Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مذہب اہل سنت کو کلام الہی کے مطابق پایا

  مولانا محمد اسماعیل میسوِی

مذہب اہلِ سنت کو کلامِ الٰہی کے مطابق پایا

 داستان ہدایت نواب محسن الملک سید مہدی علی صاحبؒ

نواب محسن الملکؒ کا سارا خاندان فقہ جعفری سے تعلق رکھتا تھا ان کے نانا محمود علی شیعہ مذہب کے متبحر عالم تھے، نواب محسن الملکؒ نے سترہ سال کی عمر میں علوم متداولہ کی تکمیل کر لی اور پھر حصول معاش میں باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیے سرکاری ملازمت اختیار کر لی اس کے باوجود علم سے انھوں نے خود کو اس وقت بھی وابستہ رکھا، کتب بینی کا جو چسکا انھیں اوائل عمر میں ہی پڑ گیا تھا وہ مرتے دم تک قائم رہا انہوں نے اس قدر مطالعہ کیا کہ اپنے معاصرین میں ان کا علمی تفوق تسلیم کر لیا گیا انھوں نے شیعہ سنی دونوں مذاہبِ کا دقت نظر سے مطالعہ کیا جس کے نتیجے میں انھوں نے مذہب اہلِ سنت کو کلامِ الٰہی کے مطابق اور شیعہ مذہب کو مخالف پایا اس لیے انھوں نے بائیس سال کی عمر میں شیعہ مذہب کو ترک کر دیا اور ایک راسخ العقیدہ سنی مسلمان ہو گئے، اس کی تفصیل یہ ہے

 نام ونسب

نواب محسن الملک محسن الدولہؒ کا نام سید مہدی علیؒ تھا ان کا نسب نامہ تاریخ ہندوستان کے بادشاہ گر خاندان، سادات بارہ سے ملتا ہے، ان کے والد بزرگوار سید ضامن علی مرحوم سیدوں کے اسی خاندان کے فرد تھے اور ان کا شمار شہر کے ذی عزت لوگوں میں ہوتا تھا، ان کی والدہ کا تعلق سادات کے ایک ایسے خاندان سے تھا جس میں علم کی دولت کئ پشتوں سے چلی آئی تھی انکے نانا مولوی محمود علی عباسی ایک متجر عالم تھے پہلے وہ صدر الصدوری کے عہدے پر فائز رہے پھر انھیں ریاست ٹونک راج ( راجپوتانہ) میں منصب وزارت عطا ہوا

 تعلیمی مراحل

محسن الملکؒ کی ولادت بمقام اٹاوہ'11'رمضان 1253 کے مطابق 9 دسمبر 1837ء بروز شنبہ ہوئی، سارا خاندان فقہ جعفری کا پیروکار تھا اور اثنا عشریہ امامیہ مسلک رکھتا تھا اس لیے جب سید مہدی علیؒ کچھ بڑے ہوئے تو ابتدائی تعلیم کے لیے شیعہ کے مکتب میں بٹھا دیئے گئے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی غیر معمولی ذہانت، محنت اور توجہ سے بہت جلد اس قدر استعداد بہم پہنچا لی کہ بڑے بڑے علماء فضلاء کے حلقہ درس میں شریک ہونے لگے اور سترہ سال کی عمر میں علوم متداولہ کی تکمیل کر لی، ایک طرف فارسی زبان اور ادب میں درجہ امتیاز حاصل کیا، دوسری طرف عربی ادب، حدیث اور تفسیر و فقہ میں سند فراغ حاصل کر لی، انگریزی کی تعلیم باقاعدہ نہیں ہوئی لیکن اپنی توجہ اورمشق سے اتنی سیکھ لی کہ انگریزی اخبار کابا نیر اخبار خود سمجھنے لگے

خدمت اور کالج کے انتظامات میں لگ گئے 1898 ء میں سر سید کا انتقال ہوا ہو گیا اور ان کو کالج کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔

 تعلیمی مراحل کے بعد زندگی کا مختصر خاکہ

  ابھی ان کی عمر بمشکل اٹھارہ سال ہوگی کہ حصول معاش میں باپ کا ہاتھ بٹانے کیلئے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ دس روپے ماہوار پر ایک دفتر میں کلرک ہو گئے لیکن اپنی محنت، قابلیت ، سوجھ بوجھ کی بناء پر تھوڑے ہی عرصہ میں اہلمدی ، سر رشتہ داری ، اور تحصیل داری کے مدارج طے کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹری کے معزز عہدے پر فائز ہوگئے اور اپنے فرائض کو اس خوش اسلوبی سے انجام دیا کہ حکومت کے اعلی عہدے داران اور افسران بھی آپ کو عزت کی نظر سے دیکھنے لگے۔ یہی نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے خلعت عطا ہوا اور کلکٹر نے ان کی تعریف میں یہ الفاظ لکھے ” میں دعوی سے کہتا ہوں کہ مہدی علیؒ سے زیادہ ذہین مستعد اور ایمان دار صوبہ ممالک مغربی و شمالی (یوپی) میں کوئی نہیں ہے ان کی اعلی کارکردگی اور قابلیت کی اس قدر شہرت ہوئی کہ سر سالار جنگ نے ان کو اپنے ہاں ایک اعلی عہدہ پیش کیا چنانچہ وہ 1874ء میں بارہ سو روپے ماہانہ پر حیدر آباد دکن چلے گئے وہاں انھوں نے مال اور محاسبی میں نمایاں کامیابی حاصل کی ان کی خدمات کا اعتراف اس طرح کیا گیا کہ 1876ء میں وہ ریونیوسیکرٹری اور 1884ء میں فنانشل و پولٹیکل سیکرٹری بنا دیے گئے اور سرکار نظام نے انھیں محسن الدولۃ اور محسن الملکؒ منیر نواز جنگ کے خطابات عطا کیے تین ہزار روپے ماہانہ تنخواہ مقرر ہوئی ۔ 1893 ء میں ان کے خلاف سازشیں ہوئیں جس کی وجہ سے کبیدہ خاطر ہو کر وہ اپنے عہدہ سے علیحدہ ہو گئے اور آٹھ سو روپیہ ماہوار پنشن لے کر علی گڑھ چلے آئے وہاں سرسید مرحومؒ سے مل کر قومی خدمت اور کالج کے انتظامات میں لگ گیۓ 1898ء میں سر سید احمدؒ کا انتقال ہوگیا اور ان کو کالج کا سکرٹری بنا دیا گیا

 تحقیق کا نتیجہ

 اگرچہ نواب محسن الدولہ محسن الملکؒ نے علوم متداولہ کی تکمیل کے فوراً بعد ہی ایک دفتر میں ملازمت کر لی اور نوعمری میں ہی فکر معاش میں لگ گئے لیکن علم سے انھوں نے خود کو اس وقت بھی وابستہ رکھا کتب بینی کا جو چسکا انھیں اوائل عمر میں پڑ گیا تھا وہ مرتے دم تک قائم رہا، انھوں نے اس قدر مطالعہ کیا کہ اپنے معاصرین میں ان کا علمی تفوق تسلیم کر لیا گیا، ان کی تحریریں انکی وسیع معلومات پر دلالت کرتی ھیں، انھوں نے تہذیب الاخلاق کے لیے جو مضامین لکھے ان کے مواد اور طرز استدلال سے ان کے علمی تبحر کا اندازہ ہوتا ہے، انھیں دینی علوم سے خاص شغف رہا اور اس دائرہ میں بھی انھوں نے اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ دیگر مذاھب کا بھی نہایت گہرا مطالعہ کیا چنانچہ شمس العلماء مولوی ذکاء اللہؒ نے انکے بارے میں لکھا ھے

" یہ صفت مولوی مہدی علیؒ میں تھی کہ وہ حقیقت میں مذہبی عالم تھا وہ فقط مسلمانوں کے شیعہ اور سنی وغیرہ کے مذہب ہی سے خوب واقف نہ تھا بلکہ وہ دنیا کے تمام مذاہبِ سے آگاہ تھا اس نے دنیا کے مذاہبِ کا علم حاصل کرنے کے لیے اپنا بہت سا وقت انگریزی کتابوں میں خرچ کیا اور بعض کتابوں کے ترجمے کرانے میں اپنا روپیہ بھی خرچ کیا، دنیا کے تمام مذاہبِ کی تاریخ اسکے ذہن میں ایسی موجود تھی جیسی کہ اپنے مذہب کی۔ وہ اور مذاہبِ کو جان کر اسلام کی برتری ان پر ثابت کرتا تھا، وہ مسلمانوں کے تمام تعصبات اور توہمات کو قرآن اور حدیث اور علماء کے اقوال سے استدلال کر کے دور کرنے کے کوشش کرتا تھا

مختلف مذاہبِ کے اسی گہرے مطالعہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے بائیس سال کی عمر میں شیعہ مذہب ترک کر دیا اور ایک راسخ العقیدہ سنی مسلمان ہوگئے آیاتِ بینات کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں

" میں اپنے خدائے بزرگ و برتر کا ہزار ہزار شکر کرتا ہوں کہ میں ان چند آدمیوں میں سے ہوں جنہوں نے اپنی نجات کی امید پر دونوں مذاہبِ کے اصول پر انصاف سے غور کیا اور مذہب اہلِ سنت کو کلامِ الٰہی کے مطابق پاکر اور مذہب امامیہ کواس کے مخالف دیکھ کر اپنے آبائی مذہب کو چھوڑنے اور تمام کنبے قبیلے سے جدا ہونے میں کچھ کسی کا لحاظ و خیال نہیں کیا اور اِمامیہ مذہب کو جو مصرع" برعکس نام نہند زنگی را کافور" کے مطابق ائمہ کرام کے عقائد کے مخالف ہے، چھوڑ کر سچا مذہب اہلِ سنت والجماعت اختیار کیا"

 آیاتِ بینات کی تصنیف کی ضرورت

آیاتِ بینات کی تصنیف کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کی داستان خود مصنف کی زبان قلم سے سنیئے وہ لکھتے ہیں!

" چونکہ میرے عزیز و اقارب اور بھائی بھتیجے اکثر اپنے قدیم مذہب (شیعہ) پر ہیں اور مجھے گمراہ جانتے ہیں اس لیے میں ان پر دلائل عقلیہ کو ظاہر کرتا ہوں جنہوں نے میرے دل کو ان کے مذہب سے متنفر کیا اور ان شواہد نقلی کو بیان کرتا ہوں جن کے سبب سے میں نے مذہب اھلِ السنت والجماعت کو اچھا جان کر اختیار کیا، اسی واسطے میں یہ رسالہ اہلِ سنت والجماعت کی خوبیوں میں لکھتا ہوں، خدا کرے میرے اور بھائی اس کو نظر انصاف سے دیکھیں اور اپنے باطل عقیدوں کو چھوڑیں------اللھم آمین"

نواب محسن الملک مرحومؒ نے جب اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر مذہب اہلِ السنت والجماعت اختیار کرلیا تو لوگوں میں بڑی چہ میگوئیاں ہوئیں بعض حضرات نے ان کے اعزہ سے تبدیلی عقائد کا سبب دریافت کیا جس کے جواب میں ان کو بتایا گیا

" خود مہدی علیؒ کی مذہبی معلومات محدود اور ناقص تھیں اس لیے انکے بعض ملنے والوں نے بہکا سکھا کر انھیں اپنی راہ پر لگا لیا"

یہ بات محسن الملک مرحومؒ کو بھی معلوم ہوئی انھیں اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے یہ کتاب لکھنی پڑی اس میں انھوں نے پوری طرح بتا دیا کہ

" میں نے ناقص معلومات کی بنا پر مذہب تبدیل نہیں کیا بلکہ مذاہبِ کے گہرے مطالعہ نے مجھے اس اقدام پر مجبور کیا ہے"

 آیاتِ بینات کا مختصر تعارف

جہاں تک آیاتِ بینات کا تعلق ہے,تحفہ اثنا عشریہ کے بعد اپنی نوعیت اور شان کی یہ ایک منفرد تصنیف ہے، یہ نقش ایک ایسی ہستی سے نے تیار کیا ہے جو شیعہ مذہب کی تمام جزائیات و تفصیلات اور باریکیوں سے واقف تھی اور جس نے دونوں مذاہبِ کا عمیق مطالعہ کرکے شیعہ مذہب کی خامیوں اور کوتاہیوں کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا اس کتاب میں انھوں نے اپنی تحقیقات کے نتائج جمع کیے ہیں نیز اس کتاب میں بعض وہ معلومات بھی فراہم کی گئی ہیں جن سے عام طور پر لوگوں کو واقفیت نہیں تھی مثلاً طینت کا مسئلہ کافی پڑھے لکھے لوگ بھی اس عقیدہ کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے جو اس مسئلہ سے وابستہ ہے, محسن الملکؒ نے عام آدمیوں کو نہ صرف اس سے روشناس کرایا بلکہ اس کے علاوہ اور بھی متعدد عجائبات و طلسمات ہیں جن کو اس کتاب نے بے نقاب کیا ہے کتاب کا انداز بیان نہایت دلکش ہے اس میں سنجیدگی، وقار اور اثر و تاثیر ہر جگہ دکھائی دیتی ہے، ہر بات کی تائید یا تردید میں کئی کئی دلیلیں پیش کے گئی ہیں اور وہ سب ہی قوی ہیں ، کتاب کا موضوع اگرچہ مذہبی مسائل ہیں لیکن لہجہ یا عبارت میں کہیں بھی یبوست کی جھلک دکھائی نہیں دیتی بلکہ بعض جگہ مصنفؒ نے مزاحیہ اور ظریفانہ اندازِ اختیار کر کے زبان کے حسن کو اور بھی نکھار دیا ہے ۔ یہ کتاب مناظرہ کرنے والوں کے لیے تو ایک قیمتی تحفہ ہے ہی، انکے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی ایک قابل مطالعہ کتاب ہے، ہر شخص کے واسطے ضروری ہے کہ وہ اپنے ایمان کو تازہ اور عقائد کو مضبوط کرنے کےلیے یہ کتاب نہایت توجہ سے پڑھے، اگر ایسا کیا گیا تو یقین ھے کہ راہ راست سے بھٹکنے کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے اس کتاب کا انداز بیان مناظرانہ نہیں بلکہ محققانہ اور بڑی حد تک ناصحانہ ہے انکی اس محنت اور وسعت مطالعہ اور صحت نقل و اقتباس کو اگر کوئی دیکھ لے تو داد دئیے بغیر کوئی انصاف پرور نہیں رہ سکتا، جو کچھ لکھا اکثر و پیشتر خود شیعہ علماء اور مجتہدین کرام کی کتابوں سے اخذ کیا اور ہر جگہ حوالے بھی دیتے گئے نہ کہیں نقل و اقتباس میں کتربیونت کی اور نہ کہیں مناظرانہ انداز میں مخالف کو نیچا دکھانے کی کوشش فرمائی بلکہ ناصحانہ و مشفقانہ انداز میں بات سمجھائی

انہوں نے اس کتاب" آیاتِ بینات" کے علاؤہ اور بھی متعدد کتابیں لکھیں اور حق یہ ہے کہ انکے قلم سے اس کتاب کے علاؤہ کوئی اور کتاب نہ نکلتی اور نہ کوئی مضمون لکھتے پھر بھی انکی یہی کتاب انکے وسیع مطالعہ اور ذوق کے لیے شاہد و عادل ہوتی اور اس بات کی دلیل قاطع ہوتی کہ محسن الملکؒ ایک بے لاگ حق پسند اور بے تعصب محقق تھے انکی تقاریر کا مجموعہ" تقاریر محسن الملک" کے نام سے چھپا ہے اور انکی سوانح عمری بھی "سوانح محسن الملک" کے نام سے شائع ہوئی ہے آیاتِ بینات کی تالیف کے بعد موصوف پینتالیس سال زندہ رہے لیکن اس طویل عرصہ میں شیعہ اس کتاب کا جواب نہ دے سکے

ان کا انتقال بتاریخ 9 رمضان 1325ء ھ بمطابق 16 اکتوبر 1907 ء بمقام شملہ ہوا

 انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

آیاتِ محکمات اور اس کی حیثیت

 آیاتِ بینات کا منظر عام پر آنا تھا کہ ایک شورش برپا ہوگئی چونکہ اس میں انہوں نے شیعہ مذہب پر بہت سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا اور شیعہ مذہب پر بہت سے اعتراضات کیے تھے اس لیے فریق مخالف کی جانب سے جواب دینا ضروری سمجھا گیا ان کی زندگی میں تو کوئی جواب دینے کی جرات نہ کر سکا مگر جب ان کی وفات ہو گئی تو ان کے ایک عزیز نے جواب میں ایک کتاب لکھی جو دو ضخیم جلدوں پر مشتمل تھی آیاتِ بینات کے وزن پر اس کا نام "آیاتِ محکمات "رکھا گیا لیکن سچ پوچھئے تو اس کتاب کی ضخامت کو خیر ضروری تفصیلات اور ضرورت سے زیادہ جلی خط سے بڑھایا گیا تھا ایک صفحہ پر قال کے عنوان سے اعتراض ہے اور دوسرے صفحہ پر اس کا جواب پھر جواب کے طور پر وہی گھسی پٹی روایات دہرا دی گئی ہیں جن کو رد کیا جاچکا تھا دونوں کتابوں کے طرز بیان اور طریقہ استدلال کو ملا کر دیکھ لیاجائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ" آیاتِ محکمات" کو لکھ کر اس کے مصنف نے گویا منہ چڑایا ہے

 مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کی رائے

 مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں نواب محسن الدولۃ محسن الملک منیر نواز جنگ سید مہدی علیؒ بن سید ضامن علی حسینی اس دور کے ممتاز ترین فضلاء عالی دماغ اور ہندوستان کی جدید تعلیم یافتہ نسل کے محسنوں اور معماروں میں سے تھے اپنے مطالعہ اور فطری سلامت طبع اور غور و فکر کی صلاحیت کی بنا پر سنی مذہب اختیار کیا نواب محسن الملکؒ بڑی طاقتور شخصیت کے مالک تھے سحر بیان مقرر اور پرزور لکھنے والے تھے ان کی کتاب آیاتِ بینات اپنے موضوع پر ایک معرکۃ الآرا کتاب ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بارے میں شیعہ فرقہ کے عقیدے اور رویے کو دیکھ کر نواب محسن الملک مولوی سید محمد مہدی علی صاحبؒ نے آیاتِ بینات میں جو کچھ لکھا ہے اس پر اضافہ اور اس سے بہتر طریقے پر اس نفسیاتی و ذہنی رد عمل کا اظہار آسان نہیں جو کہ ایک سلیم الطبع انسان پر اس سے واقف ہونے کے بعد ہوتا ہے ( ماخوذ ازدین اسلام اور اولین مسلمانوں کی دو متضاد تصویریں صفحہ 60۔61)