کیا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جنگ خیبر سے فرار ہوئے تھے (رافضی الھیاری یوٹیوبر کے اعتراض کا تحقیقی جائزہ)
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓکیا سیدنا عمر بن خطابؓ جنگِ خیبر سے فرار ہوۓ تھے رافضی العیاری یوٹیوبر کے اعتراض کا تحقیقی جائزہ)
العیاری رافضی (شیعی) نے المستدرک علی الصحیحین سے ایک روایت پیش کرتے ہوۓ حسبِ عادتِ خبیثہ سیدنا عمرؓ پر غزوه خیبر سے فرار ہونے کا الزام عائد کیا۔
الجواب و باللہ التوفیق
رافضی العیاری نے بطورِ اعتراض المستدرک کی جس روایت کو پیش کیا اس کی سند امام حاکمؒ نے یوں نقل کی ہے۔
أخبرنا أبو العباس محمد بن أحمد المحبوبی بمرو حدثنا سعيد بن مسعود حدثنا عبيد الله بن موسىٰ حدثنا نعيم بن حكيم عن أبی موسىٰ الحنفی عن علیؓ قال۔
العیاری کی پیش کردہ روایت کی سند میں موجود پہلا راوی ابو موسیٰ حنفی مجہول ہے۔
شیخ الاسلام امام ذہبیؒ فرماتے ہیں:
أبو موسى عن علیؓ حدث عنه رمح مجهول۔
ابو موسیٰ نے سیدنا علیؓ سے روایت کی ہے اور رمح نے اس سے روایت کی ہے اور یہ مجھول ہے۔
(میزان الاعتدلال مترجم: جلد، 7 صفحہ، 408)
سند میں موجود عبید اللہ بن موسیٰ المختار کے متعلق ائمہ جرح و تعدیل کا کلام شیخ ذھبیؒ عبید اللہ بن موسیٰ کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ شیعہ ہے اور جل جانے والا شخص ہے امام ابو دؤادؒ فرماتے ہیں:
عبید اللہ بن موسیٰ شیعہ تھا اور جل جانے والا شخص تھا امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں عبید اللہ اختلاط کا شکار ہو جاتا تھا اس نے غلط روایات بیان کی ہیں اور اس نے جھوٹی روایات بیان کی ہیں میں نے اسے مکہ میں دیکھا تھا اور میں اس سے نہیں ملا ایک مرتبہ ایک محدث نے امام احمد بن حنبلؒ سے اس سے روایات نقل کرنے کے بارے میں مشورہ کیا تو امام احمد بن حنبلؒ نے ان محدث کو منع کر دیا۔
(میزان الاعتدال مترجم مکتبہ رحمانیہ: جلد، 5 صفحہ، 51)
امام ابنِ سعدؒ فرماتے ہیں:
وکان یتشیع ويروی أحاديث فی التشيع منكرة وضعف بذلك عند كثير من الناس۔
یہ شیعہ تھا اور شیعہ مذہب کو تقویت دینے والی منکر روایات بیان کیا کرتا تھا اسی وجہ سے محدثین نے انہیں ضعیف سمجھتے ہیں۔
(تہذیب التہذیب: جلد، 3 صفحہ، 29)
امام یعقوب بن سفیانؒ فرماتے ہیں:
شيعی وإن قال قائل رافضی لم أنكر عليه وهو منكر الحديث۔
عبید اللہ بن موسیٰ شیعہ تھا اور کہنے والا اگر رافضی (شیعہ) کہے تو اس میں حرج نہیں۔
(تہذیب التہذیب: جلد، 3 صفحہ، 29)
امام جوزجانیؒ فرماتے ہیں:
عبيد الله بن موسىٰ اغلی وأسوا مذهبا واروی للعجائب۔
عبید اللہ بن موسیٰ برے مذہب یعنی رافضیت (شیعیت) میں بہت زیادہ خالی تھا اور بہت زیادہ عجیب روایتیں بیان کرنے والا تھا۔
(تہذیب التہذیب: جلد، 3 صفحہ، 29)
امام حاکم نیشاپوریؒ فرماتے ہیں:
سمعت قاسم بن قاسم السياری سمعت أبا مسلم البغدادی الحافظ يقول عبيد الله بن موسىٰ من المتروكين تركه أحمد لتشيعه۔
امام مسلمؒ الغدادی نے فرمایا:
عبید اللہ بن موسیٰ متروک راویوں میں سے ایک ہے ان کی روایات کو امام احمد بن حنبلؒ نے ان کی شیعت کی وجہ سے ترک کیا۔
(تہذیب التہذیب: جلد، 3 صفحہ، 29)
امام ساجیؒ فرماتے ہیں:
صدوق كان يفرط فی التشيع۔
صدوق ہے لیکن شیعیت میں حدِ اعتدال سے بڑھا ہوا ہے۔
(تہذیب التہذیب: جلد، 3 صفحہ، 29)
شیعہ بدعتی راوی کی روایت جو اس کے مذہب کی تائید میں اور تقویت میں ہو اس کا کوئی عتبار نہیں۔
امام سخاویؒ نقل فرماتے ہیں:
وبالجملة فقد قال شيخنا إن ابن حبان أغرب فی حكاية الاتفاق ولكن يشترط مع هذين أعنی كونه صدوقا غير داعية أن لا يكون الحديث الذی يحدث به مما يعضد بدعته ويشدها ويزينها فإنا لا نأمن حينئذ عليه غلبة الهوى أفاده شيخنا۔
وإليه يومئ كلام ابنِ دقيق العيد الماضی بل قال شيخنا: إنه قد نص على هذا القيد فی المسألة الحافظ أبو إسحاق إبراهيم بن يعقوب الجوزجانی شيخ النسائی فقال فی مقدمة كتابه فی الجرح والتعديل ومنهم زائغ عن الحق صدوق اللهجة قد جرى فی الناس حديثه لكنه مخذول فی بدعته مأمون فی روايته فهؤلاء ليس فيهم حيلة إلا أن يؤخذ من حديثهم ما يعرف وليس بمنكر إذا لم تقو به بدعتهم فيتهمون بذلك۔
ایسا راوی جو حدیث بیان کرنے میں سچا ہو لیکن اپنے بدعت کی وجہ سے بدنام ہو تو اس کی وہ روایات لی جائیں گی جو منکر (صحیح روایات کے خلاف) نہ ہوں جن روایات میں ان کی بدعت کو تقویت نہ دی گئی ہو۔
(فتح المغیث: جلد، 2 صفحہ، 66)
تو اصول سے واضح ہے کہ بدعتی کی وہ روایت جو اس کے مذہب کی تائید میں ہو وہ قابلِ قبول نہیں لہٰذا عبید اللہ بن موسیٰ جو غالی شیعہ راوی اس کی روایت کس طرح قابلِ احتجاج ہو سکتی؟