Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حادثہ دلفگار کی ہولناکی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مؤقف

  علی محمد الصلابی

حادثہ دلفگار کی ہولناکی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مؤقف

علامہ ابنِ رجبؒ فرماتے ہیں: جب رسول اللہﷺ وفات فرما گئے تو مسلمانوں میں عجیب اضطراب پیدا ہوا۔ کچھ لوگ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے، کچھ لوگ بیٹھ گئے تو کھڑے ہونے کی طاقت نہ رہی، کچھ لوگوں کی زبان گنگ ہو گئی، بات کرنے کی طاقت نہ رہی اور کچھ لوگوں نے تو کلیتاً آپﷺ کی وفات کا ہی انکار کر دیا۔

(لطائف المعارف: صفحہ، 114)

امام قرطبیؒ اس مصیبت کی سنگینی اور اس پر مرتب ہونے والے امور کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں سب سے عظیم مصیبت دین کی مصیبت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا

اذا اصاب احدکم مصیبۃ فلیذکر مصابہ بی فانہا اعظم المصائب۔

ترجمہ: تم میں سے کوئی جب مصیبت سے دو چار ہو تو وہ میرے سلسلہ میں اس کو جو مصیبت پہنچی ہے یاد کرے، کیونکہ یہ عظیم ترین مصیبت ہے۔

(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی رحمہ اللہ: صفحہ، 1104)

رسول اللہﷺ نے سچ فرمایا کیونکہ یہ مصیبت آپﷺ کے بعد قیامت تک مسلمانوں کو لاحق ہونے والے تمام مصائب سے عظیم تر ہے کیونکہ آپﷺ کی وفات سے وحی الٰہی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، نبوت ختم ہو گئی، ارتداد کی لہر دوڑ گئی۔ یہ خیر کا پہلا انقطاع اور نقصان تھا۔

(تفسیر القرطبی: جلد، 2 صفحہ، 876)

ابن اسحقؒ کا بیان ہے رسول اللہﷺ کی وفات سے امت اسلامیہ کو عظیم ترین مصیبت سے دو چار ہونا پڑا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت مجھے پہنچی ہے کہ آپؓ فرماتی ہیں: جب رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی تو عرب میں ارتداد کی لہر دوڑی، یہودیت و نصرانیت نے سر اٹھایا، نفاق نے زور پکڑا۔ نبی کریمﷺ کے نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان سرد رات میں بارش زدہ بکریوں کی طرح ہو گئے۔

(ابنِ ہشام: جلد، 4 صفحہ، 323)

قاضی ابوبکر ابن العربیؒ فرماتے ہیں حالات میں اضطراب آیا، نبی کریمﷺ کی موت کمر توڑ دائمی مصیبت ثابت ہوئی، سیدنا علیؓ سیدہ فاطمہؓ کے گھر میں روپوش ہو گئے، سیدنا عثمانؓ خاموش ہو گئے، سیدنا عمرؓ بڑبڑانے لگے اور کہا

رسول اللہﷺ کی موت نہیں ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح آپﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ نے بلایا ہے، آپﷺ ضرور لوٹیں گے اور کچھ لوگوں کے ہاتھ پیر کاٹیں گے۔

(العواصم من القواصم: صفحہ، 38)

لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے خبر سنی تو فوراً مقام سُنح کے مکان سے گھوڑے پر سوار ہو کر تشریف لائے، اتر کر مسجد میں گئے، کسی سے کوئی بات نہ کی، سیدھے حجرہ سیدہ عائشہؓ میں داخل ہوئے، رسول اللہﷺ کے پاس سیدھے پہنچے۔

آپﷺ کے اوپر یمنی چادر ڈال دی گئی تھی، آپﷺ کا چہرہ کھولا آپﷺ سے چمٹ کر آپﷺ کو بوسہ دیا اور رو پڑے، پھر فرمایا

بابی انت وامی واللہ لا یجمع اللہ علیک موتتین ، اما الموتۃ التی علیک فقد مُتَّہا۔

(البخاری: المغازی صفحہ، 4456)

میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان، اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپﷺ پر دو موتیں طاری نہیں کرے گا، جو موت طاری ہونا ہے وہ موت آپﷺ پا چکے۔

پھر آپؓ باہر تشریف لائے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ غصے میں بھرے ہوئے بولتے جا ر ہے تھے۔ آپؓ نے فرمایا اجلس یا عمر

ترجمہ: سیدنا عمرؓ بیٹھ جا۔

آپؓ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے لوگوں سے اس طرح خطاب فرمایا

اما بعد فان من کان یعبد محمدا فان محمدا قد مات، ومن کان یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت،

وقال اللہ تعالیإِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ.

ترجمہ: بیشک تو بھی مرتا ہے اور وہ بھی مرتے ہیں.

(سورۃ الزمر: آیت نمبر، 30)

 وقال:وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚوَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ.

(سورۃ آل عمران: آیت نمبر، 144)

ترجمہ: اما بعد! تم میں سے جو شخص محمدﷺ کی پرستش کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمدﷺ کی موت واقع ہو چکی ہے اور تم میں سے جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو یقیناً اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، کبھی نہیں مرے گا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یقیناً خود آپﷺ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔ اور فرمایا محمدﷺ صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، تو کیا اگر آپﷺ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم لوگ اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاؤ گے؟ اور جو شخص اپنی ایڑی کے بل پلٹ جائے تو (یاد رکھ) وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔

یہ سن کر رونے لگے۔

(البخاری: فضائل الصحابۃ: صفحہ، 3448)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے واللہ میں نے جیسے ہی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا انتہائی متحیر اور دہشت زدہ ہو کر رہ گیا، حتیٰ کہ میرے پاؤں مجھے اٹھا ہی نہیں رہے تھے۔ میں زمین پر گر پڑا اور میں جان گیا کہ واقعی نبی کریمﷺ کی موت واقع ہو چکی ہے۔

(البخاری: المغازی صفحہ، 4454)

امام قرطبیؒ فرماتے ہیں یہ آیت کریمہ حضرت ابوبکرؓ کی شجاعت اور جرأت و دلیری کی بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ شجاعت اور جرأت مصائب و آلام کے وقت دل کے ثابت قدم رہنے کا نام ہے اور نبی کریمﷺ کی وفات سے بڑھ کر کون سی مصیبت ہو سکتی ہے؟ اس سے آپؓ کی شجاعت اور علم ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ کہہ رہے تھے رسول اللہﷺ کی موت واقع نہیں ہوئی۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ انھی قائلین میں سے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ گونگے ہو گئے۔ سيدنا علی رضی اللہ عنہ روپوش ہو گئے۔ حالات انتہائی مضطرب ہو گئے۔ لیکن سيدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر پہنچ کر حالات کو سنبھالا اور حقیقت سے پردہ اٹھایا۔

(تفسیر القرطبی: جلد، 4 صفحہ، 22)

ان چند کلمات اور قرآن سے استدلال و استشہاد سے لوگ جو فرطِ غم کی وجہ سے حیران و ششدر تھے ہوش میں آئے، ان کی حیرانی و پریشانی ختم ہوئی اور فہم صحیح کی طرف رجوع ہوئے کہ اللہ ہی حي و قیوم ہے، اس کو موت نہیں آنے والی ہے، وہی تنہا عبادت کا مستحق ہے اور نبی کریمﷺ کے بعد بھی اسلام باقی رہے گا۔

(استخلاف ابی بکر الصدیق: جمال عبدالہادی صفحہ، 160)

جیسا کہ ایک روایت میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ قول منقول ہے یقیناً اللہ کا دین قائم ہے، اللہ کا کلمہ مکمل ہے، اللہ تعالیٰ کی کتاب ہمارے درمیان ہے، وہ نور و شفا ہے، اسی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ہدایت بخشی، اس میں اللہ کی حلال و حرام کردہ اشیاء کا ذکر ہے۔ اللہ کی قسم ہمیں اس کی پرواہ نہیں کہ ہم پر کون حملہ آور ہو رہا ہے، کیونکہ ہماری تلواریں ابھی کھینچی ہوئی ہیں، ابھی ہم نے انہیں رکھا نہیں ہے۔ جو ہماری مخالفت پر کمر بستہ ہو گا اس سے ہم اسی طرح جہاد کریں گے جس طرح ہم رسول اللہﷺ کے ہمراہ جہاد کر رہے تھے۔ لہٰذا کوئی ہمارے خلاف جرأت نہ کرے ورنہ اس کا وبال اس کے سر ہو گا۔

(دلائل النبوۃ للبیہقی: جلد، 7 صفحہ، 2)

رسول اللہﷺ کی موت عظیم مصیبت اور شدید ابتلاء و آزمائش تھی، اس دوران میں اور اس کے بعد قائد ملت کی حیثیت سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شخصیت نمایاں ہوئی جس کی کوئی نظیر و مثیل نہیں۔

(ابوبکر رجل الدولۃ: مجدی حمدی صفحہ، 25/26)

آپؓ کے دل میں یقین پھوٹ پڑا اور حقائق اس میں راسخ ہو گئے۔ آپؓ نے عبودیت، نبوت اور موت کی حقیقت کو اچھی طرح جانا۔ اس جانکاہ موقع پر آپؓ کی حکمت نمایاں ہوئی، لوگوں کو توحید کی طرف لے آئے، ان کے دلوں میں ابھی تک توحید تروتازہ تھی۔ جیسے ہی انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کی تذکیر سنی حق کی طرف لوٹ آئے۔

(استخلاف ابی بکر الصدیق: صفحہ، 160)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اللہ کی قسم گویا ایسا لگ رہا تھا کہ آپؓ کی تلاوت سے قبل لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے، آپؓ کی تلاوت کے بعد ہر ایک اس کو لے اڑا اور ہر شخص اس کی تلاوت کرتا پھرتا تھا۔

(البخاری: الجنائز صفحہ، 1241/1242)