رضاعت پر شیعہ کا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر اعتراض کے جواب
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓرضاعت پر شیعہ کا سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر اعتراض کے جواب
اسلام میں بالغوں کی رضاعت کا تصور اور حدیث بہت سے شیعہ صحیح مسلم کی ایک روایت کا سہارا لے کر اس بات کا جواز پیش کرتے ہیں کہ اسلام میں بالغوں کی رضاعت ( اُنہیں دودھ پلانے) جائز ہے اور اس روایت کے سہارے بہت غلیظ انداز میں اسلام کا مذاق اڑایا جاتا ہے، ہم اس تحریر میں اس روایت سے متعلق تمام اشکالات و اعتراضات کا جائزہ لیں گے۔
اس حوالے سے موجود حدیث، صحیح مسلم اور بعض دوسری کتابوں میں اس حوالے سے کچھ روایتیں موجود ہیں، ان میں سے ایک کچھ یوں ہے:
سیّدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
سہلا بنت سہیل بنت عمرؓ حضورﷺ کے پاس تشریف لائیں، اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ سالم (ابو حذیفہ کا آزاد کردہ غلام) ہمارے گھر میں رہ رہا ہے، اور وہ بالغ ہو چُکا ہے جیسے کہ ہر لڑکا ہوتا ہے، اور اسے (جنسی مسائل) کا بھی علم ہو چکا ہے، جیسے لڑکوں کو علم ہو جایا کرتا ہے جس پر آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی رضاعت (اپنا دودھ پلاؤ) کرو تاکہ وہ تمہارے لیے نا جائز (شادی کے لیے) ہو جائے۔
(صحیح مسلم: حدیث 2636)
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: تو اسے دودھ پلا دے اس سے حذیفہ کے دل میں جو کراہت ہے وہ جاتی رہے گی، کہتی ہیں اللہ کی قسم پھر میں نے ابو حذیفہؓ کے چہرہ پر ناگواری کے اثرات نہیں دیکھے (صحیح مسلم: حدیث 2638)
یہی روایت امام مالکؒ کی موطا (حدیث 1113) اور حدیث کی بعض دُوسری کُتب میں بھی موجود ہے۔
روایت میں بیان کیے گئے فریقین کے مابین کوئی جسمانی ربط موجود نہیں تھا، پہلی بات جس کی وضاحت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سہلا بن سہیلؓ اور سالم کے درمیان کوئی جسمانی تعلق موجود نہیں تھا۔
حدیث میں لفظ أَرْضِعِيهِ استعمال کیا گیا ہے اور یہی وہ کام تھا جو حضورﷺ نے سہلا ؓ کو بتایا یہ لفظ رضاع سے نکلا ہوا ہے اور اس کا مطلب ہرگز چھاتیوں سے دودھ پینا نہیں ہے قدیم عربی ادب کے ایک شاہکار "تاج العروس" میں اس لفظ کو کچھ یوں استعمال کیا گیا ہے:
رضع (من) ثدي أمه
ترجمہ: اس نے اپنی ماں کی چھاتیوں سے رضاع کی (دودھ پیا) اس مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رضاع کا مطلب "چُوسنا" نہیں ہو سکتا بلکہ یہ پلانے کے زُمرے میں آتا ہے اگر اس لفظ کا مطلب چھاتیوں سے چُوسنا ہوتا تو اس جملے میں صرف یہی لفظ استعمال کیا جاتا دوبارہ چھاتیوں کا ذکر ایک ہی جملے میں نہ آتا اس لفظ کا حقیقی معنی پلانا ہی ہے اور صرف سیاق و سباق سے یہ پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پلانے کے لیے استعمال ہوا ہے یا چُوسنے یعنی کہ چھاتیوں سے دودھ پینے کے زُمرے میں۔
واضح روایت:
صحیح مسلم کی روایات سے سیاق و سباق ٹھیک سے واضح نہیں ہوتا، اس لیے ہمیں مزید جانچ پڑتال کے لیے کچھ دوسرے ماخذ کا جائزہ لینا ہو گا
محمد بن عمر (الواقدی) نے ہمیں بتایا محمد بن عمداللہ، الظہری کے بھتیجے اپنے والد کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ ایک پیالے یا گلاس میں دودھ اکٹھا کیا جاتا تھا، اور سالم پانچ دن تک ہر روز یہ دودھ پیا کرتا تھا اس کے بعد وہ گھر میں داخل ہوتا تھا جب کہ سہلا ؓ کا سر ڈھکا ہوا نہیں ہوتا تھا اور یہ اجازت اللہ کے رسولﷺ کی جانب سے صرف سہلا بنت سہیل بنت عمرؓ کو دی گئی تھی(ابنِ سعد، طبقات الکبریٰ: جلد 8 صفحہ271، رقمطراز ابن حجر، الاصابۃ: جلد 4 صفحہ11)
امہات المومنینؓ کا یہ مؤقف ہے کہ یہ ایک خاص کیس تھا اور اس کی عام اجازت نہیں ہے،
ابو عبیدہ بن عبداللہ بن زمعہؓ نے مجھے خبر دی کہ ان کی والدہ زینب بنت ابی سلمہؓ نے انہیں بتایا کہ ان کی والدہ نبیﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہؓ کہا کرتی تھیں: نبیﷺ کی تمام ازواج نے اس بات سے انکار کیا کہ اس (بڑی عمر کی) رضاعت کی وجہ سے کسی کو اپنے گھر میں داخل ہونے دیں، اور انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے کہا اللہ کی قسم! ہم اسے محض رخصت خیال کرتی ہیں جو رسول اللہﷺ نے خاص طور پر سالمؓ کو دی تھی، لہٰذا اس (طرح کی) رضاعت کی وجہ سے نہ کوئی ہمارے پاس آنے والا بن سکے گا اور نہ ہمیں دیکھنے والا(صحیح مسلم: حدیث 3605)
رضاعت کا عام قانون کچھ اس طرح ہے:
“چھاتیوں سے دودھ پلانے کا تعلق صرف اس وقت قائم ہو سکتا ہے جب کہ بچے کی واحد غذاء دودھ ہو”
(صحیح بخاری: حدیث 4712)
امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ: صحابہؓ اور ان کے بعد آنے والے علماء اور مشائخ یہ کہتے ہیں کہ چھاتیوں سے دودھ پلانے کا رشتہ دو سال کی عمر کے بعد ثابت نہیں ہوتا (شرح النووی: جلد 5 صفحہ 182)
یہ بات متفق علیہ ہے، اس بات سے جس نے اختلاف کیا ان میں امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ شامل ہیں لیکن ان دونوں کی بھی یہ رائے نہیں تھی کہ بالغ بھی چھاتی سے دودھ پی سکتے ہیں، بلکہ انہوں نے دو سال کی میعاد میں کچھ ماہ کی چُھوٹ بتائی ہے، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور باقی امہات المومنین رضی اللہ عنھن کا یہ ماننا تھا کہ یہ صرف حضرت سالمؒ کے لیے ایک رعایت تھی، بعد میں آنے والے علماء میں سے بھی شاذ و نادر ہی کوئی ایسا عالم ملے گا جس نے اس بات کی اجازت دی ہو، زیادہ تر علماء نے بھی وہی مؤقف اختیار کیا ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امہات المومنینؓ کی اکثریت کا تھا۔
یہ کیس مخصوص کیوں تھا؟
پس منظر:
اب تھوڑا اور گہرائی میں جا کر دیکھتے ہیں کہ یہ کیسے ایک خاص کیس تھا اور اس کا اطلاق دوسرے لوگوں پر نہیں ہوتا، موطا امام مالکؒ کی حدیث 1113 میں اسکا پس منظر پڑھنے کو ملتا ہے، ابو حذیفہ ابن عتبہ ابن ربیعہؓ صحابی اور جو بدر کے وقت بھی موجود تھے انہوں نے حضرت سالمؓ کو گود لیا جیسے کہ حضورﷺ نے زید ابن حارثہؓ کو گود لیا(اور اسے اپنا بیٹا مانا) جب اللہ نے زید بن حارثہؓ کے بارے میں وحی نازل فرمائی کہ انہیں ان کے حقیقی والد کے نام سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک انصاف کے زیادہ قریب ہےاور اگر تمہیں ان کے والد کا پتہ نہیں ہے تو وہ دین میں تمہارے بھائی اور مددگار ہیں (سورۃ الاحزاب: آیت 5)
گود لینے والے بچوں کو ان کے والد کے نام سے پکارا جاتا تھا اور جہاں والد کا نام پتہ نہیں ہوتا تھا وہاں وہ مولا یا مددگار ہوتے تھے۔
سہلا بنت سہیلؓ جو کہ ابو حذیفہؓ کی بیوی تھیں اور عمر ابن لوئے کے قبیلے میں سے تھیں، ایک دن رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور کہا کہ ہم سالمؓ کو اپنا بیٹا سمجھتے ہیں اور وہ اس وقت بھی میرے پاس آ جاتا ہے جب کہ میں نے پردہ نہیں کیا ہوتا، اور ہمارے پاس صرف ایک کمرہ ہے، آپﷺ ہماری اس حالت کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے؟حضورﷺ نے فرمایا: کہ اسے پانچ دن اپنا دودھ دو جس سے وہ تمہارا محرم بن جائے گا، جس کے بعد سہلا رضی اللہ عنھا نے حضرت سالمؓ کو اپنا رضاعی بیٹا سمجھا(موطا امام مالک: حدیث 1113)
اس سے پوری بات کی سمجھ آ جاتی ہے حضرت حذیفہؓ نے حضرت سالمؓ کو گود لیا اور وہ اور ان کی بیوی دونوں سالمؓ کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے، سالمؓ کا معاملہ بھی زید بن حارث والا تھا، حضرت زیدؓ کو سیدنا خدیجہؓ کی موجودگی میں گود لیا گیا تھا، لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات سورۃ الاحزاب کی پردے کے متعلق آیات سے پہلے ہو چکی تھی اور دوسری بات یہ کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے والدین کا پتہ تھا لیکن سالم کے آباء و اجداد کا کچھ پتہ نہیں تھا (طبقات الکبریٰ: جلد 3 صفحہ87) جب سورۃ الاحزاب نازل ہوئی تو دو مسئلے سامنے آئے، آیت نمبر پانچ کے مطابق گود لیے جانے والے بچوں کو ان کے والد کے نام سے تعارف کرایا جائےاور اگر والد کا نہ پتہ ہو تا انہیں بطور اپنا بھائی متعارف کروایا جائے اور آیت 59 میں خواتین کے لیے پردے کا حکم دیا گیا۔ آیت 5 کی روشنی میں سالمؓ کو مولا ابو حذیفہ کہا گیا اور ہر جگہ سالمؓ کا تعارف اسی طرح ہی کرایا گیا ہے اور دوسرا مسئلہ پردے کے حوالے سے تھا، اور سالم کے بالغ ہونے کے بعد اس کا اپنی منہ بولی والدہ سے ملنے جانے کا مسئلہ سامنے آیا، سہلا ؓ نے اپنا مسئلہ حضرت محمدﷺ کے سامنے پیش کیا اور آپﷺ نے سالم کو ان کا بیٹا سمجھتے ہوئے ایک راستہ بتایا۔
اب جب کہ حجاب اور گود لینے کے حوالے سے پہلے ہی احکامات موجود ہیں اس لیے اب یہ مسئلہ دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا اب اگر تو گود لیا جانے والا بچہ شیر خوار ہو گا تو وہ رضاعی بیٹا بن جائے گا اور اگر گود لیا جانے والا بچہ بالغ ہو گا تو شروع سے ہی پردے کے احکامات پر عمل کیا جائے گا۔
ابو حذیفہؓ کی ناگواری کی وجہ:
حدیث کی عبارت یہ کہتی ہے کہ حضرت سالمؓ کا سیدنا سہلا ؓکو بغیر پردے کی حالت میں ملنا ابو حذیفہؓ کو ناگوار گزرتا تھا(صحیح مسلم: 2638) اور ایسا اس وقت ہوا جب سالمؓ بالغ ہوئے (مسلم: 2638)
اور سورۃ الاحزاب کی آیات نازل ہوئیں (موطا: 1113)
لیکن موطا کی روایت یہ بھی کہتی ہے کہ ابو حذیفہؓ اور حضرت سہلا رضی اللہ عنہا، سیدنا سالمؓ کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے اس لیے ابو حذیفہؓ کی ناگواری صرف اس وجہ سے تھی کہ ان کے مطابق ایسا کام ہو رہا تھا جو قرآن کے احکامات کے مطابق درست نہیں تھا اور سوائے اس کے ان کی ناگواری کی کوئی اور وجہ نہیں تھی اور عملی طور پر جب اس مسئلے کا حل ڈھونڈ کر اس پر عمل درآمد کیا گیا تو ساتھ ہی ابو حذیفہؓ کے چہرے سے ناگواری بھی ختم ہو گئی،
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ابو حذیفہؓ جو سالمؓ کے دیکھنے سے اتنی ناگواری محسوس کر رہے تھے چھاتیوں سے دودھ پلانے کا حل ان کے لیے کیسے قبول کرسکتے تھے، نہ ہی رسول اللہﷺ جسمانی طور پر مس کرنے کی اجازت دے سکتے تھے۔ آپﷺ نے روٹین سے ہٹ کر اس مسئلے کا جو حل بتایا وہ ان تینوں کے مخصوص قلبی اور گہرے تعلق (منہ بولا بیٹا ) کی وجہ سے تھا (موطا: 1113)
اور چونکہ وہ اس کو احکامات نازل ہونے سے پہلے گود لے چکے تھے اس لیے انہیں ایک خصوصی رعایت دی گئی۔
خلاصہ اور نتیجہ:
حضرت سالمؓ ابو حذیفہؓ کے آزاد کردہ غلام ابو حذیفہؓ کے منہ بولے بیٹے تھے ابو حذیفہؓ اور ان کی بیوی حضرت سہلا ؓدونوں ہی سالمؓ کو اپنا بیٹا ہی سمجھتے تھے اور حضرت سالمؓ اپنی منہ بولی ماں سے ملنے بغیر پردے کے ان کے پاس جایا کرتے تھے اور جب حجاب کا حکم نازل ہوا تو ابو حذیفہؓ کو بغیر پردے کے یہ ملنا ناگوار گزرا۔ اسی لیے حضورﷺ نے انکے اس معاملے کی تفصیلات کو دیکھتے ہوئے انہیں خصوصی رعایت دی۔ اس رعایت پر عمل کرتے ہوئے ان دونوں کے درمیان جسمانی تعلق نہیں تھا، دودھ ایک پیالے میں لایا جاتا تھا، جسے حضرت سالمؓ پی لیتے تھے۔ اب جب کہ گود لینے اور پردے کے متعلق احکامات موجود ہیں تو اس رعایت پر عمل کرنے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا اس پر تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ، فقہ کے چاروں مکاتب اورتقریبا تمام بڑے علماء کا اجماع ہے۔
الواقدی کی روایت کی حیثیت:
محمد بن عمر الواقدی ان راویوں میں سے ہیں جن کی سندی حیثیت پر علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے ایک طرف بہت سے لوگوں نے ان پر سخت تنقید کی ہے وہیں بہت سے لوگوں کی جانب سے انہیں قابل اعتماد قرار دیا گیا ہے ایک طرف لوگوں نے واقدی کو جھوٹا کہا ہے اور دوسری طرف لوگوں نے واقدی کی تعریف کی ہے۔
الدراوردی تو واقدی کو حدیث میں ایمان والوں کا رہنما تسلیم کرتے ہیں۔ (دیکھیے تہذیب الکمال)
یہ مختلف آراء ہمارے جیسے طالب علموں کو پس و پیش میں ڈال دیتی ہیں تاہم کچھ علماء ابن حجر، الذہبی، اور ابنِ کثیرؒ نے تمام آراء کا احتیاط سے جائزہ لیا ہے اور ایک درمیانی راہ نکالی ہے
علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں:
اس نے جمع کیا اور مکھن کو چربی کے ساتھ اور کنکریوں کو موتیوں کے ساتھ شامل کر دیااس لیے اُسے نظر انداذ کر دیا گیا ہے، اس کے باوجود جنگوں کے بارے میں موجود روایتوں کے حوالے سے اور اصحاب اور ان کی زندگیوں کے حوالے سے روایتوں میں اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ (سير أعلام النبلاء: جلد 9 صفحہ 454 ،455 )
ابن حجرؒ کہتے ہیں:
جب واقدی مصدق روایات کی نفی نہیں کرتا، یا جنگوں کے راویوں کی نفی نہیں کرتا تو اس کو مغازی میں قبول کیا جا سکتا ہے، اور اللہ بہتر جاننے والا ہے(تلخیص الہبیر: جلد 3 صفحہ 343)
اور اس سے پہلے ابن کثیرؒ کہتے ہیں:
الواقدی نے ایک اچھی تحریر شدہ تاریخ میں قیمتی اضافہ کیا وہ اس شعبے کے بڑے اماموں میں سے ہیں اور وہ بذات خود ایک قابل اعتماد شخصیت ہیں، جنہوں نے بہت زیادہ روایات بیان کی، میں نے اپنی کتاب التکمیل فی معرفہ الثقات میں ان پر تنقید اور ان کے قابل اعتماد ہونے پر بحث کی ہے (البدایہ والنہایہ)
واقدی کے بارے میں ہم سیرت کے سلسلے میں تفصیلی تحقیق پیش کر چکے ہیں جو وہاں دیکھی جاسکتی ہے۔
ان تمام روایتوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ واقدی کی بیان کردہ روایتوں کو تسلیم کیا جا سکتا ہے، اگر وہ بالکل ہی مصدقہ روایات کی نفی نہ کرتی ہوں، اور خاص طور پر جب وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے وقت سے تعلق رکھتی ہوں اور جب وہ دوسرے ذرائع سے معلوم حقائق میں تھوڑا بہت اضافہ کرتی ہوں یہ بات خاص طور پر وہ لوگ بھی جانتے ہیں جنہوں نے ابن حجر رحمہ اللہ کا مطالعہ کیا ہے اگر پہلے بیان کی گئی تمام باتیں درست ہیں تو واقدی کی بیان کردہ روایت کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔