منقبت صحابہ رضی اللہ عنہم اور روافض کا دوغلا پن
امام ابنِ تیمیہؒمنقبت صحابہؓ اور روافض کا دوغلا پن
روافض نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں دوغلا اور تفرق کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ چنانچہ وہ بعضِ صحابہؓ سے غلوّ کی حد تک محبت و مودّت روا رکھتے ہیں ۔ اور بعض کے ساتھ انتہائی بغض و عناد کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ایسایا اس سے مشابہ سلوک بہت سارے لوگ اپنے امراء؛ بادشاہوں ؛علماء و مشائخ؛ اور دیگر سے روا رکھتے ہیں ۔ پس ان کے مابین صحابہؓ کے علاوہ دوسرے لوگوں کے بارے میں رافضیت پیدا ہوجاتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ کوئی ایسی فلاں انسان اور اس کی جماعت سے محبت کرتا ہے؛ اور فلاں انسان اور اس کے چاہنے والوں سے بغض رکھتا ہے۔ اور بسا اوقات انہیں ناحق گالیاں بھی دیتا ہے ۔
یہ وہ تفرق و انقسام ہے جس سے اللہ اور رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْئٍ﴾ (الانعام:159)
جن لوگوں نے دین میں تفریق پیدا کیا اور فرقوں میں بٹ گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَoوَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا﴾ [آل عمران 103۔102]
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم ہرگز نہ مرو، مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ oیَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْہٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْ اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ oوَ اَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْہُہُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾ (آل عمران:105)
’’ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو فرقوں میں بٹ گئے اور جنہوں نے اختلاف پیدا کیا؛ اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح احکام آ چکے اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔جس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ؛ تو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے، کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا؟ تو عذاب چکھو اس وجہ سے کہ تم کفر کیا کرتے تھے۔اور رہے وہ لوگ جن کے چہرے سفید ہوں گے، سو اللہ کی رحمت میں ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔"
حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں : ’’ اہلِ سنت و الجماعت کے چہرے سفید ہوں گے؛ اور اہلِ بدعت کے چہرے سیاہ ہوں گے۔اسی لیے حضرت ابو امامہ الباہلی اور دیگر صحابہؓ اس کی تفسیر خوارج سے کرتے تھے۔
پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام اہلِ ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھام لیں اور تفرقہ میں نہ پڑیں ۔اس رسی کی تفسیر اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے دین ؛ اسلام اور اخلاص؛ اس کے احکام اور عہد ؛ اور اطاعت گزاری اور جماعت بندی سے کی گئی ہے۔ یہ تمام معانی صحابہؓ اور تابعینؒ سے منقول ہیں ۔یہ تمام معانی صحیح ہیں ۔ بلاشک و شبہ قرآن کریم ہمیں دین اسلام کی پابندی کا حکم دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ عہد؛ وہ حکم اور وہ اطاعت گزاری ہے جس کو مل کر تھامنے کا حکم ہے۔ اور ایسا کرنا جماعت بندی کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اور دینِ اسلام کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اخلاص ہے۔
صحیح مسلم میں ہے؛ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں : نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ تین باتوں کو پسند کرتے ہیں :
¹ـ اللہ کی عبادت کر واور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
²ـ قرآن کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقے نہ بنو۔
³ـ اپنے حکاّم و ولاۃ کی خیرخواہی کرو۔‘‘[ صحیح مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب النھی عن کثرۃ المسائل....‘‘ (ح:1715)، مسند احمد(2؍327)]