Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

رسول اللہﷺ کی دائمی صحبت

  علی محمد الصلابی

رسول اللہﷺ کی دائمی صحبت

سیّدنا عمرؓ باشندگان مکہ کے ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے اَن پڑھ معاشرہ میں لکھنا پڑھنا سیکھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بچپن ہی سے آپ کو علم سے والہانہ لگاؤ تھا اور آپ کی کوشش تھی کہ ان منتخب افراد میں سے ہو جائیں جنہوں نے اپنی اُمیت (ناخواندگی) کو مٹا دیا، نفوس کو مہذب بنا لیا اور مختلف عوامل واسباب کی وجہ سے زمانۂ رسالت میں ایک اونچا مقام حاصل کر لیا۔ ان عوامل میں سے ایک چیز یہ بھی تھی کہ آپ پڑھنے لکھنے پر خصوصی توجہ دیتے اور اس وقت اس کی بڑی اہمیت تھی۔ سیّدنا عمرؓ نے پڑھنا لکھنا اور ابتدائی تعلیم حرب بن امیہ یعنی ابوسفیان کے والد سے حاصل کی ۔

 (تفسیر ابن کثیر: جلد، 4 صفحہ، 537 )

پڑھنے لکھنے کی اسی خصوصیت نے آپ کو اس قابل بنا دیا کہ اس وقت آپ قوم کی تہذیب و ثقافت سے آراستہ ہو جائیں۔ اگرچہ ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ کی شخصیت کو نکھارنے، صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، کردار کو نمایاں کرنے اور نفس کو مہذب بنانے کا سب سے بڑا محرک آپﷺ کی دائمی صحبت اور تعلیم گاہ نبوتﷺ سے فیض یاب ہونا تھا۔ بایں طور کہ آپ اسلام قبول کرنے کے بعد مکہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ ساتھ رہے۔ اسی طرح جب آپﷺ مدینہ میں عوالی … مدینۃ النّبی سے متصل علاقہ … میں قیام پذیر ہوئے تو وہاں بھی آپﷺ کی معیت میں رہے۔ عوالی کا یہ علاقہ موجودہ دور میں مسجد نبوی سے متصل ہے۔ کیونکہ آبادی بڑھ گئی ہے اور شہر مدینہ کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے، اور گرد وپیش کے علاقوں کو شامل ہو گیا ہے۔ غرض یہ کہ اسی علاقہ میں سیدنا عمرؓ نے خود کو منظم کیا اور علوم و معارف سیکھنے کے لیے پوری انسانیت کے معلم و ہادی کے سامنے تعلیم گاہ نبوت میں زانوئے تلمذ تہ کرنے کے حریص ہوئے۔ ایسا ہادی اور معلم جسے اس کے ربّ نے تعلیم و تربیت دی تھی۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ آپ سے قرآن، حدیث یا کسی معاملہ، واقعہ اور ارشاد و رہنمائی سے متعلق کوئی بھی تعلیمِ نبوی کا پند نہیں چھوٹتا تھا۔

عمرؓ کا بیان ہے: میں اور بنو امیہ بن زید کا میرا ایک انصاری پڑوسی، ہم دونوں رسول اللہﷺ کے پاس باری باری آتے تھے، ایک دن وہ آتا اور ایک دن میں آتا۔ جب میں آتا تو اس دن کی وحی وغیرہ کی خبریں لاتا، اور جب وہ آتا تو وہ بھی اسی طرح کرتا۔ 

(تفسیر ابن کثیر: جلد، 4 صفحہ، 524 )

یہ روایت ہمیں اس شرعی چشمۂ فیضان کی خبر دیتی ہے جس سے سیدنا عمرؓ نے اپنے علم، تربیت اور ثقافت کی آبیاری کی، یعنی وہ چشمۂ ہدایت اللہ عزوجل کی کتاب ہے، جو واقعات و حوادث کے مطابق تدریجاً رفتہ رفتہ رسول اللہﷺ پر نازل ہوتا تھا اور آپﷺ اسے اپنے صحابہؓ کو پڑھ کر سناتے تھے، انہوں نے اس کے معانی کو یاد کیا، فہم و بصیرت میں گیرائی سے کام لیا اور اس کی بنیادی تعلیمات سے متاثر ہوئے۔ پس اس فہم و بصیرت کا ان کی ذات، دل ودماغ اور روح پر گہرا اثر تھا۔ چنانچہ سیدنا عمرؓ ان لوگوں میں سے ایک تھے جو تعلیم و تربیت کے میدان میں قرآنی منہج و فکر سے ہم آہنگ ہوئے۔ سیدنا عمرؓ کی تاریخ اور آپ کے حیات و کارناموں کو پڑھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس صاف و شفاف فیضانِ الہٰی پر تھوڑی دیر ٹھہر کر غور کرے جس نے صلاحیتوں کو نمو بخشی، عبقری ہستیوں کو نکھارا اور قوم کی ثقافت کو ترقی عطا کی، اس فیضانِ الہٰی سے میری مراد قرآنِ مجید ہے۔

سیّدنا عمرؓ اسلام لانے کے بعد ہی سے حفظ قرآن اور اس کے معانی ومفاہیم پر غور وتدبر کرنے کے حریص تھے اور آپﷺ کی معیت میں رہتے، جو آیات آپﷺ پر نازل ہوتیں انہیں آپ سیکھ لیتے، اس طرح آپ نے تمام آیات اور سورتوں کو حفظ کر لیا۔ آپ کو بعض آیات رسول اللہﷺ نے پڑھائیں اور آپ ان آیات کو قرأت نبوی کی روایت پر ہی پڑھنے کے حریص رہے۔

(عمر بن الخطاب: د/ محمد أحمد أبوالنصر: صفحہ، 87)

آپ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ بعض آیات کے نزول کے فوراً بعد سب سے پہلے ان آیات کو آپ ہی نے سنا، اپنے محفوظات (یادداشت) کے بارے میں آپﷺ سے سمجھنے کی کوشش کی۔

خلاصہ یہ کہ سیدنا عمرؓ نے قرآنی منہج پر تربیت پائی اور رسول اللہﷺ آپ کے مربی تھے۔ آپﷺ سے سیدنا عمرؓ کی اوّل ملاقات ہی قرآنی تربیت کا آغاز ہے۔ اس ملاقات کے بعد آپ کی زندگی میں بالکل انوکھی تبدیلی ہوئی اور یکایک ہدایت سے سرفراز ہوئے، تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکل آئے، ایمان کو گلے لگایا اور کفر کو روند دیا۔ اپنے نئے دین اور آسان عقیدہ کے لیے اس راستہ کی تمام مشقتوں اور مشکلات کو برداشت کرنے کے عادی ہوگئے۔ دراصل رسول اللہﷺ کی شخصیت ہی آپ کے اسلام لانے کا اصل محرک تھی، کیونکہ آپﷺ کی شخصیت میں جاذبیت اور دوسروں پر اثر انداز ہونے کی قوت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اپنی آنکھوں کے سامنے بنایا تھا اور عظمت سے ہمیشہ محبت کی جاتی ہے، لوگ اسے پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور پسندیدگی و محبت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس سے چمٹ جاتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی مذکورہ عظمتوں کے ساتھ ایک بڑی عظمت یہ ہے کہ آپ اللہ کے رسول اور اس کی طرف سے وحی کے حامل اور لوگوں تک اسے پہنچانے والے ہیں۔ مرد مومن کے وجدان و شعور کو آپ کی طرف مائل کرنے میں اس کا بڑا گہرا اثر ہے۔

وہ صرف آپ کی ذات کی بنیاد پر آپ سے محبت نہیں کرتا، جس طرح کہ دیگر اکابرین سے محبت کی جاتی ہے، بلکہ ساتھ ہی اس فیضِ ربانی کا تصور بھی کار فرما ہوتا ہے جو اللہ کی طرف سے آپ کی ذات کو شامل ہے۔ پس وہ آپ کے ساتھ وحیِ الہٰی کی موجودگی میں فیضانِ الہٰی سے مستفید ہوتا ہے، آپﷺ کی شخصیت میں عظیم انسان اور عظیم رسول اکٹھا ہو جاتے ہیں۔ پھر آخر میں دونوں اس طرح ایک ہو جاتے ہیں کہ جس کی ابتداء اور انتہا کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ ایک گہری محبت ہوتی ہے جو رسول بشر، یا بشر رسول کو شامل ہوتی ہے اور اللہ کی محبت اس کے رسول کی محبت سے مربوط ہوتی ہے، اور وہ دونوں محبتیں ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں، پھر وہی دونوں محبتیں اس مومن کے تمام تر احساسات و جذبات کی بنیاد اور شعور و کردار کی تمام حرکتوں کا محور قرار پاتی ہیں۔

یہی محبت جس نے صحابہؓ کے پہلے ہر اول دستے کو متحرک کیا، یہی اسلامی تربیت کی کنجی، نقطۂ ارتکاز اور محور ہے۔ 

(عمر بن الخطاب: د/ محمد أحمد أبوالنصر: صفحہ، 88)

نبی کریمﷺ کی صحبت وتربیت کی برکت سے صحابہ کرام کو اعلیٰ ایمانی کردار میسر آیا۔اس تزکیہ وتربیت کے بارے میں سید قطب فرماتے ہیں:

’’وہ تزکیہ نفس تھا، ان خامیوں کی تطہیر تھی جن کی بنا پر آپﷺ ان کی گرفت کرتے تھے۔ ضمیر و شعور اور عمل وکردار کی تطہیر تھی، ازدواجی اور اجتماعی زندگی کی تطہیر تھی، وہ ایسی تطہیر و تربیت تھی جس کی وجہ سے انسانی نفوس مشرکانہ عقائد کی پستیوں سے عقیدۂ توحید کی بلندیوں، باطل تصورات سے صحیح عقائد اور پیچیدہ خرافات سے واضح یقین تک پہنچتے ہیں۔ اخلاقی بے راہ روی کی نجاستوں سے نکل کر ایمانی اخلاق اور سود و رشوت کی آلائشوں سے بچ کر پاک کمائی کی طرف پرواز کرتے ہیں۔ یہ وہ تزکیہ وتربیت ہے جو فرد، جماعت اور انفرادی واجتماعی زندگی کو شامل ہے۔ ایسا تزکیہ وتربیت جو انسا ن اور اس کے خیالات و تصورات کو دنیا کی ہر چیز یہاں تک کہ خود اس کی ذات اور حیات کو بھلا کر اسے نور کے افق تک پہنچا دیتا ہے جہاں پہنچ کر انسان اپنے ربّ سے مل جاتا ہے اور مکرم و معزز فرشتوں سے معاملہ کرتا ہے‘‘

جناب سیدنا عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے شرف تلمذ حاصل کیا، آپ سے قرآن کریم، سنّتِ نبوی، احکام تلاوت اور تزکیۂ نفس کے اسباق سیکھے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

لَقَدۡ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ ۞

(سورۃ آل عمران، آیت، 164)

بلاشبہ یقیناً اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں تھے۔ ‘‘

آپ اسوۂ نبویﷺ میں غوطہ زن رہنے کے بہت حریص تھے، خواہ آپﷺ غزوہ کی حالت میں ہوں یا امن کی حالت میں۔ اس طرح سیدنا عمرؓ سنت نبویہﷺ مطہرہ کے بارے میں وسیع علم اور گہری معرفت کے مالک بن گئے۔ یہ معرفت آپ کی شخصیت اور تفقہ کو پروان چڑھانے میں کافی اثر انداز ہوئی۔ آپ رسول اللہﷺ کے ساتھ رہے، آپ سے اسلامی شریعت کو سنا اور یاد کیا، جب مجلسِ نبوت میں تشریف لے جاتے تو مجلس ختم ہونے تک وہاں موجود رہتے۔ آپ کی ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ جو بات بھی دل میں کھٹکے، یا اسے پریشان کرے اس کے بارے میں آپﷺ سے دریافت کر لیں۔ 

(عمر بن الخطاب: د/ محمد أحمد أبوالنصر: صفحہ، 88)

آپ نے علم، تربیت اور دین عظیم یعنی اسلام کے مقاصد کی معرفت کے لیے رسول اللہﷺ سے فیض اٹھایا اور خود رسول اللہﷺ نے بھی آپ کی خصوصی نگہداشت کی، انہیں اپنا فیض پہنچایا اور ان کے لیے علم کی گواہی دی۔ 

ارشادِ نبویﷺ ہے:

بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ شَرِبْتُ یَعْنِیْ اللَّبَنَ حَتَّی أَنْظُرَ إِلَی الرَّیِّ یَجْرِیْ فِیْ ظُفْرِیْ أَوْفِیْ أَلْجَفَارِیْ۔ ثُمَّ نَاوَلْتُ عُمَرَ۔ قَالُوْا: فَمَا أَوَّلْتَہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: اَلْعِلْمَ۔ 

(عمر بن الخطاب: د/ محمد أحمد أبوالنصر: صفحہ، 88)

’میں نے خواب میں دودھ پیا، اتنا پیا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ (اس کی) تروتازگی میرے ناخن یا ناخنوں کے نیچے سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے پیالہ عمر کو دے دیا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس کی کیا تاویل ہے؟ آپ نے فرمایا: علم۔‘‘

حافظ ابنِ حجر کا قول ہے کہ یہاں علم سے مراد قرآن وسنت کی روشنی میں لوگوں پر سیاست کرنے کا علم ہے۔ 

درحقیقت یہ معرفت اسی کو حاصل ہوسکتی ہے جو قرآنِ کریم اور سنت نبویﷺ کے سمجھنے کے معاون اسباب و وسائل پر گہری نظر رکھتا ہو، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ زبان و ادب کے سمجھنے کا قوی ملکہ ہو، اس کے اسلوب کی معرفت پر مہارت ہو، بلکہ ہر وہ تجربہ اور علم جو شریعت فہمی کے لیے معاون ثابت ہو اسے حاصل کیا جائے۔ سیدنا عمرؓ ان تمام خصوصیات کے مالک تھے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمرؓ کے درمیان والہانہ لگاؤ تھا اور استاد و شاگرد کے درمیان منفرد نوعیت کی علمی فضا تیار کرنے میں ایسے ہی لگاؤ کا اہم کردار ہوتا ہے اور پھر نئی نئی معلومات کی وجہ سے علمی و ثقافتی نتائج کی خوبیاں وبھلائیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ سیدنا عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے بہت محبت کی، آپﷺ کے گرویدہ رہے اور خود کو آپﷺ کے وجود اور آپ کی دعوت کی نشر و اشاعت کے راستہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔ حدیث میں وارد ہے۔

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ

(عمر بن الخطاب: د/ محمد أبوالنصر: صفحہ، 91)

ترجمہ: تم میں کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘

سیدنا عمرؓ نے یہ سن کر فرمایا:

اے اللہ کے رسول! آپ میرے نزدیک میری جان کے علاوہ بقیہ تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہیں۔

آپﷺ نے فرمایا:

اے عمر! (ایمان مکمل) نہیں، یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا: اب آپ میری جان سے بھی زیادہ مجھے محبوب ہیں۔

آپﷺ نے فرمایا: اب (ایمان مکمل ہوا) اے عمر۔ 

(صحیح البخاری: حدیث، 3681)

سیدنا عمرؓ نے ایک دن آپﷺ سے عمرہ کرنے کی اجازت مانگی، تو آپﷺ نے فرمایا 

لَا تَنْسَایَا أَخَیَّ دُعَائِکَ۔

(فتح الباری: جلد، 7 صفحہ، 36)

ترجمہ: ’’اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں نہ بھولنا۔‘‘

تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا:’’میں نے نہیں پسند کیا کہ دنیا کی کوئی چیز میرے نزدیک آپﷺ کے فرمان ۔ اے میرے بھائی!۔ سے زیادہ پسندیدہ ہو۔‘‘

(عمر بن الخطاب: د/ محمد أبوالنصر: صفحہ، 93)

یہ بلند اور پاکیزہ محبت ہی تھی جس کی وجہ سے سیدنا عمرؓ تمام غزوات میں آپﷺ کے ساتھ رہے اور جنگی فنون میں تجربہ، مہارت اور فہم و بصیرت نیز انسانوں کی طبیعت اور احساسات کی گہری معرفت نے اس محبت میں چار چاند لگا دیے۔ اسی طرح نبی کریمﷺ کی مصاحبت اور آپ کے ساتھ کثرتِ گفتگو نے سیدنا عمرؓ کو فصاحت و بلاغت، کلام میں روانی اور بات کرنے میں مختلف اسلوب عطا کیے۔آئندہ مباحث میں ہم ان شاء اللہ رسول اللہﷺ کے ساتھ میدانِ جہاد میں آپ کے نظریات و کردار اور مدینہ کی زندگی میں بارگاہِ نبوت میں آپ کی معاشرتی زندگی کے چند خصائص ذکر کریں گے۔