ہو سکتا ہے حاشا و کلا اسی طرح زیرِ بحث حدیث میں یہ مطلب ہے کہ کیا آپﷺ جدا ہو رہے ہیں یا دنیا کو چھوڑ کر جانے والے ہیں استفهموہ پوچھ تو لو چنانچہ شارحین اس کے معنیٰ میں لکھتے ہیں:
هجر ای یھجر من الدنيا واطلق لفظ الماضى لما را وافيه علامات الهجرة عن دار الفناء۔(كرمانی شرح بخاری)
ترجمہ: یعنی آپ دنیا سے رخصت ہونے لگے ہیں لفظ ماضی کا بولا کیونکہ آپﷺ میں دارالفناء سے کوچ کی علامات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دیکھیں۔
یہ مطلب بالفرض ہمزہ استفہام کے نہ ثابت ہونے پر ہے ورنہ بخاری ہیں یہ چھ مرتبہ حدیث آئی ہے تین جگہ تو ہجر کا لفظ ہی نہیں ہے اور تین جگہ آیا ہے تو ہمزہ استفہام کے ساتھ ہے۔
(جلد، 1 صفحہ، 429، جلد، 1 صفحہ، 449 ، جلد، 2 صفحہ، 348)
استفہام کی صورت میں ہجر کا جتنا ہی نامناسب معنیٰ تراشا جائے بہر حال اس کی نفی ہو رہی ہے
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اہجر ای هو بهمزة الاستفهام الانکاری اے انکروا علی من قال لا تكتبوا اى لا تجعلوا كامرمن هذا فی كلامه۔ (حاشیہ بخاری: صفحہ، 429)
اھجر یہ استفہامِ انکاری ہے یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان لوگوں پر گرفت کی جو یہ کہتے تھے کہ نہ لکھواؤ یعنی حضورﷺ کا معاملہ ایسا نہ جانو جیسے مخبوط الکام کا ہوتا ہے۔
نیز محدثین ہجر معنیٰ ہذیان مریض کا مختلط کلام حضورﷺ کے لیے جائز نہیں سمجھتے۔
الھذیان الذی یقع فی کلام المریض الذی لا ینتظم وھذا مستحیل وقوعہ صحة ومرضا۔
ترجمہ: اور بے تکی باتیں جو مریض سے صادر ہوتی ہیں اور بے ربط ہوتی ہیں معصوم علیہ السلام سے ان کا وقوع صحت میں اور مرض میں محال ہے۔
حاصل یہ نکلا:
اول: تو اھجر کے قائل سیدنا عمرؓ نہیں۔
دوم: یہ کہ ہجر کہ معنیٰ ہذیان لینا درست نہیں قرآن و حدیث اس کی تائید نہیں کرتے۔
سوم: یہ کہ ہمزہ استفہامِ انکاری ہے۔
چہارم: شارحین ہذیان والے معنیٰ کو اس مقولہ میں مراد نہیں لیتے اب خواہ مخواہ لغت کے ایک معنیٰ کو لے کر علامہ شبلی رحمہ اللہ نے الفاروق میں اس معنیٰ کو لکھ کر پھر تردید کی ہے نہ تائید حضرت عمرؓ پر برسنا اور دیگر حقائق سے منہ موڑ لینا کیا یہی دیانت و انصاف ہے اہلِ سنت کی ان تصریحات کی موجودگی میں توجیہ الکلام ما لا یرضی یہ قائلہ پر اصرار شیعہ ہی کا خاصہ ہے لیکن کیا
وَعَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى ۞(سورۃ طٰہ: آیت، 121)
ترجمہ: اور آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرنی کی پس نا کام رہے کی تشریح و تفہیم جو مسلمان کریں وہ معتبر ہوگی یا جو کافر لغت سے معین کریں وہ مراد ہوگی بینوا؟
امر سوم: تحریر نہ ہونے سے امت کی گمراہی شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تحریر میں رکاوٹ ڈال کر امت کی گمراہی کا سبب بنے اگر لکھ دی جاتی تو امت گمراہ نہ ہوتی نہ معلوم یہ لوگ اعتراض کرتے وقت عقل وخرد کا دامن کیوں چھوڑ دیتے ہیں اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ایک شخص کے حسبنا کتاب اللہ کہنے سے حضورﷺ نے امت کو گمراہی سے بچانے کا ارادہ ترک کر دیا خدا نے بھی وہ وحی واپس لے لی سیدنا عمرؓ کی بات ایسی غالب آئی کہ حضورﷺ کی 23 سالہ محنت اور قربانی بھی امت کو گمراہی سے نہ نکال سکی اور آپﷺ حسرت سے اپنے مشن میں معاذ اللہ نا کام ہو کر رخصت ہوئے غیر مسلم شیعہ کی اس بے تکی بات پر کیا مذاق اڑائیں گے کہ ایک شخص کے اختلاف کرنے پر خدا اور سول نے اصلاح امت کا فریضہ بھی چھوڑ دیا واضح تر بات ہے کہ آپﷺ کی آخری عمر میں:
اَلۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ الخ۔(سورۃ المائدہ: آیت، 3)
ترجمہ: آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے سے تکمیل دین کا اعلان ہو چکا۔
فَاسۡتَمۡسِكۡ بِالَّذِىۡۤ اُوۡحِىَ اِلَيۡكَ الخ۔ (سورۃ الزخرف: آیت، 43)
ترجمہ: جو وحی آپ کو ہو چکی ہے اسے تھام لیں سے وحی الہٰی کا خاتمہ ہوگیا۔
وَرَاَيۡتَ النَّاسَ يَدۡخُلُوۡنَ فِىۡ دِيۡنِ اللّٰهِ اَفۡوَاجًا ۞(سورۃ النصر: آیت، 2)
ترجمہ: اور تو دیکھے گا کہ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج کی داخل ہوں گے کی بشارتیں بھی پوری ہوگئیں۔
حجتہ الوداع کے موقع پر هل بلغت اللهم اشهد فليبلغ الشاهد الغائب۔
ترجمہ: بے شک میں نے احکامِ رسالت پہنچا دئیے اے اللہ تو گواہ رہ پس اب حاضر غائب تک یہ احکام پہنچا دے کے مناظر بھی آسمان و زمین نے دیکھ لیے آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امت کو بھی تکمیلِ دین کی بشارت سنا دی۔
"بدرستیکہ شمار اگز اشتم برارہ روشن راست و چناں واضح گردانیدم براۓ شمادین راکہ شبش مانند روزش روشن است پس اختلاف مکنید بعد از من۔"
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 561)
ترجمہ: یقیناً میں نے تم کو روشن اور سیدھی راہ پر چھوڑا اور تمہارے دین کو تمہارے لیے ایسا نمایاں کیا کہ اس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے پس میرے بعد اختلاف نہ کرنا افسوس کہ شیعہ ہی نے امامت کا مسئلہ نکال کر سب امت سے اختلاف کیا۔
نیز ایک فرشتہ نے اھلبیت کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
و حضرت رسول از دنیا نرفت تا آنکہ دین را از براۓ شما کامل گردانید وراہ نجات راز براۓ شما بیان کرد واز براۓ ہیچ جاہلے حجتے نگزاشت۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 700)
ترجمہ: حضرت رسول اس وقت تک دنیا سے رخصت نہ ہوئے جب تک تمہارے لیے دین کو کامل نہ کر دیا اور نجات کا راستہ تمہارے لیے بیان کر دیا اور کسی جاہل کے لیے کوئی حجت نہ چھوڑی۔
ان آیاتِ قرآنیہ اور ارشاداتِ مصطفویہ کی روشنی میں کیا اس بات کی گنجائش ہے کہ ایک اصولِ ہدایت یا بنیادی فیصلہ جس پر امت کے مؤمن اور خارج از ایمان ہونے کا مدار ہے بیان نہ کیا ہو لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ یہ محض امتحان تھا سیدنا عمرؓ نے درست جواب دیا یا پھر ایسی بات تھی جس کابیان بہتر تھا اور عدمِ تحریر مضر نہ تھی اور اللہ کو اس کا لکھوانا منظور نہ تھا چنانچہ چار دن مزید زندہ رہنے کے بعد بھی آپﷺ نے نہیں لکھوائی نہ عدمِ تحریر پر کسی صدمہ یا نقصان کا اظہار فرمایا۔
مقصد تحریر کیا تھا؟
اور وہ کیا تحریر ہے؟ روایت میں جن تین باتوں کا ذکر زبانی ہے وہ مراد ہوں تو بہت بہتر ہے زبانی امت تک پہنچ تو گئی ہیں مگر شیعہ و سُنی فریقین کا خیال ہے کہ خلافت کا فیصلہ کرنا تھا تاکہ نزاع پیدا نہ ہو اہلِ سنت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ نے سیدہ عائشہؓ سے فرمایا کہ اپنے باپ اور بھائی کو بلاؤ تاکہ میں تحریر لکھ دوں تاکہ کوئی اور دعویٰ یا نہ تمنا کرسکے لیکن پھر آپﷺ نے ارادہ ترک کر دیا اور فرمایا اللہ پاک اور مسلمانوں کو سیدنا ابوبکرؓ کے بجائے دوسرا خلیفہ بنانے پر انکار ہو گا۔ (بخاری، مسلم، مسند حمیدی)
چنانچہ اسی مضمون کی ایک اور روایت ہے میں نے ارادہ ترک کر دیا کیونکہ خداد مسلمان صرف حضرت ابوبکرؓ کو چنیں گے۔(جلد، 2 صفحہ، 846)
شیعہ کا ہےخیال ہے کہ سیدنا علیؓ کے لیے خلافت لکھنی تھی مگر وہ تحریر نہ ہو سکی اور امت سیدنا علیؓ کے بجائے سیدنا ابوبکرؓ پر اتفاق کر کے گمراہ ہوگئی لیکن شیعہ کا یہ خیال اگر درست مانا جائے تو حضورﷺ پر بڑا حرف آتا ہے کہ آپﷺ نے ہر صورت وہ لکھا کر اتمامِ حجت کر کے گمراہی سے امت کو بچانے کا اہتمام کیوں نہ کیا خصوصاً جب کہ سیرت، تاریخ اور شیعہ کی تحریرات ملاحظہ ہو جواب سوال نمبر 2 کی روشنی میں سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ ہی کو مسلمان سے بہتر جانتے تھے نہ لکھوانے کا نقصان شیعہ کو ہوا اہلسنت کا نہیں کیونکہ حضراتِ شیخینؓ کے متعلق آپ کے خیالات سچے ثابت ہوئے پھر حضورﷺ نے امامِ نماز بنا کر عملی تصدیق کردی اور خواصِ حلقہ میں ان کی خلافت کی بشارت بھی دے دی شانِ نزول سورت تحریم تفسیر قمی مجمع البیان کہا جاتا ہے کہ آپﷺ پر ہذیان کا الزام لگایا گیا وہ اگر لکھاتے بھی توکوئی نہ مانتا جواب یہ ہے کہ آپﷺ اتمامِ حجت کا فریضہ تو ادا کر دیتے کیا لوگوں کے ساحر مجنون کہنے پر آپﷺ نے تبلیغ چھوڑ دی تھی یا آخر دم تک اتمامِ حجت کرتے رہے؟
اگر اب بھی معترض کی تسلی نہ ہو تو وہ مندرجہ ذیل امور پر غور کرے:
چند سوالات:
1: اتیونی کا امر استحبابی تھا تو ترک امتثال جرم نہیں اگر وجوبی ہے تو سب حاضرین بشمولِ اھلِ بیت مجرم ہیں۔
2: اس پر کیا قرینہ ہے کہ حضرت علیؓ انتہائی تکلیف کے عالم میں حضورﷺ کے پاس نہ ہوں پھر حضرت ابوذرؓ حضرت عمارؓ حضرت سلمانؓ حضرت مقدادؓ جیسے بزرگوں کی غیر موجودگی پر کوئی دلیل ہے اگر نہیں تو تنہا حضرت عمرؓ پر طعن کیوں؟
3: شیعہ ہر جگہ اہلِ بیت سے مرعومہ پنج تن مراد لیتے ہیں یہاں صرف دیگر حضرات مراد کیوں لیے جاتے ہیں سیدہ فاطمہؓ و حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہما کا تو موجود ہونا ضروری ہے پھر کیوں وہ یہ خدمت بجا نہ لائے؟
4: یہ مطالبہ اجتہادی تھا یا بحکمِ وحی اگر اجتہادی تھا تو استدلال غیر تام ہے لیکن اس سے رجوع ممکن ہے اگر بحکمِ وحی تھا تو تعمیل ضروری تھی یا نہ اگر ضروری تھی تو حضورﷺ نے نہیں کیوں کروائی اگر وحی سے عدمِ تعمیل ہوئی تو سیدنا عمرؓ اعتراضات سے بری ہو گئے۔
5: اگر تحریر میں رکاوٹ پیش آگئی تو زبانی ارشاد کیوں نہ فرمایا؟
6: جب بقول شیعہ خمِ غدیر میں خلافتِ علوی کا فیصلہ ہو چکا تھا تو تحریر کا کیا معنیً؟
7:اگر سیدنا عمرؓ حسبنا کتاب اللہ کہنے پر مجبور ہوں حالانکہ یہ:
اَوَلَمۡ يَكۡفِهِمۡ اَنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ الخ۔ (سورۃ العنكبوت: آیت، 51)
ترجمہ: کیا ان کو ہمارا کتاب نازل کر دینا کافی نہیں کا ترجمہ اور جواب ہے۔
تو حضرت علیؓ نے قرآنِ پاک کے متعلق یہ کیوں فرمایا کہ کتاب اللہ تمہارے سامنے گواہ ہے جس کی زبان گونگی نہیں وہ مکان ہے جس کے ستون گرتے نہیں یعنی ہر بات میں اور دنیا و آخرت کی ہر چیز میں راہ دکھاتی ہے۔
(نہج البلاغہ شرح فیض الاسلام نقوی:جلد، 1 صفحہ، 403)
قرآن کے لئے اللہ کے اپنا نور اور دین کامل کر دیا اور حضورﷺ کو اس وقت وفات دی جب آپ مخلوق خدا کو احکام خدا پہنچا چکے۔
(نہج البلاغہ: جلد، 1 صفحہ، 592 شرح فیض الاسلام)
علمه نقی فیض الاسلام: جلد، 1 صفحہ، 594 پر اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
دین اسلام رابسبب آں کامل گردانید و پیغمر خودﷺ رادر حالے قبض فرمور کہ از تبلیغ احکام قرآن کہ موجب ہدایت و ستگاری امست فراغ یافتہ بود۔
ترجمہ: اور قرآن کے ذریعے اللہ پاک نے دینِ اسلام کو کامل کر دیا اور پیغمبرﷺ کو اس حالت میں وفات دی کہ آپﷺ قرآن کی تبلیغ سے فارغ ہو چکے تھے جو ہدایت اور نجات کا سبب ہیں۔
شیعہ کے ہاں اہم خطبہ فدک میں سیدہ فاطمہؓ فرماتی ہیں خدا کی کتاب ناطق اور قرآن صادق ہے اسی قرآن کے ذریعے خدا کی منور حجتیں پائی جاتی ہیں بیان شدہ واجبات معلوم ہوتے ہیں اور ان محرکات کی اطلاع ہوتی ہے جن سے ڈرایا گیا ہے اور اسی قرآن سے اللہ کے مقرر کردہ مستحبات معلوم ہوتے ہیں۔
(بحوالہ وہی منصف: صفحہ، 28)
کیا یہ عظیم تصریحات حسبنا کتاب اللہ کی تائید اور تصدیق نہیں اور کیا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ وغیرہ بھی حدیث نبوی کے منکر سمجھے جائیں گے۔ (واللہ الہادی)
ایک لغو رسالہ کا محاسبہ:
اب یہاں تک ہماری اس تقریر سے بحمداللہ ہر قسم کے مطاعن کافور ہو گئے حضورﷺ کا دامن ترکِ تبلیغ وحی کے الزام سے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دامن گستاخی اور دوستی کے طعن سے پاک و صاف ہوگیا مزید کچھ کہنے کی حاجت نہیں مگر چونکہ شیعہ عداوتِ حضرت عمرؓ کی آڑ میں اس قرطاس پر بہت کچھ فضولیات سے اپنے دل کی سیاہی کے دھبے ڈالتے ہیں اور در حقیقت وہ سینکڑوں وجوہِ قرطاس سیاہ کر کے یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ:
1: حیاتِ پیغمبرﷺ میں بسترِ علالت پر آقائے دو جہاں کے روبرو دینِ الہٰی کے نونہال کی جڑ پر پہلی کاری ضرب دینداروں کی ایک جماعت نے لگائی اور اسی صدمہ سے باغبانِ گلشن دین دنیائے بے مروت سے رخصت ہوئے۔
2: واقعہ قرطاس جسں نے مسلمانوں کے لیے گمراہی و ضلالت کا وہ دروازہ کھول دیا جسے قیامت تک بند کرنا عام بشر کے اختیار میں نہیں ہے۔
3: اسی وقت سے اسلام پر مصائب و آزمائشوں کی گھٹائیں چھانا شروع ہوگئیں اور ملت میں تنازع و انتشار کا بویا ہوا بیچ دیکھتے ہی دیکھتے شاخوں سے بھرپور درخت بن گیا۔
4: تم اگر یہ تحریر قلم بند ہو جاتی تو مخالفین کے منصوبے خاک میں مل جاتے لہٰذا امید برآری کے لیے حضور عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنا مشن کھل کر لیا یہ ایک عیار قلم کار کے الفاظ ہیں جس نے اس واقعہ قرطاس پر 110 صفحے ایسے ہفوات سے سیاہ کر کے اپنے آقائے خمینی کی طرح حضورﷺکی ناکامی کا بار بار اعلان کیا اور حیاتِ نبویﷺ میں اسلام کو قتل کر کے چپکے سے حضورﷺ کو رخصت کر دیا ہے وہ سیدنا عمرؓ کو ایک طے شدہ منصوبے میں کامیاب کہتا ہے اور سب امت کی گمراہی کا ذمہ دار آپ کو ٹھہراتا ہے۔ حالانکہ سنت اللہ یہ رہی ہے کہ منصوبہ و تدبیر میں خدا و رسول پر کوئی غالب نہیں آسکتا مخالف و منافق ہمیشہ ناکام رہے ہیں یہود نے حضرت علیؓ سے سازش کرنا چاہی مگر اللہ کی سازش کامیاب رہی۔ وَمَكَرُوۡا وَمَكَرَاللّٰهُ ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الۡمَاكِرِيۡنَ ۞
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 54)
ترجمہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ قوم کی تقدیر ناکام ہوئی
وَاَرَادُوۡا بِهٖ كَيۡدًا فَجَعَلۡنٰهُمُ الۡاَخۡسَرِيۡنَ ۞(سورۃ الانبیاء آیت 70)
ترجمہ: اور انہوں نے ابراہیم علیہ السلام سے سازش کی ہم نے ان کو بڑے گھاٹے میں کر دیا۔
صالح علیہ السلام اپنی قوم پر غالب ہے
وَمَكَرُوۡا مَكۡرًا وَّمَكَرۡنَا مَكۡرًا وَّهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَ ۞(سورۃ النمل: آیت، 50)
ترجمہ: اور انہوں نے سازش کی ہم نے بھی سازش کی کہ ان کو پتہ بھی نہ چلا فرعوں کے بالمقابل حضرت موسیٰ علیہ السلام کامیاب رہے
وَمَا كَيۡدُ فِرۡعَوۡنَ اِلَّا فِىۡ تَبَابٍ ۞ (سورۃ غافر: آیت، 37)
ترجمہ: فرعون کی سازش تباہ ہوگئی۔
الغرض منکرینِ قرآن و رسول کا یہ گروہ ایک طرف معاذ اللہ حضرت عمرؓ کو بقول مجلسی کافر منافق اور سازشی کہتا ہے مگرخدا و رسول کے بالمقابل ان کو تاقیامت کامیاب بھی کہتا ہے اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ خدا و رسولﷺ کا دراصل منکر ہے تبھی تو وہ کسی صحابی کو مانتا ہے نہ قرآن اور 23 سالہ آپﷺ کی تعلیم و تبلیغ میں کسی ہدایت کا قائل ہے واقعہ قرطاس اور حضرت عمرؓ سے دشمنی کو تو محض ذاتِ رسولﷺ سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک بہانہ بنا دیا گیا ہے۔
چند نا جائز باتوں پر تنبیہ:
1: شرح نہج البلاغہ لابنِ ابی الحدید اور مروج الذہب مسعودی کے حوالہ سے حضرت عمرؓ کی منصوبہ بندی کا ذکر کیا ہے حالانکہ یہ محض اتفاق تھا کہ حضرت عمرؓ عبادت کو آئے تھے تو یہ بات ہو گئی ورنہ نہ آپ نے چھیڑی تھی نہ حضورﷺ کے دل کی بات جانتے تھے۔ پھر بالا دونوں کتابیں شیعہ کی ہیں ابنِ ابی الحدید معتزلی شیعہ ہیں اور شیعہ کتاب کی شرح لکھی ہے جبکہ مسعودی اثناء عشری شیعہ ہیں لہٰذا حضرت عمؓر کے خلاف ان کی کوئی بات حجت نہیں ہو سکتی۔
2: مسند احمد: جلد، 2 صفحہ، 346 کے حوالہ سے یہ عبارت مع ترجمہ بھی ہے:
مخالف عليها عمر بن الخطابؓ حتىٰ رفضها کہ سامانِ کتابت لے کر حضرت عمرؓ نے پھینک دیا حالانکہ یہ صریح بد دیانتی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے شفقت نبوی سے اس تجویز سے اختلاف کیا حتیٰ کہ حضور نے چھوڑ دی۔
3: صواعقِ محرقہ باب تاسع فصل ثانی کے حوالے سے حدیث تقلین لکھی ہے اور یہ استدلال کیا ہے کہ حضور اس صحیفہ میں حضرت علیؓ کی خلافت و امامت کا تعین فرمانا چاہتے تھے حالانکہ حدیثِ ثقلین اگر صحیح ثابت بھی ہو تو اس کا مفہوم دوسرا ہے کہ قرآن و علیؓ دونوں سے پوچھتے رہنا کہ اسلام اور میری تعلیم کیا ہے اس پر تاہنوز بحمداللہ امت کا عمل ہے مگر خلافت و امامت سے اس کا کوئی تعلق نہیں علاوہ ازیں ابنِ حجر مکی رحمہ اللہ نے اس کی سند بھی نہیں بتائی اور ایک حصے کی سند بتا کر ایک راوی کو ضعیف کہا ہے تو قابلِ استدلال نہ رہی۔
4: بحسبنا کتاب اللہ کا بار بار مذاق اڑایا ہے کہ حضرت عمرؓ نے مخالفتِ رسول کی اور حجتِ حدیث کا انکار کیا حالانکہ یہ مفہوم مخالف خود شیعہ ذہن کی ایجاد ہے ورنہ حَسۡبُنَا اللّٰهُ وَنِعۡمَ الۡوَكِيۡلُ ۞ (سورۃ آلِ عمران: آیت، 173) کہنے والوں کو رسول اللہﷺ کا منکر تو نہ کہا جائے گا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہر موقعہ پر سختی سے سنتِ رسول کے پابند تھے پھر کمالِ ادب سے حضورﷺ کو خطاب نہیں کیا بلکہ حاضرین سے کہا وعندكم القران حسبنا کتاب اللہ اور اس سے اشارہ آیت اَلۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ الخ۔ (سورۃ المائدہ: آیت، 3) کی طرف تھا اس صفائی کے باوجود بھی اگر سیدنا عمر فاروقؓ پر ردِ حکم رسولﷺ کا الزام ہے حالانکہ آپ کو قلم دوات لانے کا خاص حکم نبوی نہ تھاتو پھر یہ الزام سیدنا علیؓ پر بھی آئے گا کیونکہ آپ اہلِ خانہ تھے۔
تحریر وصیت میں فائدہ بھی بقول شیعہ آپ کا تھا اور آپ کو لانے کا حکم خصوصی تھا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی غیر موجودگی کا شیعی عذر بالکل لغو ہے بلکہ آپ حاضر تھے فرماتے ہیں:
علیؓ بن ابی طالب قال امرنی النبیﷺ ان اتیہ بطبق یکتب فیہ مالا یضل امتہ من بعدہ فخشیت ان تفوتنی نفسہ قال قلت انی احفظ واعی قال اوصی بالصلوٰة وماملکت ایمانکم۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپﷺ کی خدمت میں ایک طشتری لاؤں جس پر آپﷺ ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد آپﷺ کی امت گمراہ نہ ہو حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے خوف ہوا کہ آپﷺ کی ذات مجھ سے جدا نہ ہو جائے اس لیے میں نے عرض کیا کہ آپﷺ زبانی ارشاد فرمائیں میں حفظ رکھوں گا اور یاد رکھوں گا تو آپﷺ نے فرمایا میں تم کو نماز کی اور اپنے ماتحت غلاموں سے حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔
اس حدیث نے بخاری و مسلم کی روایات کے ابہام کو دور کر دیا کہ حکم کے اصل مخاطب سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تھے نیز یہ کہ آپ بھی قلم دوات نہ لانے والے گروہ میں تھے حضرت علیؓ نے نہ لکھوا کر دراصل سیدنا عمرؓ کی تائید کی اور دونوں کی رائے حضورﷺ نے پسند فرما کر خاموشی اختیار کی اس سے ضمنا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قوموا عنی کا مخاطب وہ گروہ تھا جو لکھولنے کے حق میں تھا مگر شور میں پڑ کر نہ لاسکا توآپﷺ نے فرمایا مجھے چھوڑ دو میری مراقبہ حق میں حالت اس سے بہتر ہے جس تحریر کی طرف مجھے آمادہ کرتے ہو۔
اگر شیعہ کو ردِ وحی پر اب بھی اصرار ہے تو مجبوراً یہ دو قصے ہم سناتے ہیں کہ ایسا الزام تو سیدنا علیؓ پر بھی یقیناً آتا ہے۔
1: حضورﷺ ایک دن حضرت علیؓ کے گھر تشریف لے گئے نیند سے اٹھا کر تہجد کی پابندی کی تاکید فرمائی اس پرسیدنا علیؓ نے کہا والله لا نصلى الا ما كتب الله لنا اللہ کی قسم ہم تو فرض نماز کے سوا اور کوئی ہرگز نہ پڑھیں گے ہمارے دل خدا کے ہاتھ میں ہیں اگر نمازِ تہجد کی توفیق دیتا تو پڑھتے جب آپﷺ نے یہ جواب سنا تو ران پر ہاتھ مارتے ہوئے مکان سے لوٹے اور فرماتے تھے انسان سب سے زیادہ جھگڑا کرنے والا ہے۔ (بخاری)
2: شیعہ کی اپنی روایت بھی سنیے جو محمد بن بابویہ نے امالی میں اور دیلمی نے ارشاد القلوب میں نقل کی ہے کہ حضورﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو 7 درہم دیے کہ حضرت علیؓ کو دو تاکہ وہ اس رقم سے اپنے اہل کے لیے غلہ خریدے کیونکہ ان پر بھوک غالب ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وہ حضرت علیؓ کو دے کر حضورﷺ کا حکم سنا دیا جب حضرت علیؓ لے کر باہر نکلے تو ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ کون ہے جو صحیح وعدہ پر قرض دے حضرت علیؓ نے وہ در ہم قرض دے دیئے۔
(بحوالہ حدیث قرطاس از علامہ محمود احمد)
اس قسم کے متعدد واقعات کتبِ فریقین میں موجود ہیں اگر حضرت علیؓ کی شخصیت کا خیال نہ رکھا جائے اور شیعوں کی طرح خارجی ذہن سے سوچا جائے تو حضرت علیؓ پرسنگین الزامات قائم ہو سکتے ہیں۔ مثلاً حضورﷺ کے حکم کے باوجود حضرت فاطمہؓ اور حضراتِ حسنین کرمینؓ پر خرچ نہ کیے آپﷺ کو رنج پہنچایا حکم عدولی کی اپنے عیال کی حق تلفی کی مال غیر میں تصرف کیا اہلِ بیت کو بھوکا کیا یہاں اگر جذبہ ایثار کہہ کر اچھی تعبیر کریں تو سیدنا عمرؓ کے لیے بھی حضورﷺ کی سخت تکلیف اور بیماری کے پیشِ نظر حسبنا کتاب اللہ کو جذبہ محبت نبویﷺ سے تعبیر کریں۔
3: امامت و خلافت بلا فصل کے خواب دیکھنے والے نبوت کی تمام تبلیغی زندگی کو اس کی بھینٹ چڑھاتے ہیں مگر پھر بھی کامیابی نہیں ہوتی۔
دعوت ذوالعشیرہ سے لے کر اعلان خمِ غدیر تک بار بار رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کی خلافت کا اعلان فرمایا لیکن اب آخری تحریر کے ذریعے حضرت امیر ہی کی خلافت کا تعیین وصیت کے ذریعے کرنا چاہتے تھے۔ اگریہ تحریر قلمبند ہوجاتی تومخالفین کے منصوبے خاک میں مل جاتے ۔ مدتوں کی آس ٹوٹ جاتی خوابوں کی تعبیر اُلٹ جاتی اور تمام کیے کرائے پر یکمیشت پانی پھر جاتا لیکن اب حضرت عمرؓ کے بول پڑنے پر حضورﷺ کے سب کیے کرائے پر پانی پھر گیا (معاذ اللہ)
4: چور کی داڑھی میں تنکا غیرمسلموں کی زبان سے اپنی نبوت دشمنی کا کیسے صاف اقرار کرتے ہیں جب وہ لوگ جن کے لیے وصیت کی جا رہی تھی اس کو معلوم کرنے کے روادار نہ تھے اور سننا تک نہیں چاہتے تھے تو پھر وصیت کیوں کی جاتی اگر کوئی بعد میں تحریر ہوتی تو غیر مفید رہتی ہی نہیں مخالفینِ اسلام کو ہمیشہ کے لیے ایک بہانہ مل جاتا کہ دیکھیں وحی و قرآن و نبوت تو محض ایک آڑ تھی محمدﷺ تو محض دنیوی اقتدار کے خواہشمند تھے آخر ان کا وہی انجام ہوا جو دنیا طلب لوگوں کا ہوتا ہے ان کے بسترِ مرگ کے گردان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اس حکومت دنیوی کے لیے تلوار چل گئی یہی کچھ شیعہ آج بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق کہہ رہے ہیں شیعہ کی ان ہفوات کو اب بند کر کے قارئین سے معذرت چاہتا ہوں۔