Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مدنی معاشرہ میں اور ان کے بعض اوصاف و فضائل

  علی محمد الصلابی

سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ مدنی معاشرہ میں اور ان کے بعض اوصاف و فضائل

مدنی معاشرہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی درس و عبرت سے بھری ہوئی ہے۔ فہم اسلام اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلہ میں آپؓ نے ہمارے لیے زندہ نمونہ چھوڑا ہے۔ عظیم اوصاف کے ساتھ آپ کی شخصیت ممتاز قرار پائی ہے۔ بہت سی احادیث میں رسول اللہﷺ نے آپ کی تعریف کی ہے اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر آپؓ کی فضیلت اور بزرگی کو بیان کیا ہے۔

مدنی معاشرہ میں آپ کے مواقف:

1: یہودی عالم فنحاص سے متعلق آپ کا موقف:

بہت سے سیرت نگاروں اور مفسرین نے بیان کیا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ یہودی مدرسہ میں تشریف لے گئے، وہاں یہودیوں کو دیکھا کہ اپنے ایک عالم فنحاص کے گرد جمع ہیں اور اس کے ساتھ ان کا ایک اور عالم اشیع نامی موجود ہے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: جلد، 1 صفحہ، 558/559) 

حضرت ابوبکرؓ نے فنحاص سے کہا اللہ سے ڈر جا اور اسلام قبول کر لے، اللہ کی قسم تو جانتا ہے کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کے پاس سے حق لے کر تمہارے پاس آئے ہیں۔ توریت و انجیل میں آپؓ سے متعلق لکھا ہوا تم پاتے ہو۔

یہ سن کر فنحاص نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا واللہ اے ابوبکرؓ! ہم اللہ کے محتاج نہیں بلکہ اللہ ہمارا محتاج ہے۔ ہم اس سے اس قدر تضرع و عاجزی نہیں کرتے جس قدر وہ ہم سے تضرع اور عاجزی کرتا ہے۔ ہم اس سے بے نیاز ہیں وہ ہم سے بے نیاز نہیں۔ اگر وہ ہم سے بے نیاز ہوتا تو ہم سے قرض نہ طلب کرتا جیسا کہ تمہارے ساتھی کا زعم ہے۔ تمہیں سود سے روکتا ہے اور ہمیں سود دیتا ہے اگر وہ غنی ہوتا تو ہمیں سود نہ دیتا۔

اس پر سیدنا ابوبکرؓ کو غصہ آ گیا اور فنحاص کے چہرہ پر سخت ضرب لگائی اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اے اللہ کے دشمن! اگر ہمارے اور تمہارے درمیان عہد و پیمان نہ ہوتا تو تیرا سر قلم کر دیتا۔ 

فنحاص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا دیکھیے آپ کے ساتھی نے کیا کیا ہے؟

رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا ابوبکرؓ تم نے ایسا کیوں کیا؟

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! اس نے انتہائی سنگین بات کہی ہے۔ اس کا زعم ہے کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور یہ اغنیاء ہیں۔ جب اس نے یہ بات کہی تو اللہ واسطے مجھے غصہ آ گیا اور میں نے اس کے چہرہ پر مار دیا۔ لیکن فنحاص اس سے انکاری ہو گیا اور کہا میں نے نہیں کہا۔ اللہ تعالیٰ نے فنحاص کی تردید اور سیدنا ابوبکرؓ کی تصدیق کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی

لَّقَدْ سَمِعَ اللَّـهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ ۘسَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ۔

(سورۃ آل عمران: آیت نمبر، 181)

ترجمہ: اللہ نے ان لوگوں کی بات یقیناً سن لی ہے جنہوں نے کہا کہ بے شک اللہ فقیر ہے اور ہم لوگ مالدار ہیں، ہم ان کی باتیں لکھ رہے ہیں اور ان کا انبیاء کرام علیھم اجمعین کو ناحق قتل کرنا بھی لکھ رہے ہیں اور ہم ان سے کہیں گے کہ آگ کا عذاب چکھو۔

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کو جو غصہ آیا اس سلسلے میں ارشاد ربانی ہوا:

لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ.

(سورۃ آل عمران: آیت نمبر، 186)

(تفسیر القرطبی: جلد، 4 صفحہ، 295)

ترجمہ: تمہیں یقیناً تمہارے مالوں اور جانوں میں آزمایا جائے گا اور تم یقیناً ان لوگوں کی جانب سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکین کی جانب سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو گے تو بے شک یہ ہمت و عزیمت کا کام ہے۔