استحقاق خلافت پر شرعی نصوص کے واضح اشارے
علی محمد الصلابیقرآنِ مجید میں سیّدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت کے صحیح ہونے اور ان کی اطاعت کے وجوب پر واضح دلیل موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اعراب (بدویوں) کے بارے میں اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
فَاِنۡ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآئِفَةٍ مِّنۡهُمۡ فَاسۡتَـاْذَنُوۡكَ لِلۡخُرُوۡجِ فَقُلْ لَّنۡ تَخۡرُجُوۡا مَعِىَ اَبَدًا وَّلَنۡ تُقَاتِلُوۡا مَعِىَ عَدُوًّا اِنَّكُمۡ رَضِيۡتُمۡ بِالۡقُعُوۡدِ اَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقۡعُدُوۡا مَعَ الۡخٰلـِفِيۡنَ ۞ (سورۃ التوبۃ: آیت، 83)
ترجمہ:’’پس اگر اللہ تجھے ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے آئے، پھر وہ تجھ سے (جنگ کے لیے) نکلنے کی اجازت طلب کریں تو کہہ دے تم میرے ساتھ کبھی نہیں نکلو گے اور میرے ساتھ مل کر کبھی کسی دشمن سے نہیں لڑو گے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ سورۂ ’’برأۃ‘‘ جس میں یہ حکم کا نزول ہوا ہے وہ غزوۂ تبوک کے بعد نازل ہوئی،
(تاریخ الطبری: جلد، 4 صفحہ 248)
اس سورۃ میں ایسے تین افراد کا تذکرہ ہے جو اس غزوہ میں شریک ہونے سے پیچھے رہ گئے تھے جن کی معذرت قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی، اس غزوۂ تبوک کے بعد اپنی وفات تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی لڑائی میں حصہ نہیں لیا۔
مزید اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
سَيَـقُوۡلُ الۡمُخَلَّفُوۡنَ اِذَا انْطَلَقۡتُمۡ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاۡخُذُوۡهَا ذَرُوۡنَا نَـتَّبِعۡكُمۡ يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يُّبَدِّلُوۡا كَلٰمَ اللّٰهِ قُلْ لَّنۡ تَتَّبِعُوۡنَا كَذٰلِكُمۡ قَالَ اللّٰهُ مِنۡ قَبۡلُ ۞ (سورۃ الفتح: آیت 15)
ترجمہ: ’’عنقریب پیچھے چھوڑ دیے جانے والے لوگ کہیں گے جب تم کچھ غنیمتوں کی طرف چلو گے، تاکہ انھیں لے لو، ہمیں چھوڑو کہ ہم تمھارے ساتھ چلیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔ کہہ دے تم ہمارے ساتھ کبھی نہیں جاؤ گے، اسی طرح اللہ نے پہلے سے کہہ دیا ہے۔ ‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح اشارہ موجود ہے کہ غزوۂ تبوک کے بعد اہلِ عرب رسول اللہﷺ سے جنگ نہیں کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوہ کرنے کی ممانعت کے پیچھے ہی فرمایا:
قُلْ لِّلۡمُخَلَّفِيۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ سَتُدۡعَوۡنَ اِلٰى قَوۡمٍ اُولِىۡ بَاۡسٍ شَدِيۡدٍ تُقَاتِلُوۡنَهُمۡ اَوۡ يُسۡلِمُوۡنَ فَاِنۡ تُطِيۡـعُوۡا يُـؤۡتِكُمُ اللّٰهُ اَجۡرًا حَسَنًا وَاِنۡ تَتَـوَلَّوۡا كَمَا تَوَلَّيۡـتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ يُعَذِّبۡكُمۡ عَذَابًا اَلِيۡمًا ۞ (سورۃ الفتح: آیت 16)
ترجمہ: ’’بدؤوں میں سے پیچھے چھوڑے جانے والوں سے کہہ دے عنقریب تم ایک سخت لڑنے والی قوم کی طرف بلائے جاؤ گے، تم ان سے لڑو گے، یا وہ مسلمان ہو جائیں گے، پھر اگر تم حکم مانو گے تو اللہ تمھیں اچھا اجر دے گا اور اگر پھر جاؤ گے، جیسے تم اس سے پہلے پھر گئے تو وہ تمھیں سزا دے گا، درد ناک سزا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ پیچھے رہنے والوں کو جنگجو قوم سے جنگ کرنے کے لیے، جس میں ان سے لڑائی ہو گی یا وہ مسلمان ہو جائیں گے، نبی کے علاوہ دوسرا شخص بلائے گا اور اس شخص کی دعوت پر اطاعت کرنے والوں سے اللہ نے بڑے اجر و ثواب کا وعدہ کیا اور اس کی نافرمانی کرنے والوں کے لیے دردناک عذاب کی دھمکی دی۔
(الدر المنثور فی التفسیر المأثور: السیوطی: جلد، 4 صفحہ 119 تا 122 )
ابو محمد بن حزمؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے بعد ان بدؤوں کو جنگجو قوم سے قتال کرنے یا انہیں مسلمان بنانے کی طرف سیّدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے نے دعوت نہ دی۔ چنانچہ مرتدین عرب مثلاً بنو حنیفہ، طلیحہ، سجاح اور اسود عنسی کے پیرو کاروں اور روم و فارس کے لوگوں سے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انہیں بلایا، خاص طور پر روم اور فارس والوں سے قتال کے لیے سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں تیار کیا، مزید برآں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں روم، فارس اور ترک والوں سے لڑنے کی دعوت دی۔
لہٰذا مذکورہ قرآنی صراحت کے پیشِ نظر سیّدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی اطاعت لازمی ہے اور جب ان کی اطاعت لازم ہے تو ان کی امامت و خلافت بھی صحیح ہے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
رَأَیْتُ کَأَنِّیْ أَنْزِعُ بِدَلْوٍ بَکْرَۃٍ عَلٰی قَلِیْبٍ فَجَائَ أَبُوْبَکْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوْبًا أَوْذَنُوْبَیْنِ فَنَزَعَ نَزْعًا ضَعِیْفًا وَاللّٰہُ یَغْفِرْلَہُ، ثُمَّ جۃاجَ عُمَرُ فَاسْتَسْقٰی فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا فَلَمْ أَْرَعَبْقَرِیًّا یَفْرِیْ فَرْیَہٗ حَتّٰی رَوِیَ النَّاسُ وَضَرَبُوْا الْعَطَنَ
’’میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک کنویں پر، اس سے (پانی کا) ڈول کھینچ رہا ہوں، پھر ابوبکر آئے اور انہوں نے کمزوری سے ایک یا دو ڈول کھینچے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ پھر عمر آئے انہوں نے کھینچا تو وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا، میں نے آپ جیسا شہ زور پہلوان نہیں دیکھا جو آپ جیسا زور آور ہو، یہاں تک کہ لوگ سیراب ہو گئے اور اونٹوں کو خوب پانی پلایا (انہیں آرام کی جگہ میں بٹھایا)۔
اس حدیث میں ضمناً شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کی طرف اشارہ ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف بھی واضح اشارہ ہے، نیز اس بات پر بھی دلالت ہے کہ آپؓ کے زمانے میں فتوحات کی کثرت ہو گی اور اسلام غالب ہوگا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ خواب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت میں واقع ہونے والے واقعات، ان کی حسنِ سیرت، نقوش کی پائیداری اور لوگوں تک نفع رسانی کی واضح دلیل ہے اور یہ سارے عادات و کمالاتِ نبیﷺ کی فیض صحبت کا نتیجہ ہیں کیونکہ رسول اللہﷺ ہی اس معاملہ کے اصل ذمہ دار تھے، آپﷺ نے اسے کماحقہ ادا کیا، جیساکہ دین کے بنیادی اصولوں کو مقرر کیا، اس کے احکامات کو وسعت دی، اس کے اصول اور فروع کو واضح کیا اور لوگ دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگے اور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ پر یہ آیت نازل فرمائی:
اَلۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِىۡ وَ رَضِيۡتُ لَـكُمُ الۡاِسۡلَامَ دِيۡنًا ۞(سورۃ المائدة آیت 3)
ترجمہ: ’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا۔‘‘
چنانچہ جب رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ سے جا ملے تو سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے دو سال اور کچھ مہینے، یعنی ’’ایک ڈول یا دو ڈول‘‘ کھینچے، ایک یا دو کا شک راوی کی جانب سے ہے، دراصل دو ڈول والی بات صحیح ہے، کیونکہ دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام: جلد، 2 صفحہ 634)
سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی مدت خلافت میں مرتدین اسلام سے جنگ ہوئی، آپ نے اس فتنہ کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور اسلام کی فتوحات کا دائرہ زیادہ سے زیادہ وسیع کیا۔ آپؓ نے اپنے دورِ خلافت میں مدت خلافت کی طولانی، اسلامی شہروں کی وسعت اور اموالِ غنیمت کی کثرت کی وجہ سے اپنی رعایا کے لیے ایسے احکامات مقرر کیے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس طرح گویا یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے استحقاقِ خلافت، اس کی صحت و کمال صفت اور مسلمانوں کی نفع رسانی جیسے اہم امور پر مشتمل ہے۔
(الاعتقاد للبیہقی: صفحہ 173 )
سیّدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نبیﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپﷺ نے فرمایا:
إِنِّیْ لَا أَدْرِیْ مَا قَدْرُ بَقَائِیْ فِیْکُمْ فَقْتَدُوْا بِالَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِیْ۔ وَأَشَارَ إِلٰی أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ۔وَتَمَسَّکُوْا بِہَدْیِ عَمَّارٍ، وَمَا حَدَّثَکُمُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ فَصَدِّقُوْہُ۔
(الفصل فی الملل والأہواء والنحل: جلد، 4 صفحہ 109، 110)
ترجمہ: ’’میں نہیں جانتا کہ کب تک تم میں میں باقی ہوں، تو تم میرے بعد دو آدمیوں کی پیروی کرنا، اور آپﷺ نے ابوبکر و عمر کی طرف اشارہ کیا اور عمار کے طریقے کو اختیار کرو اور ابنِ مسعود تم کو جو حدیث بیان کریں اس کی تصدیق کرو۔‘‘
پس یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت کی صریح دلیل ہے۔ چنانچہ آپﷺ کے فرمان: اِقْتَدُوْا بِالَّذَیْنِ۔ ذال کے فتحہ کے ساتھ کے معنیٰ ہیں کہ میرے بعد جو دو خلیفہ میرے قائم مقام ہوں گے وہ ابوبکر و عمر ہیں۔ پس آپ کا ان دونوں کی اطاعت کا حکم ان دونوں کی تعریف کو بھی شامل ہے، کیونکہ وہ دونوں اس لائق تھے کہ جو کچھ وہ حکم دیں یا جس سے وہ منع کریں ان کی اطاعت کی جائے۔ کیونکہ ان دونوں کے حسنِ سیرت اور باطن کی صداقت پر نبوت کی شہادت ہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دونوں آپﷺ کے بعد خلیفہ ہوں گے۔
السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی پر اس قدر زور دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ فطری طور پر اخلاقِ حسنہ اور نیک طبیعت کے مالک تھے اور اسی لیے وہ انبیاء علیہم السلام کے بعد افضل ترین انسان قرار پائے اور پھر ان کے بعد قیامت تک جس نے بہتر طریقے سے ان کی پیروی کی وہ سب سے بہتر مخلوق ہے۔
(عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام: جلد، 2 صفحہ 635)
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ رَأَیْتُ قَدَحًا أُتِیْتُ بِہٖ فِیْہِ لَبَلٌ فَشَرِبْتُ مِنْہُ حَتّٰی إِنِّیْ لَأَرَی الرِّیَّ یََجْرِیْ فِیْ أَظْفَارِیْ ثُمَّ أَعْطَیْتُ فَضْلِیْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔
ترجمہ: ’’میں سویا ہوا تھا، میں نے ایک پیالہ دیکھا وہ مجھے دیا گیا جس میں دودھ بھرا تھا، میں نے اس سے پیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی تراوٹ اپنے ناخنوں کے نیچے محسوس کی، پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن خطاب کو دے دیا۔‘‘
صحابہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟
آپﷺ نے فرمایا: ’’العلم‘‘ یعنی دودھ سے مراد علم ہے۔
(عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام: جلد، 2 صفحہ 635)
یہ حدیث عمر رضی اللہ عنہ کے استحقاقِ خلافت کی دلیل ہے اور اس حدیث میں علم سے مراد کتاب اللہ اور سنتِ رسول پر مبنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت ہے۔ سیّدنا عمر فاروقؓ نے اس علم میں اس لیے مخصوص مقام حاصل کیا کہ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے مقابلے میں آپؓ کی مدت خلافت لمبی تھی اور سیدنا عثمانؓ کے مقابلے میں آپؓ کی خلافت پر لوگوں کا اتفاق تھا، حضرت ابوبکرؓ کی مدت خلافت مختصر تھی، اس میں فتوحات کی کثرت نہیں ہوئی، جس میں عموماً اختلاف رونما ہوتے ہیں اس کے باوجود لمبی مدت پا کر بھی، حضرت عمرؓ نے اس میں لوگوں کے درمیان خلافت کی ایسی کامیاب خلافت کی کوئی آپ کا مخالف نہ ہوا۔ پھر خلافتِ عثمانی میں اسلامی حکومت کا دائرہ مزید وسیع ہو گیا، چہ میگوئیاں زیادہ ہو گئیں، آراء و خیالات میں اختلاف ہونے لگا اور لوگوں کی طرف سے آپؓ کے حق میں اتفاقِ رائے کا اس طرح مظاہرہ نہ ہوا جس طرح حضرت عمرؓ کے لیے ہوا تھا۔ یہیں سے فتنوں کا ظہور ہوا اور معاملہ آپؓ کی شہادت پر جا کر ختم ہوا۔ پھر سیدنا علیؓ خلیفہ منتخب ہوئے لیکن اختلافات میں اضافہ اور فتنوں میں انتشار ہی ہوتا رہا۔
(فیض القدیر: المناوی: جلد، 2 صفحہ 56)
گویا حدیث میں خلافتِ فاروقی کی صحت اور حقیت پر واضح اشارہ موجود ہے۔
(صحیح مسلم: 2391)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن فرمایا:
مَنْ رَأَیْ مِنْکُمْ رُؤْیًا؟
ترجمہ: ’’تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے؟‘‘
ایک آدمی نے کہا: میں نے دیکھا ہے کہ آسمان سے ایک ترازو نازل ہوا، پھر آپ اور ابوبکر اس میں وزن کیے گئے لیکن آپ ابوبکر کے مقابلہ میں بھاری ہو گئے۔ پھر عمر اور ابوبکر وزن کیے گئے تو ابوبکر عمر کے مقابلہ میں بھاری ہو گئے۔ پھر عمر اور عثمان وزن کیے گئے تو عمر بھاری نکلے، پھر ترازو اٹھا لیا گیا۔
اور ہم نے نبیﷺ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے۔
اس حدیث میں فضیلت میں فرق مراتب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے پہلے ابوبکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان رضی اللہ عنہم ہیں۔ اسی طرح یہ حدیث سیّدنا عمر فاروقؓ کے استحقاقِ خلافت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے اور یہ کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد وہی خلافت کے ذمہ دار ہوں گے اور حدیث میں ان کا یہ کہنا: ’’ہم نے رسول اللہﷺ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے۔‘‘ یہ اس وجہ سے ہوا کہ آپ نے ترازو اٹھا لیے جانے کی تاویل خلافت عمر کے بعد امور خلافت کے زوال اور فتنوں کے ظہور سے کی۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ حدیث بیان کرتے تھے کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں نے آج رات خواب میں بادل دیکھا جس سے پنیر اور شہد کی بارش ہو رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ لوگ اسے اپنی ہتھیلیوں میں بھر رہے ہیں۔ کسی نے زیادہ لیا، کسی نے کم۔ پھر ایک ایسی چیز نمودار ہوئی جو زمین سے آسمان کی طرف چڑھ رہی تھی۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اسے پکڑ لیا اور بلند ہو گئے پھر دوسرے آدمی نے اس کو پکڑا وہ بھی بلند ہو گیا، پھر تیسرے آدمی نے اس کو پکڑا تو وہ چیز ٹوٹ گئی، لیکن پھر جڑ گئی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں۔ آپﷺ مجھے اس کی تعبیر بتا دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا: تم تعبیر بتاؤ۔ انہوں نے کہا: بادل سے مراد اسلام ہے اور اس سے برسنے والے پنیر اور شہد سے مراد قرآن اور اس کی مٹھاس کی بارش ہے۔ تو کچھ لوگ زیادہ قرآن پڑھنے والے ہیں اور کچھ کم ہیں اور جو چیز زمین سے آسمان کی طرف بلند ہو رہی تھی اس سے وہ حق مراد ہے جس پر آپ ہیں۔ آپ نے اس کو پکڑا اور اس نے آپ کو بلند کیا، پھر اس کو دوسرا آدمی پکڑتا ہے اور وہ بھی اس کے سہارے بلند ہوتا ہے۔ پھر ایک آدمی اس کو پکڑتا ہے اور وہ چیز کٹ جاتی ہے، پھر جڑ جاتی ہے اور وہ اس کے سہارے اوپر چڑھ جاتا ہے۔
اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان، مجھے بتایے کیا میں نے صحیح تعبیر کی یا کوئی غلطی کی ہے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَصَبْتَ بَعْضًا وَآَٔخْطَأْتُ بَعْضًا۔
ترجمہ:’’کچھ تم نے صحیح کہا اور بعض میں غلطی کی۔‘‘
میں نے کہا: اللہ کی قسم، اے اللہ کے رسول! میری غلطی مجھے ضرور بتائیے۔
آپﷺ نے فرمایا: ’’ لَا تُقْسِمُ‘‘ قسم نہ کھاؤ۔
(فتح الباری: العسقلانی: جلد، 7 صفحہ 46 )
یہ حدیث بھی حضرت عمرؓ کے استحقاق خلافت کی طرف اشارہ کرتی ہے، بایں طور کہ حدیث میں ہے: ’’پھر اسے دوسرے آدمی نے پکڑا اور وہ اس سے بلند ہوا‘‘ وہ ابوبکرؓ تھے۔ اور دوبارہ یہ کہنا کہ ’’پھر اسے ایک آدمی نے پکڑا اور وہ کٹ گئی‘‘اس سے عمر فاروقؓ کی خلافت کی طرف اشارہ ہے۔
(عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام: جلد، 2 صفحہ 637 )
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو مصطلق (کے لوگوں) نے مجھے رسول اللہﷺ کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ میں آپﷺ سے دریافت کروں کہ آپﷺ کے بعد ہم زکوٰۃ کسے دیں گے؟ میں آپﷺ کے پاس آیا اور دریافت کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ابوبکر کو۔ میں ان کے پاس واپس آیا اور انہیں بتایا، تو انہوں نے کہا: جاؤ، دوبارہ آپﷺ سے دریافت کرو اور کہو کہ اگر ابوبکر کے ساتھ کوئی حادثہ ہو جائے تو کسے دیں؟ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور آپﷺ سے دریافت کیا تو آپﷺ نے فرمایا: عمر کو۔ پھر میں ان کے پاس آیا اور ان کو بتایا۔‘‘
(سنن أبی داود: جلد، 2 صفحہ 512 سنن ترمذی: جلد، 4 صفحہ 540 )
اس حدیث میں عمر رضی اللہ عنہ کے استحقاقِ خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے اور یہ کہ آپؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد مسلمانوں کے معاملات کے ذمہ دار ہوں گے۔
(عون المعبود شرح سنن أبی داود: جلد، 13 صفحہ 378)
سیدنا عمرؓ خلافت کے زیادہ حق دار تھے، اس بات کی ایک اہم دلیل صحابہ کرامؓ کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہ اس کے لیے اپنے سب سے افضل اور سب سے بہتر ہی کو آگے بڑھائیں گے اور پھر حضرت عمرؓ کے بارے میں ابوبکر اور علی رضی اللہ عنہما کی رائے بھی بہتری کی ہو۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے آپ کے بارے میں فرمایا تھا: ’’اے اللہ میں نے ان (مسلمانوں) پر تیرے بندوں میں سب سے بہتر فرد کو حاکم بنایا ہے۔‘‘
(صحیح مسلم: جلد، 4 صفحہ 1777،1778 )
اور آپؓ کے بارے میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے جسے امام بخاریؒ نے محمد بن حنفیہؒ سے روایت کیا ہے، جو علی بن ابی طالبؓ کے لڑکے ہیں، ان کا بیان ہے کہ ’’میں نے اپنے والد سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ابوبکر۔ میں نے کہا: پھر کون؟ انہوں نے جواب دیا: عمر۔ مجھے خوف تھا کہ آپؓ کہیں عثمان کا نام نہ لے لیں۔ میں نے کہا: پھر آپ؟ انہوں نے جواب دیا: میں تو عام مسلمانوں کا ایک فرد ہوں۔‘‘
(عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام: جلد، 2 صفحہ 638 )
خلاصہ یہ کہ مذکورہ تمام احادیث جن کو میں نے ذکر کیا ہے سب اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ سیّدنا عمرؓ خلافت کے زیادہ حق دار تھے۔
(المستدرک: جلد، 3 صفحہ 82۔ رقم الحدیث: 4460)۔
یہ حدیث سنداً صحیح ہے اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔
علامہ سفارینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت عمرؓ کی خلافت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے استحقاق خلافت کا لازمہ ہے، اور حضرت ابوبکرؓ کے مستحق خلافت ہونے پر اجماع اور کتاب و سنت کے اشارات موجود ہیں، لہٰذا اصل یعنی حضرت ابوبکرؓ کے مستحق خلافت ہونے میں جو چیز ثابت ہے وہ اس کی فرع یعنی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے ثابت ہو گی، اس لیے گمراہ فرقوں میں سے کسی کو عمرؓ کے مستحق خلافت ہونے میں طعن و تشنیع کرنے کا کوئی حق نہیں اور اہلِ علم کو یقینی طور سے یہ چیز معلوم ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خلافتِ صدیقی پر اجماع ہے، اور اس اجماعِ صحابہؓ سے شذوذ اختیار کرنا اس سلسلہ (خلافت)میں ضرر رساں نہیں ہو سکتا۔‘‘
(عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ: جلد، 2 صفحہ 639 )