Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غلط نقطہ نظر کی تاویل کرنے کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر خوف یا تقیہ کا الزام لگایا گیا

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

غلط نقطہ نظر کی تاویل کرنے کے لیے سیدنا علیؓ پر خوف یا تقیہ کا الزام لگایا گیا

یہاں ان لوگوں کے کردار کی باری آئی بس یہاں پہ جنہوں نے سیدنا علیؓ اور ان کی شخصیت کو ختم کرنا چاہا اور بالواسطہ طور پر انہیں الزامات کا نشانہ بنانا چاہا اس طرح زمانہ رسالت و عہد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق ہر چیز کو ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ زمانہِ رسالت کو جس میں کبارِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی شامل ہیں ورنہ اس اسلامی معاشرے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے صریح احکام سے بغاوت کا نقشہ کھینچا جا سکتا ہے اور یہ عمل اس بات پر موقوف تھا کہ سیدنا علیؓ کی خلافت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصوص باور کرایا جائے اور رسولﷺ کی جانب سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تک اس نص کی تبلیغ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اس نص کو جان لینے کے باوصف اس کی خلاف ورزی اور پھر سیدنا علیؓ کی بحیثیت دغا باز مداہنت کیش اور چاپلوس آدمی کی شکل میں تصویر کشی کی جائے جو 25 برس تک اپنے پہلے خلفاءِ ثلاثہؓ کا بظاہر دیانت دار مشیر اور گرم جوش دوست بنا رہا جو ان کی مدح میں اور ان کی تعریف میں بہترین کلمات نچھاور کرنے والا ہو اور اس کا دل اس کی زبان کے ساتھ نہ تھا جو وہ کرتا تھا اس کا ایمان نہ تھا یہاں تک کہ اس نے مجبوری کی حالت میں اپنی بیٹی سیدہ ام کلثوم سیدنا عمرؓ بن خطاب کے عقد میں دے دی اپنے بیٹوں کے نام سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ رکھے حالانکہ وہ ان کے نام رکھنے پر راضی نہ تھے وعلیٰ ہذالقیاس۔

علامہ شیعہ اور ان کی احادیث کے راویوں اللہ انہیں معاف کرے نئے سیدنا علیؓ کے متعلق صراحتاً یا کنایتاً جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہی ہے میں نہیں جانتا کہ قیامت کے دن جب سیدنا علیؓ ان کے متعلق اپنے رب سے شکایت کریں گے تو ان لوگوں کا کیا موقف ہوگا

اسی طرح میرا عقیدہ یہ ہے کہ اس اکثریت کے درمیان غیر معمولی گروہ موجود تھا جس نے متحدہ اسلامی فکر میں تبدیلی پیدا کر کے اسے نفاق و اختلاف کے راستے پر ڈالنے اور سیدنا علیؓ اور سیدنا عمرؓ سمیت اسلام اور مسلمانوں پر ضرب کاری لگانے میں اپنا کردار ادا کیا حالانکہ بظاہر یہ لوگ خود کو شیعہ مذہب کے حامی کے طور پر پیش کرتے تھے مگر ان کا مقصد تمام مذاہب کو ختم کرنا بالفاظِ دیگر اسلام کو طعنوں کا نشانہ بنانا تھا چنانچہ چوتھی صدی ہجری کے اوائل تک جو غیبتِ کبریٰ کا زمانہ ہے ہمیں اس نظریہ کا نام و نشان تک نہیں ملتا کہ سیدنا علیؓ سے خلافت چھینی گئی یا یہ کہ خلافت خدائی حق تھا ان سے چھین لیا گیا یا یہ کہ رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اکٹھے ہو کر یہ کام کیا اور اس طرح سے جیسا کہ ہم نے کہا سیدنا علیؓ کے خلافت کے لیے اولیت کے نظریے کو خدائی خلافت اور اللہ تعالیٰ کے منصوص حکم کی مخالفت کے نظریہ سے بدل دیا گیا لہٰذا شیعہ نے خلفاءِ راشدینؓ کی تشنیع کا طریقہ اختیار کر کے اپنا ائمہ کی زبانوں سے اپنے راویوں کی وضع کردہ روایات کے ذریعے مقدس لوگوں کی مذمت کی ان موضوع روایات نے جو اپنے پیچھے تباہی بربادی کے آثار چھوڑے انہیں اللہ کے سوا کوئی شخص شمار میں نہیں لا سکتا۔

ہم یہاں شیعہ سے خالص انہی کی منطق میں گفتگو کر رہے ہیں اس لیے ہم خلفاءِ راشدینؓ کے مطابق سیدنا علیؓ کے اقوال درج کرتے ہیں پھر سیدنا علیؓ کے اپنے بارے میں اقوال سے شہادت پیش کرتے ہیں پھر اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ ایسے عظیم الشان امام سیدنا علیؓ نے خلفاء کی نہ چاہتے ہوئے بیعت کی جبکہ وہ اس پر راضی نہ تھے؟ یا وہ اپنے اس رویے سے مسلمانوں کو بیعت کے ذریعے دھوکہ دے رہے تھے؟ کیا انہوں نے ایسی بات زبان سے کہی جسے حق نہیں سمجھتے تھے؟ اور ایسا عمل بجا لاتے رہے جس پر ان کا اپنا ایمان نہیں تھا؟۔

کیا شیعہ کو واقعی سیدنا علیؓ سے سچی محبت ہے؟ جبکہ وہی ایسے امور ان کی طرف منسوب کر رہے ہیں یا صرف اقتدار حاصل کرنے اور اپنے ریاست کی بنیاد رکھنے کے لیے یہ پرخار راستہ اختیار کر رہے ہیں خواہ اس راستے میں انہیں سیدنا علیؓ کی شہرت ان کی جلالتِ قدر عظمتِ ذاتی اور مقامِ بلند کی قربانی بھی دینی پڑے۔

خلفاءِ راشدینؓ کے متعلق سیدنا علیؓ کے اقوال

آئیے ان سیدنا علیؓ کو خلیفہ سیدنا عمر بن خطابؓ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سنیں:

اللہ اللہ سیدنا عمرؓ آزمائش سے کس طرح سرخرو نکلے انہوں نے ٹیڑھا پن نکالا اور بیماری کا علاج کیا فتنہ کو ماند کیا اور سنت قائم کی اس حالت میں گئے کہ دامن صاف عیب نایاب تھا خیر حاصل کی شر سے بالاتر رہے اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کی اور کما حقہ تقویٰ اختیار کیا اب آپ رحلت فرما گئے ہیں تو لوگ چوراہے پر کھڑے ہیں ناواقف کو راہ سجھائی نہیں دیتی اور واقف یقین سے بہرہ مند نہیں ہوتا (بحوالہ اصلاح شیعہ)۔

دوسرے مقام پر جب خلیفہ نے رومیوں کے ساتھ جنگ میں بذاتِ خود شریک ہونے کے مسئلے میں سیدنا علیؓ سے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے خلیفہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

اگر آپؓ دشمن کی طرف بذاتِ خود جاتے اور ان کے مقابلے میں اترتے ہیں تو شکست کی صورت مسلمانوں کے لیے بعید ترین علاقہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی اور آپؓ کے بعد کوئی مرکزی شخصیت بھی نہ رہے گی جس کی طرف وہ رجوع کرے لہٰذا ان کی طرح کوئی تجربے کار آدمی بھیج دیں ازمودہ کار اور خیر خواہِ مصاحب اس کے ساتھ کر دیں اگر اللہ تعالیٰ نے اسے فتح نصیب کی تو یہی آپؓ چاہتے ہیں بصورۃِ دیگر لوگوں کے سر پر آپؓ کا سایہ قائم رہے گا اور آپؓ کی ذات مسلمانوں کے لیے مرجع رہے گی اور ان کو ڈھارس بندھائے گی (بحوالہ اصلاح شیعہ)۔

ایک دوسری مرتبہ جب سیدنا عمر بن خطابؓ نے سیدنا علیؓ بن ابی طالب سے جنگ کے لیے جانے کے متعلق مشورہ طلب کیا تو سیدنا علیؓ نے بذاتِ خود نہ جانے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا:

آج عرب اگرچہ تعداد میں تھوڑے ہیں لیکن اسلام کی بدولت کثیر اور اتفاق کی بدولت غالب ہے آپؓ محور بن کر عربوں کے ذریعے چکی چلائیں اور خود ایک طرف رہ کر ان کو جنگ کی آگ میں جھونکیں اگر ایرانیوں نے آپ کو ان کے ساتھ دیکھا تو سوچیں گے کہ عربوں کی جڑ یہی ہے اسے کاٹ ڈالو تو راحت پالو گے اس طرح یہ امر ان کے آپؓ پر امڈ آنے کا باعث ہوگا اور وہ آپؓ کے متعلق اپنے مضموم عزائم کی تکمیل کا حوصلہ پائیں گے جہاں تک ان کی استعداد کا تعلق ہے جس کا آپؓ نے ذکر کیا تو ہم پہلے بھی ان کے ساتھ کثرت کی وجہ سے مقابلہ نہ کر سکتے تھے ہماری جنگ تو اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے ہوتی ہے (بحوالہ اصلاح شیعہ)۔

اور یہ دیکھیے سیدنا علیؓ سیدنا عثمان بن عفانؓ سے متعلقِ گفتگو ہیں اور انہیں اللہ کے رسولﷺ کے مقرب صحابی کی صفات سے متصف بتا رہے ہیں:

لوگ میرے پیچھے ہیں انہوں نے مجھے اپنے اور آپؓ کے درمیان واسطہ بنا کر بھیجا ہے اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ آپؓ کو کیا کہوں میں کوئی ایسی چیز نہیں جانتا جس سے آپؓ ناواقف ہوں میں آپؓ کی رہنمائی کسی ایسے امر کی طرف نہیں کر سکتا جسے آپؓ جانتے نہ ہوں آپؓ بھی وہ کچھ جانتے ہیں جس کا علم ہمیں ہے ہم کسی چیز میں آپؓ سے آگے نہ تھے کہ آپؓ کو اس کی خبر دیں اور ہم کسی امر میں منفرد نہ تھے کہ آپؓ تک وہ بات پہنچ جائے آپؓ نے بھی ہماری طرح دیکھا اور ہماری طرح سنا ہے آپؓ نے پھر رسول اللہﷺ کی مصاحبت کی جیسا کہ ہم نے کی سیدنا ابنِ ابی قحافہؓ اور سیدنا عمرؓ بن خطاب حق پر عمل کرنے میں آپؓ سے آگے نہ تھے رشتے کے لحاظ سے آپ نبیﷺ کی طرف دونوں سے زیادہ قرب رکھتے ہیں آپ کو رسول اللہﷺ کی دامادی کا شرف حاصل ہے جو ان کو نہ تھا پس اپنے بارے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اللہ کی قسم آپؓ بے بصارت نہیں کہ آپ کو راہ دکھائی جائے آپؓ جاہل نہیں کہ آپؓ کو تعلیم دی جائے۔

سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ کے نام ایک خط میں سیدنا عثمان بن عفانؓ کے متعلق اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

پھر تم نے جو میرے اور سیدنا عثمانؓ کے معاملے کا تذکرہ کیا ہے تمہارا حق ہے کہ تمہیں اس کا جواب دیا جائے کیونکہ تم اس کے قریبی رشتہ دار ہو تو بتاؤ ہم میں سے کون اس کا دشمن اور اس کا قتل گاہ کی راہ جاننے والا تھا کیا وہ جس نے انہیں نصرت کی پیشکش کی لیکن انہوں نے اسے بیٹھے رہنے اور ہاتھ روکنے کو کہا یا وہ جس سے انہوں نے مدد مانگی تو اس نے دیر کی اور موت کے اسباب روانہ کر دیے میں اس بات سے معذرت نہیں کر سکتا کہ بعض امور میں ان پر ناراضگی کا اظہار کرتا ہوں اور میرا گناہ یہ ہے کہ میں ان کی رہنمائی کرتا اور سیدھی راہ دکھاتا رہا ہوں میری طرح کے کتنے ہی لوگ ہوں گے جنہیں ملامت کی جاتی ہے لیکن ان کی خطا نہیں ہوتی (بحوالہ اصلاح شیعہ)۔

اگر خلفاء کے متعلق سیدنا علیؓ کا موقف یہ ہو اور وہ صراحت کے ساتھ اس کا اعلان کرتے ہوں تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا علیؓ زبان سے تو یہی کہتے تھے لیکن دل میں کچھ اور چھپائے ہوئے تھے معاذ اللہ من ذالک اگر سیدنا علیؓ ایسے ہوتے ہیں کہ ظاہر کچھ کریں اور پوشیدہ کچھ اور رکھیں تو آپؓ وہ موقف اختیار نہ کر سکتے جو انسانی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ناقابلِ فراموش ہے وہ تو صدق اخلاص اور ایمان کا موقف ہے ایک ایسے انسان کی طرف سے جو ہر قسم کی قیاس آرائیوں سے قطع نظر کر کے اول و آخر حق و صداقت کا ساتھ دیتا ہے اور اس راستے میں بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے چنانچہ یوم شوریٰ میں جب سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے سیدنا علیؓ کو خلافت یہ کہہ کر پیش کی:

میں تمہاری اس سیٹ پر بیعت کرنے کو تیار ہوں کہ تم کتابُ اللہ اور سنتِ رسولُ اللہﷺ اور سیرتِ شیخینؓ پر کاربند رہو گے تو سیدنا علیؓ نے فرمایا:

"کتابُ اللہ سنتِ رسولُ اللہﷺ اور اپنی مجتہدانہ رائے"

سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے اپنی بات تین بار دہرائی اور سیدنا علیؓ نے بھی وہی جواب تین بار دہرایا پھر سیدنا عبد الرحمٰنؓ سیدنا عثمانؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی صورت میں خلافت پیش کی جس صورت میں سیدنا علیؓ کو پیش کی تھی۔ 

شیعہ کا خُمس کا عقیدہ بدعت ہے:

خُمس کی بدعت کی بنیاد رکھے جانے کے بعد اس میں کئی سخت احکامات کا اضافہ کیا گیا تھا کہ شیعہ اسے مضبوطی سے تھامے رکھیں اور اس پر عمل پیرا رہیں اور شیعہ کو خُمس کی ادائیگی پر آمادہ کرنے کے لیے بھی ضروری تھا جبکہ یہ ایسا کام تھا کہ دھمکی کے بغیر کوئی شخص اس پر آمادہ نہیں ہوتا چنانچہ کسی زمانے اور کسی علاقے میں خواہ کتنی ہی آزادی ترقی یا جمہوریت ہو ٹیکس کا نفاذ عوام کی جانب سے بیزاری کا نشانہ بنتا ہے شیعہ کے پاس حکمران طاقت ہی نہیں تھی جو لوگوں کو اپنی آمدن میں سے راضی خوشی خُمس ادا کرنے پر راغب کر سکیں اس لیے انہوں نے اس کے ساتھ ایسے سخت احکام کا اضافہ کیا جن میں امام کا حق خُمس ادا نہ کرنے والے کا ابدی جہنمی ہونا اور ایسے شخص کے گھر نماز نہ پڑھنا جس نے اپنے مال میں سے خُمس ادا نہ کیا ہو یا اس کے دسترخوان پر نہ بیٹھنا وغیرہ شامل ہے (بقول ڈاکٹر موسیٰ)۔

اسی طرح شیعہ فقہاء نے فتویٰ دیا کہ منافع میں سے خُمس امام غائب کا حق ہے (جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے) اس کا ان فقیہوں اور مجتہدوں کہ سپرد کرنا ضروری ہے جو امام کی نمائندگی کرتے ہیں اس طریقے سے اس بدعت نے شیعہ معاشرے میں فروغ پایا جو ہر علاقے اور ہر زمانے میں شیعوں کے اموال کی فصل کاٹتی رہتی ہے بہت سے شیعہ آج بھی یہ ٹیکس اپنے روحانی پیشوا کو ادا کرتے ہیں اور اس طرح کے وہ غریب اپنے پیشوا کے حضور عاجزی کے ساتھ بیٹھتا ہے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اس کا ہاتھ چومتا ہے اور پھر بہت شاداں و فرحاں ہوتا ہے کہ اس کے پیشوا نے اس پر بڑی عنایت فرمائی ہے اور امام غائب کا حق اس کی جانب سے قبول کر لیا ہے بعض شیعہ فقہاء نے جن میں فقیہ احمد اردبیلی شامل ہیں جو اپنے زمانے کے سربر آوردہ فقہاء میں سے تھے حتیٰ کہ انہیں مقدس اردبیلی کا لقب دیا گیا غیبتِ کبریٰ کے زمانے میں خُمس میں تصرف کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا اسی طرح بعض شیعہ فقہاء (جو تعداد میں بہت ہی کم تھے) نے امام کی حدیثِ مروی اس قول کی بنا پر کہ "ہم نے اپنے شیطان کو خُمس معاف کر دیا ہے" شیعہ سے خُمس ساقط قرار دیا ہے البتہ شیعہ فقہاء کی اکثریت نے اقلیت کی آراء کو دیوار میں دے مارا اور آپس میں خُمس نکالنے کے واجب ہونے پر اتفاق کر لیا۔

کاش شیعہ فقہاء اور مجتہدین شیعہ کے بلا تر رہتے اور ایسا ذریعہ اختیار کر کے جس کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے شیعہ عوام کے دستِ نگر بننا پسند نہ کرتے بعض شیعہ علماء شیعہ عوام کے اموال میں سے خُمس وصول کرنے کا یہ کہہ کر دفاع کرتے ہیں کہ یہ اموال دینی مدارس اداروں اور دیگر مذہبی امور پر خرچ کیے جاتے ہیں لیکن سوال یہ نہیں ہے کہ یہ اموال کہاں اور کیوں خرچ کیے جاتے ہیں؟ بلکہ بحثِ اصولی واقعی اور مذہبی ہے اور وہ یہ کہ مذکورہ اموال جھوٹے اور غلط طریقے سے لوگوں سے ہتھیائے جاتے ہیں وہ انہیں فی سبیل اللہ صرف کیا جائے لیکن یہ غیر شرعی ہیں ان میں تصرف ناجائز ہے۔

شیعہ فقہاء خود کفالت پر بھی اپنی شخصیت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں یہ بھی ہو سکتا تھا کہ فقہاء دوسرے پیشہ وروں کی طرح اپنے آپ پر اعتماد کرتے اسی طرح وہ علم اور علماء کی ترقی کے لیے لوگوں سے مال بھی لے سکتے تھے لیکن انہیں چاہیے تھا کہ مالی تعاون ہبہ اور عطیہ کے نام سے لیتے نہ کے فریضہ یا آسمانی حکم کے نام سے اس وقت جب یہ سطور سپرد قلم کر رہا ہوں میں شیعہ کے مجتہدوں میں سے ایک ایسے مجتہد کو جانتا ہوں جو ابھی بقیدِ حیات ہے اس نے خُمس کے ذریعے اس قدر مال ذخیرہ کر رکھا ہے کہ ماضی کے قارون یا دور حاضر کے قارونوں کو ساتھی بنانے کے لیے کافی ہے ایران میں ایک ایسا مجتہد جو چند سال ہوئے قتل ہو گیا ہے اس نے لوگوں سے خواہی نخواہی خُمس و شرعی حقوق پر اتنی دولت جمع کر لی تھی جو دو کروڑ ڈالر کے برابر بنتی تھی اور بڑی مشکلات اور کئی مقاصد کے بعد ایرانی حکومت اسے اپنے قبضے میں لینے میں کامیاب ہو سکی کہ مبادا اسے مجتہد کے وارث آپس میں تقسیم کرلیں یہ دل فگار تصویر ہے بدعتِ خُمس کے اثرات کی جسے شیعہ فقہاء نے شروع کیا اس میں شک نہیں کہ شیعہ کی مذہبی قیادت کبھی ختم نہ ہونے والے اس خزانے کی بدولت متعدد قوتوں سے الگ اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی جب تک شیعہ کی مذہبی قیادت کسی بھی جگہ اور کسی بھی دور میں خود کو عام لوگوں کے کاروبار کے منافع میں شریک سمجھتی رہے گی شیعہ معاشرے میں فکری استحکام کے لیے کوئی رہا نہیں ہوگی اور اس کا سبب واضح اور معروف ہے کہ یہ قیادت ان ضخیم خزانوں کی بدولت کہ جن کے حصول کے لیے انہیں ملازمین اور تحصیل داروں کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اخلاص کے ساتھ راضی خوشی اس کے پاس چلے آتے ہیں وہ اس قابل ہو سکے کہ شیعہ قیادت کو سیاست کا ایسا مرکز بنا ڈالے تو شیعہ کو جس طرف چاہے لے جا سکے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قیادت نے شیعہ کو تاریخ کے ہر دور میں اپنے سیاسی اور اجتماعی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔

ایران کے شیعہ علاقے میں شیعہ اور ان کے قائدین کے تعلق کے نتیجے میں وہ برے اثرات رونما ہوئے ہیں جو حد و حساب سے فزوں تر ہیں جب خُمس کی بدعت کے ساتھ ولایت فقہی کی بدعت بھی مل گئی تو حالات اس آخری حد تک بگڑ گئے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا

ولایت فقہی پر تفصیل سے بحث کرنے سے پہلے تاریخ کے بیان میں امانت اور اپنے پیغام میں اخلاص کا ثبوت دینے کے لیے ہم اس مقام پر یہ اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ بلاشبہ بعض قائدین نے فکرِ اسلامی کی خدمت انجام دی ہے اور کئی مرتبہ حکام کے استبداد یا استعمار کے خلاف جنگ میں ملکی مفادات کی خدمت کی ہے لیکن جب ہم ان لوگوں کو اپنے اثر و رسوخ کے عام مفاد کے لیے استعمال اور اکثریت کو اپنے اثر و رسوخ کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کا موازنہ کرتے ہیں اور ان کو ترازو میں رکھتے ہیں تو واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ ذاتی مفادات کا پلڑا عام مفادات پر کچھ اس طرح بھاری ہے کہ آدمی ورطہ حیرت میں گم اور غم و اندوہ میں غرق ہو کر رہ جاتا ہے۔