Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مقتل ابی مخنف مصنفہ لوط بن یحیی

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

مقتل ابی مخنف مصنفہ لوط بن یحیی

اہلِ تشیع کے ہاں سیدنا حسینؓ کے غم ماتم کرتے ہوئے خون بہانا جائز ہے، جب اس پر اہلِ سنت کی طرف سے اعتراض ہوتا ہے تو اس وقت مقتل ابی مخنف کا حوالہ پیش کرتے ہیں اور اسے اہلِ سنت کی معتبر کتاب لکھ کر اتمام حجت کرتے ہیں ۔

آئیے پہلے ان کا ایسا کرنا ثابت کریں پھر مقتل ابی مخنف پر گفتگو کریں گے۔

 ماتم اور صحابہ کرامؓ

 ماتم سیدنا حسینؓ میں سیدہ زینبؓ کا خون بہانا

( اہلِ سنت کی معتبر کتاب مقتل ابی مخنف بحوالہ ینابیع المودۃ صفحہ 350 پر ہے )

فلما رأت زينبؓ رأس اخيه قد اتو بالرؤس مقدما عليها نطحت جبهتها بمقدم الاقتاب خرج دم منها.

 ترجمہ: جب سیدہ زینب بنت علیؓ نے اپنے بھائی کے سر کو دیکھا جو سب سروں کے آگے آگے تھا، (اب چونکہ بازار کوفہ ہے اور مصیبت کی انتہا ہے، نبی زادیوں پر لوگ صدقہ کی کھجوریں پھینک رہے ہیں، قتل امام مظلوم کی خوشی میں طبل بجائے جارہے ہیں، بازار سجے ہوئے ہیں، نواسۂ رسولﷺ کا سر نیزے پر ہے اور نبیﷺ کی نواسیاں سر برہنہ اونٹوں پر سوار ہیں، آلِ نبیﷺ کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ یہود و نصارٰی بھی رحم کھائے ہوئے ہیں) ایسی حالت میں ام المصائب نے اپنا سر چوب محمل پر مارا اور خون جاری ہوگیا، بہن کا سر اور بھائی کا سر ہم رنگ ہوگئے ۔

( ماتم اور صحابہ تصنیف غلام حسین نجفی شیعی صفحہ 157 ، 158) 

جواب:

ینابیع المودۃ کے حوالہ سے نجفی نے مقتل ابی مخنف کا حوالہ پیش کیا، گویا حوالہ ایک لیکن کتابیں دو ہوگئیں، جہاں تک ینابیع المودۃ کا تعلق ہے جو سلیمان بن ابراہیم کی تصنیف ہے ہم اس کے متعلق گزشتہ اوراق میں بحث کرچکے ہیں، یہ تو اہلِ سنت کی کتاب ہی نہیں،اب دوسری کتاب مقتل ابی مخنف کے بارے میں نجفی نے جو دھوکہ دینے کی کوشش کی، ہم اس کی پردہ دری کرتے ہیں، اس کے مصنف کا نام لوط بن یحیی ہے، یہ وہ شخص ہے جس کے کٹر شیعہ ہونے میں نہ کسی شیعہ کو شک ہے اور نہ ہی سنی کو، اگر ہے تو نجفی اینڈ کمپنی کو ،لوط بن یحیی کون ہے ؟ دونوں طرف کی کتب سے ملاحظہ کیجئے ۔

 صاحب مقتل ابی مخنف شیعہ ہونے پر سنی شیعہ علماء کی نصوص

 میزان الاعتدال

لوط بن يحي أبو مخنف اخباري تالف لا يوثق به تركه أبو حاتم وغيره، وقال الدار قطني ضعيف، وقال يحيى بن معين ليس بثقة، وقال مرة ليس بشيء، وقال ابن عدي شيعي محترق صاحب اخبارهم.

(1۔ میزان الاعتدال جلد دوم، صفحہ 360 مطبوعہ مصر)

( 2۔ لسان المیزان جلد چہارم، صفحہ 492 مطبوعہ بیروت)

 ترجمہ: لوط بن یحیی ابو مخنف قصے کہانیاں بیان کرنے والا غیر معتبر راوی ہے، ابو حاتم نے اس کی روایت کو چھوڑا، دار قطنی نے اسے ضعیف کہا، یحییٰ بن معین اسے غیر ثقہ کہتے ہیں، مرۃ اسے لیس بشیء اور ابن عدی نے اسے شیعی کہا اور سخت جلا بُہنا قصہ گو تھا۔

الکنی و الالقاب:

أبو مخنف لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف بن سليم الازدي شيخ أصحاب الأخبار بالكوفة وجههم كما عن (نجش) وتوفي سنة 157 يروي عن الصادق (ع) ويروي عنه هشام الكلبي وجده مخنف بن سليم صحابي شهد الجمل في أصحاب علي (ع) حاملا رأية الازد فاستشهد في تلك الوقعة سنة 36 وكان أبو مخنف من اعاطم مؤرخي الشيعة

(الكنى والالقاب جلد اول، صفحہ 155 مطبوعہ تھران طبع جديد) تذكرة ابو مخنف 

ترجمہ: ابو مخنف لوط بن یحیی ازدی کوفہ کے ان بڑے لوگوں میں سے تھا جو واقعات اور قصہ کہانیاں بیان کرنے والے تھے، یہ بات نجاشی سے منقول ہے، سن 157 ھ میں فوت ہوا، سیدنا صادقؓ سے روایت کرتا ہے اور اس سے آگے ھشام الکلبی نے روایت کی ہے، اس کا دادا مخنف بن سلیم صحابی تھا، جنگ جمل میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کے طرفداروں میں ازد کا جھنڈا اٹھائے ہوئے شریک ہوا تھا اور اسی جنگ میں شہادت پائی، یہ سن 36 کا واقعہ ہے، خود ابو مخنف شیعہ مؤرخین کے اکابر میں سے تھا ۔

صاحب مقتل لوط بن یحیی مشہور امامی شیعہ ہے 

 شیعہ علماء کا متفقہ فیصلہ

تنقیح المقال:

وتنقيح المقال في حال الرجل أنه لا ينبغي التأمل في كونه شيعيا اماميا كما ذحرح بذلك جماعة وانكار ابن أبي الحديد ذالك بقوله في شرح النهج و أبو مخنف من المحدثين وممن يري صحة الامامة بالاختبار وليس من الشيعة ولا معدودا من رجالها، انتهي من الخرافات التي تعودت العامة عليها في مذهبهم وفيما يرجع إليه كيف وقد صرح جماعة منهم بتشيعه بل جعل بعضهم تشيعه سببا لرد روايته كما هي عادتهم غالبا إلا تري الي قول صاحب القاموس في مادة خ ن ف و مخنف كمنبر و أبو مخنف لوط بن يحيى اخباري شيعي تالف متروك انتهي ، والعجب العجاب إن ابن أبي الحديد نطق بما سمعت بعد أن روي اشعارا في أن عليا وصي رسول الله وقال ذكر هذه الاشعار والاراجز باجمعها أبو مخنف لوط بن يحيى في كتاب وقعة الجمل انتهي فان نقله تلك الاشعار شاهد لتشيعه والا لم يكن ليرويها كما هي عادة أهل السنة غالباً وبالجملة فكون الرجل شيعيا اماميا مما لا ينبغي الريب فيه.

( تنقیح المقال فی علم الرجال جلد دوم، صفحہ 44 من ابواب اللام مطبوعہ تھران طبع جدید)

ترجمہ: حقیقت حال یہ ہے کہ ابو مخنف لوط بن یحیی کے امامی شیعی ہونے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیئے جیسا کہ اس کے بارے میں ایک بہت بڑی محققین کی جماعت نے تصریح کی ہے (کہ یہ شیعہ ہے) نہج البلاغہ کی شرح میں ابن ابی الحدید کا یہ کہہ کر اس کے شیعہ ہونے کا انکار کرنا ایک بکواس سے کم نہیں ہے، ابو مخنف محدثین میں سے ہے اور ان لوگوں میں سے ہے جو امامت کو بالاختیار کہتے ہیں، پھر ابنِ ابی الحدید نے یہ بھی کہا کہ ابو مخنف کا شمار شیعہ رجال میں نہیں ہوتا، یہ وہ بکواس ہے جو اہلِ سنت کیا کرتے ہیں بھلا یہ انکار کب درست ہوسکتا ہے جبکہ ایک بہت بڑی جماعت نے اس کے شیعہ ہونے کی تصریح کی ہے بلکہ بعض نے تو اس کی روایت کے مردود ہونے کی وجہ سے اس کا شیعہ ہونا قرار دیا ہے، جیسا کہ ان کی عادت ہے، کیا صاحب قاموس کا یہ قول تمہارے پیش نظر نہیں ہے جو اس نے خ ن ف کے مادہ پر بحث کے دوران کہا، قول یہ ہے ، مخنف بروزن منبر ہے اور ابو مخنف لوط بن یحیی قصے کہانیاں بیان کرنے والا شیعہ ہے، اس کی تالیفات قابلِ اخذ نہیں ہیں، عجیب سے عجیب تر یہ ہے کہ ابنِ ابی الحدید نے ابو مخنف کے بارے میں شیعہ نہ ہونے کی بات کی لیکن وہ بھی اس وقت جب اس کے ایسے اشعار نقل کر چکا تھا جن میں اس نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کو رسول اللہﷺ کا وصی کہا ہے اور ان اشعار کے درج کرنے کے بعد خود ابنِ ابی الحدید نے لکھا ہے کہ یہ اشعار اور رجزیہ کلام ابو مخنف کا ہے اور اس نے انہیں کتاب واقعۃ الجمل میں لکھا ہے، ابنِ ابی الحدید کا یہ شعر ذکر کرنا ابو مخنف کے شیعہ ہونے کی دلیل ہے اور اگر یہ شیعہ نہ ہوتا تو اس کے اشعار کی روایت نہ کرتا جیسا کہ اکثر اہلِ سنت کی عادت ہے، مختصر یہ کہ ابو مخنف لوط بن یحیی امامی شیعہ ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس میں شک و ریب نہیں ہونا چاہیئے ۔

 تنقیح المقال:

وقال النجاشي لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف بن سالم الازدي الغامدي أبو مخنف شيخ أصحاب الأخبار بالكوفة و وجههم وكان يسكن الي ما يرويه روي عن جعفر بن محمد......و صنف كتبا كثيرة منها كتاب المغازي، كتاب السقيفة، كتاب الردة، كتاب فتوح الاسلام، كتاب فتوح العراق، كتاب فتوح خراسان، كتاب الشوري، كتاب قتل عثمان، كتاب الجمل، كتاب صفين، كتاب النهروان، كتاب الحكمين، كتاب الغارات، كتاب مقتل أمير المؤمنينؓ، كتاب مقتل الحسينؓ، كتاب مقتل الحسنؓ.....الخ

( تنقیح المقال جلد دوم، صفحہ 43 من ابواب اللام مطبوعہ تھران)

ترجمہ: نجاشی نے کہا کہ لوط بن یحیی ابو مخنف کوفہ کے قصہ کہانیاں بیان کرنے والوں میں سے بڑا آدمی تھا اور سیدنا جعفر صادقؓ سے جو روایات اس نےکیں اس پر مطمئن تھا، اس کی بہت سی تصانیف ہیں مثلاً ؛ کتاب الغازی، کتاب السقیفہ، کتاب الردۃ، کتاب فتوح الاسلام، کتاب فتوح العراق، کتاب فتوح خراسان، کتاب الشوریٰ، کتاب قتلِ عثمانؓ، کتاب الجمل، کتاب صفین، کتاب نہروان، کتاب الحکمین، کتاب الغارات، کتاب مقتل امیر المؤمنین، کتاب مقتل حسنؓ و حسینؓ۔۔۔۔۔الخ

 اعیان الشیعه

مؤلفوا الشيعة في التاريخ والسير والمغازي.....ومنهم أبو مخنف لوط بن يحيى الازدي الغامدي قال النجاشي من أصحاب الأخبار بالكوفة وجههم وصنف كتبا كثيرة منها المغازي، فتوح الشام..الخ......

وقال ابن النديم في الفهرست قرات بخط احمد بن الحارث الخزاز ، قالت العلماء أبو مخنف بأمر العراق واخبارها وفتوحها يزيد علي غيره والمدائني بأمر الخراسان والهند والفارس والواقدي بالحجاز والسيرة وقد اشتركو في فتوح الشام واثنان من الثلاثة شيعة أبو مخنف والواقدي.

(اعیان الشیعہ للسید محسن الامین جلد اول، صفحہ 152 مطبوعہ بیروت طبع جدید)

مؤلفوا الشیعہ فی التاریخ و السیر و المغازی 

 ترجمہ: جن شیعہ علماء نے فن تاریخ، سیرت اور مغازی پر کتب لکھیں، ان میں سے ایک ابو مخنف لوط بن یحیی ازدی غامدی بھی ہے، نجاشی نے کہا کہ یہ کوفہ کے قصہ گو لوگوں میں سے مشہور آدمی تھا، اس نے بہت سی کتب تصنیف کیں، ان میں سے مغازی، فتوح الشام میں فہرست میں ابن ندیم نے کہا کہ میں نے احمد بن حارث خزاز کے ہاتھوں سے لکھی تحریر پڑھی، علماء کہتے ہیں کہ عراق کے واقعات و فتوحات کے معاملہ میں ابو مخنف تمام تاریخ دانوں سے آگے ہے اور مدائنی خراسان اور ہند و فارس کی تاریخ میں سبقت رکھتا ہے، تاریخ حجاز اور سیرت کے موضوع پر واقدی کا نمبر ہے، یہ تینوں فتوح الشام میں برابر ہیں، ان تینوں میں سے ابو مخنف اور واقدی شیعہ ہیں۔

 *اعیان الشیعه:*

جماعة من الشيعة امتازوا عن غيرهم في الرجال والتاريخ والانساب.........أبو مخنف لوط بن يحيى الازدي في قاموس اخباري شيعي

(اعيان الشيعه جلد اول، صفحہ 156)

 *ترجمہ:* فن رجال، تاریخ اور انساب کے معاملہ میں وہ شیعہ علماء جو دوسروں سے اس فن میں ممتاز ہیں۔۔۔۔۔۔ ان میں سے ایک ابو مخنف لوط بن یحیی ازدی بھی ہے، القاموس میں ہے کہ یہ اخباری اور شیعی تھا ۔

*الذریعة:* 

مقتل أمير المؤمنينؓ لابي مخنف لوط بن يحيى يروي عنه هشام الكلبي الذي توفي سن 205 صاحب مقتل أبي عبدالله الحسين، مقتل أبي مخنف.مر بعنوان مقتل أبي عبدالله الحسين۔مقتل أبي عبدالله الحسين،لابی مخنف

(الذريعة جلد 22، صفحہ 29 تا 31 مطبوعہ بیروت طبع جدید)

 *ترجمہ:* مقتل امیر المومنینؓ نامی کتاب ابو مخنف لوط بن یحیی کی تصنیف ہے، اس سے ھشام کلبی نے روایت کی جو 205 میں فوت ہوا۔

مقتل ابی عبداللہ الحسین کا مصنف بھی لوط بن یحیی ہے۔

  *نوٹ:* 

جیسا کہ ہر ذی علم جانتا ہے کہ آقائے بزرگ طہرانی نے الذریعہ الی تصانیف الشیعہ میں ان لوگوں کی تصانیف و تالیفات کا تذکرہ کیا ہے جو شیعہ ہوئے، جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے جبکہ اس کتاب میں لوط بن یحیی ابو مخنف کا بھی تذکرہ موجود ہے، جو ہم الذریعہ وغیرہ کے حوالہ سے لکھ چکے ہیں، جب ابو مخنف اور اس کی تصنیفات دونوں مسلک شیعہ پر ہیں تو پھر اس کو سنی کیونکر سمجھا جائے۔

 *لمحہ فکریہ:* 

ابو مخنف لوط بن یحیی کے بارے میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع دونوں کی کتب کے حوالہ جات ملاحظہ کرنے کے بعد اس کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے، مسلک اہلِ سنت کے حوالہ سے اسے ایسا شیعہ لکھا گیا جو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے حسد و بغض اور ان کے فضائل و مناقب سے چڑنے والا تھا، اور کتب شیعہ نے اسے ان شیعوں میں سے ایک ممتاز شیعہ لکھا ہے جو فن تاریخ وغیرہ میں ید طولی کے مالک تھے، پھر عبداللہ مامقانی صاحب تنقیح المقال نے تو ابن ابی الحدید ایسے بزرگ شیعہ کی اس بات پر مرمت کردی کہ وہ ابو مخنف کو شیعہ کیوں نہیں مانتا، اور اس کی اس بات کو خرافات اور ایک عجوبہ قرار دیا، ان تمام تصریحات کے باوجود نجفی کا اسے سنی کہنا کس قدر حواس باختی کا مظہر ہے۔

 *مغالطہ:*

نجفی نے مقتل ابی مخنف کا مذکورہ حوالہ ذکر کرنے کے بعد ایک اعتراض و جواب بھی لکھا، ہم چاہتے ہیں کہ کچھ اس کا تذکرہ بھی ہو جائے ،

اعتراض یہ لکھا کہ لوط بن یحیی کو اہلِ سنت کہتے ہیں کہ یہ شیعہ ہے لہٰذا اس کا حوالہ اہلِ سنت کے خلاف حجت نہیں بن سکتا؟ 

نجفی نے اس کا جواب یہ دیا کہ شاہ عبد العزیز صاحبؒ نے امام ابوحنیفہؓ کو جناب زید بن علی کا شیعہ لکھا ہے تو پھر ان کی باتوں کو بھی سنیوں کا اعتبار نہ کرنا چاہیئے حالانکہ تقریباً تمام اہلِ سنت ان کے ہی متقلد ہیں پھر لکھا کہ سنیوں کی یہ عادت ہے کہ جس کا انکار کرنا ہو اس کو شیعہ کہہ دیتے ہیں۔۔۔الخ

   نجفی کہ اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اہلِ سنت کی کتاب میں لوط بن یحیی کو جو شیعہ لکھا گیا ہے وہ جان چھڑانے کے لئے ہے ورنہ وہ حقیقت میں سنی ہے، اب ذرا مغالطہ کو سامنے رکھیں، شاہ عبد العزیز صاحبؒ نے امام ابوحنیفہؒ کو زید بن علی کا جس معنی میں شیعہ لکھا وہ طرفدار اور حمایتی کے معنی میں ہے اور یہ سیدنا اعظمؓ کی بہت بڑی منقبت ہے اور مسلک اہلِ سنت کے حق میں ہونے کی دلیل ہے کیونکہ انہوں نے آڑے وقت میں بھی آل رسولﷺ کا دامن نہ چھوڑا اور اسی کی خاطر جان بھی دے دی لیکن لوط بن یحیی کو شیعہ جو کہا گیا وہ اس معنی میں نہیں بلکہ ایک نظریہ اور عقائد کے اعتبار سے وہ شیعہ ہے، جس کی کچھ تفصیل گزشتہ اوراق میں پیش کی جاچکی ہے، اگر دونوں ایک ہی قسم کے شیعہ تھے تو ثابت کرنا پڑے گا کہ سیدنا اعظمؓ عصمت ائمہ کے قائل تھے ؟ کیا ان کے نزدیک حضرات انبیاء کرامؑ سے ائمہ کا درجہ بلند تھا ؟ کیا وہ مروجہ ماتم کو شعار اسلام سمجھتے تھے ؟

   • قارئین کرام! آپ بخوبی جان چکے ہوں گے کہ نجفی نے مقتل ابی مخنف کو اہلِ سنت کی معتبر کتاب لکھ کر اپنی دوکان چمکانے کی کوشش کی ہے اور اپنے ہم نواؤں سے بَلے بَلے کروانے کی خاطر یہ ڈھونگ رچایا ہے، تاکہ ماتمی کہہ سکیں، لو بھائی۔۔! ماتم کرنا تو سنیوں کی کتابوں سے بھی ثابت ہے ، دین فروشی اور اپنے گرؤوں کو سنیوں میں داخل کرکے کتے اور خنزیر کرو اتنا کوئی دوسرا حجۃ الاسلام کیوں کرتا۔

 (فَاعۡتَبِرُوۡا يَااُوۡلِيۡ الأَبۡصَار)