اے آل ابی بکر رضی اللہ عنہ! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے
علی محمد الصلابیاے آل ابی بکر! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے
ام المؤمنین سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، جب ہم بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا، رسول اللہﷺ وہاں اس کو تلاش کرنے کے لیے ٹھہر گئے، آپﷺ کے ساتھ لوگ بھی ٹھہر گئے۔ وہاں پانی کی سہولت نہ تھی اور نہ لوگوں کے پاس پانی تھا۔ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا آپؓ دیکھتے نہیں سیدہ عائشہؓ نے کیا کیا، رسول اللہﷺ اور لوگوں کو ایسی جگہ ٹھہرنے پر مجبور کر دیا جہاں نہ تو پانی ہے اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے۔ سیدنا ابوبکرؓ میرے پاس آئے اور رسول اللہﷺ میری رانوں پر سر مبارک رکھ کر سو رہے تھے۔ فرمایا: عائشہ! تم نے رسول اللہﷺ اور لوگوں کو ایسی جگہ روک رکھا ہے جہاں پانی نہیں اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے اور پھر مجھ پر عتاب فرمایا اور جو کچھ اللہ نے چاہا کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کمر میں کچوکے لگانے لگے لیکن چونکہ رسول اللہﷺ میری ران پر سر رکھ کر سو رہے تھے اس لیے میں نے حرکت نہ کی تا کہ آپﷺ کی نیند خراب نہ ہو۔ آپﷺ سوتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور پانی ندارد۔
اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی۔
فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا
(سورۃ النساء: آیت نمبر، 43)
ترجمہ: تو پاک مٹی سے تیمم کرو۔
اس پر حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے آل ابی بکر یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔ (یعنی اس سے قبل بہت سی برکتیں تمہاری وجہ سے امت کو حاصل ہو چکی ہیں)۔
ام المؤمنین فرماتی ہیں میں جس اونٹ پر تھی اس کو جب اٹھایا گیا تو ہار اس کے نیچے ہمیں ملا۔
(البخاری: 3672)
اس واقعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے ادب و احترام کا غایت درجہ خیال رکھتے تھے اور جس چیز سے آپ کو تکلیف و مشقت پہنچے اسے کبھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اگرچہ یہ آپﷺ کے نزدیک انتہائی محبوب اور قریب ترین شخص مثلاً سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے کیوں نہ ہو۔ آپؓ نبی کریمﷺ، اہلِ ایمان اور اپنے نفس کے ساتھ ادب و احترام کے میدان میں دعاۃ و علمائے امت کے لیے قدوہ و نمونہ تھے۔
(تاریخ الدعوۃ الاسلامیۃ: صفحہ، 402/403)