Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فدک اولاد فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کو دیا؟؟

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فدک اولادِ فاطمہؓ کو دیا؟؟

سوال:

حضرت علی المرتضیٰؓ اپنے دور خلافت میں فدک کے پورے علاقے پر قابض تھے جب آپؓ امیر المؤمنین تھے اور آپؓ کو بقول شیعہ یہ معلوم تھا کہ حضورﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو فدک ہبہ کر دیا تھا تو آپؓ نے اسے حضرت فاطمہؓ کے شرعی وارثوں کو کیوں نہ دیا ؟

الجواب

1) سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ایسا اس لئے نہ کیا کہ انہیں معلوم تھا کہ فدک حضورﷺ کے پاس ایک قومی ملکیت کے طور پر تھا پس اس کے نسبی وراثت میں آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا حضورﷺ کے بعد یہ قومی ملکیت آپؓ کے خلیفہ کے سپرد تھی اور وہ اسے اسی طرح برابر خرچ کرتے رہے جس طرح آپﷺ سے اسے صرف فرماتے تھے حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ نے ایسے اموال کے بارے میں ارشاد فرمایا:

هو للامام من بعده يضعه حيث يشاء

(اصول کافی جلد 1 صفحہ 539)

ایسے اموال پیغمبر کے بعد خلیفہ اور امام کے تصرف میں ہیں وہ جس طرح مناسب سمجھے ان کا فیصلہ کرے۔

معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ کے دور خلافت میں بھی فدک حضرت علیؓ کے ہی تصرف میں رہنا چاہیے تھا۔ یہ صحیح نہ تھا کہ وہ اسے حضرت فاطمہؓ کے وارثوں میں تقسیم کرتے۔

حضرت علیؓ کا عمل اپنی جگہ بالکل صحیح تھا۔

2) پیغمبروں کی علمی وراثت تو چلتی ہے لیکن ان کے دوائر عمل میں مالی وراثت کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا انبیاء علیہم السلام کی وراثت ہمیشہ علمی رہی ہے نہ ان کے ہاں مالی وراثت کا سلسلہ ہوتا ہے اور نہ باغ فدک حضرت فاطمہؓ کے وارثوں میں تقسیم نہ کرنے سے حضرت علیؓ کی ذات پر کوئی حرف آتا ہے حضرت علیؓ نے جو کچھ کیا وہ قواعد شریعت اور ارشادات نبوت کے عین مطابق تھا پیغمبروں کی وراثت علمی پر ارشاد رسالت ملاحظہ کیجئے۔ حضرت ام ھانیؓ کہتی ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:

العلم میراثى وميراث الانبياء قبلى فمن كان يرثني فهو في الجنة )

(مسند امام ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ صفحہ 157 لابی نعیم الاصفهانی)

حضرت ابو الدرداءؓ کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:

ان الانبياء لم يؤرثوا دينارا ولا درهما وإنما ورثوا العلم فمن أخذه فقد أخذ بحظ وافر(ايضا)

3) حضرت علیؓ اپنے عہد خلافت میں سیرت شیخینؓ کے پوری طرح پابند تھے پس باغ فدک کے متعلق بھی حضرت علیؓ نے انہی حضرات کے فیصلوں کی تائید فرمائی اور اسی پالیسی پر رہے جو پہلے سے چلی آرہی تھی اور جس طرح عہد صدیقیؓ میں فدک کی آمدنی حضرات اہل بیت پر خرچ ہوتی رہی عہد علویؓ میں بھی بالکل اسی طرح عمل درآمد ہوتا رہا حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللّٰہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں حضرت امیر المؤمنین علیؓ نے بھی رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے موافق فدک میں عمل کیا اور حضرت فاطمہؓ کے وارثوں پراس کو تقسم نہ کیا بلکہ بدستور قدیم فقراء اور مساکین اور ابن سبیل میں تقسیم کرتے رہے

(ھدیۃ الشیعۃ صفحہ 278)

مشہور ایرانی مجتہد سید علی نقی نہج البلاغہ کی شرح میں لکھتا ہے:

خلاصه ابوبکر غله وسود آں را گرفته بقدر کفایت اہل بیت علیہم السلام مے داد و خلفائے بعد چ از او ہم براں اسلوب رفتار نمودن تا زمان معاویه

( جلد 5 صفحہ 960)

خلاصہ یہ کہ حضرت ابوبکرؓ فدک کی آمدنی اور پیداوار ضرورت کے مطابق اہل بیت پر ہی صرف فرماتے اور انؓ کے بعد کے خلفاء بھی امیر معاویہؓ کے زمانہ تک اسی طریق کار کے پابند تھے۔

(عبقات صفحہ 246)